از افاضات حضرت مصلح موعود

سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس نے مؤرخہ 19 نومبر 2023ء کو واقفاتِ نَو جماعت احمدیہ بیلجیئم سے آن لائن ملاقات کے دوران ارضِ مقدّسہ اور خدائی وعدہ جات کے متعلق سورۃ الانبیاء اور سورۃ بنی اسرائیل کے پہلے رکوع کی منتخب آیات کی تفسیر کا مطالعہ تفسیر کبیر بیان فرمودہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی سے کرنے کا ارشاد فرمایا۔ اس ضمن میں سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر 7-9 کی تفسیر ہدیہ قارئین کی جاتی ہے۔

ثُمَّ رَدَدۡنَا لَکُمُ الۡکَرَّۃَ عَلَیۡہِمۡ وَاَمۡدَدۡنٰکُمۡ بِاَمۡوَالٍ وَّبَنِیۡنَ وَجَعَلۡنٰکُمۡ اَکۡثَرَ نَفِیۡرًا۞

تفسیر: یعنی اس تباہی کے بعد پھر خداتعالیٰ نے تم کو نجات دی اور طاقت عطا کی اور یہ اس طرح ہوا کہ یہود کی اس تباہی کے بعد مید اور فارس کا بادشاہ بابل پر چڑھ آیا اور بنی اسرائیل اپنے ایک نبی کے حکم کے ماتحت اس کے ساتھ مل گئے اور اس نے ان کو قید سے آزاد کر دیا۔ اس کا تفصیلی ذکر سورۃ بقرہ میں حضرت سلیمان کے واقعہ میں گذر چکا ہے۔

اس واقعہ کی نسبت حضرت موسیٰ نے ان الفاظ میں پیشگوئی کی تھی ’’ اوریو ں ہوگا کہ جب یہ سب کچھ تجھ پر گذرے گا۔ برکت اور لعنت جنہیں مَیں نے تیرے آگے رکھا اور تو ان سب گروہو ں میں جہاں جہاں خداوند تیرا خدا تجھ کو بھگائے انہیں یاد کرے گا اور تو خداوند اپنے خدا کی طرف پھرے گا۔ اور ان حکمو ں کے موافق جو آج میں نے تجھے کہے تُو اپنے بال بچوں سمیت اپنے سارے دل اور اپنے سارے جی سے اس کی آواز کو سُن لے گا۔ تب خداوند تیرا خدا تیری اسیری کو بدلے گا۔ اور تجھ پر رَحم کرے گا۔ اور پھر کے تجھ کو ان سب گروہوں میں سے جن میں خداوند تیرے خدا نے تجھے تتربتّرکیا تھا تجھے جمع کرے گا۔ اگر تجھ میں سے کوئی آسمان کی اس انتہا تک بھگایا گیا ہوگا تو خداوند تیر اخدا وہاں سے تجھے جمع کرے گا اور وہاں سے تجھے پھیر لائے گا۔ اور خداوند تیرا خدا تجھ کو اس زمین جس پر تیرے باپ دادے قابض ہوئے لائےگا اور تُو اس کا مالک ہوگا۔ اور وہ تجھ سے نیکی کرے گا اور تیرے باپ دادوں سے زیادہ تجھے بڑھائے گا ‘‘استثنا باب30 آیت 1 تا 5۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰؑ نے پہلی تباہی کے بعد بنی اسرائیل کی دوبارہ بحالی کی خبر دی تھی اور اسی کی طرف ان آیات میں اشارہ ہے اور اس بحالی کا حال یہ ہے کہ 445قبل مسیح مید اور فارس کے بادشاہ نے جس نے بابل فتح کر لیا تھا۔ اس صلہ میں کہ یہود نے اس کی مدد کی تھی ان کو واپس یروشلم جانے کی اجازت دے دی۔ یہود کے ایک نبی نحمیاہ کو دوبارہ آباد کرنے کے لئے بھیجا گیا تا وہ یروشلم اور دوسرے یہودی مقامات کو دوبارہ آباد کریں اس بادشاہ کا نام خورس تھا اور انگریزی میں اسے سائرس لکھتے ہیں۔ اس نے نہ صرف یہود کو ان کے وطن میں واپس جانے کی اجازت دی بلکہ وہ سامان جو وہاں سے نبوکدنضرلے گیا تھا وہ بھی ان کو واپس دے دیا۔ (عزرا باب1 آیت 2،3،7،8) (یہ عزرا وہی عزیر ہیں جن کا قر آنِ کریم میں ذکر آتا ہے کہ یہود انہیں خدا کا بیٹا کہتے تھے)

