(زير نظر مضمون محترم ناصر پيٹر لُطسين صاحب مرحوم کي بيٹي محترمہ ہائيکے لُطسين صاحبہ کي طرف سے مہيا کي گئي معلومات پر مشتمل ہے جو انہوں نے ممبر تاريخ کميٹي جرمني مکرم محمد انيس ديالگڑھي صاحب کو انٹرويو کے دوران بتائيں)

ميرے والد مکرم ناصر لُطسين صاحب 31 دسمبر 1935ء کو Breslau ميں پيدا ہوئے۔ يہ شہر اس وقت جرمني کي رياست کا حصہ تھا۔ جنگ عظيم دوم کے خاتمہ کے بعد رشين بلاک بنا تو يہ شہر پولينڈ ميں شامل کر ديا گيا۔چنانچہ مکرم لُطسين صاحب کے والدين Breslau سے ہجرت کرکے Hannover کے قريبي شہر Heide ميں آکر آباد ہوگئے۔ وہيں مرحوم نے ابتدائي تعليم حاصل کي۔ چونکہ جنگ عظيم کي وجہ سے لمبا عرصہ سکول بند رہے تھے لہٰذا دوسرے طالب علموں کي طرح ميرے والد صاحب کے بھي کئي سال ضائع ہو گئے۔ يہي وجہ ہے کہ ميرے والد صاحب نے 24سال کي عمر ميں Abiturکيا اور Hannover ميں مزيد تعليم حاصل کرنے کے بعد Elektrotechnik Ingenieur ميں ڈپلوما يعني ماسٹرز کيا۔ اس کے بعد آپ نے مختلف کمپنيوں ميں کام کيا۔ مکرم ناصر صاحب مرحوم نے تعليم توانجينئرنگ ميںحاصل کي تھي مگر ان کي طبعي دلچسپي بيالوجي ميں تھي کيونکہ آپ مظاہر قدرت کے شيدائي تھے۔

تعليم کے دوران ان کي ملاقات ايک شامي مسلمان سے ہوئي جس کے ذريعہ ان کوپہلي بار اسلام کا تعارف حاصل ہوا۔ آپ عربي تمدن اور زبان سے بہت متأثر ہوئے کسي حد تک کہ عربي زبان بھي کسي قدر سيکھي مگر بعد ميں بھول گئے۔ اسي دوران انہوں نے قرآن کريم کا مطالعہ بھي کيا۔ حسن اتفاق ہے کہ پہلا جرمن ترجمہ والا قرآن کريم جو انہيں ملا، وہ جماعت احمديہ مسلمہ کا ہي شائع کردہ تھا۔ والد صاحب بتايا کرتے تھے کہ ايک بار بچپن ميں سکول کے استاد نے مجھے سزا کے طور پر اسلام پر ايک مضمون لکھنے کا حکم ديا تھا۔ يہ واقعہ اکثر سنايا کرتے تھے، شايد سوچتے ہوں گے کہ وہي سزا بعد ميں عظيم الشان جزاء پر منتج ہوئي۔

1978ء ميں محترم ناصر صاحب نے ميري والدہ محترمہ ELKE LUTZIN صاحبہ سے شادي کي۔ اسلام احمديت قبول کرنے ميں ان سے زيادہ ميري والدہ محترمہ کا عمل دخل ہےکيونکہ ميري والدہ مذہب کي ضرورت اور اہميت کي بہت زيادہ قائل تھيں جبکہ قدرت کے دل دادہ ہونے کي وجہ سےميرے والد صاحب کا رجحان بيالوجي کي طرف رہتا اور سمجھتے تھے کہ خدا کي تخليق اور صناعي کا اِدراک حاصل کرنا مذہب سے زيادہ ضروري ہے۔ ان کو عيسائيت ميں ايسي کوئي بات نظر نہ آتي تھي کہ سائنس اور مذہب ايک دوسرے سے مطابقت رکھتے ہيں۔ يہي وجہ ہے کہ وہ عيسائي ہونے کے باوجود عيسائيت سے بہت دور تھے۔ مگر ميري والدہ کا خيال تھا کہ مذہب بہت ضروري ہے کيونکہ يہ انسان کے اخلاق اور اعمال پر اثرانداز ہوتا ہے۔ لہٰذا شادي کے بعد دونوں نے سچے مذہب کي تلاش شروع کر دي اور بہت سے مذاہب کا علم حاصل کيا لہٰذا بدھ ازم اور مورمون کے ساتھ بھي ايک عرصہ منسلک رہے۔

