حضرت مسیح موعود  کے زمانہ میں صوتی ذریعہ ابلاغ کی ایجاد اور ترقی

ڈاکٹر محمد داؤد مجوکہ۔ جرمنی

 

سيّدنا حضرت مسيح موعود کي بعثت کا اہم ترين مقصد قرآنِ کريم ميں تکميل اشاعت ہدايت بيان ہواہے۔ اللہ تعاليٰ نے آپ کے زمانے ميں ايسے وسائل بھي پيدا فرما دئيے جن کے ذريعہ اس ہدف کو حاصل کرنا ممکن ہوگيا۔ انہي جديد ذرائع اور ايجادات ميں سے ايک ايجاد آواز اور تصوير کو محفوظ کرنے کے آلات بھي ہيں۔ يہ محض اللہ تعاليٰ کا فضل ہے کہ قاديان کي دور افتادہ بستي ميں بھي ان سامانوں کي ايک جھلک دکھانے کے لئے آواز کو محفوظ کرنے والا آلہ “فونوگراف” حضور کے پاس پہنچنے کا انتظام ہوگيا۔ يہ واقعہ اس طرح پيش آيا کہ حضرت نواب محمد علي صاحبؓ نے ايک فونوگراف خريدا۔ حضورؑ کو علم ہوا تو آپؑ نے فرمايا کہ آپؑ کے پاس بھي لايا جائے تاکہ آپؑ بھي سن سکيں۔ يہ ايک نيا ذريعہ تھا جس کے ساتھ آواز ريکارڈ کرکے دوسرے وقت اور دوسري جگہ پر سنائي جاسکتي ہے، اور يوں آپؑ کي آواز دور بيٹھے لوگوں تک پہنچ سکتي تھي اور وہ خود حضورؑ کي زبان مبارک سے آپؑ کا پيغام سن سکنے کے قابل ہوگئے۔ چنانچہ حضرت نواب محمد علي خان صاحبؓ کو تحرير کيا گيا کہ جب قاديان آئيں تو اپنا فونوگراف ساتھ لے آئيں۔

(اصحاب احمد، جلد 2)

31 اکتوبر 1901ء کو صبح کي سير ميں حضورؑ کے سامنے اس بارہ ميں گفتگو ہوئي اور يہ تجويز پيش کي گئي کہ حضورؑ کي چار گھنٹے کي ايک تقرير فونوگراف پر ريکارڈ کي جائے جو عربي زبان ميں ہو اور حضورؑ خود ارشاد فرمائيں۔ اس سے پہلے حضرت مولوي عبد الکريم صاحب سيالکوٹيؓ کے تعارفي کلمات ہوں جن ميں ذکر ہو کہ انيسويں صدي کے سب سے عظيم انسان کي تقرير آپ کو سنائي جاتي ہے جس نے مامور ہونے کا دعويٰ کيا ہے اور اس کے ہاتھ پر ہزاروں نشان ظاہر ہوئے ہيں اور ہزاروں لوگوں نے اسے قبول کر ليا ہے۔ (الحکم، 10 نومبر 1901ء)

ليکن صرف عرب ممالک ہي آپؑ کے پيش نظر نہ تھے بلکہ آپؑ نے يہ بھي فرمايا کہ يورپين لوگوں کو واعظين کي مجلس ميں شامل ہونا گويا موت کا سامنا ہوتا ہے، اس طريق پر وہ سن ليں گے۔ نيز فرمايا مبعوث من اللہ کي آواز ميں برکت ہوتي ہے! (تذکرہ المہدي صفحہ 177)۔ يعني ديگر لوگ جو مبعوث نہيں کئے گئے وہ دنيوي لحاظ سے کتنا بھي بڑا درجہ رکھتے ہوں وہ مبعوث يعني نبي جيسي برکت نہيں رکھتے۔ جسے خدا خود منتخب کرکے دعوت اليٰ اللہ کا فريضہ سونپتا ہے تو اس ميں جذب کي قوت اور کشش بھي رکھ ديتا ہے۔ اس کي آواز ميں، اس کي شکل ميں، اس کے ہر قول و فعل اور مکان و سامان ميں بھي خاص برکت رکھي جاتي ہے۔ اس برکت کا تعلق اس کے منصب سے ہے۔ چنانچہ متعدد روايات ميں ذکر ملتا ہے کہ آنحضورؐ کي تلاوت سن کر يا حضرت مسيح موعودؑ کا خطاب سن کر، يا چہرہ ديکھ کر، يا تحريرات پڑھ کر لوگ ايمان لے آئے۔ يہ سب اسي قوت جذب اور برکت کا ہي نتيجہ تھا۔