اِنۡ اَحۡسَنۡتُمۡ اَحۡسَنۡتُمۡ لِاَنۡفُسِکُمۡ۟ وَاِنۡ اَسَاۡتُمۡ فَلَہَا ؕ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ لِیَسُوۡٓءٗا وُجُوۡہَکُمۡ وَلِیَدۡخُلُوا الۡمَسۡجِدَ کَمَا دَخَلُوۡہُ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّلِیُتَبِّرُوۡا مَا عَلَوۡا تَتۡبِیۡرًا ۞

تفسیر: اس آیت میں یہود کے دوسرے فساد کی خبر دی گئی ہے اور پھر اس کی سزا کا ذکر کیا گیا ہے۔ فساد ان کا حضرت عیسیٰ کو دکھ دینا تھا۔ اور سزا ان کا رومیو ں کے ہاتھو ں سے تباہ ہونا تھا۔ یہ واقعہ صلیب کے واقعہ کے ستر سال بعد کا ہے۔ گویا حضرت عیسیٰ کی زندگی میں ہی یہ واقعہ ہو ا۔ کیونکہ احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ ان کی عمر 120سال تھی۔ اور تینتیس سال کی عمر میں وہ صلیب پر لٹکائے گئے تھے۔ (قاموس الکتاب زیر لفظ عہدنامہ کا تواریخی خاکہ)

اس عذاب کی تفصیل یہ ہے کہ ویسپسئین (Vespasian) نامی ایک رومی جرنیل تھا اسے بادشاہ روم نے یہود کی سرکشیوں کی وجہ سے ان کی سرکوبی کا حکم دیا تھا۔ جب یہ اس حکم کے بجا لانے میں مشغول تھا۔ اسے ایک کشف نظر آیا جس کی تعبیر اس نے یہ کی کہ مجھے روم واپس جانا چاہیے۔ کیونکہ وہاں سے فسادات کی خبریں آ رہی تھیں۔ اس کے واپس لَوٹنے پر وہاں کچھ ایسے حالات پیدا ہوئے کہ اسے بادشاہ بنا دیا گیا۔ اور اس نے اپنے بیٹے ٹائٹس کو فلسطینی مہم کا افسر مقرر کر دیا۔ جس نے یروشلم کو 70ء بعد مسیح فتح کرکے اس کے گرائے جانے کا حکم دیا۔ اور شہر کی دیواروں اور مسجد کو گرا دیا گیا اور یہودی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ گو 135ء میں یہود نے پھر ایک ناکام بغاوت کی مگر وہ صرف چراغ سحری کے آخری شعلہ کی سی حیثیت رکھتی تھی۔

(انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا زیر لفظ Jew اور ہسٹورئینز ہسٹری آف دی ورلڈ)

