چودہ ارب سال پہلے جب بگ بینگ کا خوفناک دھماکہ ہوا تو بے شمارکہکشائیں پیدا ہوئیں، ہر کہکشاں میں اربوں کھربوں سیّارے اور ستارے وجود میں آئے اور اُس وقت سے ستاروں کے یہ جہان ابھی تک پھیلتے ہی چلے آ رہے ہیں جیسا کہ فرمایا: وَالسَّمَآءَ بَنَیۡنٰہَا بِاَیۡٮدٍ وَّاِنَّا لَمُوۡسِعُوۡنَ (ترجمہ: اور ہم نے آسمان کو ایک خاص قدرت سے بنایا اور یقیناً ہم وسعت دینے والے ہیں۔ (الذاریات:48) یہ کائنات مزید کتنی وسعت اختیار کرے گی، یہ کتنی بڑی ہے، اس میں کیا کیا بھید چھپے ہیں، اس کی پیدائش کے اوّلین لمحات کیسے تھے، مادہ نے وزن کیسے حاصل کیا۔ جو ذرّات سائنسدانوں کے علم میں ہیں ان کے علاوہ ابھی اور کتنی قسم کے ذرات کائنات میں ہیں؟ مادہ تو نظر آتا ہے مگر اس کا الٹ یعنی اینٹی میٹر Antimatter کیوں نظر نہیں آتا؟ غرض سینکڑوں سوال ایسے ہیں جن کے جوابات حاصل کرنے کے لئے سائنسدان تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں اور ہر نئی تحقیق نئے سوالات کو جنم دے کر حضرتِ انسان کو ورطہ حیرت میں ڈالے ہوئے ہے۔ تخلیق کائنات کےنقطۂ آغاز سے متعلق اِن سوالوں کا جواب تلاش کرنے کے لئے سوئٹزرلینڈ کے مشہور سرحدی شہر جنیوا کے پہلو میں پچاس کی دھائی میں بنائی گئی تجربہ گاہ سے اپنے قارئین کو متعارف کرانے کے لئے مجلس ادارت اخبار احمدیہ جرمنی کی ٹیم فروری 2024ء میں مطالعاتی دورہ پر جنیوا گئی تو اس کا ماحول اور یہاں کام کرنے والا ہر شخص زبان حال سے محترم عبیداللہ علیم صاحب کا یہ مصرع گنگناتا ہوا سنائی دیا؏ ”یاربّ یہ مسئلہ کبھی آغاز سے اُٹھا‘‘۔

اس مطالعاتی دورہ کی صورت یوں بنی کہ ایک مجلس میں بزرگوارم محترم چودھری شریف خالد صاحب نے بتایا کہ سرن کی اس تجربہ گاہ میں تحقیقی کام کرنے والی محترمہ ڈاکٹرمنصورہ شمیم صاحبہ جو 2014ء میں پاکستان چلی گئی تھیں، اب پھر واپس آکر تحقیق میں مصروف ہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحبہ سے رابطہ کیا گیا تو اُنہوں نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ اس پر حضرت امیرالمومنین  کی اجازت سے اس تجربہ گاہ کے مطالعاتی سفر کا آغاز ہوا۔

جنیوا جانے کے لئے ہم (مکرم محمدانیس دیالگڑھی صاحب، مکرم حسنات احمد صاحب ایم اے طبیعات، مکرم آفاق احمد زاہد صاحب اور خاکسار راقم ہٰذا) مؤرخہ 8 فروری 2024ء کو بذریعہ ریل فرانکفرٹ سے روانہ ہو کر رات سوئٹزرلینڈ کے سرحدی شہر Basel کے اس سٹیشن پر پہنچ گئے جو جرمن ریلوے کی ملکیت ہے۔ یہاں ہمیں لینے مکرم محمودالرحمٰن انور صاحب آئے ہوئے تھے۔ ان کی شاندار گاڑی میں بیٹھ کر جرمنی کی جماعت لوراخ کے ایک دوست مکرم اسجد صاحب کی دُکان (پیزا) پر پہنچے۔ انہوں نے اپنے بچوں سمیت ہمیں خوش آمدید کہا، سامنے واقع اپنے گھر لے جاکر کھانا کھلایا، مکان کے نیچے بنائے ہوئے نماز سنٹر میں نماز مغرب و عشاء ادا کیں، مکرم اسجد صاحب سے تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ موصوف ربوہ میں ہمارے انصاراللہ والے مکرم چودھری ابراہیم صاحب مرحوم کے بھانجے ہیں۔ اس حوالہ سے کافی دیر تک ان سے گفتگو ہوتی رہی۔ پھر اپنے میزبان مکرم انور صاحب کے گھر جا کر رات گزاری جو جماعت سوئٹزرلینڈ کے سیکرٹری خارجہ ہیں اور مکرم انعام الرحمٰن صاحب شہید (سکھر) کے بیٹے اور معروف خادم سلسلہ محترم مولوی عبدالرحمٰن انور صاحب (سابق پرائیویٹ سیکرٹری خلیفۃالمسیح الثانیؓ و الثالثؒ) کے پوتے ہیں۔