1983ء کے ايک روز ميرے والدين Hannover شہر کے مرکزي بازار سے گذر رہے تھے کہ ان کي نظر ايک سٹال پر پڑي جو محض ايک ميز پر مشتمل تھا اور جس پر چند تعارفي کتب پڑي تھيں اور اس کے پيچھے ايک دو غير ملکي نوجوان کھڑے تھے۔ ان سےآپ کا تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ يہ اسلام کي نمائندہ جماعت احمديہ کا تبليغي سٹال ہے۔ چنانچہ ان نوجوانوں سے سوالات بھي کئے اور لٹريچر بھي ساتھ لے ليا۔ لٹريچر پڑھنے کے بعد انہوں نے دوبارہ ان لوگوں سے رابطہ کرکے ملاقات کي۔ ان ميں سے ايک مکرم کليم اسلم صاحب تھے اور دوسرے محمود احمد ناصر صاحب جو بعد ميں پاکستان واپس چلے گئے تھے تاہم اس وقت بيلجئيم ميں آباد ہيں اور تيسرے بشير احمد نجمي صاحب تھے جو وفات پا چکے ہيں۔ ان تينوں نے اپنے ہاں آنے اور کھانے کي دعوت دي۔ يہ رمضان کا مہينہ تھا لہٰذا افطاري پر ميرے والدين ان کے گھر گئے۔ ان لوگوں نے فرش پر پرانے اخبار بچھا کر کھانا لگايا ہوا تھا۔ کھانا نہايت لذيذ تھا مگر ان لوگوں کي سادگي اور مہمان نوازي کا اثر اس کي لذت سے کہيں زيادہ تھا۔ کھانے کے بعد گفتگو بھي ہوئي اور پھر ان کے گھر آنا جانا شروع ہوگيا۔

چند مہينوں تک مطالعہ اور تحقيق کرنے کے بعد 1984ء ميں ميرے والدين بيعت کرکے جماعت احمديہ مسلمہ ميں شامل ہوگئے، يہ موقع عيد کا تھا جب ہمبرگ ميں متعين مربي سلسلہ مکرم لئيق احمد منير صاحب کي ہدايت پر مقامي دوستوں کے ہمراہ محترم ناصر صاحب ہمبرگ گئے اور بيعت کرنے کي سعادت پائي۔ اس کے بعد يہ تعلق مضبوط تر ہوتا چلا گيا۔ جلسہ سالانہ ميں باقاعدگي سے شامل ہوتے، خصوصاً ناصر باغ گروس گيراؤ کے جلسوں کو بہت ياد کرتے کہ قدرتي اور کھلي فضا ميں ہونےکي وجہ سے يہاں ايک عجيب پرلطف اور پراثرماحول ہوتا تھا۔ ايک جلسہ سالانہ پر ان کو تقرير کرنے کا موقع بھي ملا، آپ کي يہ تقريرسوئٹزرلينڈ سے شائع ہونے والے جرمن رسالہ DER ISLAM ميں بھي چھپي تھي۔ حضرت خليفةالمسيح الرابعؒ کي سوال و جواب کي مجالس ميں ضرور شامل ہوتے۔جلسہ سالانہ جرمني 1985ء کے موقع پر حضرت خليفةالمسيح الرابعؒ سے پہلي ملاقات کي سعادت نصيب ہوئي۔ 1986ء کے جلسہ سالانہ پر شعبہ بجلي ميں ڈيوٹي دينے کي توفيق ملي۔ اسي دوران وہ زمين پر بيٹھے کام کر رہے تھے کہ حضرت خليفةالمسيح الرابعؒ وہاں تشريف لے آئے اور والد صاحب سے استفسار فرمايا کہ کيا کر رہے ہيں؟ برطانيہ کے جلسوں پر بھي کوشش کرکے حاضر ہوتے اور اسے سعادت سمجھتے تھے۔

آپ کسي لمحہ بھي فارغ نہيں رہتے تھے۔ جيسا کہ ذکر گزر چکاہے کہ بيالوجي سے انہيں خاص رغبت تھي اس لئے پھولوں اور درختوں ميں بہت دلچسپي ليتے تھے۔ جنگل کي سير سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ شکار کا بھي شوق تھا۔ اس غرض سے اسلحہ کا لائسنس بھي حاصل کيا ہوا تھا۔ غوطہ خوري اور موٹرسائيکل چلانے کا بھي شوق تھا۔ مگر ٹوٹي پھوٹي چيزوں کو جوڑ کر ان کو کارآمد بنانا ان کا سب سے محبوب مشغلہ تھا۔ ايک وائرليس سيٹ بھي رکھا ہوا تھا۔

