انتظار حسین کی کتاب’’ دِلّی تھا جس کا نام‘‘ سے چند اقتباسات

لال قلعہ ان دنوں لالوں لال تھا اور قلعۂ معلّٰی کہلاتا تھا۔ قلعۂ معلّٰی سے نیچے اتر کر دیکھو۔ ارد گرد کیا شہر آباد ہے۔ بستی بستے بستے بستی ہے۔ جہاں آباد کو بسنے میں چھ برس لگے۔ مگر یہ تو تبھی آباد ہونا شروع ہو گیا تھا جب نگر کی پہلی عمارت مٹیا محل کے نام سے وجود میں آئی تھی۔ اور یہ بات بہت معنی رکھتی ہے کہ لال قلعہ بعد میں تعمیر ہوا۔ پہلے مٹیا محل بن کر کھڑا ہو گیا۔ جہاں آباد کو لال قلعے اور مٹیا محل کے گھال میل کا حاصل جانو۔ یہ گھال میل ہر مقام اور ہر سطح پر نظر آئے گا۔ تہذیبی سطح پر، رہن سہن کی سطح پر، کوچہ و بازار کی سطح پر۔ بلکہ بازاروں کا تو معاملہ ہی یہ تھا کہ خلقت امنڈی ہوئی ہے، کھوے سے کھوا چھلتا ہے۔ بنیئے بقال، نجومی رمال، پھیری والے، پانی پلانے والے، صنعت گر، بازی گر سب اپنا اپنا کاروبار کرتے نظر آئیں گے۔ مگر کہیں عقب میں لال قلعہ بھی موجود نظر آئے گا۔ عقب میں کیا کم از کم وہ بڑے بازار جہاں خلقت زیادہ نظر آتی تھی لال قلعہ ہی کی دین تھے۔ چاندنی چوک، سعداللہ خاں چوک، فیض بازار، خاص بازار، خانم کا بازار، اردو بازار۔ بڑے بازار تو یہی تھے اور یہ سب بازار لال قلعے کے شہزادوں، شہزادیوں، امیروں، وزیروں کے فیض سے وجود میں آئے تھے۔

چاندنی چوک کیا خوب بازار تھا۔ شاعر نے اس بازار میں کیا دیکھا کہ بس فدا ہو گیا۔

دل مرا جلوۂ عارض نے بہلنے نہ دیا

چاندنی چوک سے زخمی کو نکلنے نہ دیا

اس بازار کا نقشہ دیکھو۔ بیچوں بیچ نہر بہتی ہے۔ دو رویہ گھنے سایہ دار درخت، آم، جامن، گولر، مولسری، نیم، پیپل، برگد۔ ان کی چھاؤں میں رنگ رنگ کی سواری دوڑتی نظر آئے گی۔ پالکی، نالکی، رتھ۔ رتھوں کی کیا شان تھی۔ ان میں جتے بیلوں کے سینگوں پر سنہری سنگھوٹھیاں چڑھی ہوئیں۔ گلوں میں پیتل کی گھنٹیاں بجتی ہوئیں۔ وقتاً فوقتاً اس راہ سے شاہی سواری گذرتی۔ شاہی سواری کے ہاتھیوں کی کیا شان تھی۔ پشت پر سنہری ہودے سجے ہوئے، زربفت اور بانات کی جھولیں پڑی ہوئیں۔ گذرگاہ کے دائیں بائیں دکانیں قطار اندر قطار۔ مال و اسباب سے بھری ہوئی۔ ہزاری بزاری۔ ایک تو بزاریوں کی رنگ برنگی پوشاکیں۔ پھر دکانوں کے آگے بانسوں کے سہارے رنگ برنگے پردے لہراتےہوئے۔ ہر طرف رنگ ہی رنگ۔