جنیوا میں قائم ادارہ برائے اِنسانی حقوق
9 فروری 2024ء کی صبح سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا کے لئے تیاری شروع کی اور ناشتہ کے بعد دس بجے کے قریب انور صاحب کے ساتھ ان کی ہی گاڑی میں روانہ ہوئے۔ بارہ بجے کے بعد ہم اس شہر میں قائم اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق کے وسیع عریض دفاتر میں پہنچ گئے۔ سکیورٹی انتظامات سے گزرنے کے بعد ہم مختلف بھول بھلیوں سے ہوتے ہوئے عمارت کے اندر داخل ہوئے تو کھانے کے بعد نمازیں ادا کیں۔ (اس عمارت میں ایک بڑا کمرہ مسجد کے لئے مخصوص کیا گیا ہے) اس کے بعد انور صاحب نے اپنے بعض دوستوں سے ملوایا جو مختلف NGO’s سے منسلک تھے اور انہیں اپنا ہم نوا بناکر مختلف فورمز پر ان کے ذریعہ ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے اس ادارہ کی عمارت میں داخل ہوتے ہی ہر طرف ایک ہی مضمون پر مشتمل بینرز نے حیران کر دیا جن پر تحریر تھا کہ فنڈز کی کمی کے باعث ہمارے ہاں متعدد سہولتیں میسّر نہیں ہیں مثلاً بجلی سے چلنے والی سیڑھیاں بند تھیں اور عمومی طور پر عمارت خستہ حالی کا شکار تھی۔ پسماندہ و مظلوم طبقات کے لئے انصاف کا عَلم بلند کرنے والے اِس ادارہ کی اس زبوں حالی کا پس منظر حالاتِ حاضرہ پر نظر رکھنے والا ہر قاری از خود سمجھ سکتا ہے۔

کونسل برائے تحفّظ ِانسانی حقوق
جنیوا میں قائم اقوامِ متحدہ کا یہ ادارہ انسانی حقوق کی کونسل (UNHCR) کہلاتا ہے جو دنیا بھر میں انسانی حقوق کو فروغ دینے اور ان کی حفاظت کرنے کے لئے قائم کیا گیا۔ اس کونسل کے 47 ارکان ہوتے ہیں جنہیں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی علاقائی بنیاد پر تین سالہ دورانیہ کے لئے منتخب کرتی ہے۔
یہ ادارہ اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک میں سارا سال انسانی حقوق کا جائزہ لیتا رہتا ہے اور معاشرتی حالات، اظہارِرائے، عقیدہ و مذہب کی آزادی اور حقوقِ نسواں، ہم جنس پرستوں اور نسلی و اقلیتی حقوق سے متعلق معاملات یہاں زیرِبحث لائے جاتے ہیں۔ دورانِ سال مارچ، جون اور ستمبر میں اس کے تین باقاعدہ اجلاسات ہوتے ہیں تاہم انسانی حقوق کی غیرمعمولی خلاف ورزی کی صورت میں کونسل کے ایک تہائی ممبران کی درخواست پر اس کا کسی بھی وقت ہنگامی طور پر خصوصی اجلاس ہوسکتا ہے۔ چنانچہ نومبر 2023ء میں اس کے 36 اجلاس ہوئے۔

