مکرم صداقت احمد صاحب مبلغ انچارج جرمنی

تقریر برموقع جلسہ جرمنی 2023ء

 

اللہ تعاليٰ جب بني نوع انسان کي ہدايت کے لئے نبي بھيجتا ہے توان کي اور ان کو ماننے والوں کي تائيدونصرت فرماتا ہے۔ ان کے دشمن ناکام ونامراد رہتے ہيں۔ يہي وہ سنّت اللہ ہے جو ازل سے جاري ہے ۔اللہ تعاليٰ اپني اس سنّت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ اِنَّا لَنَنۡصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا فِي الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَيَوۡمَ يَقُوۡمُ الۡاَشۡہَادُ۔ (سورة المؤمن:52)

نيز فرمايا:

کَتَبَ اللہُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيۡؕ اِنَّ اللہَ قَوِيٌّ عَزِيۡزٌ (المجادلة:22)

اس زمانے ميں اللہ تعاليٰ نے حضرت مسيح موعود کو آنحضرتﷺ کے بروز کے طور پر بھيجا ہے تو بھي اللہ تعاليٰ کے يہ جاري سنّت دہرائي گئي۔ خدائے قادر و مقتدر کي تائيد و نصرت شروع سے ہي آپ اور آپ کي جماعت کے شامل حال رہي۔ ہر ديوار جو آپ کي کاميابي کي راہ ميں کھڑي کي گئي خدا کے فضل سے منہدم ہوئي اور ہر مشکل جس ميں آپ کو مبتلا کرنے کي کوشش کي گئي مشکل کشا خدا نے معجزانہ طور پر اپني قدرت کا ہاتھ دکھاتے ہوئے اس کو دور کرديا۔ آپ خداتعاليٰ کي گود اور اس کي حفاظت کے سائے ميں ترقيات پر ترقيات حاصل کرتے چلے گئے۔ آپ اپنے منظوم کلام ميں فرماتے ہيں

اِبتدا سے تيرے ہي سايہ ميں ميرے دن کٹے

گود ميں تيري رہا مَيں مثلِ طفلِ شير خوار

اِک قطرہ اُس کے فضل نے دريا بنا ديا

مَيں خاک تھا اُسي نے ثريّا بنا دِيا

اسلام کا تمام اديان پر غالب آنا ايک الٰہي تقدير ہے اور تمام مفسرين اس بات پر متفق ہيں کہ يہ غلبہ آخري زمانے ميں مسيح موعود کے ذريعہ سے ہوگا۔ چنانچہ اللہ تعاليٰ نے حضرت مسيح موعود کو اُس وقت جبکہ آپ گوشۂ گمنامي اور کمزوري کي حالت ميں زندگي گزار رہے تھے الہاماً غلبہ، فتوحات اور ترقيات کي خبريں ديں۔ علام الغيوب خدا سے خبر پا کر آپ نے اعلان فرمايا:

’’خداتعاليٰ نے مجھے بار بارخبر دي ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور ميري محبّت دلوں ميں بٹھائے گا اور ميرے سلسلہ کو تمام زمين ميں پھيلا ئے گا اور سب فرقوں پر ميرے فرقہ کو غالب کرے گا…… ہر ايک قوم اس چشمہ سے پاني پيئے گي اور يہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا يہاں تک کہ زمين پر محيط ہو جاوے گا…… خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمايا کہ مَيں تجھے برکت پر برکت دوں گا يہاں تک کہ بادشاہ تيرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈيں گے۔ سو اے سننے والو ان باتوں کو ياد رکھو اور ان پيش خبريوں کو اپنے صندوقوں ميں محفوظ رکھ لو کہ يہ خدا کا کلام ہے جو ايک دن پورا ہوگا‘‘۔

(تجليات الہٰيہ، روحاني خزائن جلد 20 صفحہ 409)

عالم کشف ميں وہ بادشاہ آپ کو دکھائے بھي گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے اور چھ سات سے کم نہ تھے۔ اسي طرح اللہ تعاليٰ نے آپ کو مخاطب کرکے فرمايا:

’’مَيں تيري تبليغ کو زمين کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘۔

يہ پيشگوئياں تو عمومي غلبہ کا رنگ رکھتي ہيں کہ آپ کي جماعت اور آپ کي تبليغ ساري دنيا ميں پھيل جائے گي۔ اُس زمانے ميں يہ باتيں دور از قياس نظر آتي تھيں۔ ليکن ہم سب اس بات کے گواہ ہيں کہ اُس گمنام بستي سے نکلني والي آواز آج ساري دنيا ميں گونج رہي ہے اورخدا کے وعدوں کو ہم بڑي شان کے ساتھ پورا ہوتے ہوئے ديکھ رہے ہيں۔ آپ اپنے تعارف کے حوالے سے اپنے منظوم کلام ميں فرماتے ہيں۔

