سیّدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس کے اختتامی خطاب برموقع جلسہ سالانہ جرمنی 24 اگست 2008ء کا متن

تشہّد و تعوّذ اور سورة فاتحہ کي تلاوت کے بعد حضورانور نے فرمايا:

آجکل جماعت احمديہ ميں، افرادِ جماعت ميں خلافتِ احمديہ کے سَو سال پورے ہونے پر ہر بچے، جوان، بوڑھے، مرد، عورت کے دل ميں خلافت سے تعلق اور اُس کي اہميت کا احساس پہلے سے کئي گنا بڑھ کر نظر آتا ہے جس کا اظہار زباني بھي اور خطوط ميں بھي بہت زيادہ احباب و خواتين کر رہے ہيں۔ اللہ تعاليٰ کا يہ بہت بڑا احسان ہے کہ اُس نے خلافتِ احمديہ کے سو سالہ سفر کے باوجود حضرت مسيح موعود کي اس پياري جماعت کے افراد کو خلافت سے وفا اور اخلاص اور تعلق ميں بڑھايا ہے۔ پس يہ اس بات کي دليل ہے کہ زمانے کے امام کا يہ دعويٰ کہ خداتعاليٰ نے مجھ سے اپني تائيدونصرت کے شامل حال رہنے کا وعدہ فرمايا ہے، سچا دعويٰ ہے۔ حضرت مسيح موعود کي وفات پر سو سال گزرنے کے بعد بھي افرادِ جماعت اُس رسّي کو مضبوطي سے تھامے ہوئے ہيں بلکہ ہر وقت اُسے مضبوطي سے پکڑنے کي کوشش ميں لگے ہوئے ہيں جس کے پکڑنے کا حضرت مسيح موعود نے خداتعاليٰ سے اطلاع پا کر اپني جماعت کے افراد کو حکم ديا تھا اور نصيحت فرمائي تھي اور يہ اعلان فرمايا تھا کہ يہ قدرتِ ثانيہ جو ميرے بعد آئے گي، يہ خدائي وعدوں کے مطابق دائمي قدرت ہے اور اس سے چمٹے رہ کر ہي ہر فردِ جماعت اللہ تعاليٰ کي تائيد و نصرت کے نظارے بھي ديکھے گا اور اپني روحاني ترقي کي طرف بھي قدم بڑھائے گا، کيونکہ خلافت کي طرف سے ملنے والي ہدايات و نصائح وہي ہوں گي جو خداتعاليٰ نے اپنے آخري نبيﷺ کے ذريعہ سے اب آئندہ تمام زمانوں کے انسانوں کے لئے ہميں بتائي ہيں اور جو قرآنِ کريم کي تعليم اور احاديث کي صورت ميں ہمارے سامنے موجود ہيں ليکن سامنے ہونے کے باوجود دنيا اُنہيں بھلا چکي ہے يا اُس کي جاہلانہ وضاحتيں کرتے ہوئے اور تفسيريں بيان کر کے اُسے بگاڑ ديا ہے۔ اب غيروں کي تفسيريں پڑھ ليں تو بعض آيات کي عجيب مضحکہ خيز قسم کي تفسيريں کي ہوئي ہيں جو کسي کو اسلام کے قريب لانے کي بجائے دور ہٹانے والي ہو ں گي۔ ان تعليمات کا صحيح فہم اور ادراک اس زمانے ميں ہميں حضرت مسيح موعود نے عطا فرمايا ہے اور آپؑ کے بعد خلافتِ احمديہ کے جاري نظام نے اُسے دنيا ميں پھيلانے کي ہميشہ کوشش کي اور کوشش کر رہي ہے اور ان شاءاللہ تعاليٰ ہميشہ يہ کوشش جاري رہے گي۔ کيونکہ جس مقصد کے لئے اللہ تعاليٰ نے آنحضرتﷺ کو مبعوث فرمايا تھا اُس مقصد کو آگے چلانے کے لئے اس زمانے ميں آپ کے عاشقِ صادق کو خداتعاليٰ نے مبعوث فرمايا ہے۔ آنحضرتﷺ کو جب اللہ تعاليٰ نے مبعوث فرمايا تو آپ کے ذريعے يہ اعلان کروايا کہ

قُلْ يَا اَيُّھَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْکُمْ جَمِيْعًا (الاعراف:159)

يعني اے رسول! تو اعلان کر دے کہ اے لوگو! ميں تم سب کي طرف اللہ کا رسول بنا کر بھيجا گيا ہوں۔ اور پھر خاتم النبيين کہہ کر اس بات پر بھي مہر ثبت کر دي کہ اب آپ کے بعد کوئي شرعي نبي نہيں ہو سکتا، اور رہتي دنيا تک صرف اور صرف آپؐ کي شريعت قائم رہے گي جو آپؐ پر اللہ تعاليٰ نے قرآنِ کريم کي صورت ميں اتاري ہے۔

پس اگر اب خداتعاليٰ کا قرب پانے کا کوئي ذريعہ ہے تو آنحضرتﷺ کي ذات ہے۔اب اگر نجات پانے کا کوئي ذريعہ ہے تو آنحضرتﷺ کي غلامي ميں آکر يہ نجات مل سکتي ہے۔ پس آؤ اور خالص ہو کر اُس کي غلامي اختيار کرو کہ اس دَر کے علاوہ اب کوئي راہِ نجات نہيں ہے۔ اور پھر اللہ تعاليٰ نے يہ بتانے کے لئے کہ آپ کا يہ دعويٰ کہ ميں تمام دنيا کے انسانوں کے لئے رسول بنا کر بھيجا گيا ہوں اور ہر زمانے کے انسان کے لئے رسول بنا کر بھيجا گيا ہوں، سچا دعويٰ ہے، يہ بھي اعلان فرمايا کہ ميرے اس نبي کي غلامي ميں ہي وہ مسيح و مہدي مبعوث ہو گا جو ميرے اس رسول کے پيغام کو محفوظ رنگ ميں تمام دنيا تک پھيلائے گا۔ جب وہ ذرائع بھي ميسر آئيں گے جب يہ پيغام پھيلانے ميں کوئي روک مانع نہيں ہو گي۔ اگر زميني روکيں پيدا کر دي جائيں گي تو فضاؤں سے يہ پيغام نشر ہو گا۔ اگر ايک علاقے ميں مخالفت کا زور ہو گا تو دوسرے علاقے ميں احمديت کي لہلہاتي کھيتيوں کے پنپنے کے لئے زرخيز زمينيں ميسر آجائيں گي۔ اگر ايک ملک ميں پابندياں لگيں گي تو دوسرے ملکوں ميں احمديت کے قبول کرنے کي طرف توجہ پيدا ہو گي جو دراصل وہ حقيقي اسلام ہے جسے آنحضرتﷺ لے کر آئے تھے۔