بین المذاہب مکالمہ
تین بجے کے قریب مملکت اردن کی میزبانی میں ایک بین المذاہب مکالمہ (Interfaith Dialogue) کا آغاز ہوا۔ یہ پروگرام اسی عمارت کے ایک ہال میں منعقد ہوا جس کا عنوان ‘‘مشترکہ اقدار” تھا۔ سٹیج پر اس فورم کے ممبر ممالک کے سفراء اور اقوامِ متحدہ کے مبصر بیٹھے تھے۔ ان سب نے اس فورم کے منتظم کی تعارفی تقریر کے بعد اپنے اپنے خیالات پیش کئے۔ سامعین میں بہت سے لوگ موجود تھے جن میں بعض ممالک کے سفیر بھی تھے۔ انہوں نے بھی ممبران کے بعد اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ایک صاحب نے سوال کیا کہ باتیں تو ہوگئیں، ان پر عمل کیسے ہوگا؟ جس کا جواب کسی کے پاس نہ تھا۔ بہرحال یہ پروگرام شام چھ بجے کے قریب اختتام پذیر ہوا۔

اس کے بعد ایک دوسری عمارت میں گئے جہاں ایک خاتون محترمہ Imma Guerras صاحبہ کے ساتھ مکرم انور صاحب نے ملاقات کا پروگرام طے کیا ہوا تھا۔ موصوفہ اس ادارے کے ہائی کمشنر کی نائبہ ہیں۔ وہ اپنے دفتر سے ملحق ایک ورکشاپ کمرے میں لے گئیں جہاں ان کے ساتھ کچھ دیر گفتگو ہوتی رہی۔ اس دوران انور صاحب نے انہیں اگلے ماہ لندن میں ہونے والی احمدیہ امن کانفرنس کے لئے دعوت دی جسے انہوں نے بخوشی قبول کیا اور شامل بھی ہوئیں۔ موصوفہ بہت سے افریقن ممالک میں بچوں کے حقوق کے لئے کام کرتی ہیں۔

ان سے فارغ ہو کر ہم جنیوا میں عرصہ دراز سے سکونت پذیر مکرم ڈاکٹر قاضی شمیم صاحب کے گھر پہنچے جنہوں نے ہمارے لئے شام کے کھانے کا انتظام کر رکھا تھا۔ موصوف اپنی اہلیہ کے ساتھ ایک بڑے گھر میں رہتے ہیں جس کا ایک حصہ نماز سنٹر کے طور پر وقف کر رکھا ہے۔ یہاں ہم نے کھانا کھانے کے بعد مکرم ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ کا بنا ہوا مزیدار پشاوری قہوہ پیا۔ آخر پر نماز کے لئے وقف ایک پرسکون کمرے میں نمازیں ادا کیں۔

ڈاکٹر صاحب موصوف کے ساتھ خاکسار کی یہ پہلی ملاقات تھی، تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ آپ پشاور کے ایک معروف احمدی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور جماعتی خدمات کے ساتھ ساتھ جماعت کی خاطر تکالیف اور مصائب برداشت کرنے کی تاریخ بھی رقم کر چکے ہیں۔ آپ بچوں کے امراض میں تخصّص کرنے کے بعد اسلام آباد (پاکستان) میں بچوں کے مشہور ہسپتال میں طبّی خدمت کر رہے تھے کہ اپریل 1997ء میں ہارورڈ یونیورسٹی (امریکہ) کی طرف سے بوسٹن میں کام کی پیشکش ہوئی۔ اگلے ہی روز آپ کو جنیوا سے WHO میں محض تین ماہ کے لئےکام کی پیشکش آگئی۔ اس بارہ میں آپ اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں :
”خاکسار نے حضورؒ (خلیفہ رابع) کی خدمت میں رہنمائی کے لئے خط لکھا اور دونوں کاموں کی تفصیل بھی لکھی حضورؒ نے ازراہ شفقت جلد جواب ارسال فرمایاکہ ”آپ جنیوا آجائیں، ہمارے بھی قریب ہوں گے“ پس خاکسار جنیوا 3 ماہ کے لئے آگیا اور امریکہ والوں کو معذرت کر دی۔ خدا کا کرنا دیکھیں اور خلیفہ وقت کی برکت اور فراست کہ خاکسار کو تقریباً 20 سال یہاں WHO میں کام کرنے کی توفیق ملی اور اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے بہت عزت سے کام کرنے کی توفیق عطا کی اور ابھی تک یہ فضل جاری و ساری ہے۔ 1999ء میں وہ ہارورڈ یونیورسٹی کا محکمہ جہاں مجھے پانچ سال کام کرنے کی پیشکش ہوئی تھی، بند کر دیا گیا“۔

