سیّدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس کے خطبہ جمعہ فرمودہ خطبہ جمعہ 6؍ جولائی 2012ء کا متن

تشہّد و تعوّذ اور سورة فاتحہ کي تلاوت کے بعد حضورانور نے فرمايا:

الحمدللہ! آج جماعت احمديہ کينيڈا کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے۔ يہ جلسے ايک احمدي کے لئے برکات کا موجب بنتے ہيں اور بننے چاہئيں کيونکہ ايک خاص ماحول ميں اور صرف ديني اغراض کے لئے جمع ہونا، اللہ تعاليٰ کے ذکر کے لئے جمع ہونا، اُس کي رضا کے حصول کے لئے جمع ہونا يقيناً اللہ تعاليٰ کے فضلوں کو کھينچتا ہے۔ آنحضرتﷺ نے بھي بڑا کھول کر بيان فرمايا کہ اللہ تعاليٰ کي رضا کے حصول کے لئے منعقدہ مجالس اللہ تعاليٰ کے فضلوں کا وارث بناتي ہيں، اُس کي جنّتوں کي طرف لے جاتي ہيں۔ آپؐ نے فرمايا کہ اے لوگو! جنّت کے باغوں ميں چرنے کي کوشش کرو۔ جب صحابہ نے اس بارے ميں وضاحت چاہي کہ جنّت کے باغ کيا ہيں؟ تو آپؐ نے فرمايا: ذکر کي مجالس جنّت کے باغ ہيں۔

(سنن الترمذي کتاب الدعوات باب 86حديث 3510)

پس جن مجلسوں سے جنّت کے باغوں کے راستے مليں وہ يقيناً ً برکتوں والي مجالس ہوتي ہيں۔ اور ہمارے جلسوں کا تو مقصد ہي يہ ہے کہ خداتعاليٰ کي رضا کے حصول کے لئے اللہ تعاليٰ کي محبّت ميں بڑھنے کي باتيں سنيں، دعاؤں اور عبادات کي طرف توجہ ہو اور اس کے حصول کے طريقے بھي سيکھيں۔ اور اسي طرح اللہ تعاليٰ کي رضا کے حصول کے لئے اللہ تعاليٰ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کي طرف بھي توجہ پيدا کريں۔ اور پھر يہ نيکيوں کي طرف توجہ، حقوق کي ادائيگي کي طرف توجہ خداتعاليٰ کا شکرگزار بناتے ہوئے ہماري زبانوں کو اُس کے ذکر سے تَر کرتے ہوئے جنّت کے باغوں کي طرف رہنمائي کرتي ہے بلکہ بندوں کے حقوق کي ادائيگي کي وجہ سے جس کا حق ادا کيا جا رہا ہو، وہ جب ديکھتا ہے کہ ادائيگي حقوق کي توجہ اس مجلس کي وجہ سے ہو رہي ہے تو جس کا حق ادا کياجا رہا ہو، وہ بھي اللہ تعاليٰ کي حمد اور شکر کرتا ہے اور يہي مومنين کي مجالس اور آپس کے تعلقات اور خداتعاليٰ کي شکر کي ادائيگي کا حال ہونا چاہئے۔

پس خوش قسمت ہيں ہم ميں سے وہ جو اس روح کے ساتھ يہاں آتے ہيں، اس کے مطابق عمل کرتے ہيں اور نتيجتاً نہ صرف اپنے لئے جنّت کے باغوں کے دروازے کھولتے ہيں بلکہ حقوق العباد کي ادائيگي کي وجہ سے دوسروں کے لئے بھي جنّت کے باغوں ميں چَرنے کا ذريعہ بنتے ہيں اور پھر مزيد برکتوں کے سامان ہوتے ہيں۔ اللہ تعاليٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والا ايک مومن بنتا ہے کيونکہ دوسروں کو نيکي کا راستہ دکھانے والا يا کسي پر نيکي کرکے اُسے اللہ تعاليٰ کي شکرگزاري کي طرف توجہ دلانے والا بھي اُسي قدر نيکي کے ثواب کا مستحق بن جاتا ہے جتنا نيکي کرنے والا۔ گويا ايک نيکي نيک نتائج کي وجہ سے کئي گنا نيکيوں کا ثواب دلوا کر پھر اللہ تعاليٰ کے فضلوں اور رحمتوں کا وارث بناتي چلي جاتي ہے۔