مَيں تھا غريب و بيکس و گُم نام و بے ہُنر

کوئي نہ جانتا تھا کہ ہے قادياں کِدھر

لوگوں کي اِس طرف کو ذرا بھي نظر نہ تھي

ميرے وجود کي بھي کِسي کو خبر نہ تھي

اب ديکھتے ہو کيسا رجوعِ جہاں ہوا

اِک مرجع خواص يہي قادياں ہوا

اس روحاني انقلاب کي جھلک دکھاتے ہوئے آپ نے بعض قوموں کا نام لے کر بھي ذکر فرماياہے کہ خدا ان ميں آپ کے سلسلہ کو پھيلا دے گا اور بالآخر وہ اسلام کي سچائي کي قائل ہو کر آپ کي جماعت ميں شامل ہو جائيں گي۔ زار روس کا عصا آپ نے اپنے ہاتھوں ميں ديکھا۔ اسي طرح روس ميں اللہ تعاليٰ نے آپ کو اپني جماعت ريت کے ذروں کي طرح دکھائي۔ اسي طرح آپ نے اہلِ مکہ کےفوج در فوج خدائے قادر کے گروہ ميں شامل ہونے اور صلحاء عرب اور شام كے ابدال کے آپ کو قبول کرنے اور آپ پر درود بھيجنے کا ذکر فرماياہے۔ يورپ اور مغربي اقوام کے بارے ميں بھي اللہ تعاليٰ نے آپ کو خبر دي کہ انہيں اسلام سے حصہ ملے گا اور اُن کے دل آفتاب صداقت سے منور کئے جائيں گے۔

آپ نے ايک دفعہ رؤيا ميں ديکھا کہ آپ لندن شہر ميں ہيں اور انگريزي زبان ميں نہايت مدلل بيان سے اسلام کي صداقت بيان فرما رہے ہيں۔ پھر اس کے بعد آپ نے ديکھا کہ آپ نے بہت سے سفيدپرندوں کو پکڑاہے۔ آپ نے اس کي تعبير يہ فرمائي کہ اگرچہ آپ خود تو نہيں مگر آپ کي تحريريں مغربي اقوام ميں پھيليں گي اور بہت سے سفيد لوگوں کو اسلام ميں داخل ہونے کي توفيق ملے گي۔

پھر آپ فرماتے ہيں:

’’يورپ اور امريکہ کے لوگ ہمارے سلسلہ ميں داخل ہونے کي تياري کر رہے ہيں اور اس سلسلہ کو بڑي عظمت کي نگاہ سے ديکھتے ہيں‘‘۔

(براہين احمديہ حصہ پنجم، روحاني خزائن جلد صفحہ 107)

آپ اپنے منظوم کلام ميں فرماتے ہيں

آ رہا ہے اِس طرف احرارِ يورپ کا مزاج

نبض پھر چلنے لگي مُردوں کي ناگہِ زندہ وار

کہتے ہيں تثليث کو اب اہلِ دانش اَلْوِدَاع

پھر ہوئے ہيں چشمۂ توحيد پر از جاں نِثار

يہ غلبہ اور فتوحات بندوق يا تلوار کےزورسے نہيں بلکہ يہ دلائل اور دعا کے ہتھيار سے ہوں گي۔ جيسا کہ اللہ تعاليٰ قرآنِ کريم ميں فرماتا ہے ہُوَ الَّذِيۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰي وَدِيۡنِ الۡحَقِّ لِيُظۡہِرَہٗ عَلَي الدِّيۡنِ کُلِّہٖ (الفتح:29) يعني اس نے ہدايت اور دين حق ديکر آنحضرتﷺ کودنيا ميں اِس مقصد کےلئے بھيجا ہے تاکہ اسلام کو سارے دينوں پر غالب کرے نہ کہ سارے ملکوں پر۔ ہمارا مشن ملکوں کو نہيں بلکہ دلوں کو جيتنا ہے۔ يہي وہ بات ہے جس کا تذکرہ حضرت خليفةالمسيح الثالث رحمہ اللہ نے زيورخ ميں ٹي وي کو انٹرويو ديتے ہوئے کيا تھا۔ جب صحافي نے سوال کيا کہ آپ يورپ ميں اپنا مشن کيسے سر انجام ديں گے۔

How do you conduct your mission in europe.

اس پر حضور نے بَرجستہ جواب ديا کہ

We try to win the hearts.