اب آپ ریٹائر ہو چکے ہیں اور خدمت دین کے جذبہ سے سرشار ہو کر اپنے گھر کو جماعتی نماز سنٹر کے طور پر پیش کئے ہوئے ہیں۔ آپ کی اہلیہ محترمہ قاضی زیتون صاحبہ بھی ماہر امراض بچگان ہیں اور اس وقت صدر لجنہ اماءاللہ سوئٹزرلینڈ کی حیثیت سے خدمت کی توفیق پا رہی ہیں۔ موصوفہ اپنے خاندان میں سے اکیلی احمدی ہیں اور آپ نے پاکستان میں ہونے والی مخالفت کا بڑی دلیری، ہمت اور استقامت کے ساتھ مقابلہ کیا۔

باجماعت نمازوں کی ادائیگی کے بعد ان سے رخصت لے کر جنیوا کے پڑوس میں فرانس کی سرحد کے پاس Ferney-Voltaire نامی قصبہ میں لئے ہوئے ایک چھوٹے سے ہوٹل کے کمرے میں پہنچے۔ سادہ سے اس ہوٹل میں بڑے اچھے طور پر رات گزری،الحمدللہ۔ یاد رہے کہ جنیوا ہر لحاظ سے انتہائی مہنگا شہر ہے جبکہ سرحد کے پار ہر چیز اس کے مقابلہ میں سستی ہے۔

سرن کی تجربہ گاہ کے سامنے
10 فروری 2024ء کی صبح ناشتہ کےبعد ساڑھے دس بجے ہم پانچوں ساتھی دنیا کی سب سے بڑی سائنسی تجربہ گاہ CERN کے سامنے تھے جہاں ہم سے پہلے ہماری میزبان محترمہ ڈاکٹر منصورہ شمیم صاحبہ سکارف لئے باوقار لباس میں ہماری منتظر تھیں، آپ اس تجربہ گاہ میں کام کرنے والی واحد احمدی خاتون سائنسدان ہیں۔ آپ ہمیں رجسٹریشن کے لئے دفتر کے سامنے لے گئیں۔ اس دوران میں موصوفہ سے سب دوستوں کا تعارف ہوا۔ یہاں ہم نے بتائے گئے طریق کار کے مطابق اپنے اپنے کارڈز بنائے اور اسی استقبالیہ کے پہلو سے جانے والی ایک راہداری سے سرن کی نمائش گاہ میں داخل ہوگئے۔ یہ نمائش جس پر پورے ایک سو ملین یورو کا خرچ اٹھا، گزشتہ سال اکتوبر میں ہی مکمل ہوئی۔ اس سے قبل اس منصوبہ کی تعارفی نمائش ایک گلوب نما عمارت میں تھی جو اس کے قریب ہی متروک حالت میں موجود تھی۔

یہ جدید اور وسیع نمائش قریباً دس میٹر قطر کے چار بڑے بڑے پائپ نما کمروں میں بنائی گئی ہے جو زمین سے قریباً پانچ میٹر بلند دھاتی ستونوں پر بنائے گئے ہیں، اس طرح سے زمین کی بھی بچت کی گئی ہے کیونکہ اس کے نیچے سڑک بھی ہے اور ٹرام سٹیشن بھی۔ باہر سے تو یہ پائپ ہی لگتے ہیں مگر ان کے اندر جائیں تو یہ بڑے بڑے کمرے بلکہ ہال ہیں۔ اس نمائش کے ایک حصہ میں تو برقی متحرک نقشوں اور تصاویر کے ذریعہ اس منصوبہ کا تعارف کرایا گیا اور جوں جوں آگے بڑھتے جائیں، عجیب و غریب قسم کی مشینیں آنے لگتی ہیں۔ سومیٹر گہرائی میں 27 کلومیٹر کے محیط پر مشتمل زیرِ زمین ایک سرنگ میں قائم کی گئی دنیا کی عظیم ترین طبیعاتی لیبارٹری میں جو کچھ نصب کیا گیا ہے، اسے چھوٹے پیمانہ پر مگر بالکل اصل کے مطابق تیار کرکے اس نمائش میں زائرین کے تعارف کے لئے رکھ دیا گیاہے گویا؏