حسب ارشاد نواب صاحبؓ فونوگراف قاديان لے آئے۔ 15 اکتوبر 1901ء کو نماز عصر کے بعد حضورؑ کو فونوگراف سنايا گيا۔ قاديان ميں جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ فونوگراف آيا ہے، جو کہ اہاليان قاديان کے لئے ايک عجوبہ تھي، تو بعض لوگوں نے اسے ديکھنے کي خواہش کي۔ لالہ شرمپت رائے وغيرہ نے حضورؑ کو لکھا کہ ہم فونوگراف ديکھنا چاہتے ہيں۔ چنانچہ عصر ہي پر حضورؑ نے نواب صاحبؓ کو فرمايا کہ ہم اس کے لئے چند اشعار لکھ ديتے ہيں اور حضورؑ کي نظم عجب نوريست درجان محمدؐ بھي ريکارڈ کي جائے اور وہ ان کو سنائي جائے۔ اس طريق پر ان کو تبليغ بھي ہو جائے گي۔ اس کے موافق 20 نومبر 1901ء کو ساڑھے چار بجے فونوگراف عام لوگوں کو سنايا گيا۔

اس موقع پر يہ باتيں سنائي گئيں: 1۔ نواب صاحبؓ کي آواز ميں فارسي نظم۔ 2۔ مولوي عبد الکريم صاحبؓ کي آواز ميں حضرت مسيح موعودؑ کي نظم ’’آواز آ رہي ہے يہ فونوگراف سے‘‘۔ 3۔ مولوي عبدالکريم صاحبؓ کي آواز ميں حضرت مسيح موعودؑ کي نظم “عجب نوريست در جان محمدؐ”۔ 4۔ مولوي عبدالکريم صاحبؓ کي آواز ميں قرآنِ کريم کي تلاوت۔ اس کے بعد عورتوں کو بھي فونوگراف سنايا گيا۔ (اصحاب احمد جلد 2) اس فونوگراف ميں حضرت خليفةالمسيح الاوّلؓ کا ايک درس تفسير سورة العصر بھي ريکارڈ کيا گيا۔ حضورؑ نے يہ بھي فرمايا کہ يہ آلہ بھي خدا نے ہمارے لئے اور ہمارے مقاصد کو پورا کرنے کے لئے ايجاد کروايا ہے۔(تذکرة المہدي صفحہ 177) اس طرح 1901ء سے جماعت ميں جديد ايجادات کے ذريعہ تبليغ کرنے کا آغاز ہوا۔

فونوگراف کي ايجاد

کوئي بھي آواز خصوصاً انساني آواز ہوا ميں لہروں کے ذريعہ دوسرے تک پہنچتي ہے۔ دوسرے انسان کے کان کے پردہ سے يہ لہريں ٹکراتي ہيں تو وہاں اسي ترتيب اور اسي طرح کا ارتعاش پيدا ہوتا ہے جيسا کہ منہ سے آواز نکلتے وقت پيدا ہوا تھا۔ يوں ہم کسي بھي انسان کي آواز کو سن سکتے ہيں۔