اس واقعہ کی نسبت بائبل میں ان الفاظ میں حضرت موسیٰ کی پیشگوئی درج ہے۔ ’’انہوں نے اجنبی معبودوں کے سبب اسے غیرت دلائی اور وہ اسے نفرتی کاموں سے غصے میں لائے۔ انہوں نے شیطانوں کے لئے قربانیاں گذرانیں نہ خدا کے لئے۔ بلکہ ایسے معبودوں کے لئے جن کو آگے وے نہ پہچانتے تھے۔ جو نئے تھے اور حال میں معلوم ہوئے اور ان سے تیرے باپ دادے نہ ڈرتے تھے۔ تو اس چٹان سے جس نے تجھے پیدا کیا غافل ہوا۔ اور اس خدا کو جس نے تجھے صورت بخشی بھول گیا۔ اور جب خداوند نے یہ دیکھا تو ان سے نفرت کی اس لئے کہ اس کے بیٹوں اور اس کی بیٹیوں نے اسے غصہ دلایا۔ اور اس نے یہ فرمایا کہ میں ان سے اپنا منہ چھپائوں گا۔ تاکہ میں دیکھوں کہ انجام کیا ہوگا اس لئے کہ وہ کج نسل ہیں۔ ایسے لڑکے جن میں امانت نہیں انہوں نے اس کے سبب سے جو خدا نے مجھے غیرت دلائی اور اپنی واہیات باتوں سے مجھے غصہ دلایا۔ سو میں بھی انہیں اس سے جو گرو ہ نہیں غیرت میں ڈالوں گا اور ایک بےعقل قوم سے انہیں خفا کروں گا کیونکہ میرے غصے سے ایک آگ بھڑکی ہے جو اسفل جہنم تک جلے گی اور زمین کو اس کے پیداوار سمیت کھا جائے گی اور پہاڑوں کی بنیادوں کو جلا دے گی۔ میں ان کی بلائوں کو ان کے اوپر بڑھائوں گا اور ان پر اپنے تیروں کو خرچ کروں گا۔ وہ بھوک سے جل جائیں گے۔ اور سوزندہ گرمی اور کڑوی ہلاکت کے لقمے ہوں گے۔ میں ان پر درندوں کے دانتوں اور زمین کے زہر دار سانپوں کو چھوڑوں گا۔ باہر سے تلوار اور اندر کے مکانوں سے خوف جو ان کو اور کنواری کو بھی۔ شیرخوار کو اور سر سفید کو بھی ہلاک کریں گے ‘‘۔ استثناء باب 32آیت 16تا25۔ یہ پیشگوئی پہلی پیشگوئی کے بعد بلکہ اس پیشگوئی کے بھی بعد کہ پہلے فساد کے بعد اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو واپس یروشلم میں لے آئے گا۔ بیان ہوئی ہے جس سے ظاہر ہے کہ اس سے پہلے عذاب کے بعد ایک دوسرے عذاب کی خبر دی گئی ہے۔ اور یہ عذاب وہ دوسرا عذاب ہے جس کا ذکر قرآنِ کریم نے لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ کے الفاظ میں کیا ہے۔

عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یَّرۡحَمَکُمۡۚ وَ اِنۡ عُدۡتُّمۡ عُدۡنَا وَجَعَلۡنَا جَہَنَّمَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ حصِیۡرًا۞

تفسیر: بنی اسرائیل کی کامل تباہی کی خبر دینے کے بعد اب قرآنِ کریم انہیں امید کا پہلو دکھاتا ہے اور فرماتا ہے کہ بائبل کا جہاں تک تعلق ہے تم ہمیشہ کے لئے ہلاک کر دئے گئے ہو مگر موسوی مذہب سے باہرہو کر تمہاری ترقی کی راہ ابھی کھلی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعہ سے دوبارہ ترقی کرنے کا تمہاری قوم کو موقعہ دیا ہے اس موقعہ سے فائدہ اٹھائو اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہو جائو۔ لیکن اگر تم نے اس موقعہ سے بھی فائدہ نہ اُٹھایا تو اللہ تعالیٰ کی سزائیں دوبارہ تم کو آ گھیریں گی اور تم بالکل تباہ ہو جائو گے۔

دیکھو ان آیات میں یہودی قوم کو سمجھانے کے لئے کیسا احسن طریق اختیار کیا ہے خود ان کی کتب سے ان کی تباہی کی خبر دی ہے اور بتایا ہے کہ خود یہودی کتب کے مطابق اب کوئی مستقبل یہودیت کے لئے باقی نہیں۔ پس جب خود ان کی کتب ان کی ہلاکت کا فتویٰ دے چکی ہیں تو ان کو اس متروک راستہ کو چھوڑنے میں جسے خداتعالیٰ چھڑوا چکا ہے عذر نہیں ہونا چاہیے اور اسلام کو قبول کرکے دینی و دنیو ی انعامات حاصل کرنے چاہئیں۔ اس نئے راستہ کے متعلق بھی بائبل میں خبر موجود ہے۔

