لفظ تعلق کے معنی لگاؤ، میلان اور محبّت کے ہیں۔ اس کا مادہ عربی زبان میں علق ہے۔ اوریہی لفظ انسانی پیدائش کے بیان میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ فرمایا:

خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ (علق:3)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:

’’ (اس آیت) کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ انسان کی فطرت میں اس نے اپنی محبّت کا مادہ رکھ دیا ہے‘‘۔

(تعلق باللہ از حضرت مصلح موعودؓ انوارالعلوم جلد 23 صفحہ نمبر 137)

اس طرح اللہ تعالیٰ سے تعلق کی خواہش رکھنا اور ایسا کر سکنا انسانی سرشت میں داخل ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ تعلق باللہ کے سب سے اعلیٰ مظہر آقا و مولیٰ حضرت محمدمصطفیٰﷺ ہیں۔ اللہ سےمحبّت کی تڑپ آپ کو بار بار زندگی کی ہلچل سے دور ایک تنگ و تاریک غار میں لے جاتی جہاں کئی کئی دن آپ تنِ تنہا قیام کرکے ہمہ وقت اللہ کی یاد میں محو رہتے۔ آپ کووہاں تاریکی سے وحشت ہوتی نہ تنہائی سے اداسی، نہ بچھوؤں کا خوف اور نہ سانپوں کا ڈر۔ آپ کو شب و روز یوں عشقِ الٰہی میں گم دیکھنے والے آپ کے مخالف بھی پکار اٹھتےکہ عَشِقَ مُحَمَّدٌ رَبَّہٗ یعنی محمدﷺ اپنے ربّ کا عاشق ہو گیاہے۔

عشق الٰہی کی یہی سرشاری تھی کہ جب اہلِ مکہ نے آپﷺ کو اللہ کی راہ سے روکنے کے لئے مال و دولت، حسین عورت اور سرداری کی پیش کش کی تو آپ نے ان سب کوبلا تامل ٹھکرا کراللہ کی خاطر اپنے لئے گالیاں، کانٹے، برستے پتھر، بہتا خون اورجلا وطنی کو اختیار کرلیا۔ اسی دیوانگی عشق نے ہی آپ کو مکہ کی گلیوں میں مجنوں کہلوایا۔

نمازمیں خُدا کے حضور اتنی دیر کھڑے رہتے کہ پنڈلیاں سوج جاتیں۔ سجدہ کا یہ عالم تھا کہ ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک بار اتنا لمبا سجدہ کیاکہ مجھے شبہ ہوا کہ کہیں حضور نے اپنی جان جاں آفریں کے سپرد نہ کر دی ہو۔ بےچینی سے اٹھی، پاؤں کو ہاتھ لگایا تو تسلی ہوئی۔ خداتعالیٰ سے راز و نیاز کرنا آپ کو اتنا عزیز تھا کہ کئی یخ بستہ اور تاریک راتوں میں آپ حضرت عائشہؓ کا بستر چھوڑ کر نماز میں مصروف ہو جاتے۔ ایک بار ام المومنین حضرت عائشہؓ آپ کو بستر پر نہ پا کر تلاش کے لئے نکلیں تو آپ کو اس حالت میں سجدہ میں پایا کہ سینہ ہنڈیا کی طرح ابل رہا تھا اور زبان پربہ تکرار یہ اظہارعشق تھا:

سَجَدَ لَکَ سَوادِی وَ خَیَالِی (مجمع الزوائد ھیثمی جلد2)

ترجمہ: (اے اللہ) تیرے حضور سجدہ کرتے ہیں میرے جسم و جان۔

یہ شوقِ عبادت ہی تھا کہ وفات سے کچھ پہلے شدّتِ بیماری میں نماز کے لئے اس حال میں چلے کہ آپ کے ہاتھ دو صحابہؓ کے کندھوں پر تھے اور پاؤں زمین پر گھسٹتے جاتے تھے۔ (بخاری کتاب الاذان)

عبادتِ الٰہی میں مشقت کوبھی آپ شکر گزاری کا تقاضا جانتے۔ چنانچہ جب ایک بارام المومنین حضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ آپ کو اللہ نے بخش دیا ہے تو پھر کیوں آپ عبادت میں اتنی تکلیف اٹھاتے ہیں توفرمایا:

’کیا میں اپنے ربّ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں‘؟

(بخاری کتاب التفسیر)