اس اصول کو سمجھ کر مشہور سائنسدان تھومس ايلوا ايڈيسن (Thomas Alva Edison) نے 1877ء ميں فونوگراف ايجاد کيا۔ اس ميں ريکارڈنگ کے وقت آواز کي صوتي لہروں سے پيدا شدہ ارتعاش کو ايک سلنڈر پر سوئي کے ذريعہ نقش کر ديا جاتا ہے۔ بعد ميں جب اس سلنڈر کو اسي رفتار سے دوبارہ گھمايا جائے تو ريکارڈنگ کے برعکس نظام کے ذريعہ اس سوئي ميں اسي طرح کا ارتعاش پيدا ہوتا ہے جيسا ريکارڈنگ کے وقت تھا چنانچہ اس سے وہي آواز دوبارہ سني جا سکتي ہيں۔ ابتدائي زمانہ ميں اس کام کے لئے مومي سلنڈر استعمال ہوتے تھے۔ جو وقت گزرنے کے ساتھ خراب ہو جاتے تھے۔ چنانچہ ان بزرگان کي فونوگراف پر ريکارڈ کي گئي آوازيں بھي وقت کے ساتھ ضائع ہو گئيں (سيرةالمہدي روايت 832)۔ حضرت مسيح موعودؑ کي آواز ريکارڈ نہيں کي گئي تھي (تاريخ احمديت جلد2)۔ البتہ 1952ء ميں ام المؤمنين حضرت امّاں جانؓ کي آواز ريکارڈ کي گئي تھي (حيات بشير صفحہ 121)۔ اس کے بارہ ميں معلوم نہيں کہ محفوظ ہے يا نہيں۔ علاوہ ازيں حضرت خليفةالمسيح الثاني کي بعض تقارير ريکارڈ کي گئيں جن ميں بعض آج بھي محفوظ ہيں اور بڑے واضح طور پر سني جاسکتي ہے۔

ايڈيسن سے ذرا پہلے 1877ء ميں فرانس کے ايک سائنسدان چارلس کروس نے بھي ايسي ہي ايک مشين ايجاد کي، تاہم اس کے پاس اپني ايجاد پيٹنٹ کروانے کے پيسے نہيں تھے نہ ہي اسے اس مشين کو فروخت کرنے ميں دلچسپي تھي اس لئے اس کا کام مشہور نہ ہوا۔

گراموفون

ايڈيسن کے مدِّ مقابل گراہم بيل کي تجربہ گاہ ميں فونوگراف ميں متعدد تبديلياں کرکے اسے بہتر بنايا گيا۔ ايميل برلينر (Emile Berliner) نے سلنڈر کي بجائے چپٹي ڈسک پر ريکارڈنگ کي اور موم کي بجائے ديگر چيزيں استعمال کي گئيں۔ اس مشين کو ايڈيسن کے فونوگراف کي بجائے گراموفون کا نام ديا گيا۔ خلافتِ ثانيہ کے بعض جلسوں کي تقارير ان پر محفوظ کي گئيں اور يوں حضرت مصلح موعودؓ کي آواز ہم تک پہنچي۔ ان ميں حضورؓ کي مشہور زمانہ تقرير “سير روحاني” بھي شامل ہے۔

لاؤڈ سپيکر

اگلے قدم پر آواز کو دور تک پہنچانے کا انتظام ہوا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس کے بارہ ميں يہاں تک فرمايا ہے کہ يہ ايجاد ہوئي ہي جماعت کے لئے ہے۔ چنانچہ فرمايا:

’’يہ خيال کہ بہت زيادہ لوگ آ گئے تو پھر وہ تقريريں کس طرح سن سکيں گے۔ اس کے متعلق بھي ياد رکھنا چاہئے کہ جب لوگ خداتعاليٰ اور اس کے رسول کي باتيں سننے کے ليے آئيں گے تو خداتعاليٰ ان کو سنانے کا انتظام بھي کر دے گا۔ اس زمانہ ميں خداتعاليٰ نے ايک آلہ لائوڈ سپيکر بنوا ديا ہے چونکہ تبليغ کي تکميل حضرت مسيح موعود کے زمانہ سے مخصوص تھي اور اس کے ليے جلسہ رکھا گيا اور جب يہ زمانہ آيا کہ کثير مجمع کو سنانا مشکل ہوگيا تو خداتعاليٰ نے لائوڈسپيکر نکال ديا۔ اگر حضرت مسيح کي جماعت تبليغي جماعت تھي تو ان کے وقت لائوڈسپيکر کيوں نہ بنائے گئے۔ اس آلہ کا اب ايجاد ہونا بھي بتاتا ہے کہ يہ کام رسولِ کريمﷺکي اُمت سے وابستہ تھا اور حضرت مسيح موعود کے زمانہ سے وابستہ تھا‘‘۔ (انوارالعلوم جلد 12، صفحہ 573۔574)

چنانچہ مسجد اقصيٰ قاديان ميں پہلي دفعہ 7 جنوري 1938ء کو لاؤڈ سپيکر لگا۔ حضرت مصلح موعود نے اس دن خطبہ جمعہ ميں فرمايا:

’’اب وہ دن دور نہيں کہ ايک شخص اپني جگہ بيٹھا ہوا ساري دنيا ميں درس و تدريس پر قادر ہوگا۔ ابھي ہمارے حالات ہميں اس بات کي اجازت نہيں ديتے، ابھي ہمارے پاس کافي سرمايہ نہيں اور ابھي عملي دِقتيں بھي ہمارے راستے ميں حائل ہيں۔ ليکن اگر يہ تمام دقتيں دور ہو جائيں اور جس رنگ ميں اللہ تعاليٰ ہميں ترقي دے رہا ہے اور جس سُرعت سے ترقي دے رہا ہے، اس کو ديکھتے ہوئے سمجھنا چاہيے کہ اللہ تعاليٰ کے فضل سے قريب زمانہ ميں ہي يہ تمام دقتيں دور ہو جائيں گي‘‘۔(خطبہ جمعہ 7 جنوري 1938ء)

کيسٹ

1960ء کي دہائي تک فونوگراف اور گراموفون ہي آواز محفوظ کرنے اور سنانے کے لئے استعمال ہوتے تھے۔ ان کے بعد کيسٹ ريکارڈر کا نظام متعارف ہوا۔ اس ميں سوئي سے مومي سلنڈر يا دھاتي ڈسک کي بجائے پلاسٹک کے ايک فيتے پر مقناطيسي طور پر آواز محفوظ کي جاتي تھي۔ اس کي ايجاد اور پھيلاؤ ہالينڈ کي فرم فلپس کا مرہونِ منت ہے جس نے 1963ء ميں يہ تکنيک متعارف کروائي۔ اس کے لئے ريکارڈ کرنے والي مشين بھي بہت چھوٹي تھي۔ بعد ميں جاپاني فرم Sony Corporation نے ’’واک مين‘‘ کے نام سے ان کيسٹوں کو ريکارڈ کرنے اور خصوصاً سننے کے لئے دستي مشينيں بنائيں جو کہ بيٹريوں پر چلتي تھيں اور يوں سفر ميں بھي ان کا استعمال ممکن ہو گيا۔