پس يہ ہے ہمارا پيارا خدا جو نيکيوں کو سينکڑوں گنا، ہزاروں گنا پھل لگاتا ہے اور اپنے بندے کي معمولي کوشش کو بھي اس قدر بڑھا ديتا ہے کہ جو انساني تصور سے بھي باہر ہے۔ پس اس پيارے خدا کے پيار کي تلاش ہر ايک کو کرني چاہئے۔ اور جيسا کہ مَيں اکثر کہتا رہتا ہوں کہ حضرت مسيح موعود نے جلسوں کا انعقاد کرکے ہمارے لئے برکات کے راستے کھولے ہيں، جنّت کے باغوں کي سير کے لئے ايک وسيع اور بہترين انتظام فرما ديا ہے۔ پس خوش قسمت ہوں گے ہم ميں سے وہ جو اس مجلس اور اس ماحول سے فائدہ اُٹھا کر اللہ تعاليٰ کي رضا کے حاصل کرنے والے بن جائيں۔ پس اس رضا کے حصول کے لئے جلسے ميں شامل ہونے والے ہر مرد، عورت، جوان، بوڑھے اور بچے کو کوشش کرني چاہئے۔ افرادِ جماعت کو يہ مقام حاصل کرنے والا بنانے کے لئے حضرت مسيح موعود کے دل ميں کتنا درد تھا اور آپ کس تڑپ کے ساتھ اس کے لئے دعا کرتے تھے، اس کا اندازہ آپؑ کے ان الفاظ سے ہوتا ہے۔ فرمايا:

دعا کرتا ہوں اور جب تک مجھ ميں دَم زندگي ہے کئے جاؤں گا اور دعا يہي ہے کہ خداتعاليٰ ميري اس جماعت کے دلوں کو پاک کرے اور اپني رحمت کا ہاتھ لمبا کرکے اُن کے دل اپني طرف پھير دے اور تمام شرارتيں اور کينے اُن کے دلوں سے اٹھا دے اور باہمي سچي محبّت عطا کردے اور مَيں يقين رکھتا ہوں کہ يہ دعا کسي وقت قبول ہو گي اور خدا ميري دعاؤں کو ضائع نہيں کرے گا۔ ہاں مَيں يہ بھي دعا کرتا ہوں کہ اگر کوئي شخص ميري جماعت ميں خداتعاليٰ کے علم اور ارادہ ميں بدبخت ازلي ہے جس کے لئے يہ مقدر ہي نہيں کہ سچي پاکيزگي اور خدا ترسي اس کو حاصل ہو تو اس کو اے قادر خدا ميري طرف سے بھي منحرف کردے جيسا کہ وہ تيري طرف سے منحرف ہے اور اس کي جگہ کوئي اور لا جس کا دل نرم اور جس کي جان ميں تيري طلب ہو۔

(شہادةالقرآن روحاني خزائن جلد 6صفحہ 398)

پس يہ الفاظ آپ کے دلي درد کا ايسا اظہار ہے جو دل کو ہلا ديتا ہے۔ رونگٹے کھڑے کرنے والا ہے، توبہ اور استغفار کي طرف مائل کرنے والا ہے۔ اور حقيقي رنگ ميں خداتعاليٰ کے حضور جھکتے ہوئے اللہ تعاليٰ سے مغفرت اور بخشش کا طلبگار بنانے والا ہے۔ حقوق العباد کي ادائيگي کي طرف توجہ دلانے والا ہے۔ پس ان دنوں ميں ہم ميں سے ہر ايک کو توبہ اور استغفار، درُود اور ذکرِ الٰہي کي طرف توجہ دينے کي ضرورت ہے۔ اللہ تعاليٰ نہ صرف ہمارے ايمانوں کو سلامت رکھے بلکہ ايمان و ايقان اور تقويٰ ميں ترقي کرنے والا بناتا چلا جائے۔ ہمارے استغفار خالص استغفار بن جائيں۔ ہماري نمازيں اور عبادتيں حقيقي نمازيں اور عبادتيں بن جائيں۔ ہماري حقوق العباد کي ادائيگي خالصةً اللہ تعاليٰ کي رضا کے حصول کے لئے ہو جائے۔

حضرت مسيح موعود کے اس ارشاد کو بھي ہميشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ آپؑ فرماتے ہيں:

جب تک دل فروتني کا سجدہ نہ کرے صرف ظاہري سجدوں پر اميد رکھنا طمع خام ہے۔ يونہي جھوٹي خواہش ہے کہ ہم بڑے سجدے کر رہے ہيں اور ہماري دعائيں اللہ تعاليٰ قبول کر لے۔ فرمايا: جيسا کہ قربانيوں کا خون اور گوشت خدا تک نہيں پہنچتا صرف تقويٰ پہنچتي ہے، ايسا ہي جسماني رکوع و سجود بھي ہيچ ہے جب تک دل کا رکوع و سجود و قيام نہ ہو۔ فرمايا دل کا قيام يہ ہے کہ اس کے حکموں پر قائم ہو اور رکوع يہ کہ اس کي طرف جھکے اور سجود يہ کہ اس کے ليے اپنے وجود سے دست بردار ہو۔

(شہادةالقرآن روحاني خزائن جلد 6صفحہ 398)