چنانچہ ہم ديکھتے ہيں کہ آج مسيح محمديؐ کے غلام آنحضرتﷺ کے پيغام کو دنيا کے کونے کونے ميں پہنچانے کي کوشش ميں لگے ہوئے ہيں اور کيونکہ اللہ تعاليٰ کي تائيدات کے وعدے بھي حضرت مسيح موعود کے ساتھ ہيں، جن کا حضرت مسيح موعود نے اپنے بے شمار الہامات کي صورت ميں ذکر فرمايا ہے، اس لئے وہ شريعت جو آنحضرتﷺ تمام دنيا کے لئے لے کر آئے تھے، مسيح موعود کے غلاموں کے ذريعہ دنيا کے کونوں کونوں ميں کاميابي سے پھيل رہي ہے۔

حضرت مسيح موعود ايک جگہ فرماتے ہيں کہ:

’’اس وقت کے تمام مخالف مولويوں کو ضرور يہ بات مانني پڑے گي کہ چونکہ آنحضرتﷺ خاتم الانبياء تھے اور آپؐ کي شريعت تمام دنيا کے لئے عام تھي اور آپ کي نسبت فرمايا گيا تھا کہ

وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْن۔

(الاحزاب:41)

اور نيز آپؐ کو يہ خطاب عطا ہوا تھا۔

قُلْ يَا اَيُّھَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْکُمْ جَمِيْعًا (الاعراف:159)

سو اگرچہ آنحضرتﷺ کے عہدِ حيات ميں وہ تمام متفرق ہدايتيں جو حضرت آدمؑ سے حضرت عيسيٰؑ تک تھيں، قرآن شريف ميں جمع کي گئيں، ليکن مضمون آيت

قُلْ يَا اَيُّھَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْکُمْ جَمِيْعًا۔ (الاعراف:159)

آنحضرتﷺ کي زندگي ميں عملي طور پر پورا نہيں ہو سکا کيونکہ کامل اشاعت اس پر موقوف تھي کہ تمام ممالک مختلفہ يعني ايشيا اور يورپ اور افريقہ اور امريکہ اور آبادي دنيا کے انتہائي گوشوں تک آنحضرتﷺ کي زندگي ميں ہي تبليغِ قرآن ہو جاتي۔ اور يہ اُس وقت غير ممکن تھا بلکہ اُس وقت تک تو دنيا کي کئي آباديوں کا ابھي پتہ بھي نہيں لگا تھا اور دور دراز سفروں کے ذرائع ايسے مشکل تھے کہ گويا معدوم تھے، بلکہ اگر وہ ساٹھ برس الگ کر دئيے جائيں جو اس عاجز کي عمر کے ہيں تو 1257 ہجري تک بھي اشاعت کے وسائلِ کاملہ گويا کالعدم تھے۔ اور اس زمانے تک امريکہ کُل اور يورپ کا اکثر حصہ قرآني تبليغ اور اس کے دلائل سے بےنصيب رہا ہوا تھا بلکہ دور دور ملکوں کے گوشوں ميں تو ايسي بےخبري تھي کہ گويا وہ لوگ اسلام کے نام سے بھي ناواقف تھے۔ غرض آيت موصوفہ بالا ميں جو فرمايا گيا تھا کہ اے زمين کے باشندو! ميں تم سب کي طرف رسول ہوں، عملي طور پر اس آيت کے مطابق تمام دنيا کو ان دنوں سے پہلے ہرگز تبليغ نہيں ہو سکي اور نہ اتمامِ حجّت ہوا کيونکہ وسائل اشاعت موجود نہيں تھے۔ اور نيز زبانوں کي اجنبيت سخت روک تھي۔ اور نيز يہ کہ دلائل حقانيت اسلام کي واقفيت اس پر موقوف تھي کہ اسلامي ہدايتيں غير زبانوں ميں ترجمہ ہوں اور يا وہ لوگ خود اسلام کي زبان سے واقفيت پيدا کرليں۔ اور يہ دونوں امر اُس وقت غير ممکن تھے ليکن قرآنِ شريف کا يہ فرمانا کہ وَ مَنْ بَلَغَ (الانعام:20)

يہ اميد دلاتا تھا کہ ابھي اور بہت سے لوگ ہيں جو ابھي تبليغ قرآني اُن تک نہيں پہنچي۔ ايسا ہي آيت وَآخَرِيْنَ مِنْہُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِھِمْ۔ (الجمعة:4)

اس بات کوظاہر کر رہي تھي کہ گو آنحضرتﷺ کي حيات ميں ہدايت کا ذخيرہ کامل ہوگيا مگر ابھي اشاعت ناقص ہے۔ اور اس آيت ميں جو مِنْہُمْ کا لفظ ہے (يعني وَآخَرِيْنَ مِنْہُمْ ميں جومِنْہُم کا لفظ ہے) وہ ظاہر کر رہا تھا کہ ايک شخص اُس زمانہ ميں جو تکميلِ اشاعت کے لئے موزوں ہے، مبعوث ہوگا جو آنحضرتﷺ کے رنگ ميں ہوگا اور اُس کے دوست مخلص صحابہ کے رنگ ميں ہوں گے۔… اُس وقت حسبِ منطوق آيت وَآخَرِيْنَ مِنْہُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعة:4)

اور نيز حسبِ منطوق آيت قُلْ يَا اَيُّھَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْکُمْ جَمِيْعًا (الاعراف:159)

