(مضمون: مکرم رحمت اللہ بندیشہ صاحب۔ مبلغ سلسلہ و استاد جامعہ احمدیہ جرمنی)

مہر اس مال کا نام ہے جو نکاح کے نتيجہ ميں خاوند کي طرف سے بيوي کو واجب الادا ہوتا ہے۔بيوي اس مال پر کلي تصرف کا حق رکھتي ہے۔ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے:

وَاُحِلَّ لَکُمۡ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُمۡ اَنۡ تَبۡتَغُوۡا بِاَمۡوَالِکُمۡ مُّحۡصِنِيۡنَ غَيۡرَ مُسٰفِحِيۡنَؕ فَمَا اسۡتَمۡتَعۡتُمۡ بِہٖ مِنۡہُنَّ فَاٰتُوۡہُنَّ اُجُوۡرَہُنَّ فَرِيۡضَة۔ (سورةالنساء:25)

ترجمہ: اور تمہارے لئے حلال کر ديا گيا ہے جو اس کے علاوہ ہے کہ تم (انہيں) اپنانا چاہو، اپنے اموال کے ذريعہ اپنے کردار کي حفاظت کرتے ہوئے نہ کہ بے حيائي اختيار کرتے ہوئے۔ پس ان کو ان کے مہر فريضہ کے طور پر دو اس بناء پر کہ جو تم ان سے استفادہ کر چکے ہو۔

مياں بيوي کو خلوت صحيحہ ميسر آ جانے کے بعد پورا حق مہر واجب ہو جاتا ہے، بيويوں کو حق مہر کي ادائيگي خوش دلي سے کرني چاہيئے۔ جيسا کہ فرمايا:

وَاٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِھِنَّ نِحْلَة۔ (سورةالنساء:5)

ترجمہ: اور عورتوں کو ان کے مہر دلي خوشي سے ادا کرو۔

نکاح کے ليے مہر کا ہونا ضروري ہے

مہر کي تعيين فريقين کي رضا مندي سے ہوتي ہے۔ اگرچہ اس کي تعيين بعد ميں بھي ہو سکتي ہے۔ جيسا کہ فرمايا:

 لَاجُنَاحَ عَلَيْکُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ مَالَمْ تَمَسُّوْھُنَّ اَوْتَفْرِضُوْا لَھُنَّ فَرِيْضَةًوَّمَتِّعُوْھُنَّ عَلَي الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ وَعَلَي الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوْفِ حَقًّا عَلَي الْمُحْسِنِيْنَِ۔ (سورة البقرہ:237)

ترجمہ: تم پر کوئي گناہ نہيں اگر تم عورتوں کو طلاق دے دو جبکہ تم نے ابھي انہيں چھوا نہ ہو يا ابھي تم نے ان کے ليے حق مہر مقرر نہ کيا ہو۔ اور انہيں کچھ فائدہ بھي پہنچاؤ۔ صاحب حيثيت پر اس کي حيثيت کے مطابق فرض ہے اور غريب پر اس کي حيثيت کے مناسب حال۔ (يہ) معروف کے مطابق کچھ متاع ہو۔ احسان کرنے والوں پر تو (يہ) فرض ہے۔

اگر نکاح کے وقت مہر کي مقدار مقرر نہ کي گئي ہو تو بعد ميں اس کا فيصلہ باہمي رضامندي سے ہو سکتا ہے۔بصورت تنازعہ مہر کا فيصلہ قضاء فريقين کے حالات کو مدّنظر رکھ کر کرے گي۔

سيّدنا حضرت مسيح موعود مہر کي تعيين کے بارہ ميں فرماتے ہيں: ’’تراضي طرفين سے جو ہو اس پر کوئي حرف نہيں آتا اور شرعي مہر سے يہ مراد نہيں کہ نصوص يا احاديث ميں کوئي اس کي حد مقرر کي گئي ہے بلکہ اس سے مراد اس وقت کے لوگوں کے مروجہ مہر سے ہوا کرتي ہے۔ ہمارے ملک ميں يہ خرابي ہے کہ نيّت اور ہوتي ہے اور محض نمود کے ليے لاکھ لاکھ روپے کا مہر ہوتا ہے۔ صرف ڈراوے کے ليے يہ لکھا جايا کرتا ہے کہ مرد قابو ميں رہے اور اس سے پھر دوسرے نتائج خراب نکل سکتے ہيں۔ نہ عورت والوں کي نيت لينے کي ہوتي ہے اور نہ خاوند کي دينے کي۔