يعني ’’ہم دلوں کو جيتنے کي کوشش کريں گے‘‘۔

حضرت مسيح موعودؑ فرماتے ہيں

ملک سے مجھ کو نہيں مطلب نہ جنگوں سے ہے کام

کام ميرا ہے دلوں کو فتح کرنا نَے ديار

مجھ کو کيا ملکوں سے ميرا مُلک ہے سب سے جُدا

مجھ کو کيا تاجوں سے ميرا تاج ہے رضوانِ يار

يورپ صديوں سے ماديت اور مسيحيت کا گڑھ ہے اِس کا مسلمان ہونا لا ريب اسلام کي ايک بہت بڑي فتح ہے۔ حضرت مسيح موعودؑ کي دلي تمنّا تھي کہ يورپ ميں جلد سے جلد اسلام کي اشاعت ہو۔ اس حوالے سے آپ کے دل ميں جو تڑپ تھي اُس کا اندازہ اس روايت سے بخوبي ہوتا ہے۔

حضرت مفتي محمد صادق صاحب بيان کرتے ہيں کہ ايک دفعہ جب ميں حضرت مسيح موعودؑ کي خدمت ميں حاضر تھا تو آپ کے کمرہ کا دروازہ زور سے کھٹکا اور سيّد آلِ محمدؐ صاحب امروہوي نے آواز دي کہ حضور ميں ايک نہايت عظيم الشان فتح کي خبر لا يا ہوں۔ حضرت صاحب نے مجھ سے فرمايا کہ آپ جاکر ان کي بات سن ليں کہ کيا خبر ہے۔ ميں گيا اور سيد آل محمد صاحب سے دريافت کيا انہوں نے کہا کہ فلاں جگہ مولوي سيد محمد احسن صاحب امروہوي کا فلاں مولوي سے مباحثہ ہوا تو مولوي صاحب نے اُسے بہت سخت شکست دي۔ اور بڑا رگيدا۔ اور وہ بہت ذليل ہوا وغيرہ وغيرہ۔ اور مولوي صاحب نے مجھے حضرت صاحب کے پاس روانہ کيا ہے کہ جاکر اس عظيم الشان فتح کي خبر دوں۔ مفتي صاحب نے بيان کيا کہ ميں نے واپس آکر حضرت صاحب کے سامنے آل محمد صاحب کے الفاظ دہرا ديئے۔ حضرت صاحب ہنسے اور فرمايا۔ (کہ ان کے اس طرح دروازہ کھٹکھٹانے اور فتح کا اعلان کرنے سے) ’’مَيں سمجھا تھا کہ شايد يورپ مسلمان ہو گيا ہے‘‘۔ مفتي صاحب کہتے تھے کہ اس سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت اقدسؑ کو يورپ ميں اسلام قائم ہو جانے کا کتنا خيال تھا۔

(حوالہ سيرت المہدي جلد اوّل صفحہ 273)

يورپي اقوام ميں سے جرمن قوم غيرمعمولي مقام رکھتي ہے اور اس کا کريکٹر بہت بلند ہے۔ آپ نے جہاں دوسري اہم قوموں کو اسلام کي طرف دعوت دي وہاں جرمن قوم کي اہميت اور عظمت کے پيش نظر اس عظيم قوم کو بھي اسلام کي حقيقي تعليم سے متعارف کرانا ضروري سمجھا۔ آپ نے نہ صرف اس قوم کے پادريوں اور پيشواؤں کو خطوط اور اشتہارات ارسال فرمائے بلکہ آپ کي آواز کي بازگشت جرمني کے ايوانوں ميں بھي سنائي دي۔ اس لحاظ سے جرمني اللہ تعاليٰ کے فضل سے اُن خوش قسمت ممالک کي فہرست ميں شامل ہے جہاں حضرت مسيح موعود نے اپنے دست مبارک سے اسلام کا زندگي بخش پيغام پہنچايا۔

آپ نے اپنے دعويٰ سے بھي بہت پہلے 1885ء ميں جرمن شہزادہ بسمارک کو ايک خط کے ذريعہ اسلام کي دعوت دي۔ جرمني ميں آپ کي تبليغ کا اس قدر چرچا تھا کہ صوبہ بائرن کے ايک قصبہ Passing کي ايک خاتون مسز کارولامن نے 1907ء ميں حضرت مسيح موعود کي خدمت ميں ايک مخلصانہ خط لکھا اور پوچھا کہ وہ دنيا کے اس حصہ ميں آپکي کيا خدمت کر سکتي ہيں۔ اسي طرح اس نے آپ کو اپنا فوٹو بھجوانے کي درخواست کي اور لکھا کہ پيارے مرزا صاحب ميں آپ کي مخلص دوست ہوں۔ حضرت مفتي محمد صادق صاحبؓ نے لکھا ہے کہ حضرت مسيح موعودؑ نے انہيں جرمن زبان سيکھنے کي ہدايت فرمائي تھي۔