آنحضرتﷺ کے دوسرے بعث کي ضرورت ہوئي اور اُن تمام خادموں نے جو ريل اور تار اور اگن بوٹ اور مطابع اور احسن انتظام ڈاک اور باہمي زبانوں کا علم اور خاص کر ملک ہند ميں اردو نے جو ہندوؤں اور مسلمانوں ميں ايک زبان مشترک ہوگئي تھي آنحضرتﷺکي خدمت ميں بزبانِ حال درخواست کي کہ يا رسول اللہﷺ ہم تمام خدّام حاضر ہيں اور فرض اشاعت پورا کرنے کے ليے بدل و جان سرگرم ہيں۔ آپ تشريف لائيے اوراس اپنے فرض کو پورا کيجئے کيونکہ آپ کا دعويٰ ہے کہ ميں تمام کافہ ناس کے ليے آيا ہوں اور اب يہ وہ وقت ہے کہ آپ اُن تمام قوموں کو جو زمين پر رہتي ہيں قرآني تبليغ کر سکتے ہيں اور اشاعت کو کمال تک پہنچا سکتے ہيں اور اَتمامِ حجّت کے لئے تمام لوگوں ميں دلائل حقانيت قرآن پھيلا سکتے ہيں۔ تب آنحضرتﷺ کي روحانيت نے جواب ديا کہ ديکھو ميں بروز کے طور پر آتا ہوں۔مگرمَيں ملک ہند ميں آؤں گا کيونکہ جوش مذاہب و اجتماع جميع اديان اور مقابلہ جميع ملل ونحل اور امن اور آزادي اسي جگہ ہے‘‘۔

(تحفہ گولڑويہ، روحاني خزائن جلد 17 صفحہ 260 تا 263)

پس ہم وہ خوش قسمت ہيں جو آنحضرتﷺ کے بروز کي اس جماعت ميں شامل ہيں جو آنحضرتﷺ کي تعليم کو نہ صرف اپنے پر لاگو کرنے کا دعويٰ کرتے ہيں بلکہ دنيا ميں بھي اس تعليم کو پھيلانے والے ہيں جو آنحضرتﷺ لے کر آئے تھے۔ ہم خوش قسمت ہيں کہ آج اللہ تعاليٰ نے ہميں وہ ذرائع مہيا فرما دئيے ہيں جن کا حضرت مسيح موعود کي زندگي ميں بھي وجود نہيں تھا۔ گو جيسا کہ حضرت مسيح موعود نے فرمايا۔ پرنٹنگ پريس ايجاد ہو چکي تھي، دوسرے ذرائع موجود تھے ليکن جماعت کا اپنا پريس لگانے کے لئے اُس وقت وسائل نہيں تھے اور آساني سے ميسر نہيں تھے اور اس کے لئے حضرت مسيح موعود کو ايک عليحدہ تحريک فرماني پڑي تھي۔ ليکن آج اللہ تعاليٰ کے فضل سے آنحضرتﷺ کے عاشقِ صادق اور غلامِ صادق سے کئے گئے اللہ تعاليٰ کے وعدوں کے مطابق ايشيا، يورپ اور افريقہ کے کئي ملکوں ميں جماعت کے اپنے پريس کام کر رہے ہيں اور اُس پيغام کو پہنچانے ميں اہم کردار ادا کر رہے ہيں جس کے لئے آنحضرتﷺ کے غلامِ صادق کو اللہ تعاليٰ نے مبعوث فرمايا۔ پھر صرف پريسوں تک ہي بات نہيں، بلکہ انٹرنيٹ اور سيٹلائٹ ٹيليويژن کے ذريعے جديد ترين اور تيز ترين ذريعہ تبليغ بھي اللہ تعاليٰ نے حضرت مسيح موعود کي جماعت کو ميسر فرما ديا جو دنيا کے کونے کونے ميں آنحضرتﷺ کے پيغام کو پہنچانے کا کردار ادا کر رہا ہے۔ يہ کوئي ہماري خوبي نہيں، يہ خداتعاليٰ کا آنحضرتﷺ کے غلامِ صادق کي بعثت کے مقصد کو پورا کرنے کے وعدے کا عملي اظہار ہے جو آج پورا ہو رہا ہے۔يہ اللہ تعاليٰ کا حضرت مسيح موعود سے تائيد و نصرت کے وعدے کے پورا کرنے کا عملي ثبوت ہے۔ حضرت خليفةالمسيح الرابع رحمہ اللہ تعاليٰ نے ايم ٹي اے کے اجراء پر اس حقيقت کا اعلان فرمايا تھا کہ يہ ايم ٹي اے کا اجراء کوئي ہماري خوبي نہيں ہے۔ ہم تو اس کے بارے ميں ابھي سوچ ہي رہے تھے بلکہ ريڈيو کے بارے ميں سوچ رہے تھے کہ خداتعاليٰ نے ايم ٹي اے کي شکل ميں ہميں انعام عطا فرما ديا اور تبليغ کا ايک نيا ذريعہ مہيا فرما ديا۔ يہ تو اللہ تعاليٰ کے اُس وعدے کا اظہار ہے کہ ’’مَيں تيري تبليغ کو زمين کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘۔

(تذکرہ صفحہ 260ايڈيشن چہارم شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)

پس يہ تبليغ کے زمين کے کناروں تک پہنچنے کا کام اصل ميں تو اُس اعلان کي کڑي ہے جو آنحضرتﷺ سے اللہ تعاليٰ نے کروايا تھا کہ قُلْ يَا اَيُّھَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْکُمْ جَمِيْعًا (الاعراف:159)

کہ اے لوگو! تمام دنيا کے انسانوں مَيں تم سب کي طرف مَيں اللہ کا رسول بنا کر بھيجا گيا ہوں۔ چنانچہ ديکھ ليں، پريس بھي، انٹرنيٹ بھي اور ايم ٹي اے بھي دنيا کي مختلف زبانوں ميں اسلام کا پيغام پہنچا رہے ہيں۔ مختلف زبانوں ميں جماعت کي ويب سائٹ کام کر رہي ہے۔ اٹلي ميں بھي وہاں کے احمدي نوجوانوں نے Italian زبان ميں بڑي اچھي ويب سائٹ بنائي ہے۔ اس طرح دوسري زبانوں ميں بھي ہے۔ اٹلي کي مثال ميں نے اس لئے دي ہے کہ يہي وہ ملک ہے جہاں اس وقت عيسائيت کي خلافت يعني پوپ کا مرکز ہے۔ اللہ تعاليٰ نے چند سال پہلے وہاں مرکز اور مسجد کے لئے جگہ خريدنے کے لئے جو کوشش ہو رہي تھي، اللہ تعاليٰ نے اپنے فضل سے اُسے بھي فائنل شکل دے کروہ ہميں مہيا فرما دي ہے اور مسيح محمديؐ کے غلاموں کا، مسيح موسوي کے ماننے والوں کو اس آخري نبي کے قدموں ميں لانے کي کوششوں کا ايک نيا ميدان کھل گيا ہے جسے اللہ تعاليٰ نے صرف بني اسرائيل کے لئے نہيں بھيجا تھا بلکہ تمام دنيا کے انسانوں کے لئے رسول بنا کر بھيجا تھا۔