ميرا مذہب يہ ہے کہ جب ايسي صورت ميں تنازعہ آ پڑے تو جب تک اس کي نيّت ثابت نہ ہو کہ ہاں رضا و رغبت سے وہ اسي قدر مہر پر آمادہ تھا جس قدر کہ مقرّر شدہ ہے، تب تک مقرّرہ مہر نہ دلايا جاوے اور اس کي حيثيت اور رواج وغيرہ کو مدِّنظر رکھ کر پھر فيصلہ کيا جاوے کيونکہ بدنيتي کي اتباع نہ شريعت کرتي ہے اور نہ قانون‘‘۔ (البدر۔ 08مئي 1903،ملفوظات جلد سوم صفحہ284 نظارت اشاعت ربوہ)

سيّدنا حضرت مسيح موعود کي خدمت ميں سوال پيش ہوا کہ جن عورتوں کا مہر مچھر کي دو من چربي ہو وہ کيسے ادا کيا جاوے؟ حضور نے اس کے جواب ميں فرمايا:

 لَايُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا (البقرہ:287)

اس کا خيال مہر ميں ضرور ہونا چاہيئے۔ خاوند کي حيثيت کو مدنظر رکھنا چاہيئے۔ اگر اس کي حيثيت دس روپے کي نہ ہو تو وہ ايک لاکھ روپے کا مہر کيسے ادا کرے گا اور مچھروں کي چربي تو کوئي مہر ہي نہيں۔يہ

لَايُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا

ميں داخل ہے‘‘۔ (البدر۔ 16مارچ 1904،ملفوظات جلد سوم صفحہ 606 نظارت اشاعت ربوہ)

مہر مقرر کرنے کي ايک حکمت بيان کرتے ہوئے سيّدنا حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہيں:

’’دَرحقيقت عورت کا مہر اس لئے رکھا گيا ہے کہ بعض ضروريات تو خاوند پوري کر ديتا ہے ليکن بعض ان سے بھي زائد ضرورتيں ہوتي ہيں جن کو عورت اپنے خاوند پر ظاہر نہيں کر سکتي۔ پس وہ اپنے اس حق سے ايسي ضروريات کو پورا کر سکتي ہے۔ اس لئے اسلام نے مہر کے ذريعہ عورت کا حق مقرر کيا ہے اور وہ خاوند کي حيثيت کے مطابق رکھا ہے‘‘۔ (الفضل 31؍ اگست1960ء صفحہ4)

سيّدنا حضرت مصلح موعودکي راہنمائي

آپفرماتے ہيں: ’’مَيں نے مہر کي تعيين چھ ماہ سے ايک سال تک کي آمد کي ہے يعني مجھ سے کوئي مہر کے متعلق مشورہ کرے تو مَيں يہ مشورہ ديا کرتاہوں کہ اپني چھ ماہ کي آمد سے ايک سال تک کي آمد بطور مہر مقرر کر دو اور يہ مشورہ ميرا اس اَمر پر مبني ہے کہ اللہ تعاليٰ نے حضرت مسيح موعود سے الوصيت کے قوانين ميں دسويں حصہ کي شرط رکھوائي ہے۔ گويا اسے بڑي قرباني قرار ديا ہے۔ اس بناء پر ميرا خيال ہے کہ اپني آمدني کا دسواں حصہ باقي اخراجات کو پو را کرتے ہوئے مخصوص کر دينا معمولي قرباني نہيں بلکہ ايسي بڑي قرباني ہے کہ جس کے بدلے ميں ايسے شخص کو جنّت کا وعدہ ديا گياہے اس حساب سے ايک سال کي آمد جو گويا متواتر دس سال کي آمد کا دسواں حصہ ہوتا ہے بيوي کے مہر ميں مقرر کردينا مہر کي اغراض کو پورا کرنے کے ليے بہت کافي ہے بلکہ ميرے نزديک انتہائي حد ہے‘‘۔ (الفضل 12دسمبر1940ء)

پس جماعت احمديہ کا مسلک يہ ہے کہ حق مہر نہ اتنا کم ہو کہ وہ عور ت کے وقار کے منافي محسوس ہو اور شريعت کے ايک اہم حکم سے مذاق بن جائے اور نہ اتنا زيادہ کہ اس کي ادائيگي تکليف مالا يطاق ہوجائے۔