سینہ سے دل نکال کے ہاتھوں پہ رکھ دیا

نمائش میں لگے مشینوں کے یہ ماڈل دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اصل مشینیں کتنی بڑی اور قیمتی ہوں گی۔ بہت سی جگہوں پر ان مشینوں کے آلات متحرک بھی تھے اور زائرین کے لئے اصل تجربہ گاہ میں ہونے والے سائنسی عمل کی عکاسی کر رہے تھے۔

اسی نمائش میں ایک مقام پر پہنچے تو وہاں کئی میٹر اونچا ایک دیو ہیکل گول پرزہ نصب تھا جس کے اندر تانبہ کے بےشمار حلقے تھے اور ہر حلقہ کے ساتھ حسّاس آلات لگے تھے جو تاروں کے ذریعہ کمپیوٹروں کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ یہ آلات ہر لمحہ اس مشین میں ہونے والے تجربات اور تغیّرات کو نہ صرف ریکارڈ میں لانے کی خدمت سرانجام دیتے ہیں بلکہ کسی بھی نازک لمحہ سے فوری آگاہ کرنے کا کام بھی ان کے سپرد ہے۔ اس کے پہلو میں ایک سٹینڈ پر ایک ایسی عینک بھی رکھی ہوئی تھی جسے لگا کر دیکھنے والا نمائش میں ہوتے ہوئے زیر زمین تجربہ گاہ میں پہنچ کر اصل مشینوں کا بھی نظارہ کر سکتا ہے۔ عینک کے ساتھ اڑھائی منٹ کی سیر کے دوران میں اتنے بڑے کارخانہ کی ایک جھلک ہی دیکھی جا سکتی تھی لیکن وہ جھلک بھی دیکھنے والے کو حیرت کے سمندر میں گم کر دیتی ہے۔

یہاں شیشے کے خول میں ایک پرانا سا کمپیوٹر پڑا تھا۔ جس پر لکھا تھا کہ اس کمپیوٹر کے ذریعہ سن 1989ء میں مشہور سائنسدان Tim Berners Lee نے ورلڈ وائیڈ ویب (WWW) ایجاد کیا تھا۔ اس ایجاد کا سال دیکھ کر ذہن فوراً قرآنی پیشگوئی وَاِذَا النُّفُوۡسُ زُوِّجَتۡ (التکویر:8) کی طرف چلا گیا جس میں پوری دنیا کے ایک ہوجانے کا اعلان ہے اور جسے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بعثت کے نشانات میں سے بتایا گیا ہے۔ سو سال پہلے 1889ء میں حضورؑ نے سلسلہ احمدیہ کی بنیاد رکھی تو حیرت انگیز ذرائع مواصلات ایجاد ہوئے تھے اور عین سو سال بعدجب احمدیت کی دوسری صدی کا آغاز ہوا تو ذرائع مواصلات میں ایجادات کا یہ انقلابی سلسلہ شروع ہوا جس نے پورے کرۂ ارض پر بسنے والے انسانوں کے باہمی تعلقات میں ایک غیرمعمولی کردار ادا کیا اور ساری دنیا کو گلوبل ولیج بنا دیا۔