پس جيسا کہ حضرت مسيح موعود نے فرمايا کہ وہ شخص جو تکميل اشاعتِ دين مصطفيﷺ کے لئے اس زمانے ميں آنحضرتﷺ کے بروز کے طور پر مبعوث ہونا تھا، ہوا۔ اور مَيں اور آپ اُن خوش قسمتوں ميں سے ہيں جنہيں يہ ترقياں ديکھني نصيب ہو رہي ہيں۔ اور جن کو يہ توفيق ملي کہ اُن کي جماعت ميں شامل ہو جائيں۔

پس اب ہماري ذمہ داري ہے کہ اپنے آپ کو بھي اس بات کا اہل ثابت کرنے کي کوشش کريں جس سے ہم اور ہماري نسليں ہميشہ اُن برکات سے فيض پاتي چلي جائيں جو حضرت محمد مصطفيٰ خاتم الانبياءﷺ کے غلامِ صادق کي جماعت سے جڑے رہنے والوں کے ساتھ وابستہ ہيں۔ اور جيسا کہ حضرت مسيح موعود نے فرمايا کہ وَآخَرِيْنَ مِنْہُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعة:4)

اس بات کو ظاہرکر رہي ہے کہ ہدايت کا ذخيرہ آنحضرتﷺ کي زندگي ميں مکمل ہوگيا، جيسا کہ اللہ تعاليٰ نے فرمايا۔

اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا (المائدہ:4)۔

يعني آج مَيں نے تمہارے فائدے کے لئے تمہارا دين مکمل کر ديا اور تمہارے پر اپني نعمت کو پورا کر ديا ہے اور تمہارے لئے دين کے طور پر اسلام کو پسند کيا ہے۔ پس اس بات ميں کوئي شک نہيں کہ ہدايت کامل ہو گئي اور اب کوئي شرعي کتاب نہيں آسکتي۔ اب کوئي شرعي رسول نہيں آسکتا ليکن اشاعتِ دين کا کام باقي ہے جو آخرين نے کرنا ہے۔ اور وہ جيسا کہ مَيں نے حوالہ پڑھا ہے کہ حضرت مسيح موعود نے فرمايا اس زمانہ ميں يہ اشاعت کا کام ہي ہونا تھا اور ہو رہا ہے۔ کيونکہ وَآخَرِيْنَ مِنْہُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعة:4)

کي سچائي اُس وقت ثابت ہوتي ہے جب ہم يہ تسليم کريں کہ اشاعت کا کام آئندہ زمانے کے لئے ہے۔

پس حضرت مسيح موعود اور آپ کے صحابہ اُس پيشگوئي کے مصداق بنے جيسا کہ اس کي وضاحت ميں خود حضرت مسيح موعود نے فرمايا ہے۔ آپ فرماتے ہيں۔ ’’وَآخَرِيْنَ مِنْہُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعة:4) يعني آنحضرتﷺ کے اصحاب ميں سے ايک اور فرقہ ہے جو ابھي ظاہر نہيں ہوا۔ يہ تو ظاہر ہے کہ اصحاب وہي کہلاتے ہيں جو نبي کے وقت ميں ہوں اور ايمان کي حالت ميں اُس کي صحبت سے مشرف ہوں اور اُس سے تعليم اور تربيت پاويں۔ پس اس سے يہ ثابت ہوتا ہے کہ آنے والي قوم ميں ايک نبي ہو گا کہ وہ آنحضرتﷺ کا بروز ہو گا۔ اس ليے اس کے اصحاب آنحضرتﷺ کے اصحاب کہلائيں گے۔ اور جس طرح صحابہ رضي اللہ عنہم نے اپنے رنگ ميں خداتعاليٰ کي راہ ميں ديني خدمتيں ادا کي تھيں، وہ اپنے رنگ ميں ادا کريں گے‘‘۔

(حقيقةالوحي، روحاني خزائن جلد 22 صفحہ 502)

پس اشاعتِ دين کي تکميل کا کام نئے زمانے کي ايجادات کے ساتھ حضرت مسيح موعود کے زمانے ميں شروع ہوا اور آپؑ کے صحابہ نے بھي اس ميں بھرپور رنگ ميں حصہ ليا۔ آج حضرت مسيح موعود کي کتب جو قرآنِ کريم کے علم و معرفت کے خزانے سے بھري پڑي ہيں۔ قرآنِ کريم کي آيات کي تفسير کے نئے نئے راستے دکھاتي ہيں۔ قرآنِ کريم کے اُن خزانوں کي نشاندہي کرتي ہيں جو اس زمانے ميں ظاہر ہونے تھے اور ہو رہے ہيں۔ پس آنحضرتﷺ کے لائے ہوئے دين کو جو آپؐ پر کامل ہوا، آپؐ کے غلامِ صادق کے زمانے ميں اللہ تعاليٰ نے تمام دنيا تک پہنچانے کا انتظام فرمايا اور حضرت مسيح موعود کي ذات اور آپ کے صحابہ کي صورت ميں وَآخَرِيْنَ مِنْہُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعة:4) کا وعدہ پورا فرمايا۔

ہم احمدي خوش قسمت ہيں کہ ہم اللہ تعاليٰ کے اُس وعدے کے پورا ہونے کے گواہ بن کر مسيح محمديؐ کي جماعت ميں شامل ہو گئے اور ايک لڑي ميں پروئے گئے جبکہ دوسرے مسلمان اُس انکار کي وجہ سے آپس ميں پھٹے ہوئے ہيں، اوراُن کے ہر کام ميں بے برکتي ہے۔