اس اصول کي بناء پر خاوند کي جو بھي مالي حيثيت ہو اس کے مطابق بالعموم چھ ماہ سے بارہ ماہ تک کي آمدني کے برابر حق مہر کو معقول اور مناسب خيال کيا گيا ہے۔

وعدوں کي پاسداري اور حق مہر کي ادائيگي

حضورانور نے وعدہ پورا کرنے کے حوالہ سے اسلامي تعليم کا تفصيل سے ذکر کرتے ہوئے فرمايا:

’’عام روزمرہ کے کاموں ميں بھي وعدہ خلافياں ہو رہي ہوتي ہيں اور ہوتے ہوتے بعض دفعہ سخت لڑائي پر يہ چيزيں منتج ہو جاتي ہيں۔ جھگڑوں کے بعد اگر صلح کي کوئي صورت پيدا ہو تو معاہدے ہوتے ہيں اور جب صلح کرانے والے ادارے دو فريقين کي صلح کرواتے ہيں تو وہاں صلح ہو جاتي ہے، وعدہ کرتے ہيں کہ سب ٹھيک رہے گا، بعض دفعہ لکھت پڑھت بھي ہو جاتي ہے ليکن بعض دفعہ يہ بھي ہوتا ہے کہ صلح کرکے دفتر يا عدالت سے باہر نکلے تو پھر سر پھٹول شروع ہو گئي، کوئي وعدوں اور عہدوں کا پاس نہيں ہوتا۔ پھر نکاح کا عہد ہے فريقين کا معاملہ ہے اس کو پورا نہيں کر رہے ہوتے۔

يہ معاہدہ تو ايک پبلک جگہ ميں اللہ کو گواہ بنا کر تقويٰ کي شرائط پر قائم رہنے کي شرط کے ساتھ کيا جاتا ہے ليکن بعض ايسي فطرت کے لوگ بھي ہوتے ہيں کہ اس کي بھي پروا نہيں کرتے۔ بيويوں کے حقوق ادا نہيں کر رہے ہوتے ان پر ظلم اور زيادتي کر رہے ہوتے ہيں، گھر کے خرچ ميں باوجود کشائش ہونے کےتنگي دے رہے ہوتے ہيں، بيويوں کے حق مہر ادا نہيں کر رہے ہوتے، حالانکہ نکاح کے وقت بڑے فخر سے کھڑے ہو کر سب کے سامنے يہ اعلان کر رہے ہوتے ہيں کہ ہاں ہميں اس حق مہر پر نکاح بالکل منظور ہے۔

اب پتہ نہيں ايسے لوگ دنيا دکھاوے کي خاطر حق مہر منظور کرتے ہيں کہ يا دل ميں يہ نيّت پہلے ہي ہوتي ہے کہ جو بھي حق مہر رکھوايا جا رہا ہے لکھوا لو کو نسا دينا ہے، تو ايسے لوگوں کو يہ حديث سامنے رکھني چاہئے کہ آنحضرتﷺ نے فرمايا کہ جو اس نيّت سے حق مہر رکھواتے ہيں ايسے لوگ زاني ہوتے ہيں۔

اللہ رحم کرے اگر ايک فيصد سے کم بھي ہم ميں سے ايسے لوگ ہوں، ہزار ميں سے بھي ايک ہو تو تب بھي ہميں فکرکرني چاہئے۔ کيونکہ پرانے احمديوں کي تربيت کے معيار اعليٰ ہوں گے تو نئے آنے والوں کي تربيت بھي صحيح طرح ہو سکے گي۔ اس لئے بہت گہرائي ميں جا کر ان باتوں کا خيال رکھنے کي ضرورت ہے‘‘۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 27؍فروري 2004ء بمقام مسجد بيت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنيشنل 12؍مارچ 2004ء)

ايک اور جگہ حضورانور حق مہر کي ادائيگي کي اہميت کي طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہيں:

’’حضرت ابوہريرہ سے روايت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمايا: جس نے کسي عورت سے شادي کے لئے مہر مقرر کيا اور نيّت کي کہ وہ اسے نہيں دے گا تو وہ زاني ہے اور جس کسي نے قرض اس نيّت سے ليا کہ ادا نہ کرے گا تو مَيں اسے چور شمار کرتا ہوں۔ (مجمع الزوائدجلد4صفحہ131) اب ديکھيں حق مہر ادا کرنا مرد کے لئے کتناضرور ي ہے۔ اگر نيّت ميں فتور ہے تو يہ خيانت ہے، چوري ہے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ6؍فروري 2004ء، خطبات مسرور جلد دوم صفحہ 111)