اس تجربہ گاہ کے آلات میں جگہ جگہ مقناطیس لگے ہوئے تھے جن کی طرف بعض دیگر آلات کھنچے جاتے تھے اور بہت سے مقامات پر بجلی کی افزائش ہو رہی تھی۔ اس کے ساتھ توازن کا نظام ہر جگہ کار فرما نظر آیا۔ گویا کائنات میں مقناطیسی کشش اور توازن کے نظام کو غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے۔ مذہب کو دیکھا جائے تو یہاں بھی جذب اور مجذوبیت تصوّف کی اہم اصطلاح ہے۔ اس کے ساتھ قرآن میں یہ اعلان موجود ہے: وَالسَّمَآءَ رَفَعَہَا وَوَضَعَ الۡمِیۡزَانَ۔ (سورہ رحمٰن:8)

اس تحقیقاتی مرکز میں دنیا بھر کے سائنسدانوں کی طرف سے پیش کئے جانے والے سائنسی نظریات پر تجربات کرکے ان کی صداقت پرکھی جاتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کا پیش کیا ہوا وہ نظریہ جس پر 1979ء میں آپ کو نوبل انعام دیا گیا تھا، اسی تجربہ گاہ میں طویل تجربات کےبعد درست ثابت ہوا تھا۔

اس نمائش گاہ سے باہر آئے تو اس کے پہلو میں ایک عجیب و غریب قسم کی دیو ہیکل چیز نظر آئی۔ یہ سٹیل کی ایک بہت چوڑی پٹی تھی جو زمین میں نصب اپنے پاؤں سے اُٹھ کر کئی میٹر اوپر تک ایک لہر کی طرح گھومتی ہوئی چلی گئی تھی۔ ہم نے قریب جا کر دیکھا تو اس پر مختلف زبانوں میں کچھ نام، سال اور بعض مختصر جملے کندہ تھے۔ ہماری رہنما محترمہ منصورہ صاحبہ نے بتایا کہ یہ طبیعات کے میدان میں ابتداء سے لے کر اب تک مشہور ترین انقلابی نظریات پیش کرنے والے سائنسدانوں کے نام اور ان کےنظریات کا مختصر ترین تذکرہ ہے۔ ہمیں اس منفرد فہرست میں کئی مسلمان سائنسدانوں کا تعارف بھی نظر آیا جو عربی زبانی میں کندہ کیا گیا تھا جو عظیم مسلمان سائنسدانوں کے علم و عرفان کا اعتراف ہے۔ یاد رہے کہ ہر سائنسدان کا تعارف اس کی مادری زبان میں ہی کرایا گیا تھا۔ گویا طبیعات کی تاریخ اس مختصر سی جگہ میں سمیٹ کر دلچسپی رکھنے والوں کے لئے نظارۂ عام کر دی گئی ہے۔

اس نمائش کی سیر کے دوران یہ خیال آتا رہا کہ جہاں تک سائنسدانوں کی ان کوششوں کا تعلق ہے تو ان پرمحض ایک نظر ڈالنے سے ہی انسان ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ لیکن دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی قدرتیں اور اس کے مظاہر کی کوئی انتہا نہیں، حضرت انسان ان کی کنہ تک پہنچنے کی کوشش تو کررہا ہےجیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں زمین و آسمان کی تخلیق پر غور کرنے کا ارشاد فرمایا ہے۔(اٰل عمران) لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ یہ بھی فرمایا ہے کہ تم جتنا چاہے زور لگا لو، اپنی نظروں کو جتنا مرضی دور تک دوڑا لو، وہ تھکی ماندی ہوئی ہی واپس آئیں گی(سورہ الملک) پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے کلمات اس قدر ہیں کہ سارے جنگلوں کے درخت قلمیں بن جائیں اور سارے سمندر روشنائی میں تبدیل ہوجائیں اور ساری قلمیں گھس کر ختم ہوجائیں اور سمندر خشک ہوجائیں مگر اللہ کی باتیں، اس کی قدرتیں پھر بھی ختم نہ ہوں گی۔ (سورہ الکہف:110، و سورہ لقمان: 28) قرآن کریم کا یہ دعویٰ ایسی حقیقت ہے جو بڑے بڑے سائنسدانوں کے ہاں بھی مسلّم ہے جب وہ کہتے ہیں کہ اتنا کچھ کر لینے کے بعد بھی ہماری ساری تحقیق کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے کسی بہت بڑے ریت کے ٹیلے کو اپنی چھوٹی سی انگلی سے بھورا ہو؏ کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتر اِن اسرار کا!