کيسٹ ٹيپ اور واک مين

خلافت ثالثہ ميں جلسہ کي بعض تقارير کيسٹوں پر محفوظ کي گئيں اور حضرت خليفةالمسيح الرابعؒ کي لندن ہجرت کے بعد دنيا بھر کي جماعتوں سے عموماً اور پاکستان کي جماعتوں تک خصوصاً حضورؒ کے خطبات جمعہ پہنچانے کا يہي بڑا ذريعہ تھا۔ اس زمانہ ميں ہر ہفتہ حضورؒ کا خطبہ مسجد فضل لندن سے ريکارڈ ہو کر ساري دنيا ميں بھيجا جاتا تھا۔ اور ہر ملک کي جماعت آگے اس کي کاپياں کرکے لوگوں کو پہنچا ديتي تھي۔ کيسٹوں کي ترسيل کے لئے حضرت خليفةالمسيح الرابع رحمہ اللہ تعاليٰ نے “سمعي و بصري’’ کے نام سے ايک مستقل شعبہ قائم فرمايا جس کے سپرد کيسٹس کي تياري اور ترسيل کا انتظام تھا۔ اکثر جگہ پر احباب اجتماعي طور پر خطبہ سنا کرتے تھے۔ کيسٹوں کو ريکارڈ کرنے اور ان کي کاپياں کرنے ميں جو آساني ہر جگہ مہيا تھي اسي کي بدولت يہ نظام کاميابي سے چلتا رہا۔

سي۔ڈي

ہالينڈ کي فلپس اور جاپان کي سوني کمپنيوں نے مل کر 1982ء ميں آوازوں کو محفوظ کرنے کے لئے ڈيجيٹل تکنيک متعارف کروائي۔ گراموفون ہي کي طرح سي۔ڈي بھي ايک چپٹي ڈسک تھي جس پر عام طريق کي بجائے اب آوازيں کمپيوٹر کے نظام کے مطابق ريکارڈ کي جانے لگيں۔ اس کو لکھنے اور پڑھنے کے لئے ليزر استعمال کي جاتي تھيں۔ سي ڈي کي ابتدائي شکل کو بعد ميں ترقي دے کر بہت بہتر کر ليا گيا۔

ٹي۔ وي

حضرت مصلح موعودؓ نے لاؤڈ سپيکر کے پہلے استعمال کے وقت ہي ٹي وي کا بھي ذکر فرما ديا تھا۔ چنانچہ فرمايا:

’’اس ايجاد کے متعلق خيال کيا جاتا ہے کہ جب ترقي کر جائے گي تو دنيا بھر ميں آواز کے ساتھ نظارے اور تصويريں بھي ايک ہي ساتھ پہنچائي جاسکيں گي۔ مثلاً انگلستان ميں کوئي شاہي جلوس نکلا يا ولايت ميں تاج پوشي کي تقريب ہوئي تو نہ صرف ہندوستان کے لوگ وہاں کے لوگوں کي آوازيں سُن سکيں گے بلکہ ساتھ کے ساتھ نظارہ بھي ديکھتے جائيں گے اور انہيں يوں معلوم ہوگا کہ گويا وہ لنڈن ميں موجود ہيں‘‘۔ (خطبہ جمعہ 7 جنوري 1938)

چنانچہ اللہ تعاليٰ نے ايم ٹي اے پر ساري دنيا ميں بذريعہ سيٹلائٹ خطابات اور ديگر پروگرام ديکھنے کا سامان مہيا فرما ديا۔ پھر اس پر مزيد ترقي ہوئي تو انٹرنيٹ کے ذريعہ اور پھر سمارٹ فون کے ذريعہ تو اب اتني آساني ہو گئي ہے کہ ہر شخص سفر و حضر ميں اپنے موبائل پر لائيو خطبات ديکھنے اور سُننے کے قابل ہوگيا ہے۔ نہ بڑي بڑي سيٹلائٹ ڈشوں کي جنجھٹ، نہ رُخ صحيح کرنے کي ضرورت، نہ ہي کسي چيز کي نقول تيار کرنے کي محنت۔ موبائل آن کريں اور موبائل پر انٹرنيٹ چلا کر لائيو خطبہ سن ليں۔

متعلقہ مضمون

  • پروگرام 48 واں جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ جرمنی 2024ء

  • جلسہ سالانہ کا ایک مقصد ’’زہد‘‘ اختیار کرنا ہے

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • ہدایات برائے جلسہ سالانہ جرمنی 2024ء