حضورانور حق مہر کي ادائيگي کے ضمن ميں مزيد فرماتے ہيں:

’’بعض دفعہ دوسروں کي باتوں ميں آ کريا دوسري شادي کے شوق ميں، جو بعض اوقات بعضوں کے دل ميں پيدا ہوتا ہے بڑے آرام سے پہلي بيوي پر الزام لگاديتے ہيں۔ اگر کسي کو شادي کا شوق ہے، اگر جائز ضرورت ہے اور شادي کرني ہے تو کريں ليکن بيچاري پہلي بيوي کو بدنام نہيں کرنا چاہيئے۔اگر صرف جان چھڑانے کے لئے کر رہے ہو کہ اس طرح کي باتيں کروں گا تو خود ہي خلع لے لے گي اور ميں حق مہر کي ادائيگي سے(اگر نہيں ديا ہوا) تو بچ جاؤں گا تو يہ بھي انتہائي گھٹيا حرکت ہے۔ اول تو قضاکو حق حاصل ہے کہ ايسي صورت ميں فيصلہ کرے کہ چاہے خلع ہے حق مہر بھي ادا کرو۔ دوسرے يہاں کے قانون کے تحت، قانوني طور پر بھي پابند ہيں کہ بعض خرچ بھي ادا کرنے ہيں‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍نومبر2006ء بمقام مسجد بيت الفتوح، لندن مطبوعہ الفضل انٹرنيشنل يکم دسمبر 2006ء)

حق مہر کے متعلق نظام سلسلہ کا اختيار

حضرت خليفةالمسيح الخامس نے اس بابت ہدايت ديتے ہوئے فرمايا:

’’پھر شادي بياہوں ميں مہر مقرر کرنے کا بھي ايک مسئلہ ہے۔ يہ بھي رہتا ہے ہروقت۔ اور اگر کبھي خدانخواستہ کوئي شادي ناکام ہو جائے تو پھر لڑکے کي طرف سے اس بارے ميں ليت و لعل سے کام ليا جاتا ہے جس کي وجہ سے پھر ان کے خلاف ايکشن بھي ہوتا ہے۔ اس لئے پہلے ہي سوچ سمجھ کر مہر رکھنا چاہئے دنيا کے دکھاوے کے لئے نہ رکھنا چاہئے بلکہ ايسا ہو جو ادا ہو سکے۔ ايسا مہر مقرر نہ ہو، جيسا کہ مَيں نے کہا، صرف دکھاوے کي خاطر ہو اور پھر معاشرے ميں بگاڑ پيدا کرنے والا ہو۔

حضرت ابوہريرہؓ سے مروي ہے کہ ايک شخص نبي کريمﷺ کے پاس آيا اور کہنے لگا کہ مَيں نے انصار کي ايک عورت کو شادي کا پيغام بھجوايا ہے۔ نبي کريمﷺ نے اسے فرمايا کہ کيا تم نے اسے ديکھ ليا ہے کيونکہ انصار کي آنکھوں ميں کوئي چيز ہوتي ہے۔ اس نے کہا مَيں نے اسے ديکھ ليا ہے۔ آپ نے فرمايا تو مہر کيا رکھ رہے ہو؟ اس نے کہا چار اوقيہ چاندي۔ نبي کريمﷺ نے اسے فرمايا چار اوقيہ؟۔ سوال کيا۔ چاراوقيہ گويا تم اس پہاڑ کے گوشے سے چاندي کھود کر اسے دو گے۔ ہمارے پاس اتنا نہيں ہے جو ہم تجھے ديں ليکن يہ ہو سکتا ہے کہ ہم تمہيں کسي مہم پر بھجوا ديں وہاں سے تم کچھ مال غنيمت حاصل کر لو۔ پھر آپ نے ايک دستہ بني عبس کي طرف بھجوايا تو اس شخص کو اس ميں شامل کيا۔ (مسلم۔ کتاب النکاح۔ باب ندب من اراد نکاح امرأة الي ان ينظر الي وجھھا)