بہرحال کائنات کے سارےر از تو معلوم ہونے سے رہے، لیکن اس راہ پر چلتے ہوئے اس تجربہ گاہ اور عظیم منصوبہ کو بہت سے شیریں پھل لگے، اصل منزل کی طرف سفر کے دوران بہت سے ایسے دروازے کھلے جن سے انسانیت کے لئے بے شمار فوائد کے دریا بہہ نکلے۔ جیسا کہ ’’ ورلڈ وائیڈ ویب ‘‘ کا ذکر ہو چکا۔ علاوہ ازیں سٹی اسکین اور ایم آر آئی بھی اسی تجربے کے دوران ایجاد ہوئی ،اسی طرح اور بھی بہت سی ایجادات ہو رہی ہیں جن سے دنیا کے مسائل بھی حل ہوں گے اور عام آدمی کے لئے بہت سے فائد کی حامل بھی ہوں گی۔

اصل لیبارٹری تو زیر زمین ہے لیکن سطح زمین پر اس کے دفاتر بہت وسیع علاقہ پر پھیلے ہوئے ہیں گویا ایک شہر کا شہر یہاں آباد ہے۔ محترمہ ڈاکٹر صاحبہ موصوفہ نمائش کے بعد میلوں میل پھیلے دفاتر اور دیگر عمارتوں کے علاقہ میں لے گئیں۔ یہاں انہوں نے ہمیں اس سائنسدان کا وہ کمرہ بھی دکھایا جہاں مذکورہ بالا ورلڈ وائیڈ ویب کی پیدائش ہوئی تھی۔ ایک سادہ اور چھوٹے سے بند کمرے کے دروازہ پر ایک جملہ WHERE THE WEB WAS BORN لکھا تھا گو یہ کمرا چھوٹا اور سادہ سا تھا مگر اس کی عظمت کو سلام کہنے یہاں دور دور سے لوگ آتے ہیں کہ اس کمرے میں ایک ایسی ایجاد ہوئی تھی جس نے دنیا میں ایک ایسا انقلاب بپا کر دیا جس سے آج ہر کس و ناکس غیرمعمولی طور پر فیضیاب ہو رہاہے۔

اس شہر میں سڑکوں کا جال بھی بچھا ہوا ہے اور ہر سڑک کو کسی نہ کسی عالمی شہرت رکھنے والےمعروف سائنسدان کا نام دے کر اس علاقہ کی سائنس کے ساتھ حقیقی وابستگی کا عملی اعلان کیا گیا ہے۔ ان سڑکوں میں سے ایک سڑک ہمارے لئےبھی جذباتی کیفیت لئے ہوئے تھی۔ چنانچہ ہماری رہنما نے چلتے چلتے جلد ہی ہمیں اُس سڑک پر لا کھڑا کیا جسے پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے نام کر دیا گیا ہے۔ اپنی قوم اور ملک پر افسوس ہوا جہاں آپ کی طرف منسوب کسی تعلیمی ادارہ یا اس کے کسی شعبہ کو بھی برداشت نہیں کیا جاتا۔ کاش علم اور اہل علم کی قدر کرنا کوئی ان لوگوں سے سیکھے! حالی نے کیسی سچی بات کہی تھی ؎

شریعت کے جو ہم نے پیمان توڑے
وہ لے جا کے سب اہلِ مغرب نے جوڑے

یہاں ہم سب نے پروفیسر صاحب مرحوم و مغفور کے ساتھ محبّت کے اظہار کے طور پر یادگاری تصاویر بنائیں، اللہ کرے کہ مرحوم پروفیسر صاحب کے درجات بلند سے بلند تر ہوتے جائیں اورجس مقصد کے لئے آپ نے اپنے وجود کا ذرہ ذرہ اور تما م تر ذہنی صلاحیت صَرف کر ڈالی، وہ مقصد پورا ہو اور جہاں توحید کی صدا سائنس کے ایوان سے بلند ہوتو اس کے ساتھ ہی انسان اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ مختلف توانائیوں کو انسانی بہبود اور فلاح اور ترقی کے لئے استعمال کرنے لگے نہ کہ تباہی و بربادی پھیلانے کے لیے کہ ڈاکٹر سلام صاحب کی یہی آرزو، تمنّا اور تڑپ تھی، آمین۔