پس حضرت مسيح موعود کي ہم سے، اپنے ماننے والوں سے، اپني جماعت سے يہ خواہش ہے کہ تقويٰ کا مقام حاصل ہو اور اس کے لئے بڑے درد سے آپ نے يہ دعا فرمائي۔ اللہ کرے ہم اس مقام کو حاصل کرنے والے بنيں۔ ہمارے دنيا کے دھندوں ميں بہت زيادہ پڑ جانے اور تقويٰ سے دور ہونے کي وجہ سے ہم حضرت مسيح موعود کے انقلابي مشن ميں روک پيدا کرنے والے نہ بن جائيں۔ ہم حقوق اللہ اور حقوق العباد کي پامالي کرنے والے نہ بن جائيں۔ ہم آپ کي روح کے لئے تکليف کا باعث نہ بن جائيں۔ پس اس جلسے کي برکات سے بھر پور فائدہ اُٹھانے اور حضرت مسيح موعود کي خواہشات اور دعاؤں کا وارث بننے کے لئے ہر احمدي کو ايک نئے عزم کے ساتھ يہ عہد کرنا چاہئے اور اس کے لئے بھرپور کوشش کرني چاہئے کہ ہم اپنے معيارِ تقويٰ کو بڑھاتے چلے جانے کي کوشش کرتے چلے جائيں گے۔

تقويٰ کے راستوں کي تلاش کے لئے قرآنِ کريم نے جو ہميں تعليم دي ہے اور ايک حقيقي مومن کا جو معيار بيان فرمايا ہے اُس کي تلاش کرکے اور اُس پر عمل کرکے ہي ہم يہ معيار حاصل کرسکتے ہيں جس کي توقع حضرت مسيح موعود نے ہم سے کي ہے۔ قرآنِ کريم ميں تقويٰ پر چلنے کے بارے ميں مختلف حوالوں سے، مختلف نہج سے بےشمار جگہ ذکر ہے جن ميں سے بعض کا ميں يہاں ذکر کروں گا تا کہ ہم ميں سے ہر ايک کو اپنے جائزے لينے کي طرف توجہ رہے۔ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے

اَنَّہٗ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنَا فَاتَّقُوْنِ (النحل:3)

ميرے سوا کوئي معبود نہيں، پس ميرا تقويٰ اختيار کرو۔ تقويٰ کا مطلب ہے بچاؤ کے لئے ڈھال کے پيچھے آنا، گناہوں سے بچاؤ کے سامان کرنا، مشکلات سے بچنے کے سامان کرنا۔ پس اللہ تعاليٰ فرماتا ہے ميري عبادت اگر اُس کا حق ادا کرتے ہوئے کرو گے تو يہي تقويٰ ہے جو تمہاري ہر طرح سے حفاظت کرے گا، تمہيں گناہوں سے بچائے گا، تمہيں مشکلات سے نکالے گا۔ واضح ہو کہ اللہ تعاليٰ کي عبادت جب اُس کے حق کے ساتھ کي جائے تو يہ وہ مقام ہے جہاں خداتعاليٰ کا خوف اور خشيت پيدا ہوتي ہے ليکن يہ خوف اُس پيار کي وجہ سے ہے جو ايک حقيقي عابد اور ايک حقيقي مؤمن کو خداتعاليٰ سے ہے اور اس کو دوسرے لفظوں ميں تقويٰ کہتے ہيں۔ پس ان عبادتوں کا حق ادا کرنے کي کوشش ايک حقيقي احمدي کو کرني چاہئے تاکہ تقويٰ پر چلنے والا اور خداتعاليٰ کي رضا حاصل کرنے والا کہلا سکے اور يہي انساني پيدائش کا بہت بڑا مقصد ہے۔ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے

 وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ

اور مَيں نے جِنّوں اور انسانوں کو صرف اپني عبادت کے لئے پيدا کيا ہے۔(الذّاريات:57)

حضرت مسيح موعود فرماتے ہيں:

اگرچہ مختلف الطبائع انسان اپني کوتاہ فہمي يا پست ہمتي سے مختلف طور کے مدّعا اپني زندگي کے لئے ٹھہراتے ہيں۔ اور ہم ديکھتے ہيں کہ آجکل بلکہ ہميشہ سے ہي يہ اصول رہا ہے کہ انسان اپني زندگي کے مقصد خود بناتا ہے يا سمجھتا ہے کہ ميں نے يہ مقصد بنائے ہيں اور يہي ميري کاميابي کا راز ہيں۔ اور اُس اصل مقصد کو بھول جاتا ہے جو خداتعاليٰ نے انسان کي پيدائش کا انسان کو بتايا ہے۔ فرماتے ہيں پست ہمتي سے مختلف طور کے مدّعا اپني زندگي کے لئے ٹھہراتے ہيں۔ اور فقط دنيا کے مقاصد اور آرزوؤں تک چل کر آگے ٹھہر جاتے ہيں۔ مگر وہ مدّعا جو خدائےتعاليٰ اپنے پاک کلام ميں بيان فرماتا ہے، يہ ہے۔

 وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ

يعني مَيں نے جِنّ اور انسان کو اسي لئے پيدا کيا ہے کہ وہ مجھے پہچانيں اور ميري پرستش کريں(الذّاريات:57)۔ پس اس آيت کي رُو سے اصل مدّعا انسان کي زندگي کا خداتعاليٰ کي پرستش اور خداتعاليٰ کي معرفت اور خداتعاليٰ کے لئے ہو جانا ہے۔

(اسلامي اصول کي فلاسفي روحاني خزائن جلد 10 صفحہ 414)

يہ تو ظاہر ہے کہ انسان کو تو يہ مرتبہ حاصل نہيں ہے کہ اپني زندگي کا مدعا اپنے اختيار سے آپ مقرر کرے کيونکہ انسان نہ اپني مرضي سے آتا ہے اور نہ اپني مرضي سے واپس جائے گا بلکہ وہ ايک مخلوق ہے اور جس نے پيدا کيا اور تمام حيوانات کي نسبت عمدہ اور اعليٰ قويٰ اس کو عنايت کئے، اُس نے اس کي زندگي کا ايک مدعا ٹھہرا رکھا ہے، خواہ کوئي انسان اس مدّعا کو سمجھے يا نہ سمجھے مگر انسان کي پيدائش کا مدعا بلا شبہ خدا کي پرستش اور خداتعاليٰ کي معرفت اور خداتعاليٰ ميں فاني ہو جانا ہي ہے۔

پس يہ وہ مقام اور معيار ہے جسے ہر احمدي نے حاصل کرنا ہے اور کرنا چاہئے، اس کے لئے کوشش کرني چاہئے۔ انسان خود جتنا چاہے اپنا مقصد بنا لے اور اس کے حصول کے لئے کوشش کرے، اُس کي زندگي بےمعني ہے۔ آجکل اپنے سکون کے لئے انہي اغراض کو پورا کرنے کے لئے دنيا ميں اور خاص طور پر مغربي ممالک ميں تو بےشمار طريقے ايجاد کرنے کي انسان نے کوشش کي جن کا ماحصل صرف بےحيائي ہے۔ انساني قدريں بھي اس قدر گر گئي ہيں کہ انسان ہر قسم کے ننگ اور بيہودگي کو لوگوں کے سامنے کرتا ہے بلکہ ٹي وي پر دکھانے پر بھي کوئي عار نہيں سمجھا جاتا۔ بلکہ بعض حرکات جانوروں سے بھي بدتر ہيں اور اسي کو فن اور سکون کا نام ديا جاتا ہے۔ انہي کي حالت کا اللہ تعاليٰ نے ايک جگہ يوں نقشہ بھي کھينچا ہے۔ فرمايا

 وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِيْراً مِِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ لَہُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِہَا اُوْلٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ اُوْلٰـئِکَ ہُمُ الْغَافِلُوْنَ (الاعراف:180)

اور يقيناً ہم نے جنّوں اور انسانوں ميں سے ايک بڑي تعداد کو جہنم کے لئے پيدا کيا ہے، اُن کے دل تو ہيں مگر ان کے ذريعہ سے وہ سمجھتے نہيں، يعني روحاني باتيں سمجھنے کے قائل ہي نہيں، اُن کي آنکھيں تو ہيں مگر اُن کے ذريعہ سے وہ ديکھتے نہيں، اُن کے کان تو ہيں مگر ان کے ذريعے سے وہ سنتے نہيں، نہ ان کے دلوں ميں روحانيت بيٹھتي ہے، نہ اُن کے کان روحانيت کي باتيں، ديني باتيں سننے کے قائل ہيں نہ نيک چيزيں اور وہ چيزيں ديکھنے کي طرف توجہ ديتے ہيں جس کي طرف خداتعاليٰ نے ديکھنے کا کہا ہے اور نہ اُن سے ديکھنے سے رُکتے ہيں جن سے خداتعاليٰ نے رکنے کا کہا ہے۔ گويا مکمل طور پر دنياوي خواہشات نے اُن پر غلبہ حاصل کرليا ہے۔ فرمايا کہ وہ لوگ چارپايوں کي طرح ہيں بلکہ اُن سے بھي بد تر، اور بھٹکے ہوئے ہيں، يہي لوگ ہيں جو غافل ہيں۔ پھر ايک جگہ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے

 اَرَءَ يْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہٗ ھَوٰہُ(الفرقان:44)

کيا توُنے اُسے ديکھا جس نے اپني خواہش کو ہي اپنا معبود بنا ليا۔ يہ لوگ صرف اپني خواہشات کي ہي عبادت کرنے والے ہيں۔ پھر فرماتا ہے۔

 اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَکْثَرَھُمْ يَسْمَعُوْنَ اَوْ يَعْقِلُوْنَ۔ اِنْ ھُمْ اِلَّا کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ سَبِيْلًا (الفرقان:45)

کيا تو گمان کرتا ہے کہ ان ميں سے اکثر سنتے ہيں يا عقل رکھتے ہيں، ان ميں سے اکثر جانوروں کي طرح ہيں بلکہ اُن سے بھي زيادہ بدتر۔

ان آيات ميں ان لوگوں کا نقشہ ہے جو اپنے مقصد پيدائش کو نہيں سمجھتے اور اپني خواہشات کے پيچھے چل پڑے ہيں جيسا کہ حضرت مسيح موعود نے فرمايا کہ جس نے پيدا کرکے پھر اُس پيدائش کا مقصد بتايا ہے، اُسے تو بھول گئے ہيں اور اپنے مقاصد خود تلاش کر رہے ہيں۔ پھر ايسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہي ہے۔ جانوروں کے تو اعمال کا حساب نہيں ہے، ان بھٹکے ہوؤں کے اعمال کا حساب جو ہے يقيناً انہيں جہنم ميں لے جائے گا۔

يہاں يہ بات واضح ہو کہ اللہ تعاليٰ نے جب يہ کہا کہ ہم نے بڑي تعداد کو جہنم کے لئے پيدا کيا ہے تو اس سے غلط فہمي نہ ہو کہ خدانخواستہ اللہ تعاليٰ کے کلام ميں اختلاف ہے۔ ايک طرف تو کہہ رہا ہے کہ مَيں نے جنّوں اور انسانوں کو عبادت کے لئے بنايا دوسري طرف فرماتا ہے کہ جہنّم کے لئے پيدا کيا۔ اس کامطلب يہ ہے کہ باوجود خداتعاليٰ کي طرف سے ہدايت کے سامانوں کے، باوجود اس کے کہ خداتعاليٰ کي رحمت وسيع تر ہے اکثريت اس سے فائدہ نہيں اُٹھاتي اور اللہ تعاليٰ کي عبادت کر کے اپني دنيا و آخرت کے سنوارنے کے سامان نہيں کرتي اور اس کي بجائے اپني خواہشات کي پيروي کرکے جہنم کے راستوں کي طرف چل رہي ہے۔

اہل لغت اس کي وضاحت اس طرح بھي کرتے ہيں کہ جہنم کے لفظ سے پہلے لام کا اضافہ ہوا ہے لِجَھَنَّم استعمال ہوا ہے۔ يہ اضافہ اُن کے انجام کي طرف اشارہ کرتا ہے نہ کہ مقصد کي طرف۔ (تفسيرالبحر المحيط جلد 4صفحہ 425 تفسير سورة الاعراف زير آيت180 دارالکتب العلمية بيروت 2010ء)

پس اپنے بد انجام کو انسان خداتعاليٰ سے دوري اختيار کر کے، اُس کي عبادت کا حق ادا نہ کر کے پہنچتا ہے، اُس کے حکموں پر عمل نہ کرکے پہنچتا ہے۔ آج کل جيسا کہ مَيں نے کہا، اپني بيہودہ خواہشات نے انسان کا يہ انجام بنا ديا ہے کہ انسان جانوروں سے بھي بدتر حرکتيں کرنے لگ گيا ہے اور کھلے عام بيہودہ حرکتيں ہوتي ہيں۔ گندي اور ننگي حرکات ديکھي جاتي ہيں، کي جاتي ہيں۔ پورنوگرافي کي ويڈيو اور فلميں کھلے عام مہيا ہو جاتي ہيں، اُنہيں ديکھ کر يہ لوگ، ايسي حرکتيں کرنے والے جانوروں سے بھي بدتر ہوگئے ہيں۔ اور مَيں افسوس کے ساتھ کہوں گا، بعض شکايتيں مجھے بھي آ جاتي ہيں کہ ہمارے احمدي نوجوان بلکہ درمياني عمر کے لوگ بھي اس قسم کي لغو يا اس سے ذرا کم لغو فلميں ديکھنے کے شوق ميں مبتلا ہيں اور اسي وجہ سے بعض گھر بھي ٹوٹ رہے ہيں۔ پس ہر ايک کو خدا کا خوف کرنا چاہئے۔ اللہ تعاليٰ نے واضح فرما ديا ہے کہ ايسے بھٹکے ہوئے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ حضرت مسيح موعود نے بھي واضح فرمايا ہے کہ اگر ميرے ساتھ رہنا ہے تو ان لغويات اور ذاتي خواہشات کو چھوڑو ورنہ مجھ سے عليحدہ ہو جاؤ۔ ايسے لوگ عموماً جلسوں پر تو نہيں آتے، جماعت سے بھي بڑے ہٹے ہوئے ہوتے ہيں، دور ہوئے ہوتے ہيں ليکن اگر آئيں يا اُن کے کان ميں يہ باتيں پڑ جائيں، يا اُن کے عزيز اُن تک پہنچا ديں تو ايسے لوگوں کو اپني اصلاح کي کوشش کرني چاہئے۔ يا پھر اس سے پہلے کہ نظامِ جماعت کوئي قدم اُٹھائے خود ہي جماعت سے عليحدہ ہو جائيں۔ اسي طرح نوجوانوں کو بھي جو نوجواني ميں قدم رکھتے ہيں، اچھے اور بُرے کي صحيح طرح تميز نہيں ہوتي۔ گھر والوں نے بھي نہيں بتايا ہوتا۔ جماعت کے نظام سے بھي اتنا زيادہ منسلک نہيں ہوتے، اُن کو بھي ميں کہوں گا کہ بيہودہ چيزيں ديکھنا، فلميں ديکھنا وغيرہ يہ بھي ايک قسم کاايک نشہ ہے۔ اس لئے اپني دوستي ايسے لوگوں سے نہ رکھيں جو ان بيہودگيوں ميں مبتلا ہيں کيونکہ يہ آپ پر بھي اثر ڈاليں گي۔ ايک مرتبہ بھي اگرکسي بھي قسم کي غلاظت ميں پڑ گئے تو پھر نکلنا مشکل ہوجائے گا۔