تو ديکھيں مہر کے بارے ميں بھي آپ نے يہ پسند نہيں فرمايا کہ طاقت سے بڑھ کر ہو۔ جو اس کي حيثيت کے مطابق نہيں تھا تو کہا يہ بہت زيادہ ہے۔ اور پھر يہ بھي پتہ تھا کہ آپ سے مانگے گا، نظام سے درخواست کرے گا۔ آنحضرتﷺ کي خدمت ميں حاضر ہوا تو فرمايا کہ مہم پر جاؤ مال غنيمت مل گيا تو اس سے اپنا مہر ادا کر دينا اور يہي بات ہے کہ مہر جو ہے سوچ سمجھ کر رکھنا چاہئے جتني توفيق ہو جتني طاقت ہو۔

مہر ايک ايسا معاملہ ہے جس کي و جہ سے بہت سي قباحتيں پيدا ہوتي ہيں۔ قضاء ميں بہت سارے کيس آتے ہيں۔ ايسے موقعوں پر تو بڑي عجيب صورت پيدا ہو جاتي ہے۔ شادي سے پہلے لڑکي والے لڑکے کو باندھنے کي غرض سے زيادہ مہر لکھوانے کي کوشش کرتے ہيں اور شادي کے بعد اگر کہيں جھگڑے کي صورت پيدا ہو جائے، طلاق کي صورت ہو جائے، تو لڑکے بہانے بنا کر اس کو ٹالنے کي کوشش کرتے ہيں اور پھر نظام کے لئے اور مير ے لئے اور بھي زيادہ تکليف دہ صورت حال پيدا ہو جاتي ہے کيونکہ ادائيگي نہ کرنے کي صورت ميں سزا بھي ديني پڑتي ہے۔ اس بارے ميں حضرت مسيح موعود نے بڑے واضح ارشادات فرمائے ہيں آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ کسي نے پوچھا مہر کے متعلق کہ اس کي تعداد کس قدر ہوني چاہئے۔ آپؑ نے فرمايا کہ مہر تراضئ طرفين سے ہو، آپس ميں جو فريقين ہيں ان کي رضا مندي سے ہو جس پر کوئي حرف نہيں آتا اور شرعي مہر سے يہ مراد نہيں کہ نصوص يا احاديث ميں کوئي اس کي حد مقرر کي گئي ہے۔ کوئي حد نہيں ہے مہر کي بلکہ اس سے مراد اس وقت کے لوگوں کے مرّوجہ مہر سے ہوا کرتي ہے۔ ہمارے ملک ميں يہ خرابي ہے کہ نيّت اور ہوتي ہے اور محض نمود کے لئے لاکھ لاکھ روپے کا مہر ہوتا ہے۔ صرف ڈراوے کے لئے يہ لکھا جايا کرتا ہے کہ مرد قابوميں رہے اور اس سے پھر دوسرے نتائج خراب نکل سکتے ہيں۔ نہ عورت والوں کي نيّت لينے کي ہوتي ہے نہ خاوند کي دينے کي۔ جيسا کہ فرمايا: مسائل اس وقت پيدا ہوتے ہيں جب لڑائي جھگڑے ہوں۔ فرمايا کہ ميرا مذہب يہ ہے کہ جب ايسي صورت ميں تنازع آپڑے تو جب تک اس کي نيّت ثابت نہ ہو کہ ہاں رضا و رغبت سے وہ اسي قدر مہر پر آمادہ تھا جس قدر کہ مقرّر شدہ ہے تب تک مقرر مہر نہ دلايا جاوے اور اس کي حيثيت اور رواج وغيرہ کو مدِّنظر رکھ کر پھر فيصلہ کيا جاوے کيونکہ بدنيتي کي اتباع نہ شريعت کرتي ہے اور نہ قانون۔

تو اس بارے ميں جو معاملات آتے ہيں اس کو بھي قضاء کو ديکھنا چاہئے۔ اتنا ہي نظام کو يا قضا کو بوجھ ڈالنا چاہئے جو اس کي حيثيت کے مطابق ہو اور اس کے مطابق حق مہر کا تعين کرنا چاہئے۔ ايسے موقعوں پربڑي گہرائي ميں جا کر جائزہ لينے کي ضرورت ہوتي ہے۔ حيثيت کا تعين کرنے کے لئے فريقين کو بھي قول سديد سے کام لينا چاہئے۔ نہ دينے والا حق مارنے کي کوشش کرے اور نہ لينے والا اپنے پيٹ ميں انگارے بھرنے کي کوشش کرے۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 25 نومبر2005ء، الفضل انٹرنيشنل 16 دسمبر2005ء)