باوجود اس کے کہ اللہ تعاليٰ ايمان لانے والوں سے تمکنت اور رعب کا وعدہ فرماتا ہے، يہ مسلمان کمزوري اور محتاجي کاشکار ہيں۔ چاہے وہ اسلامي ملکوں کے ليڈر ہوں يا اسلامي ملکوں کي حکومتيں ہوں، آپس کے معاملات کو طے کرنے کے لئے غيروں کي جھولي ميں جا کر گرتے ہيں۔ ايک ہي ملک ميں رہنے والے مسلمان ليڈر غيروں کو آوازيں ديتے ہيں کہ آؤ اور ہماري مدد کرو۔ اسلامي حکومتيں ہيں تو وہ غير مسلم حکومتوں کي مرضي پر اپنے معاملات طے کرتي اور چلاتي ہيں۔ مسلمانوں کي ملکي دولت تو غيرمسلموں کے ہاتھ ميں چلي گئي ہے۔ اگر ليڈروں اور ملکي سربراہوں کو کوئي دلچسپي ہے تو صرف اتني کہ ہماري جائيداديں بن جائيں، ہمارے بينک بيلنس بن جائيں، ہم امير ہو جائيں۔ ذاتي مفادات کو قومي مفادات پر ترجيح دي جاتي ہے۔ اسلامي ملکوں کے اندروني فسادات کو روکنے کے لئے غير اسلامي ملکوں کي فوجوں سے مدد لي جاتي ہے۔ يہ سب اُس نافرماني کانتيجہ ہے جو خداتعاليٰ کے کلام کو نہ مان کر اور رسول اللہﷺ کي نافرماني کرتے ہوئے، اس زمانے کے امام کا انکار کرتے ہوئے کي گئي ہے۔ بجائے اس کے کہ آج مسلمان ممالک اپني دولت کا صحيح استعمال کرتے اور مسيح موعود کے ماننے والوں ميں شامل ہو کر تکميلِ دين کے لئے آخري مقصد يعني اشاعتِ دين کا کام سرانجام ديتے، اس دولت کو مسيح محمديؐ کے قدموں ميں رکھ کر غيرمسلم دنيا ميں اشاعتِ اسلام کے اہم فريضہ ميں ہاتھ بٹاتے، آنحضرتﷺ کے اس عاشقِ صادق کي مخالفت کرکے نہ دين کے رہے اور نہ دنيا کے۔ اور جب تک يہ اس حقيقت کو تسليم نہيں کريں گے کہ خداتعاليٰ کا وعدہ اٰخَرِيْنَ مِنْھُمْ پورا ہو چکا ہے اور آنے والا مسيح آچکا ہے اور اُس کي مخالفت کے بجائے اُس کي مدد کرنا ہمارا فرض اوّلين بنتا ہے، اُس وقت تک وہ اسي موجودہ حالت سے دوچار ہوتے رہيں گے اور ذلت کا سامنا کرتے رہيں گے۔

پس مسلمانوں کي يہ حالت ديکھ کر ايک احمدي کا ايمان اور زيادہ بڑھتا ہے۔ اللہ تعاليٰ کے حضور شکر گزاري کے جذبات اور زيادہ اُبھرتے ہيں کہ اُس نے ہميں اس نعمت سے نوازا ہے۔ پھر يہي نہيں کہ حضرت مسيح موعود آنحضرتﷺ کے بروز کے طور پر مبعوث ہوئے اور قرآني علم و عرفان کے خزانے شائع کرکے اسلام کي اشاعت کے سامان پيدا فرما دئيے اور مخالفينِ اسلام پر اتمامِ حجت کر دي اور دلائل سے اُن کے منہ بند کردئيے اور اپني زندگي ميں قربانياں کرنيو الوں کي ايسي جماعت قائم کر دي جنہوں نے صحابہ کا رنگ اختيار کيا اور اللہ تعاليٰ کے حضور انہوں نے رَضِيَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ (المائدہ:120) کا درجہ پايا بلکہ آنحضرتﷺ نے جو پيشگوئي فرمائي تھي کہ آخرين ميں جو ميرا بروز کھڑا ہوگا وہ صرف اپني زندگي تک ہي اشاعتِ اسلام کا کام نہيں کرے گا بلکہ اُس کے بعد خلافت کا سلسلہ بھي شروع ہوگا جو دائمي ہوگا۔اور پھر مسيح محمديؐ نے بھي يہ اعلان فرما ديا کہ ميرے سلسلہ کي سچائي کي ايک بہت بڑي دليل يہ ہوگي کہ ميرے بعد نظامِ خلافت چلے گا جو اشاعتِ اسلام کے کام کو آگے بڑھائے گا، جو ميرے مشن کي تکميل کرے گا اور جب تک اُن باتوں کي تکميل نہ ہو جائے، جب تک وہ مشن مکمل نہ ہو جائے جو آنحضرتﷺ کے پيغام کو دنيا کے کونے کونے تک پہنچانے کا ہے۔ جب تک تمام دنيا پر اتمامِ حجّت نہ ہو جائے، قيامت نہيں آئے گي۔ جيسا کہ آپ فرماتے ہيں کہ:

’’خدا فرماتا ہے کہ مَيں اس جماعت کو جو تيرے پيرو ہيں قيامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا۔ سو ضرور ہے کہ تم پر ميري جدائي کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمي وعدہ کا دن ہے۔ وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے۔ وہ سب کچھ تمہيں دکھلائے گا جس کا اُس نے وعدہ فرمايا ہے۔ اگرچہ يہ دن دنيا کے آخري دن ہيں اور بہت بلائيں ہيں جن کے نزول کا وقت ہے، پر ضرور ہے کہ يہ دنيا قائم رہے جب تک وہ تمام باتيں پوري نہ ہو جائيں جن کي خدا نے خبر دي۔ مَيں خدا کي طرف سے ايک قدرت کے رنگ ميں ظاہر ہوا اور مَيں خدا کي ايک مجسم قدرت ہوں۔ اور ميرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسري قدرت کا مظہر ہوں گے۔ سو تم خدا کي قدرت ثاني کے انتظار ميں اکٹھے ہو کر دُعا کرتے رہو۔ اور چاہئے کہ ہر ايک صالحين کي جماعت ہر ايک ملک ميں اکٹھے ہو کر دُعا ميں لگے رہيں تا دوسري قدرت آسمان سے نازل ہو اور تمہيں دکھا دے کہ تمہارا خدا ايسا قادر خدا ہے‘‘۔

(الوصيت، روحاني خزائن جلد 20 صفحہ 305-306)