مگر سب بازار، سب کوچے سب چوک ایک طرف اور چوک جامع مسجد ایک طرف۔ شاہجہان نے کیا خوب مسجد بنائی تھی کہ وہ دلی کا دل بن گئی۔ ایسا دل جہاں مذہب اور کلچر گلے ملتے نظر آتے تھے۔ شہر کی مرکزی عبادت گاہ بھی یہی تھی اور شہر کا ثقافتی مرکز بھی یہی تھا۔ اندر نمازیوں کی صفیں آراستہ ہیں اور رکوع و سجود ہو رہے ہیں۔ باہر سیڑھیوں پر انڈے لڑائے جا رہے ہیں۔ داستانِ امیر حمزہ سنائی جا رہی ہے۔ کبوتر باز اور لال پدڑیوں کے رسیا اپنی پسند کے پرندے خرید رہے ہیں۔ چٹورے حلیم شریف اور کباب مزے لے لے کر کھا رہے ہیں۔ مگر مشاغل رنگا رنگ ہیں اور سیڑھیاں بہت ہیں۔ سو سیڑھیوں کے بیچ ان کی تقسیم ہوگئی ہے۔

مسجد کے تین دروازے ہیں اور ان کے حساب سے سیڑھیوں کے تین سلسلے ہیں اور ان کے رو برو اس زمانے میں تین بازار تھے۔ جنوبی دروازہ چتلی قبر کے بازار کی طرف کھلتا تھا۔ اس طرف تینتیس سیڑھیاں ہیں۔ دن ڈھلنے کے ساتھ ان سیڑھیوں پر چہل پہل شروع ہوتی تھی۔

اب شمالی دروازے کی طرف آئیے۔ یہ دروازہ پائے والوں کے بازار کی طرف کھلتا تھا۔ اس طرف انتالیس سیڑھیاں ہیں۔ کبابی اس طرف بھی بیٹھے نظر آتے ہیں، مگر ان سیڑھیوں پر اصل قبضہ مداریوں اور قصہ خوانوں کا تھا۔ دن ڈھلنے لگا ہے اور لی جیے ایک قصہ خواں نمودار ہوتے ہیں۔ مونڈھا بچھا کر بیٹھ جاتے ہیں اور شروع کرتے ہیں داستانِ امیر حمزہ۔

اب شرقی دروازے کی طرف آ جائیے۔ وہ خاص بازار کی طرف کھلتا تھا۔ اس دروازے کے آگے پینتالیس سیڑھیاں ہیں۔ یہ سیڑھیاں اپنے گذری بازار کے لیے مشہور تھیں۔

ادھر دن ڈھلا اور ادھر ان سیڑھیوں پر گذری کا بازار سجنا شروع ہوا۔ رنگوں کی بہار دیکھنی ہو تو ان سیڑھیوں پر جاؤ اور گذری میں رنگوں کی بہار دیکھو۔ بزاز رنگ رنگ کے کپڑے لیے بیٹھے ہیں۔ تھان الگ رکھے ہیں۔ الگنیوں پر پڑے الگ لہرا رہے ہیں۔

انہیں سیڑھیوں پر کہیں کوئی واعظ وعظ دیتا نظر آئے گا اور کوئی عطائی دوائیں بیچتا دکھائی دے گا۔ اور ہاں شعر و شاعری کے رسیا بھی یہاں محفل سجائے نظر آئیں گے۔ اور یہی تو وہ سیڑھیاں ہیں جہاں سرمد نے ڈیرا ڈال رکھا تھا۔ ایک روایت یوں ہے جو خلیق احمد نظامی نے نقل کی ہے کہ ایک شام یہاں سرخوشؔ، ناصر ؔہندی اور بیدلؔ بیٹھے شعر پڑھ رہے تھے۔ کہیں اس طرف سے سرمد کا گذر ہوا۔ وہ مردِ مجذوب ان شاعروں کو شاعری کا شغل کرتے دیکھ کر ٹھٹکا۔ پھر یہ شعر پڑھا۔

دیر است کہ افسانۂ منصور کہن شد

اکنوں سرِ نو جلوہ دہم دار و رسن را

اور آگے بڑھ گیا۔اور ہاں یہی تو وہ سیڑھیاں ہیں جہاں کی بولی ٹھولی سے میر صاحب اپنی زبان کی سند لیتے تھے۔ (دلی تھا جس کا نام، انتظار حسین، سنگ میل پبلیکیشنز، 2003 لاہور، صفحہ 53 تا 57)

(مرتبّہ: مدبّر احمد خان)

(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ فروری 2024ء صفحہ 46)

متعلقہ مضمون

  • قصہ داڑھ کے درد کا

  • ایک شہر پانچ ہنگامے

  • دِلّی جو ایک شہر تھا

  • رسالہ ’’ساقی‘‘کا پہلا اداریہ