حضرت خليفةالمسيح الخامس فرماتے ہيں کہ

’’بہرحال جب حق مہر زيادہ رکھوائے جاتے ہيں تو جب خلع طلاق کے فيصلے ہوتے ہيں تو قضا کو يہ اختيارہے کہ اگر کسي شخص کي حيثيت نہيں ہے اور ناجائز طور پر حق مہر رکھوايا گيا تھا تو اُس حق مہر کو خود مقرر کر دے اور يہ ہوتا ہے‘‘۔ (جلسہ سالانہ جرمني خطاب از مستورات فرمودہ 25 جون 2011ء مطبوعہ الفضل انٹرنيشنل13؍اپريل 2012ء)

حق مہر کا بخشنا

حضرت خليفةالمسيح الخامس نے نصيحت فرمائي: ’’حق مہر کي ادائيگي کے بارے ميں ايک اور مسئلہ بھي پيدا ہوتا ہے۔ ايک دفعہ حضرت مسيح موعود کي خدمت ميں ايک سوال پيش ہوا کہ ايک عورت اپنا مہر نہيں بخشتي۔ (شادي کرکے اس کو کہتے ہيں کہ بخش بھي دو) توحضرت مسيح موعود نے فرمايا يہ عورت کا حق ہے۔ اسے دينا چاہئے اوّل تو نکاح کے وقت ہي ادا کرے ورنہ بعداَزاں ادا کر نا چاہئے۔ پنجاب اور ہندوستان ميں يہ شرافت ہے کہ موت کے وقت يا اس سے پيشتر (يعني عورتوں کي يہ شرافت ہے کہ موت کے وقت يا اس سے پيشتر) خاوند کو اپنا مہر بخش ديتي ہيں۔ يہ صرف رواج ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 606 جديد ايڈيشن)

ايک دفعہ حضرت مسيح موعود کے ايک صحابي نے عرض کيا کہ ميري بيوي نے مجھے مہر بخش ديا ہے، معاف کر ديا ہے۔ تو آپ نے فرمايا تم نے اس کے ہاتھ پر رکھا تھا۔ انہوں نے کہا نہيں۔ آپ نے فرماياجاؤ پہلے ہاتھ پہ رکھو پھر اگر وہ بخش دے، معاف کر دے تو پھر ٹھيک ہے۔ تو جب واپس آئے کہتے ہيں مَيں نے تو اس کے ہاتھ پر رکھا اور وہ دينے سے انکاري ہے۔ فرمايا يہي طريقہ ہے۔ (تلخيص از الازھار لذوات الخمار صفحہ 160طبع دوم)

اصل طريقہ بھي يہي ہے پہلے ہاتھ پر رکھو پھرمعاف کرواؤ۔ اس لئے جو کوشش کرتے ہيں ناں مقدمہ لانے سے پہلے کہ جو ہم نے يہ کہہ ديا وہ کہہ ديا ان کو سوچنا چاہئے۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 25 نومبر2005ء، الفضل انٹرنيشنل 16 دسمبر 2005ء)

حضورانور نے جلسہ سالانہ جرمني 2011ء ميں احمدي خواتين سےارشاد فرمايا:

بعض لڑکوں سے بڑي بڑي رقميں حق مہر رکھوا ليا جاتا ہے کہ کون سا ہم نے لينا ہے۔ يا يہ کہہ ديتي ہيں ہم نے حق مہر معاف کر ديا۔ اگرلينا نہيں تو يہ بھي جھوٹ ہے۔ حق مہر مقرر ہي اس لئے کيا جاتا ہے کہ عورت لے اور يہ عورت کا حق ہے، اُس کو لينا چاہئے۔