پس جيسا کہ حضرت مسيح موعود نے فرمايا کہ گو حضرت مسيح موعود کا وجود ہي حقيقت ميں بروزي طور پر آنحضرتﷺ کا وجود ہے کيونکہ اس طرح وَآخَرِيْنَ مِنْہُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِھِمْ۔(الجمعة:4) کي پيشگوئي پوري ہوتي ہے ليکن آنحضرتﷺ کا ارشاد کہ مسيح موعود کے بعد خلافت عليٰ منہاج نبوت قائم ہوگي۔ يعني وہ خلافت قائم ہوگي جو نبوت کے کام کو آگے بڑھائے گي اور اُس کے طريق پر چلنے والي ہوگي۔ اور پھر حضرت مسيح موعود کا يہ فرمانا کہ وہ قدرت آسمان سے نازل ہو گي، يہ ثابت کرتا ہے کہ اللہ تعاليٰ جس کو بھي خليفہ بنائے گا اُس کے ساتھ آسماني تائيدات اور قدرت کے نظارے بھي ہميشہ دکھائے گا۔ اور خلافتِ احمديہ ہميشہ اللہ تعاليٰ کي تائيد و نصرت کے ساتھ اشاعتِ دين محمدﷺ کا کام کرتي چلي جائے گي اور اس کام کي تکميل کے لئے خداتعاليٰ اُس کے ہاتھ بن جائے گا، اُس کے بازو بن جائے گا اور ہر فيصلہ جو خليفۂ وقت خداتعاليٰ سے مدد مانگتے ہوئے اسلام کي اشاعت کے لئے کرے گا وہ خداتعاليٰ سے تائيد يافتہ ہوگا۔ اگر يہ نہ ہو تو پھر نہ ہي خداتعاليٰ کي قدرت ہے اور نہ ہي آسمان سے نازل ہونے والي ہے۔

اور اس بات نے اس معاملہ کو بھي حل کر ديا کہ بندوں کے انتخاب کو خداتعاليٰ کا انتخاب کس طرح سمجھا جائے۔ اگر بندوں کے انتخاب کو خداتعاليٰ کي تائيد حاصل نہ ہو تو بےشک يہ بات سوچنے پر مجبور کرتي ہے۔ ليکن اگر اس انتخاب کو آسماني تائيدات مضبوط کر رہي ہوں تو يہ بندوں کا انتخاب نہيں ہے بلکہ خداتعاليٰ کا بندوں کو ذريعہ بنا کر اپني قدرت کا نازل کرنا ہے۔ آج ہر شہر اور ہر ملک ميں ہر لمحہ اور ہر دن جماعت کي ترقي اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ يقينا حضرت مسيح موعود ہي اٰخَرِيْن ميں مبعوث ہونے والے وہي نبي ہيں جنہوں نے آنحضرتﷺ کے دين کي اشاعت کرني تھي اور آپؑ کے بعد خلافتِ احمديہ بھي يقيناً اُسي سچے وعدوں والے خدا کي تائيد يافتہ ہے جس کے ذريعہ سے يہ کام آگے بڑھنا تھا۔

پس آج ہر احمدي کا بھي کام ہے کہ اللہ تعاليٰ کي تائيدات و نصرت سے حصہ لينے کے لئے، اپنے آپ کو ہميشہ اللہ تعاليٰ کے انعاموں کا وارث بنانے کے لئے خلافت احمديہ کا ہاتھ بٹاتے ہوئے اشاعتِ اسلام کے کام ميں حصہ ليں تا کہ ہميشہ اُن لوگوں ميں شامل رہيں، جن کے بارے ميں اللہ تعاليٰ نے فرمايا ہے کہ

وَعَدَ اللہُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِي الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ وَلَيُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِيۡنَہُمُ الَّذِي ارۡتَضٰي لَہُمۡ وَلَيُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا۔ (النور:56)

اللہ تعاليٰ نے تم ميں سے ايمان لانے والوں اور مناسبِ حال عمل کرنے والوں سے وعدہ کيا ہے کہ وہ اُن کو زمين ميں خليفہ بنا دے گا جس طرح اُس نے پہلے لوگوں کو خليفہ بنا ديا تھا۔ اور جو دين اُس نے اُن کے لئے پسند کيا ہے وہ اُسے مضبوطي سے اُن کے لئے قائم کر دے گا۔ اور اُن کے خوف کي حالت کے بعد وہ اُن کو امن کي حالت ميں تبديل کر دے گا۔

پس ايمان ميں مضبوطي والوں کے ساتھ، اور اعمالِ صالحہ بجا لانے والوں کے ساتھ وعدہ ہے کہ وہ خلافت کے انعام سے فيض پاتے رہيں گے کيونکہ يہ وہ لوگ ہيں جنہوں نے اُس دين کو اختيار کيا جو اللہ تعاليٰ نے اُن کے لئے پسند کيا۔ اللہ تعاليٰ نے کونسا دين پسند کيا؟ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے جيسا کہ پہلے بھي بيان ہو چکا ہے کہ وَرَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا (المائدہ:4) تمہارے لئے اسلام کو دين کے طور پر پسند کيا ہے۔

حضرت مسيح موعود اس بارے ميں فرماتے ہيں کہ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے کہ:

’’مَيں تمہارا دين اسلام ٹھہرا کر خوش ہوا۔ يعني دين کا انتہائي مرتبہ وہ امر ہے جو اسلام کے مفہوم ميں پايا جاتا ہے۔ يعني يہ کہ محض خدا کے لئے ہو جانا اور اپني نجات اپنے وجود کي قرباني سے چاہنا، نہ اَور طريق سے اور اس نيّت اور اس ارادہ کو عملي طور پر دکھلا دينا‘‘۔

(اسلامي اصول کي فلاسفي، روحاني خزائن جلد 10 صفحہ 368)

پس يہ وہ مقام ہے جو ايک احمدي کو حاصل کرنے کي کوشش کرني چاہئے۔ اس بات کو سمجھنا کہ اللہ تعاليٰ کے دين کي حقيقت کامل فرمانبرداري ہے اور اپنے وجود کي قرباني ہے۔ اور يہي کامل فرمانبرداري اور قرباني ہے جو بہترين اعمال کي انتہا ہے۔ اور يہ فرمانبرداري اور کامل اطاعت دکھانے والے اور قرباني کے لئے تيار رہنے والے بھي وہي لوگ ہيں جو خداتعاليٰ کے پيغام کي نشر و اشاعت ميں خلافت کا ہاتھ بٹانے والے ہيں اور اس کام کے لئے اپنا مال، جان اور وقت قربان کرنے والے ہيں۔ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے کہ وَمَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَي اللہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِيۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِيۡنَ (حٰم سجدة:34)