آنحضرتؐ کے متعلق پیشگوئی بائیبل میں استثناء باب 33 آیت 1 تا 3 میں فرماتا ہے ’’اور یہ وہ برکت ہے جو موسیٰ مردِ خدا نے اپنے مَرنے سے آگے بنی اسرائیل کو بخشی اور اس نے کہا کہ خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا۔ فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا۔ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ ایک آتشی شریعت ان کے لئے تھی۔ ہاں وہ اس قوم سے بڑی محبّت رکھتا ہے۔ اس کے سارے مقدّس تیرے ہاتھ میں ہیں اور وہ تیرے قدموں کے نزدیک نزدیک بیٹھے ہیں اور تیری باتوں کو مانیں گے ‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ فاران سے جلوہ گر ہونے والے نبی کے ذریعہ سے پھریہود کی برکت کا سامان پیدا کرے گا۔ اگر وہ چاہیں تو ہدایت پاکر ترقی کرسکتے ہیں۔ یہ پیشگوئی تباہی کی خبر کے معاً بعد دوسرے باب میں بیان ہوئی ہے۔

یاد رکھنا چاہیے کہ آیات مذکورہ بالا جہاں یہ بتا رہی ہیں کہ یہود کا مستقبل خود ان کی کتب کے رُو سے بالکل تاریک ہے وہاں مسلمانوں کوبھی توجہ دلائی ہے کہ مسلمانوں پر بھی اسی طرح دوبارہ ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے عذاب آئے گا۔

چنانچہ پہلا عذاب خلافت عباسیہ کے خاتمہ پر آیا۔ اس کا موجب بھی وہی تھا جو بائبل نے یہود کی تباہی کا موجب بتایا ہے۔ یعنے فرغانہ کی فتح کے بعد مسلمانوں نے کثرت سے وہاں کی خوبصورت لڑکیوں سے شادیاں کرلیں۔ یہ علاقہ بہت مشرک تھا۔ ان عورتوں کے اثر سے مسلمانوں میں بھی مشرکانہ عقائد پیدا ہونے لگے۔ اور اسلامی غیرت کمزور ہونے لگ گئی۔ آخر ایک وحشی قوم نے بغداد پر حملہ کر دیا جو اپنی وحشت اور اجنبیت کے لحاظ سے اسلامی ممالک اور ان کی تہذیب سے ویسی ہی بیگانہ تھی جیسی کہ بابل کی قوم جس نے فلسطین پر حملہ کیا تھا اٹھارہ لاکھ مسلمان صر ف بغداد اور اس کے گرد و نواح میں قتل کیا گیا (الخلافۃ العباسیۃ لِعبد الفتاح السر نجاوی صفحہ 296،297)۔ شاہی خاندان کے تمام لوگوں کو ان کی فہرستیں بنوا بنوا کر اور تلاش کر کرکے قتل کیا گیا۔ کہتے ہیں کہ صرف ایک شخص بھاگ کر بچ سکا اور اسی کی نسل سے بہاولپور کے والیانِ ریاست ہیں ان کے علاوہ کوئی بھی خاندان ایسا نہیں جو اپنے آپ کو عباس کی طرف منسوب کرے (اس نوٹ لکھنے کے بعدمجھے معلوم ہواہے کہ یو پی میں عباسی خاندان کی بعض شاخیں موجود ہیں ان میں سے ایک نے مجھے اپنا شجرہ نسب بھی بھجوایاہے)۔

دوسری تباہی آخری زمانہ کے وقت مقدر تھی جس کے آثار اب نمودارہو رہے ہیں۔ عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یَّرۡحَمَکُمۡۚ وَاِنۡ عُدۡتُّمۡ عُدۡنَا وَجَعَلۡنَا جَہَنَّمَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ حصِیۡرًا۔ العیاذ باللہ

(تفسیرکبیر جلد 6 صفحہ 290 تا 302)

(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ فروری 2024ء صفحہ 20)

متعلقہ مضمون

  • قرآنِ کریم اور کائنات

  • اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

  • نُورِ ہدایت

  • پیشگوئی مصلح موعودؓ میں مذکورہ ایک عظیم الشان علامت