خلافت اوليٰ ميں برطانيہ ميں تو جماعت کا مشن قائم ہوچکا تھا۔ ليکن جرمني ابھي اس سعادت سے محروم تھا۔ پہلي جنگ عظيم کے بعد حضرت خليفةالمسيح الثاني نے جرمني ميں بھي مشن کھولنے کا فيصلہ فرمايا۔ 1922 ميں مولوي مبارک علي صاحب بنگالي لنڈن سے جرمني بھجوائے گئے اور انھوں نے اپني مساعي کا آغا ز برلن سے کيا۔ اس کے بعد جلد ہي ملک غلام فريد صاحب ايم اے کو بھي جرمني بھجوادياگيا ان دونوں کے ذريعہ دسمبر 1923 ميں جرمني ميں مشن قائم ہوا۔ يہ يورپ ميں قائم ہونے والا جماعت احمديہ کا دوسرا مشن تھا۔ برلن ميں مسجد کي تعمير کے لئے نہ صرف پلاٹ خريدا گيا بلکہ مسجد کا سنگ بنياد بھي رکھ ديا گيا۔ مگر اللہ تعاليٰ کو کچھ اور ہي منظور تھا۔ جرمني کے سياسي اور معاشي حالات يکا يک بدل گئے۔ کساد بازاري عام ہوگئي اور قيمتوں ميں کئي سو گنا اضافہ ہو گيا۔ ان حالات ميں حضرت مصلح موعودؓ نے برلن ميں مسجد تعمير کرنے کا کام ملتوي کرديا اور مبلغين سلسلہ کو جرمني سے واپس بلا ليا۔

2023ء کا سال جماعت احمديہ جرمني کے ليے خصوصي اہميت کا حامل ہے کہ يہ ہمارا صدسالہ جوبلي کا سال ہے اور اسے ہم اظہارِتشکر کے طور پر منا رہے ہيں۔ ہمارا يہ سو سالہ سفر خداتعاليٰ کي غير معمولي تائيد و نصرت اور اس کي حفاظت کے سائے ميں گزرا۔ اس دوران اللہ تعاليٰ نے ہميں بےشمار ترقيات سے نوازا ہے اور اس کے افضال اور عنايات کي موسلا دھار بارش ہم پر مسلسل ہوتي رہي۔ ان افضال کا شمار ہماري طاقت سے باہر ہے۔ جيسا کہ وہ خود فرماتا ہے کہ وَاِنۡ تَعُدُّوۡا نِعۡمَتَ اللہِ لَا تُحۡصُوۡہَا (ابراھيم:35) کہ تم اگر خدا کي نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو ان کو شمار نہيں کر سکو گے۔ کسي نے کيا خوب کہاہے۔

گزرے ہوئے سو سال کي تاريخ گواہ ہے

سائے کي طرح سايہ فگن ہم پہ خدا ہے

1939ء ميں جرمني نے پولينڈ پر قبضہ کرليا اور دوسري جنگ عظيم چھڑ گئي۔ جون 1940ء ميں جرمني نے فرانس پر قبضہ کرليا۔ برٹش ايمپائر کا مرکز لندن بھي نازي بمبار طياروں کي زَد ميں آگيا۔ جرمن فوجيں بڑي تيزي کے ساتھ آگے سے آگے بڑھنے لگيں عين اس وقت جب کسي کے وہم وگمان ميں بھي نہيں آسکتا تھا کہ جرمني کو شکست ہوسکتي ہے۔ حضرت مصلح موعود نے 13 اپريل 1941ء کو مجلس مشاورت کے ممبران سے خطاب کرتے ہوئے فرمايا کہ جناب الٰہي کي طرف سے مجھے بتايا گيا ہے کہ اس جنگ ميں خداتعاليٰ کا دَخل ہے اور جس جنگ ميں خداتعاليٰ کا دخل ہو اس کا نتيجہ احمديت کے لئے مضر نہيں ہو سکتا۔ مَيں تو سمجھتا ہوں کہ اگر اس جنگ ميں جرمني کو شکست ہوئي تو اس کے بعد احمديت کا بہترين مقام جرمني ہوگا۔