يعني اور اُس سے زيادہ اچھي بات کس کي ہوگي جو کہ اللہ کي طرف لوگوں کو بلاتا ہے اور نيک اور صالح عمل کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ميں کامل فرمانبرداروں ميں سے ہوں۔ يہ حکم پھر اسي طرف توجہ پھيرتا ہے کہ اللہ تعاليٰ کي طرف بلانے والے کو اپنے عمل بھي اُس تعليم کے مطابق ڈھالنے چاہئيں جس کي طرف وہ دوسرے کو بلا رہا ہے۔ جس پيغام کي اشاعت ميں ممد و معاون بن رہا ہے۔ اور وہ اُس وقت تک نہيں ہو سکتا جب تک مکمل طورپر اللہ اور رسول کي فرمانبرداري کا جُوا اپني گردن پر نہ ڈالے۔ اور جب يہ صورتحال پيدا ہوگي، جب ہر احمدي کي يہ کيفيت ہو گي تو وہ جہاں خلافت کے انعام سے فيض پانے والا ہو گا، حضرت مسيح موعود کي جماعت ميں شامل ہونے والوں سے وابستہ انعامات کا وارث بنے گا وہاں وہ آنحضرتﷺ کي حقيقي اُمت ميں بھي شامل ہوگا، صرف دعويٰ ہي نہيں ہو گا جيسا کہ آجکل کے مسلمان کرتے ہيں۔ اور پھر اس کے ساتھ دنيا ميں امن و سلامتي کا پيغام پہنچانے والا بھي ہوگا۔ اس خوبصورت پيغام کي وجہ سے، اس خوبصورت تعليم کي وجہ سے جو اللہ تعاليٰ نے آنحضرتﷺ پر اُتاري، مخالفين کو اس ذريعہ سے يہ پيغام بھي پہنچايا جا سکتا ہے کہ اُن کي سختي کا جواب پيار سے ديا جائے اور جب سختي کا جواب نرمي سے ہو، غصے کا جواب صبر سے ہو تو ايک وقت آتا ہے جب مخالف سے مخالف بھي بات سننے کي طرف متوجہ ہو جاتا ہے سوائے اُن کے جن کے دل خداتعاليٰ کي طرف سے سخت کر دئيے گئے ہيں جن کے بارہ ميں اللہ تعاليٰ نے يہ فيصلہ کر ديا ہے کہ ان کو ہدايت نہيں ملني۔ اور جب مخالفِ اسلام، اسلام کے محاسن کا علم حاصل کرے گا تو يہ تسليم کئے بغير نہيں رہے گا کہ واقعي يہ کامل دين ہے۔

پس ہر احمدي کا يہ فرض ہونا چاہئے کہ خلافت کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لئے اور آنحضرتﷺ کے دين کي اشاعت کے لئے ہر قرباني کرتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جائيں۔ اس زمانے ميں مسيح محمديؐ کے غلاموں ميں شامل ہو کر ’’نَحْنُ اَنْصَارُ اللہ‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے اپنے ايمان کو بھي کامل کرتے چلے جائيں، اور اپني اطاعت اور فرمانبرداري کے معيار بھي بلند سے بلند کرتے چلے جائيں۔ اور جب يہ ہوگا تو ہر فرد اس زمانے کے امام کے ساتھ اللہ تعاليٰ کے وعدوں کو انفرادي طور پر اپنے ساتھ بھي پورا ہوتا ديکھے گا۔ اور اجتماعي طور پر تو يہ مقدر ہو ہي چکا ہے کہ اللہ تعاليٰ کي مدد سے مومنوں کي اس جماعت نے جو مسيح محمديؐ سے منسوب ہے تمام دنيا پر غالب آنا ہے۔ دشمن کا ہر حملہ چاہے وہ سامنے سے ہو، چاہے پيچھے سے ہو، چاہے دائيں سے ہو يا بائيں سے ہو، اُس کام کو جو مسيح موعود کے سپرد ہو چکا ہے اُس ميں روک نہيں ڈال سکتا کيونکہ حضرت مسيح موعود کي يہ جماعت خداتعاليٰ کي تائيد و نصرت اور حفاظت کي ڈھال ميں محفوظ ہے۔ اور يہ ايسي ڈھال ہے جس نے ہر طرف سے جماعت کو اپني حفاظت ميں ليا ہوا ہے، اپنے حصار ميں ليا ہوا ہے اور گزشتہ120 سال کي جماعت کي تاريخ اس بات کي گواہ ہے کہ اللہ تعاليٰ نے ہر قدم پر جماعت کي، احمديت کي حفاظت فرمائي ہے اور جماعت کو ختم کرنے کي دشمن کي ہر تدبير نے ناکامي اور نامرادي کا منہ ديکھا ہے اور جماعت اللہ تعاليٰ کے فضل سے ترقي کي منازل طے کرتي چلي گئي ہے۔

آج اللہ تعاليٰ کے فضل سے دنيا کا کوئي براعظم نہيں جس کے بڑے بڑے ملکوں ميں آنحضرتﷺ کا پيغام مسيح محمديؐ کے غلاموں نے نہ پہنچا ديا ہو، بلکہ اکثر چھوٹے چھوٹے ملک اور جزائر بھي اس نور کي روشني سے فيضياب ہورہے ہيں جو خداتعاليٰ کے نور کا پرتَو ہے۔

اور آج يہ کام ہم صرف اس لئے باحسن انجام دے رہے ہيں کہ خلافت کے انعام سے انعام يافتہ ہيں۔ آج جب ميں دنيا کے کسي بھي ملک ميں بسنے والے احمدي کے چہرہ کو ديکھتا ہوں تو اُس ميں ايک قدرِ مشترک نظر آتي ہے اور وہ ہے خلافتِ احمديہ سے اخلاص و وفا کا تعلق۔ چاہے وہ پاکستان کا رہنے والا احمدي ہے يا ہندوستان ميں بسنے والا احمدي ہے، انڈونيشيا اور جزائر ميں بسنے والا احمدي ہے يا بنگلہ ديش ميں رہنے والا احمدي ہے، آسٹريليا ميں رہنے والا احمدي ہے يا يورپ و امريکہ ميں بسنے والا احمدي ہے يا افريقہ کے دور دراز علاقوں ميں بسنے والا احمدي ہے، خليفہ وقت کو ديکھ کر ايک خاص پيار، ايک خاص تعلق، ايک خاص چمک چہروں اور آنکھوں ميں نظر آرہي ہوتي ہے۔ اور يہ صرف اس لئے ہے کہ حضرت مسيح موعود سے بيعت اور وفا کا سچا تعلق ہے۔ اور يہ صرف اس لئے ہے کہ آنحضرتﷺ سے کامل اطاعت اور محبّت کا تعلق ہے، يہ اس لئے ہے کہ اس بات کا مکمل فہم و ادراک ہے کہ آنحضرتﷺ ہي ہيں جو خداتعاليٰ کي طرف سے کُل انسانيت کے نجات دہندہ بنا کر بھيجے گئے ہيں اور خلافتِ احمديہ آپ تک لے جانے کي ايک کڑي ہے۔ اُس وعدہ کي نشاني ہے جو خدائے واحد کے قدموں ميں ڈالنے کے لئے ہمہ وقت مصروف ہے۔