محترمہ منصورہ صاحبہ ہمیں ایک بہت بڑی کثیرالمنازل عمارت میں بھی لے گئیں اور بتایا کہ اس کی پہلی منزل پر ان کا دفتر ہے جہاں وہ سرن لیبارٹری کے ایک مخصوص حصّہ سے آنے والے اعداد و شمار کو جمع کرکے ان کا تجزیہ کرتی ہیں۔ تمام دن کے اس تفصیلی مطالعہ کے بعد جو دراصل مختصر ترین خلاصہ تھا، ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ اس تجربہ گاہ کا ہر شخص اور تمام سازوسامان حضرت مسیح موعودؑ کی الہامی دعا ’’رَبِّ اَرِنِیْ حَقَآئِقَ اْلَاشْیَآءِ‘‘ کا عملی ورد تھا۔

اس کے ساتھ ہی سرن کی سیر کا پروگرام مکمل ہوا، اخباراحمدیہ کی ٹیم محترمہ ڈاکٹر منصورہ صاحبہ کی بےحد ممنون ہے کہ انہوں نے اپنی گھریلو مصروفیت کے باوجود ہمارے لئے پورا دن وقف کیا اور نہایت محنت کے ساتھ ہمیں اس منصوبہ کا تعارف کروایا اور اس شہر طبیعات کی سیر کرائی، فجزاھا اللہ احسن الجزاء۔ موصوفہ کے ساتھ ایک مختصر سی نشست میں ان کے حالات زندگی پر بھی مختصر سی مگر ایمان افروز گفتگو ہوئی جس کی تفصیل الگ سے شامل اشاعت ہے۔

امید ہے کہ اخبار احمدیہ جرمنی کے قارئین اپنے بچوں کو اس عظیم تجربہ گاہ کی مطالعاتی سیر کے لئے لے جائیں گے، یہ یقیناً ایک بہت ہی معلومات افزا سیر ثابت ہوگی جس سے ہمارے نوجوانوں میں علمی اور تحقیقی میدان میں قدم رکھنے کا جذبہ، تڑپ اور خواہش پیدا ہوگی۔ اس معلومات بھری سیر کا مقصد دنیا کے اس عظیم ترین تحقیقی منصوبہ CERN سے متعلق ایک مفید معلوماتی مضمون کے ذریعہ اپنے قارئین کوایسی آگاہی دینا ہے جو ہمارے نوجوانوں کے لئے ترقیات کی منازل طے کرنے کے لئے ایڑ کا کام دے سکے، اللہ کرے کہ یہ تفصیل پڑھ کر ہمارے نوجوانوں میں اس عظیم تجربہ گاہ کو دیکھنے کا شوق پیدا ہو اور اس کے نتیجہ میں وہ بھی سائنسی ترقی کی اس دوڑ میں شامل ہونے والے ہوں اور حضرت خلیفۃالمسیح الثالث کی خواہش کہ مجھے آئندہ صدی میں سو عبدالسلام چاہیئیں کو پورا کرنے والے ہوں، آمین۔

ادارہ محترم محمود الرحمٰن انور صاحب کا بھی ممنون ہے کہ انہوں نے مؤرخہ 8 تا 11 فروری 2024ء اخباراحمدیہ جرمنی کی ٹیم کو جس طرح پذیرائی سے نوازا۔ پہلے ہمیں اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے دفاتر اور نظام دکھایا۔ مختلف شخصیات سے تعارف کرایا، خوبصورت سوئٹزرلینڈ کی سیر کرائی اور اس دوران اپنی روایتی مہمان نوازی سے نوازا۔ ہم سب دعا گو ہیں کہ آپ کو اپنے بزرگوں کی طرح سلسلہ ا حمدیہ اور انسانیت کی عظیم خدمت سرانجام دینے کی توفیق ملتی رہے، آمین۔

(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ جولائی 2024ء صفحہ 20)

متعلقہ مضمون

  • محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی

  • قرآنِ کریم اور کائنات

  • بھاگتے ذرّے اور سرن

  • عظیم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب اور سرن