خدا سے اس عظیم محبّت کو دیکھنے والے بھی اسی راستے پر چلے اور خود بھی تعلق باللہ کی ڈور میں پروئے گئے اور نہ صرف باخدا ہوئے بلکہ ایسے خدا نما وجود بن گئے جن کے بارے میں ایک موقع پر یہ ارشاد ہوا:

’’اللہ کے بعض بندے پراگندہ بال اور غبار آلود ہوتے ہیں۔ دروازوں پر سے ان کو دھکے دئے جاتے ہیں لیکن اگر وہ اللہ کی قسم کھا لیں کہ ایسا ہو تو خداتعالیٰ ویسا ہی کر دیتا ہے‘‘۔ (ریاض الصالحین کتاب المقدمات)

یہ خدا سے عشق ہی تھا کہ حضرت بلالؓ مظالم سہنے کے بعد بھی کہتےاحد، احد کہ اللہ ایک ہے۔ اللہ ایک ہے۔ یہ عشق ہی تھا جس نے اپنی شہ رگ سے اُبلتے ہوئے خون کو دیکھ کر حضرت حرام بن ملحانؓ سے یہ نعرۂ مستانہ لگوایا: فُزتُ بِرَبِّ الکَعبَۃِ (بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الرجیع) کہ ربِّ کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔

پھر اس زمانہ میں آنحضرتﷺ کے غلام صادق حضرت مسیح موعودؑ نے ایک بار پھر اس تعلق باللہ کا سبق دہرایا۔ خدا سے محبّت آپ کی زندگی تھی جیسا کہ فرمایا:

؎ مرا باعشقِ او وقتے ست معمور

چہ خوش وقتے چہ خرمّ روزگارے

ترجمہ: میرا وقت اسی کے عشق سے بھرپور ہے واہ کیا اچھا وقت ہے اور کیا عمدہ زمانہ ہے۔

(درِّثمین فارسی صفحہ812،مطبوعہ شیخ محمد اسماعیل پانی پتی، لاہور)

محبّت الٰہی کی تڑپ ہمیشہ آپ کے دل میں رہی اور اسی طلب میں آپ مسیتڑ کہلائے، 8، 9 ماہ کے مسلسل روزہ دار ہوئے اور تنہائی میں ہفتوں چلہ کشی کی۔ آپ خدا سے خود اسی کے یوں طلب گار ہوئے:

؎ و آنچہ می خواہم از تو نیز توئی

(براہینِ احمدیہ حصہ اوّل روحانی خزائن جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 16 2008ء)

ترجمہ: اور جو چیز مَیں تجھ سے چاہتا ہوں وہ بھی تو ہی ہے۔ (درِّثمین فارسی صفحہ12، مطبوعہ شیخ محمد اسماعیل پانی پتی، لاہور)

1885ء میں آپ نے اپنے ایک عازمِ حج دوست کودعا لکھ کر دی کہ وہ بیت اللہ کی زیارت پر خدا کے حضور ان الفاظ میں گزارش کر دیں کہ

’’اے ارحم الراحمین…… میری زندگی اور میری موت اور میری ہر یک قوت اور جو مجھے حاصل ہے اپنی ہی راہ میں کر اور اپنی ہی محبّت میں مجھے زندہ رکھ اور اپنی ہی محبّت میں مجھے مار اور اپنے ہی کامل متبعین میں مجھے اُٹھا ‘‘۔ (مکتوباتِ احمد اوّل مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی جلدسوم صفحہ نمبر 28 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)

اور خود بھی یوں دعا گو رہے۔

اے میرے ربّ! تو اپنے فضل سے… مجھے (اپنی) محبّت میں محو کر دے اور ایسی محبّت دے کہ میرے بعد کوئی اس سے بڑھ نہ سکے۔ (آئینہ کمالاتِ اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 5 ایڈیشن 2008ء۔ عربی سے ترجمہ از حضرت مرزا عبدالحق روح العرفان صفحہ 116 مطبوعہ 1981ء)

آپ کی یہ دعائیں قبول ہوئیں اور آپ کو محبّت الٰہی کا ایک عظیم خزانہ عطا ہوا۔ آپ نے اللہ سے اپنی اس والہانہ محبّت کا بار بار اظہار کیاچنانچہ فرمایا:

’’ مَیں تجھے پہچانتا ہوں کہ تو ہی میرا خدا ہے۔ اس لئے میری روح تیرے نام سے ایسی اُچھلتی ہے جیسا کہ شیر خوار بچہ ماں کے دیکھنے سے‘‘۔

(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد صفحہ نمبر 15 ایڈیشن 2008ء)