پس کيا کبھي ايسي قوم کو ايسے جذبات رکھنے والي روحوں کو کوئي قوم شکست دے سکتي ہے؟ کبھي نہيں اور کبھي نہيں۔ اب جماعت احمديہ کا مقدر کاميابيوں کي منازل کو طے کرتے چلے جانا ہے اور تمام دنيا کو آنحضرتﷺ کے جھنڈے تلے جمع کرنا ہے۔ يہ اس زمانے کے امام سے خداتعاليٰ کا وعدہ ہے جو کبھي اپنے وعدوں کو جھوٹا نہيں ہونے ديتا۔

حضرت مسيح موعود فرماتے ہيں:

’’يہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا يہاں تک کہ زمين پر محيط ہو جاوے گا۔ بہت سي روکيں پيدا ہوں گي اور ابتلا آئيں گے مگر خدا سب کو درميان سے اُٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا۔… سو اے سننے والو! ان باتوں کو ياد رکھو اور ان پيش خبريوں کو اپنے صندوقوں ميں محفوظ رکھ لو کہ يہ خدا کا کلام ہے جو ايک دن پورا ہو گا‘‘۔

(تجلياتِ الہيہ، روحاني خزائن جلد 20 صفحہ 409-410)

پس آج بعض جگہ پر اگر ہميں مخالفين بظاہر زور ميں نظر آرہے ہيں اور احمدي ظلم ميں پستے ہوئے نظر آرہے ہيں تو يہ عارضي تکليفيں ہيں، يہ عارضي حالت ہے۔ ان شاءاللہ تعاليٰ جلد اب وہ دن طلوع ہونے والا ہے جب احمديوں پر ظلم کرنے والے خس و خاشاک کي طرح اُڑا دئيے جائيں گے۔ کيونکہ يہي خداتعاليٰ کا منشاء ہے اور کوئي طاقت نہيں جو خداتعاليٰ کا مقابلہ کرسکے۔

پس آج دنيا ميں بسنے والے وہ مظلوم احمدي جو چاہے انڈونيشيا ميں بس رہے ہوں يا بنگلہ ديش ميں بس رہے ہوں يا پاکستان ميں رہنے والے ہوں، صبر اور دعا سے خدا کا فضل مانگتے ہوئے اُس کے حضور سجدہ ريز رہيں۔ ان شاءاللہ تعاليٰ آخري فتح مسيح محمديؐ کے غلاموں کي ہي ہے کيونکہ آپ ہي وہ قوم ہيں جو اخلاص و وفا سے آنحضرتﷺ کي حکومت کو دنيا ميں قائم کرنے کے لئے ہر کوشش ميں مصروف ہيں۔ اللہ تعاليٰ ہميں استقامت دکھاتے ہوئے اس کام کي توفيق ديتا چلا جائے۔ ہميشہ ياد رکھيں ہم وہ خوش قسمت ہيں جن کے ساتھ مسيح الزمان کي دعائيں شامل ہيں، اُس شخص کي دعائيں شامل ہيں جس کے بارے ميں آنحضرتﷺ نے فرمايا کہ اُس کا آنا ميرا آنا ہے۔ (صحيح البخاري کتاب التفسير سورة الجمعة باب قولہ واٰخرين منھم لما يلحقوا بھم حديث 4897)

حضرت مسيح موعود فرماتے ہيں:

’’ہم تو يہ دعا کرتے ہيں کہ خدا جماعت کو محفوظ رکھے اور دنيا پر ظاہر ہو جائے کہ نبي کريمﷺ برحق رسول تھے اور خدا کي ہستي پر لوگوں کو ايمان پيدا ہو جائے‘‘۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 261۔ ايڈيشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

اللہ تعاليٰ ہميں ايمان اور يقين ميں بڑھاتا چلا جائے اور ہم ہميشہ حضرت مسيح موعود کي دعاؤں کے وارث بنتے چلے جائيں۔ اب اس جلسے کا اختتام ہوتا ہے۔ اللہ تعاليٰ آپ سب کو توفيق دے کہ ان دنوں ميں جو پاک تبديلياں آپ لوگوں نے اپنے اندر پيدا کيں، اُنہيں ہميشہ اپنے اندر قائم رکھيں اور ہر دن آپ کے ايمان اور ايقان کو بڑھاتا چلا جائے۔ اللہ تعاليٰ آپ لوگوں کو خيريت سے اپنے اپنے گھروں ميں واپس لے جائے اور ہميشہ آپ کا حافظ و ناصر ہو۔ ہميشہ آپ کي حفاظت کرے۔ اور ہر وہ فيض اور ہر وہ دعا جو حضرت مسيح موعود نے اپنے ماننے والوں کے لئے فرمائي اُس کو ہمارے حق ميں قبول فرمائے۔اس دفعہ اس حوالے سے جيسا کہ مَيں نے پہلے بھي اس اميد کا بلکہ يقين کا اظہار کيا تھا اور اللہ تعاليٰ سے ہميشہ يقين رہا ہے کہ ہماري تعداد بڑھتي ہے، اس سال ميں خاص طور پر حيرت انگيز طور پر بڑھ رہي ہے۔ ميرا اندازہ تھا کہ پچھلے سال سے تين چار ہزار زيادہ حاضري ہوگي ليکن يہ جو حاضري سامنے آئي ہے اس ميں گزشتہ سال اس وقت ٹوٹل حاضري ستائيس ہزار تھي اور اِس سال اللہ تعاليٰ کے فضل سے، شامل ہونے والوں کي کُل تعداد سينتيس ہزار پانچ سو گيارہ ہے۔ ان ميں خواتين کي تعداد ساڑھے انيس ہزار ہے اور مرد اٹھارہ ہزارہيں۔، عورتيں مردوں سے بڑھ گئي ہيں۔ اب دعا کرليں۔ (دعا)

(خطابات حضرت خليفةالمسيح الخامس صفحہ 85-105)

 

متعلقہ مضمون

  • جلسہ روحانی پیاس بجھانے کا موقع

  • خطبہ جمعہ فرمودہ 10 اپریل 2009ء کا متن

  • کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں؟

  • جِن کو نِشانِ حضرتِ باری ہوا نصیب