چنانچہ جنگ عظيم دوئم ميں جرمني کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جنگ کے بعد اشاعت اسلام کے لئے جونہي حالات سازگار ہوئے تو فوري طور پر حضرت مصلح موعودؓ نے جرمني ميں تبليغي مشن کا اَز سر نَو احياء کرنے کي غرض سے تين مبلغين مکرم چودھري عبداللطيف صاحب، مکرم شيخ ناصر احمد صاحب اور مکرم غلام احمد بشيرصاحب کو بھجوايا۔ جرمن حکومت نے ان مبلغين کو جرمني ميں داخل ہونے سے روک ديا۔ گو محترم شيخ ناصر احمد صاحب وقفہ وقفہ سے ہفتہ، دو ہفتہ کے ليے جرمني کا دَورہ کرتے رہے۔ تاہم مستقل ويزا طويل انتظار کے بعد چودھري عبداللطيف صاحب کو ملا اور آپ 20 جنوري 1949ء کو مستقلاً جرمني تشريف لے آئے اور 25 سال کے لمبے وقفہ کے بعد آپ کے ذريعہ جرمني ميں اسلامي مشن کا احياء عمل ميں آيا اور اس طرح حضرت مصلح موعودکي ديرنيہ خواہش پوري ہوئي، الحمدللہ عليٰ ذٰلک

چودھري صاحب نے ہمبرگ سے اپنے کام کا آغاز کيا اور وہاں 8 افراد پر مشتمل جرمني کي پہلي جماعت قائم ہوئي۔ آپ کو چرچ کي طرف سے شديد مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ چرچ مخالفت کيوں نہ کرتا۔ صديوں تک تو انھوں نے اپنے جھوٹے عقائد کے خلاف نہ کوئي زبان ہلتي ديکھي اور نہ کوئي قلم چلتي ديکھي تھي۔ آج مبلغين اسلام نے ان کے ايمانوں کي جڑوں پر تبر رکھ ديا تھا اور مسيح محمدي کے سپاہي زبان اور قلم سے ان کے عقيدوں کا بطلان کرنے لگے تھے۔ وہ کب برداشت کر سکتے تھے کہ مسيح موسوي کي خدائي کا بت جو انہوں نے اپنے دلوں ميں بسايا ہوا تھا کوئي اس کو توڑے۔

شروع شروع ميں جرمن لوگ سمجھتے تھے کہ احمديوں کي يہ تبليغي سرگرمياں چند روز کا کھيل ہيں۔ وہ ہمارے مبلغين کي حوصلہ شکني کرتے اور ان کي باتيں ہنسي ميں اُڑا ديتے اور سمجھتے تھے کہ ان کے اس رويہ سے جلد وہ جرمن قوم سے مايوس ہو کر اپنے ملک واپس چلے جائيں گے اور احمديت کا يہ ننھا پودا جلد سوکھ جائے گا۔ ايک کيتھولک اخبار نے تو يہاں تک لکھ ديا کہ مغرب ميں زيادہ کاميابي کي اميد نہ رکھيں بہتر يہي ہے کہ اپنا بوريا بستر ابھي سے باندھ ليں اور واپسي کي ٹھان ليں۔

انہيں کيا معلوم تھا کہ يہ مسيح محمدي کے سپاہي ہيں جن کي سرشت ميں ناکامي کا خمير نہيں اور وہ خداتعاليٰ کي طرف سے کئے گئے فتوحات کے وعدوں پر کامل ايمان اور پختہ يقين رکھتے ہيں اور جانتے ہيں کہ يہ سفيد پرندے ايک دن مسيح محمدي کے پيغام کو ضرور قبول کريں گے اور احمديت کا يہ پودا جو خدا کے ہاتھ کا لگايا ہوا پودا ہے ايک دن شجر سايہ دار کي صورت اختيار کر جائے گا۔ پس دعوت اسلام کا يہ کام جاري رہا۔ احمدي مبلغ کي محنت رنگ لائي اور نيورن برگ ميں تين جرمن احباب کو احمديت قبول کرنے کي سعادت حاصل ہوئي اور اس طرح وہاں جرمني کي دوسري جماعت قائم ہوئي۔ چودھري عبداللطيف صاحب مسلسل 10 سال تک تن تنہا جرمني ميں دعوت الي اللہ کا فريضہ سرانجام ديتے رہے۔