ايک دفعہ حضرت مسيح موعود کے ايک صحابي نے کہا کہ حق مہر ميري بيوي نے واپس کر ديا ہے۔ معاف کر ديا ہے۔ آپ نے کہا کہ جا کے پہلے بيوي کے ہاتھ پر حق مہر رکھو، پھر اگر وہ واپس کرتي ہے تب حق مہر معاف ہوتا ہے۔ نہيں تو نہيں۔ بےچارے کي دو بيوياں تھيں۔ خير انہوں نے قرض لے کر جا کرجب دونوں کے ہاتھ ميں برابر کا حق مہر رکھ ديا اور کہا کہ واپس کر دو، تم معاف کر چکي ہو۔ انہوں نے کہا ہم تو اس لئے معاف کر چکي تھيں کہ ہمارا خيال تھا کہ تمہيں دينے کي طاقت نہيں ہے اور تم نہيں دو گے۔ تو کيونکہ اب تو تم نے دے ديا ہے تو دوڑ جاؤ۔ وہ پھر حضرت مسيح موعود کے پاس آئے تو آپ بڑے ہنسے اور آپ نے کہا ٹھيک ہے، ايسا ہي ہونا چاہئے تھا۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جولائي 1925ء۔ خطبات محمود جلد 9صفحہ 217 مطبوعہ ربوہ)

حق مہر کي اہميت کے حوالہ سے حضورانور فرماتے ہيں:

تو حق مہر لينے کے لئے ہوتا ہے، حق مہر معاف کرنے کے لئے نہيں ہوتا اور يہ عورت کا حق ہے کہ لے۔ جنہوں نے معاف کرنا ہے وہ پہلے يہ کہيں کہ ہمارے ہاتھ پر رکھ دو۔ پھر اگر اتنا کھلا دل ہے، حوصلہ ہے تو پھر واپس کر ديں۔ (جلسہ سالانہ جرمني خطاب از مستورات فرمودہ 25 جون 2011ء مطبوعہ الفضل انٹرنيشنل13؍اپريل 2012ء)

مرحومہ بيوي کا مہر اس کے شرعي ورثاء ميں بحصص شرعي تقسيم ہوتا ہے۔

حضرت خليفةالمسيح الخامس فرماتے ہيں:

اسي ضمن ميں ايک اوربات بھي بيان کر دوں کيونکہ کل ہي بنگلہ ديش سے ايک نے خط لکھ کر پوچھا تھا کہ ميري بيوي فوت ہو گئي ہے اور مہر ميں نے ادا نہيں کيا تھا تو ايسي صورت ميں اب مجھے کيا کرنا چاہئے۔ تو اسي قسم کا ايک سوال حضرت مسيح موعود کي خدمت ميں پيش ہوا تھا کہ ميري بيوي فوت ہو گئي ہے مَيں نے نہ مہر اس کو ديا ہے نہ بخشوايا ہے۔ اب کيا کروں۔ تو آپ نے فتويٰ ديا، فرمايا کہ مہر اس کا ترکہ ہے اور آپ کے نام قرض ہے۔آپ کو ادا کرنا چاہئے اور اس کي يہ صورت ہے کہ شرعي حصص کے مطابق اس کے دوسرے مال کے ساتھ تقسيم کيا جاوے۔ جس ميں ايک حصہ خاوند کا بھي ہے اور دوسري صورت يہ ہے کہ اس کے نام پر صدقہ ديا جاوے۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 25 نومبر2005ء، الفضل انٹرنيشنل 16 دسمبر2005ء۔صفحہ نمبر8)

حضرت مسيح موعود کے معين الفاظ يہ ہيں کہ ’’اسے چاہيے کہ اس کا مہر اس کے وارثوں کو دے دے۔ اگر اس کي اولاد ہے تو وہ بھي وارثوں سے ہے۔ شرعي حصہ لے سکتي ہے اور عليٰ ہذا القياس خاوند بھي لے سکتاہے‘‘۔

(اخبار بدر نمبر 7 جلد 4 مؤرخہ 5 ؍ مارچ 1905ء صفحہ 2)

اسي طرح ايک استفسار حضرت مسيح موعود کي خدمت ميں ان الفاظ کے ساتھ پيش ہوا تھا کہ ايک شخص مثلاََ زيد نام لاولد فوت ہو گيا ہے۔ زيد کي ايک ہمشيرہ تھي جو زيد کي حين حيات ميں بياہي گئي تھي۔ بہ سبب اس کے کہ خاوند سے بن نہ آئي، اپنے بھائي کے گھر ميں رہتي تھي اور وہيں رہي يہاں تک کہ زيد مر گيا۔ زيد کے مرنے کے بعد اس عورت نے بغير اس کے کہ پہلے خاوند سے باقاعدہ طلاق حاصل کرتي ايک اور شخص سے نکاح کر ليا جوکہ ناجائز ہے۔ زيد کے ترکہ ميں جو لوگ حقدار ہيں کيا ان کے درميان ان کي ہمشيرہ بھي شامل ہے يا اس کو حصہ نہيں ملنا چاہيے؟