حضرت مسيح موعود ان آيات کي وضاحت ميں ايک جگہ فرماتے ہيں کہ:

خداتعاليٰ نے فرمايا ہے کہ ہم نے جہنّم کے لئے اکثر انسانوں، جنّوں کو پيدا کيا ہے اور پھر فرمايا کہ وہ جہنّم انہوں نے خود ہي بنا ليا ہے۔ اللہ تعاليٰ نے وہ جہنم نہيں بنا کر ديا بلکہ جہنم انہوں نے خود بنا ليا ہے۔ ان کو جنّت کي طرف بلايا جاتا ہے۔ فرماتے ہيں: اُن کو جنّت کي طرف بلايا جاتا ہے۔ پاک دل پاکيزگي سے باتيں سنتا ہے اور ناپاک خيال انسان اپني کورانہ عقل پر عمل کر ليتا ہے۔ بلايا جاتا ہے اُن کو جنّت کي طرف ليکن وہ سنتے نہيں۔ جو پاک دل ہيں اُن پر تو پاکيزہ باتوں کا اثر ہوتا ہے ليکن جو اپنے آپ کو عقلمند سمجھتے ہيں، يہ کہتے ہيں کہ اس دنيا کي روشني سے فائدہ اُٹھانا چاہئے وہ اپني عقل پر انحصار کرتے ہيں۔ اُن کا نتيجہ پھر جہنّم ہوتا ہے۔ فرمايا ايسے لوگوں کے لئے پس آخرت کا جہنّم بھي ہو گا اور دنيا کے جہنم سے بھي مخلصي اور رہائي نہ ہو گي کيونکہ دنيا کا جہنّم تو اُس جہنّم کے لئے بطور دليل اور ثبوت کے ہے۔

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 372۔ ا يڈيشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

ايسے لوگوں کو پھر بعض بيماريوں کي وجہ سے، بعض اور چيزوں کي وجہ سے اس دنيا ميں بھي ايک جہنم نظر آتي ہے۔ پھر دنياوي جہنّم کا نقشہ کھينچتے ہوئے آپ فرماتے ہيں کہ:

يہ خيال مت کرو کہ کوئي ظاہر دولت يا حکومت، مال و عزّت، اولاد کي کثرت کسي شخص کے لئے کوئي راحت يا اطمينان، سکينت کا موجب ہو جاتي ہے اور وہ دمِ نقد بہشت ہي ہوتا ہے؟ ہرگز نہيں۔ وہ اطمينان اور وہ تسلّي اور وہ تسکين جو بہشت کے انعامات ميں سے ہے ان باتوں سے نہيں ملتي۔ وہ خدا ہي ميں زندہ رہنے اور مرنے سے مل سکتي ہے۔ فرمايا: لذّات دنيا تو ايک قسم کي ناپاک حرص پيدا کرکے طلب اور پياس کو بڑھا ديتي ہيں۔ استسقاء کے مريض کي طرح پياس نہيں بجھتي۔ جس کو پاني پينے کا مرض ہوتا ہے اُس مريض کي طرح، اُس کي پياس نہيں بجھتي۔ يہاں تک کہ وہ ہلاک ہو جاتے ہيں۔ پس يہ بے جا آرزؤوں اور حسرتوں کي آگ بھي منجملہ اس جہنم کي آگ کے ہے جو انسان کے دل کو راحت اور قرار نہيں لينے ديتي بلکہ اس کو ايک تذبذب اور اضطراب ميں غلطاں و پيچاں رکھتي ہے۔ اس لئے ميرے دوستوں کي نظر سے يہ امر ہرگز پوشيدہ نہ رہے۔ فرمايا: اس لئے ميرے دوستوں کي نظر سے يہ امر ہرگز پوشيدہ نہ رہے۔ يعني ان باتوں کا خيال رکھيں جو آپ فرماتے ہيں: … پس يہ آگ جو انساني دل کو جلا کر کباب کر ديتي ہے اور ايک جلے ہوئے کوئلے سے بھي سياہ اور تاريک بنا ديتي ہے، يہ وہي غيراللہ کي محبّت ہے۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ 371۔ ايڈيشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