اس دوران 1955 ميں حضرت خليفةالمسيح الثانؓي نے جرمني کا دورہ کيا۔ 1957ء ميں ہمبرگ مسجد فضل عمر اور پھر1959ء ميں فرانکفرٹ ميں مسجد نور کي تعمير عمل ميں آئي۔ يہ دونوں مساجد اپنے اپنے شہر کي اوّلين مساجد کے طور پر رجسٹرڈ ہيں۔ متعدد کتب کے جرمن تراجم شائع ہوئے۔ جرمن ترجمہ قرآن کريم پہلي بار 1954ء شائع ہوا اور بہت جلد ختم ہو جانے پر اس کا دوسرا ايڈيشن 1959ء ميں طبع ہوا۔ آپ نے جرمني کے صدر، چانسلر اور ديگر کئي اہم سياسي اور سماجي اور علمي شخصيات تک رسائي حاصل کي۔ مسجد فضل عمر افتتاح کے موقع پر حضرت خليفةالمسيح الثانيؓ نے جو پيغام بھيجا اس ميں آپ نے فرمايا:

’’خدا کرے جرمن قوم جلد اسلام قبول کرے اور اپني اندروني طاقتوں کے مطابق جس طرح وہ يورپ ميں ماديت کي ليڈر ہے روحاني طورپر بھي ليڈر بن جائے…۔ بلکہ (ہم) چاہتے ہيں کہ ہزاروں لاکھوں مبلغ جرمني سے پيدا ہوں اور کروڑوں جرمن باشندے اسلام کو قبول کريں تا اسلام کي اشاعت کے کام ميں يورپ کي ليڈري جرمن قوم کے ہاتھ ميں ہو‘‘۔

(الفضل 24 جون 1957ء)

1934ء ميں احرار کي طرف سےجو فتنہ پيدا کيا گيا اس کے بعد حضرت مصلح موعود نے 10 جنوري 1936ء کو خطبہ جمعہ ميں احمديوں کو دنيا ميں پھيل جانے کي تحريک فرمائي۔ فرمايا کہ يہ فتنہ تمہيں بيدار کرنے کے لئے پيدا کيا گيا ہے۔ اگر تم سو گئے تو ياد رکھو کہ اگلي شورش پہلے سے سخت ہوگي۔ خداتعاليٰ چاہتا ہے کہ تمہيں دنيا ميں پھيلائے۔ اگر تم دنيا ميں نہ پھيلے اور سو گئے تو وہ تمہيں گھسيٹ کر جگا ئے گا اور ہر دفعہ کا گھسيٹنا پہلے سے زيادہ سخت ہوگا۔ پس پھيل جاؤ دنيا ميں۔ پھيل جاؤ مشرق ميں پھيل جاؤ مغرب ميں۔ پھيل جاؤ شمال ميں۔ پھيل جاؤ جنوب ميں۔ پھيل جاؤ يورپ ميں۔ پھيل جاؤ امريکہ ميں۔ پھيل جاؤ افريقہ ميں۔ پھيل جاؤ جزائر ميں…… پھيل جاؤ دنيا کے کونے کونے ميں۔ يہاں تک کہ کوئي گوشہ دنيا کا اور کوئي ملک دنيا کا اور کوئي علاقہ دنيا کا ايسا نہ ہو جہاں تم نہ ہو۔ مزيد فرمايا کہ ہماري جماعت کے لوگ اگر دنيا ميں پھيل جائيں گے تو وہ خود بھي ترقيات حاصل کريں گے اور اُ ن کي ترقيات سلسلہ پر بھي اثر انداز ہوں گي۔ جو قوميں دنيا ميں نکليں خدا نے اُ ن کو عزت دي حالانکہ ان کے ساتھ نصرت کا وعدہ نہيں تھا۔ تمہارے ساتھ تو وعدہ ہے خدا کا کہ تمہيں دنيا ميں غلبہ ديا جائے گا۔ پس اگر تم اس غرض کے لئے باہر نکلتے ہو تو تم وہ کام کرتے ہو جس کے متعلق آسمان پر فرشتے تيارياں کر رہے ہيں جب تم دنيا کے ممالک ميں نکل جاؤ گے تو خداتعاليٰ کے فرشتے تم پر برکتيں نازل کريں گے۔ اور تم جو کام بھي کرو گے خواہ وہ بظاہر دنيا کا نظر آتا ہو۔ اس کے بدلہ ميں تم ثواب پاؤ گے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جنوري 1936ء)