حضرت نے فرمايا کہ: اس کو حصہ شرعي ملنا چاہيے کيونکہ بھائي کي زندگي ميں وہ اس کے پاس رہي اور فاسق ہوجانے سے اس کا حق وراثت باطل نہيں ہو سکتا۔ شرعي حصہ اس کو برابر ملنا چاہيے۔ باقي معاملہ اس کا خداتعاليٰ کے ساتھ ہے…… اس کے شرعي حق ميں کوئي فرق نہيں آسکتا۔

(اخبار بدر نمبر39 جلد 6مؤرخہ 26؍ ستمبر 1907صفحہ 6)

يورپ ميں حق مہر کے متعلق ہدايت

حضرت خليفةالمسيح الخامس فرماتے ہيں: بعض لوگ جو يہ سمجھتے ہيں يہاں يورپ ميں بعض دفعہ ايسے جھگڑے آ جاتے ہيں کہ ملکي قانون جو ہے وہ حقوق دلوا ديتا ہے طلاق کي صورت ميں وہ کافي ہے حق مہر نہيں دينا چاہئے۔ ايک تو يہ ہے کہ وہ حقوق بعض دفعہ اگر بچے ہوں تو بچوں کے ہوتے ہيں۔ دوسرے کچھ حد تک اگر بيوي کے ہوں بھي تو وہ ايک وقت تک کے لئے ہوتے ہيں اس لئے بعد ميں يہ مطالبہ کرنا کہ حق مہر نہ دلوايا جائے اور حق مہر ميں اس کو ايڈجسٹ کيا جائے يہ ميرے نزديک جائز نہيں۔

جيسا کہ حضرت مسيح موعود نے فرمايا کہ پہلي تو بات يہ کہ ديکھ کر حق مہر مقرر کيا جائے۔ حيثيت سے بڑھ کر نہ ہو۔ اس کا تعين قضا کر سکتي ہے کتنا ہے۔ اور جب تعين ہو گيا ہے تو فرمايا کہ يہ تو ايک قرض ہے اور قرض کي ادائيگي بہرحال کرني ضروري ہے اس لئے يہ بہانے نہيں ہونے چاہئيں کہ حق مہر ادا نہيں کيا۔ تو يہ قرض جو ہے وہ قرض کي صورت ميں ادا ہونا چاہئے اس کا ان حقوق سے کوئي تعلق نہيں جو ملکي قانون دلواتے ہيں۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 25 نومبر2005ء، الفضل انٹرنيشنل 16 دسمبر2005ء)

حضرت خليفةالمسيح الخامس  فرماتے ہيں کہ

بعض ايسے بھي ہيں جو عدالت ميں اپنے مفادات لے ليتے ہيں اور لے ليتي ہيں، لڑکياں بھي اور لڑکے بھي، اور پھر اس کے بعد کہتے ہيں ہمارا شرعي حق يہ بنتا تھا۔ پھر جماعت ميں بھي آ جاتے ہيں۔ اگر شرعي حق بنتا تھا تو پھر شرعي حق لو يا قانوني حق لو۔ بعض دفعہ قانوني حق شرعي حق سے زيادہ ہو جاتا ہے اس لئے بہرحال حق ايک طرف کا ہي لينا چاہئے۔ ظلم جو ہے وہ نہيں ہونا چاہئے۔ ايک فريق پر زيادتي نہيں ہوني چاہئے۔ نہ لڑکے پر، نہ لڑکي پر۔ پھر اس کے لئے جھوٹ کا سہارا ليا جاتاہے۔ پس يہ ايسے کراہت والے کام ہيں کہ ان کو ديکھ کر ايک شريف شخص کراہت کے علاوہ کچھ نہيں کر سکتا۔

(جلسہ سالانہ جرمني خطاب از مستورات فرمودہ 25جون 2011ء مطبوعہ الفضل انٹرنيشنل13؍اپريل 2012ء)

 

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • فیصلہ جات مجلس شوریٰ جماعت احمدیہ جرمنی 2024

  • تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے

  • خلافت اور جماعت کے باہمی پیار کا تعلّق