پس ايک حقيقي مومن کو، تقويٰ پر چلنے والے اور تقويٰ کي تلاش کرنے والے کو اپنے ہر عمل کو خالصتاً للہ کرنا ہوگا۔ دل ميں سے خواہشات اور نام نہاد تسکين کے دنياوي بتوں کو نکال کر باہر پھينکنا ہوگا تبھي ايک مومن حقيقي مومن بن سکتا ہے۔ پس ان دنوں ميں اللہ تعاليٰ نے اصلاح کا جو موقع ميسر فرمايا ہے اس ميں ہر ايک کو اپني اصلاح کي طرف توجہ ديني چاہئے۔ ضروري نہيں ہے کہ انتہائي برائيوں ميں ہي انسان مبتلا ہو، چھوٹي چھوٹي برائيوں کو بھي دور کرنے کي کوشش کرني چاہئے کيونکہ يہ چھوٹي برائياں ہي بعض دفعہ تقويٰ سے دور لے جاتي ہيں اور برائيوں ميں مبتلا کرتي چلي جاتي ہيں۔ ذکرِ الٰہي سے اپني زبانوں کو تَر رکھيں، استغفار اور درود سے اللہ تعاليٰ کا قرب حاصل کريں۔ اپنے دلوں کو غيراللہ کي محبّت سے پاک کريں۔ اللہ تعاليٰ کے شکرگزار بندے بنيں کہ يہ شکرگزاري پھر خداتعاليٰ کي محبّت کو جذب کرنے کا ذريعہ بنتي ہے۔ اس ملک ميں آکر اللہ تعاليٰ کے فضلوں کے دنياوي لحاظ سے جو دروازے کھلے ہيں اُنہيں اللہ تعاليٰ کے انعامات کے حصول کا ذريعہ بنائيں نہ کہ خداتعاليٰ کي ناراضگي کا۔ اللہ تعاليٰ نے تو يہ فرمايا ہے کہ تمہارا تقويٰ تمہارے لئے عزّت کا مقام ہے۔ يہ نہيں فرمايا کہ تمہارا پيسہ، تمہاري دولت تمہارے لئے عزت کا مقام ہے۔ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے۔ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰکُمْ (الحجرات:14) کہ اللہ کے نزديک تم ميں سے زيادہ معزز وہي ہے جو سب سے زيادہ متّقي ہے۔ ہم اکثر سنتے ہيں، اکثر ہماري تقريروں ميں ذکر کيا جاتا ہے، مقرّرين اس کا ذکر کرتے ہيں ليکن جس طرح اُس پر عمل ہونا چاہئے وہ عمل نہيں ہوتا۔ اگر صحيح طرح عمل ہو تو بہت سارے مسائل، بہت ساري جھگڑے جوجماعت کے اندر پيدا ہو جاتے ہيں وہ خود بخود حل ہو جائيں۔ حضرت مسيح موعود فرماتے ہيں کہ:

اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰکُمْ (الحجرات:14)

يعني جس قدر کوئي تقويٰ کي دقيق راہيں اختيار کرے اُسي قدر خداتعاليٰ کے نزديک اُس کا زيادہ مرتبہ ہوتا ہے۔ پس بلاشبہ يہ نہايت اعليٰ مرتبہ تقويٰ کا ہے کہ قبل از خطرات، خطرات سے محفوظ رہنے کي تدبير بطور حفظِ ما تقدّم کي جائے۔

(نورالقرآن نمبر 2 روحاني خزائن جلد 9صفحہ 446)

خطرہ آنے سے پہلے ہي خطرات سے بچنے کا طريقہ کيا جائے۔ پھر فرمايا۔ مکرّم و معظّم کوئي دنياوي اصولوں سے نہيں ہو سکتا۔ خدا کے نزديک بڑا وہ ہے جو متّقي ہے۔(تحفۂ سالانہ يا رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء مرتبہ حضرت شيخ يعقوب علي عرفاني صاحبؓ صفحہ 50)