جيسا کہ ذکر ہو چکا کہ ميري والدہ کي مذہب سے خاص دلچسپي اور سچے مذہب کي تلاش کے شوق نے ان کو احمديت کي طرف مائل کيا اور پھر ان کا زندہ خدا سے زندہ تعلق بھي قائم ہوا اور دعاؤں کي قبوليت کا نشان کئي مرتبہ ديکھا۔ميري والدہ ايک آنکھ سے معذور تھيں۔ 1986ء ميں جلسہ سالانہ يوکے ميں شامل ہوئيں تو اچانک ان کي بينائي کسي حد تک لوٹ آئي۔ پہلے تو آنکھ بالکل بند تھي مگر پھر اسي آنکھ سے تھوڑا تھوڑا نظر آنا شروع ہوگيا۔ اب جس کي ايک آنکھ بالکل ختم ہو اس کے لئے يہ بات معجزے سے کم نہيں اور يہ معجزہ 11سال بينائي سے محروم رہنے کے بعد ہوا تھا۔

ميرے والدين جب لندن جاتے تو ايک جرمن احمدي محترمہ خديجہ جميلہ کوپ مَن صاحبہ کے ہاں ٹھہرتے۔ ايک روز ميرے والدين ان کے گھر سے سير کي غرض سے باہر نکلے تو کچھ زيادہ ہي دور چلے گئے، واپس آنے لگے تو راستہ بھول گئے۔ اندھيرا بڑھنے کے ساتھ ساتھ پريشاني بھي بڑھ رہي تھي۔ يہ دونوں ايک ايسي سڑک پر کھڑے تھے جہاں ٹريفک بہت زيادہ تھي اور کچھ پتا نہ تھا کہ کہاں کھڑے ہيں۔ جب اندھيرا مزيد گہرا ہوگيا اور راستہ بھي کھو گيا تو ميري والدہ صاحبہ نے کہا کہ آؤ دعا کرتے ہيں۔ ابھي دعا سے فارغ ہوئے ہي تھے کہ محترمہ خديجہ صاحبہ کے داماد اپني گاڑي کے ساتھ ان کے سامنے کھڑے کہہ رہےتھے کہ آئيں گاڑي ميں بيٹھيں، ميں آپ کو گھر لے جاؤں۔ قبوليت دعا کے اس نظارے نے ان کے ايمان کو مزيد تازگي اور تقويت بخشي۔

اسي طرح ايک بار جلسہ سالانہ کے بعدناصر باغ (گروس گيراؤ) سے واپس آ رہے تھے کہ موٹر وے پر گاڑي خراب ہوگئي۔ اس وقت موبائل فون تو ہوتے نہيں تھے صرف موٹر وے پر ہي فون ہوتا تھا۔ ٹيلي فون بوتھ ڈھونڈنے سے قبل ميري والدہ نے کہا کہ آؤ دعا کرتے ہيں۔ ابھي وہ دعا کر ہي رہے تھے کہ اچانک ADAC کي گاڑي جو اتفاقاً وہاں سے گزر رہي تھي، آپ کو يوں کھڑا ديکھ کر رُک گئي اور پوچھا کہ کيا آپ کو کوئي مسئلہ درپيش ہے؟

آخر پر ميں يہ بتانا ضروري سمجھتي ہوں کہ مکرم ناصرپيٹرلُطسين صاحب ميرے سگے والد نہيں تھے مگر انہوں نے مجھے حقيقي والد کا پيار ديا اور ہر طرح ميرا خيال رکھا۔حتي کہ جيسے لوگ اپنے بچوں کے لئے سيونگ اکاؤنٹ کھولتے ہيں اسي طرح انہوں نے بچپن ميں ہي ميرے لئے سيونگ اکاؤنٹ کھولا جس ميں باقاعدگي سے رقم جمع کرواتے تھے جو بعد ميں ميرے کام آئي۔ اللہ تعاليٰ ان کو ان کے اس پيار اور شفقت کي جزا دے،آمين۔

موصوف 20 جنوري 2021ء کو Großgoltern ميں وفات پاگئے اور وہيں مقامي قبرستان ميں مدفون ہوئے۔ آپ کي نماز جنازہ غائب مسجد سميع ہانوفر ميں ادا کي گئي۔

 

متعلقہ مضمون

  • مکرم صلاح الدین قمر صاحب کاذکرِ خیر

  • مکرم کنور ادریس صاحب مرحوم کا ذکر خیر

  • محترم ڈاکٹر میاں ظہیر الدین منصور احمد صاحب

  • میرے پیارے والدین