زاہد کو اپنے زہد و ریاضت پہ ناز ہے
مجھ کو گنہگار کو رحمت پہ ناز ہے
گر ہے ادائے ناز پہ ہر نازنیں کو ناز
عشّاق کو بھی جذبِ محبّت پہ ناز ہے
بُلبل کو اپنے نالۂ جاں سوز پر ہے ناز
گلہائے نَو بہار کو نکہت پہ ناز ہے
شیشہ دلِ حزیں کا ہوا اس سے چُور چُور
ہر برگِ گُل کو گرچہ نزاکت پہ ناز ہے
درویشِ بے نیاز کو ہے فقر پر ہی فخر
شاہوں کو اپنی ثروت و صولت پہ ناز ہے
دل مہبطِ فیوضِ محبّت ہے آج کل
اس دل پہ ناز ہے مجھے اُلفت پہ ناز ہے
گم کردہ راہ تھا راہ میں بھٹکا کہاں کہاں
اک راہنمائے حق کی رفاقت پہ ناز ہے
محمود میرا مصلح موعود راہنما
دُنیا کو آج جس کی قیادت پہ ناز ہے
یہ دَور خسروی کی سعادت زَہے نصیب
فخرِ رسل کے عہدِ خلافت پہ ناز ہے
دم ساز بن کے سوزِ محبّت میں کھو گیا
اس میٹھے میٹھے درد کی لذّت پہ ناز ہے
لائی ہے ساتھ عرش سے رحمت کے قافلے
لائق مری دُعا کو اجابت پہ ناز ہے

(برکت علی لائقؔ، الفضل ربوہ 19 فروری 1959ء)

متعلقہ مضمون

  • تری کائنات کا راز تو نہ کسی پہ تیری قسم کھلا

  • محرم الحرام

  • محبوبِ جہاں

  • ابیاتِ شہیدِ مرحوم