جہانِ نَو کے حسين اور پائيدار نقشے ان شاءاللہ عنقريب يورپ ميں ابھرنے والے ہيں اور ان کي تکميل کي خاطر اللہ تعاليٰ نے پاکستاني احمديوں کو 1953 پھر 1974 اور پھر 1984 ميں يک بعد ديگرے جھٹکے دئيے اورہر دفعہ کا جھٹکا پہلے سے زيادہ سخت تھا۔ 1974ء کے فسادات کے بعد احمديوں نے مغربي ممالک کا رخ تو کيا مگر محدود تعداد ميں۔ اس سے جرمني ميں جماعت کو کسي حد تک تقويت ملي۔ 1984 ميں لگنے والا جھٹکا اتنا شديد تھا کہ خداتعاليٰ نے گويا گھسيٹ کر احمديوں کو بيدار کيا اور اس کي تقدير نے انہيں ہجرت کرنے پر مجبور کرديا۔ خلافت احمديہ کو بھي پاکستان چھوڑ کر انگلستان منتقل ہونا پڑا۔ ہر احمدي چونکہ خلافت کا فدائي ہے اورخليفہ وقت کے ساتھ انتہائي محبت کا تعلق رکھتا ہے۔ اس وجہ سے احمديوں نے بھي بڑي تيزي کے ساتھ دنيا کے مختلف ممالک کي طرف نقل مکاني شروع کردي۔ اس ہجرت کے ذريعہ اللہ تعاليٰ نے ساري دنيا ميں مخلص احمديوں کي تخم ريزي کي اور انہيں مشرق و مغرب ميں پھيلا ديا تاکہ ان کے ذريعہ ہر ملک ميں احمديت کي ترقي اور فتوحات کي بنياد رکھي جاسکے۔ ان مہاجرين ميں سے ايک بھاري تعداد کي منزل جرمني تھي اور جرمن حکومت نے بھي ان مہاجرين کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے کھلے دل کے ساتھ ان کو قبول کيا۔ اس ہجرت کے نتيجہ ميں جرمني کے طول وعرض ميں بڑي تيزي کے ساتھ جماعتيں قائم ہوئيں اور ترقيات کا ايک نيا دور شروع ہوا۔ اللہ تعاليٰ نے خلفاء سلسلہ پر يہ بات ظاہر فرمائي کہ يورپ ميں سب سے پہلے جرمني نے اسلام قبول کرنا ہے اور پھر سارے يورپ کي اس قوم نے قيادت کرني ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ اس حوالے سے خوشخبري ديتے ہوئے فرماتے ہيں:

’’جرمن قوم اس زندہ روح کے ساتھ ضرور جلد از جلد اسلام کو جو خود اس روح کو بلند کرنے کے لئے تعليم ديتا ہے قبول کرے گي‘‘۔

1949 ميں رتن باغ لاہور ميں حضرت مصلح موعودؓ نے جرمن قوم کي ڈپلوميسي ميں مسلسل ناکامي کي وجہ بيان کرتے ہوئے فرمايا:

’’ميرے نزديک اس کي وجہ يہ ہے کہ خداتعاليٰ اس قوم ميں اسلام پھيلانا چاہتا ہے اور چونکہ اس قوم ميں اسلام پھيلنا ہے اس لئے جب بھي وہ کسي دنياوي ترقي کے لئے کوشش کرتي ہے ناکام رہتي ہے…… جس طرح اٹلي کو يہ فوقيت حاصل ہے کہ اس نے ابتداء ميں عيسائيت کو قبول کيا اور اس کے بعد عيسائيت کو تمام يورپ ميں پھيلايا اسي طرح اسلام کے لئے تو کوئي نہ کوئي ملک مقدر ہوگا جو اسلام کو قبول کرکے اسے آگے تمام يورپ ميں پھيلائے۔ ميں خيال کرتا ہوں کہ وہ ملک جرمني ہے۔ پچھلے سو سال کے عرصہ ميں جب بھي انہوں نے آگے بڑھنے کي کوشش کي ہميشہ ناکام رہے۔ خداتعاليٰ چاہتا ہے کہ يہ مذہب کو ليڈ کريں…… مَيں سمجھتا ہوں کہ جب اس قوم ميں اسلام پھيلے گا وہ اسلام کے لئے ہر ممکن قرباني کرے گي‘‘۔ (انوارالعلوم جلد 21 صفحہ 69)

حضرت خليفةالمسيح الثالث رحمہ اللہ تعاليٰ نے ايک رؤيا ميں جرمن حکمران کو ديکھا جو آپ کو کہتاہے کہ ’’آئيں ميں آپ کو اپنا عجائب خانہ دکھاؤں۔ چنانچہ وہ آپ کو ايک کمرہ ميں لے گيا جہاں مختلف اشياء پڑي ہيں۔ کمرہ کے وسط ميں ايک پان کي شکل کا پتھر ہے جيسے دل ہوتا ہے اس پتھر پر ’’لَااِلَہٰ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللہِ‘‘ لکھا ہوا ہے۔