’’دیکھ میری روح نہایت توکل کے ساتھ تیری طرف ایسی پرواز کر رہی ہے جیسا کہ پرندہ اپنے آشیانہ کی طرف آتا ہے‘‘۔

(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15صفحہ نمبر، ایڈیشن2008ء)

خدا سے محبّت کا اظہار اس طرح بھی کیا۔

؎ چاند کو کل دیکھ کر مَیں سخت بے کل ہو گیا

کیونکہ کچھ کچھ تھا نشان اس میں جمالِ یار کا

(سرمہ چشم آریہ روحانی خزائن جلد 2 صفحہ52، ایڈیشن 2008ء)

خدا پر اپنے غیر متزلزل یقین کا یوں اظہار فرمایا:

’’ اگرچہ جو لوگ دل کے پاک ہیں مرنے کے بعد خدا کو دیکھیں گے لیکن مجھے اسی کے منہ کی قسم ہے کہ مَیں اب بھی اس کو دیکھ رہا ہوں‘‘۔

(اربعین روحانی خزائن جلد نمبر 17 صفحہ نمبر 399 ایڈیشن 2008ء)

حضرت مسیح موعود کی زندگی میں توکل کا ایک خوبصورت اظہار آپ کے یہ الفاظ ہیں:

’’جب مَیں اپنی صندوقچی کو خالی دیکھتا ہوں تو مجھے خدا کے فضل پر یقینِ واثق ہوتا ہے کہ اب یہ بھرے گی اور ایسا ہی ہوتا ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ نمبر 216 مطبوعہ نظارتِ اشاعت ربوہ)

حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی حیران کن قوتِ قدسیہ سے خود پر ایمان لانے والوں میں بھی وہ مضبوط ایمان پیدا کیا کہ گویا انہوں نے خدا کو دیکھ لیا۔ یہ ہزارہا لوگ خدا سے زندہ تعلق رکھنے والے بن گئے اور مکالمۂ الٰہیہ اور رؤیا و کشوف ان کے لئے معمول کی ایک بات ہوگئے۔ گلیوں اور بازاروں میں چلتے پھرتے بظاہر عام سے نظر آنے والے یہ لوگ تعلق باللہ میں ایسے پہنچے ہوئے تھے کہ گویا فرشتے۔ ان کے دل کی خواہش بھی بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہوتی۔ وہ دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے تو ساتھ ہی قبولیت کی خبر بھی پالیتے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی یہ قوتِ قدسیہ آپ کے بعد کی اس دوسری صدی میں بھی کار فرما ہے۔ ہر روز ہم ایسے واقعات سنتے ہیں کہ کس طرح ملک ملک لوگ خدا سے ہدایت پا کر جماعت میں داخل ہوتے ہیں اور پھر قوتِ ایمانی میں ترقی کرکے رویٔاکشوف اور قبولیت دعا کا انعام پاتے ہیں۔

حضرت مسیح موعودؑ نہ صرف خود محبّتِ الٰہی میں سرشار تھے بلکہ اسی محبّت کو عام کرنے کو آپ نے اپنی ماموریت کی ایک غرض بھی قرار دیاجیسا کہ فرمایا:

’’وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہوگئی ہے اس کو دور کرکے محبّت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں‘‘۔

(لیکچر لاہور روحانی خزائن جلد 20 صفحہ نمبر 180 مطبوعہ 2008ء)

نیز فرمایا:

؎ کوئی رہ نزدیک تر راہِ محبّت سے نہیں

(براہینِ احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ نمبر 141 ایڈیشن 2008ء)

آپ ہمیشہ اس امر کے لئے کوشاں رہے کہ سب محبّت کی اس راہ کو اپنائیں۔ افرادِ جماعت کو حصولِ محبّتِ الٰہی کی طرف متوجہ کرنے کے لئے آپ نے بار بار قلم اٹھایا جن میں سے چند پُر اثر الفاظ یہ ہیں:

’’یہ دولت لینے کے لائق ہے اگرچہ جان دینے سے ملے اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے اگرچہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو…… مَیں کیا کروں اور کس طرح اس خوش خبری کو دلوں میں بٹھا دوں۔ کس دَف سے مَیں بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سُن لیں ‘‘۔

(کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19صفحہ نمبر 21،22 مطبوعہ 2008ء)

’’وہی میرا خدا تمہارا خدا ہے پس اپنی پاک قوتوں کو ضائع مت کرو۔ اگر تم پوری طور پر خدا کی طرف جھکو گے تو دیکھو مَیں خدا کی منشاء کے موافق تمہیں کہتا ہوں کہ تم خدا کی ایک قوم برگزیدہ ہو جاؤ گے‘‘۔

(الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ نمبر 308 ایڈیشن 2008ء)

اللہ سے محبّت کے اس تعلق کو بڑھانے کے چند ممکنہ ذرائع پنج وقتہ نمازیں، نوافل، مجاہدات، صحبت صالحین، استقامت دکھانا ہیں۔ اسی طرح یہ یقین رکھنا کہ تعلق باللہ میں بڑھنا ایک ممکن بات ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَالَّذِینَ جَاہَدُوا فِینَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا (عنکبوت: 29: 70)

اور وہ لوگ جو ہمارے بارہ میں کوشش کرتے ہیں ہم انہیں ضرور اپنی راہوں کی طرف ہدایت دیں گے۔

(اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحہ نمبر 419 ایڈیشن 2008ء)

آنحضرتﷺ نے اس کی خبر ان الفاظ میں دی ہے:

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ… جس وقت بندہ مجھے یاد کرتا ہے مَیں اس کے ساتھ ہوتا ہوں… اگر وہ میری جانب ایک بالشت بھر آئے گا تو مَیں اُس کی طرف ایک ہاتھ جاؤں گا۔ اگر وہ میری طرف ایک ہاتھ آئے گا تو مَیں اُس کی طرف دو ہاتھ جاؤں گا، اگر وہ میری طرف چل کر آئے گا تو مَیں اُس کی طرف دوڑ کر آؤں گا۔ (ترمذی ابواب الدعوات)

اور محبّت الٰہی کے حصول کےلئے دعائیں بھی سکھائی ہیں۔ چنانچہ فرمایا:

i۔ اےاللہ! مجھے اپنی محبّت عطا کر اور اس کی محبّت بھی جس کی محبّت مجھے تیرے حضور فائدہ بخشے۔ اے اللہ! میری محبوب چیزیں جو تو مجھے عطا کرے ان کو اپنی محبوب چیزوں کی خاطر میرے لئے قوت کا ذریعہ بنا دے اور میری جو پیاری چیزیں تو مجھ سے علیحدہ کر دے ان کے بدلے اپنی پسندیدہ چیزیں مجھے عطاکر دے۔

(ترمذی کتاب الدعوات)

ii۔ ’’اے میرے اللہ! میں تجھ سے تیری محبّت مانگتا ہوں اور ان کی محبّت جو تجھ سے محبّت کرتے ہیں۔ اور اس عمل کی محبّت جو مجھے تیری محبّت تک پہنچا دے۔ اے میرے خدا ایسا کر کہ تیری محبّت مجھے اپنی جان، اپنے مال، اپنے اہل و عیال اور ٹھنڈے میٹھے پانی سے بھی زیادہ محبوب ہو جائے‘‘۔ (ترمذی کتاب الدعوات)

حضرت مسیح موعودؑ نے ہمیں یہ خوش خبری بھی دی ہے:

’’ تمہیں خوش خبری ہو کہ قُرب کا میدان خالی ہے ہر ایک قوم دنیا سے پیار کر رہی ہے اور وہ بات جس سے خدا راضی ہو اس کی طرف دنیا کو توجہ نہیں۔ وہ لوگ جو پورے زور سے اس دروازہ سے داخل ہونا چاہتے ہیں ان کے لئے موقع ہے کہ اپنے جوہر دکھلائیں اور خداسے خاص انعام پاویں‘‘۔ (الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 308-309 ایڈیشن 2008ء)

انسانی زندگی کا ماحصل یہی ہے کہ دل میں موجود اللہ سے تعلق کی چنگاری کو ہوا دے کر اس درجہ کو پہنچایا جائے کہ اس کا سب کچھ اللہ کا ہو جائے اور دل سے یہ صدا بلند ہو کہ قُلْ إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُكِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ۔ (انعام: 6: 163)

ترجمہ: یقیناً میری عبادت اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور مرا مرنا اللہ ہی کے لئے ہے۔

اللہ کرے کہ ہم سب تعلق باللہ میں اس درجہ کو اپنا مطمح نظر بنانے والے ہو جائیں، آمین۔

(اخباراحمدیہ جرمنی اپریل 2024ء صفحہ19)

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • فیصلہ جات مجلس شوریٰ جماعت احمدیہ جرمنی 2024

  • تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے

  • خلافت اور جماعت کے باہمی پیار کا تعلّق