حضورؒ نے فرمايا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جرمن قوم اگرچہ اوپر سے پتھر دل يعني دين سے بيگانہ نظر آتي ہے مگر اس کے دلوں ميں اسلام قبول کرنے کي صلاحيت موجود ہے‘‘۔

(روزنامہ الفضل ربوہ10؍اگست 1967ء صفحہ۴)

1973ء ميں جرمني کے دورے کے دوران فرانکفرٹ ميں ايک پريس کانفرنس سے خطاب فرماتے ہوئے حضور نے فرمايا کہ ’’مجھے يقين ہے کہ پچاس سے سو سال کے اندر اندر اِس آسماني انقلاب کو دنيا عموماً اور جرمن قوم خصوصاً تسليم کرلے گي‘‘۔

(روزنامہ الفضل ربوہ 16؍ستمبر 1973ء صفحہ اوّل کالم 3و4)

حضرت خليفةالمسيح الرابع نے ايک موقعہ پر فرمايا:

’’مجھے جرمني کا مستقبل بہت روشن دکھائي ديتا ہے ان شاءاللہ عظيم جرمن قوم تمام يورپ کي تما م پہلوؤں سے قيادت کرے گي۔ گو کہ جرمن قوم عيسائيت قبول کرنے ميں سب سے آخر ميں تھي ليکن ان شاءاللہ اسلام قبول کرنے ميں سب سے پہلے ہوگي‘‘۔

پھر آپ نے فرمايا:

جرمن قوم بڑي مخلص اور فدائي قوم ہے۔ سچي ہے، صاف گو ہے ان ميں چال بازياں نہيں ہيں۔ اس لئے جرمن قوم کے دن پھريں گے اور پھر رہے ہيں۔ اب آگے جا کر بڑي تيزي سے جرمن قوم کي توجہ احمديت کي طرف ہوگي، ان شاءاللہ۔

(مجلس عرفان حضرت خليفةالمسيح الرابعؒ منعقدہ 12 فروري 2000 بحوالہ الفضل ربوہ 8 اکتوبر 2001ء)

حضرت خليفةالمسيح الخامس فرماتے ہيں:

’’ان شاءاللہ اس قوم ميں احمديت پھيلے گي اور جس طرح ہم ديکھ رہے ہيں کہ بہت سے جرمن احمدي اپنے ہم قوموں کے اس ظالمانہ رويے سے شرمندہ ہورہے ہيں۔ آئندہ ان شاءاللہ لاکھوں کروڑوں جرمن احمدي ان لوگوں کے خدا اور انبياء کے بارے ميں غلط نظريہ رکھنے پر شرمندہ ہوں گے۔ جرمن ايک با عمل قوم ہے اور ان شاءاللہ اگر آج کے احمدي نے اپنے فرائض تبليغ احسن طور پر انجام دئيے تو اس قوم کے لوگ ايک عظيم انقلاب پيدا کريں گے‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ 22 دسمبر 2006ء)

اپريل 2017ء کو حضورانور نے فيملي ملاقات کے بعد مکرم عابد خان صاحب کو بلايا اور جو گفتگو ان کے ساتھ کي اس ميں سے ايک حصہ يہ بھي تھا کہ حضورانور نے فرمايا:

’’فکر کي ضرورت نہيں ان دنوں جماعت جرمني اشاعت اسلام کے لئے بنياد رکھ رہي ہے۔ پچھلے چند سالوں ميں ميڈيا ميں جماعت کے متعلق خبروں ميں غيرمعمولي اضافہ ہوا ہے اور اسي طرح لوگوں کي دلچسپي بھي بڑھي ہے۔ پہلي دفعہ اتني بڑي سطح پر جماعت کا تعارف ہوا ہے‘‘۔

حضور نے گفتگو جاري رکھتے ہوئے مزيد فرمايا:

ميري والدہ محترمہ نے بھي خواب ميں ديکھا کہ انہيں جرمني کي کنجياں دي گئيں۔ پس ايک دن جرمني ميں اسلام کا بريک تھرو ہوگا اور بہت سارے مقامي لوگ اسلام کي سچي تعليم کو قبول کرليں گے۔ تاہم اس کے لئے ضروري ہے کہ ہمارے احمدي انتہائي محنت سے کام کريں اور ممکنہ حد تک اس کي بہترين مثال قائم کريں۔

(ڈائري مکرم عابد وحيد خان صاحب، دَورہ جرمني 2017ء)

(باقي آئندہ، ان شاءاللہ)

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • فیصلہ جات مجلس شوریٰ جماعت احمدیہ جرمنی 2024

  • تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے

  • خلافت اور جماعت کے باہمی پیار کا تعلّق