پھر آپ فرماتے ہيں ديني غريب بھائيوں کو کبھي حقارت کي نگاہ سے نہ ديکھو۔ مال و دولت يا نسبي بزرگي پر بےجا فخر کرکے دوسروں کو ذليل اور حقير نہ سمجھو۔ خداتعاليٰ کے نزديک مکرّم وہي ہے جو متّقي ہے۔

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 135۔ ايڈيشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

پھر آپ نے فرمايا کہ نجات نہ قوم پر منحصر ہے نہ مال پر، بلکہ اللہ تعاليٰ کے فضل پر موقوف ہے اور فرماتے ہيں اللہ تعاليٰ کے فضل کے حاصل کرنے کے ليے کيا کرنا ہے اور اس کو اعمالِ صالحہ اور آنحضرتﷺ کا کامل اتباع اور دعائيں جذب کرتي ہيں۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 445۔ ا يڈيشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

يعني خداتعاليٰ کا فضل جو ہے اس کو اعمالِ صالحہ، آنحضرتﷺ کي کامل پيروي اور اتباع اور دعائيں جذب کرتي ہيں۔ پھر ايک جگہ آپ نے بڑي سختي سے تنبيہ فرمائي ہے اور الفاظ بڑے سخت ہيں۔ فرمايا:

اللہ تعاليٰ کے نزديک وہي معزّز و مکرّم ہے جو متّقي ہے۔ اب جو جماعت اتقياء ہے خدا اُس کو ہي رکھے گا اور دوسري کو ہلاک کرے گا۔ يہ نازک مقام ہے اور اس جگہ پر دو کھڑے نہيں ہو سکتے کہ متّقي بھي وہيں رہے اور شرير اور ناپاک بھي وہيں۔ ضرور ہے کہ متّقي کھڑا ہو اور خبيث ہلاک کيا جاوے۔ اور چونکہ اس کا علم خدا کو ہے کہ کون اُس کے نزديک متّقي ہے۔ پس يہ بڑے خوف کا مقام ہے۔ خوش قسمت ہے وہ انسان جو متّقي ہے اور بدبخت ہے وہ جو لعنت کے نيچے آيا ہے۔

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 177۔ ايڈيشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

پس يہ تمام ارشادات جو مَيں نے پڑھے ہيں ايک حقيقي احمدي کو جھنجھوڑنے کے لئے کافي ہيں۔ آپ نے فرمايا خطرات سے پہلے اُن خطرات سے بچنے کي کوشش کرو اور خطرات سے بچنا يہي ہے کہ اپنے ہر قول و فعل کو خداتعاليٰ کي رضا کے حصول کا ذريعہ بنايا جائے تاکہ پھر انسان نجات يافتوں کي فہرست ميں بھي شامل ہو جائے۔ اس فہرست ميں شامل ہونے کے تين طريقے آپ نے بتائے ہيں۔ ايک يہ کہ نيک اعمال بجا لاؤ۔ نيک اعمال کي وضاحت يہي ہے کہ ہر قدم جو ہے وہ نيکيوں کے حصول کے لئے ہو۔ اور پھر ان نيک اعمال کي نشاندہي جو آنحضرتﷺ کے اسوہ حسنہ سے ہو سکتي ہے اُس کو ديکھو، وہاں سے ملے گي۔ اور آنحضرتﷺ کے اسوہ حسنہ کے بارے ميں حضرت عائشہؓ نے فرمايا تھا کہ آپ کے اخلاق قرآنِ کريم ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 8صفحہ 144مسند عائشةؓ حديث 25108 مطبوعہ دارالکتب العلمية بيروت 1998ء)

پس قرآنِ کريم کي طرف توجہ کرني ہوگي۔

پس حضرت مسيح موعود فرماتے ہيں کہ آنحضرتﷺ کي کامل پيروي کرو تو پھر حاصل ہوگا۔ پھر اپنے اعمال اور سنّتِ نبوي پر چلنے کے عمل کو اللہ تعاليٰ کے حضور جھکتے ہوئے اور دعاؤں سے مزيد خوبصورت بناؤ۔ فرمايا يہي جماعت ہے جس کے مقدر ميں کاميابي مقدر ہے۔ يہي تقويٰ پر چلنے والے لوگ ہيں جنہوں نے دنيا پر غالب آنا ہے۔

پس خوش قسمت ہيں ہم ميں سے وہ جو اس اصل کو سمجھ جائيں، اس بات کو سمجھ جائيں، اس بنيادي چيز کو سمجھ جائيں اور اپني ترجيحات دنياوي دولت کو نہ سمجھيں بلکہ خداتعاليٰ کي رضا کے حصول اور تقويٰ کے لئے کوشش کريں۔ اللہ تعاليٰ کے فضل سے احمديوں کي ايک بڑي تعداد اس کے لئے کوشش کرتي ہے، اس ميں کوئي شک نہيں جس کا اظہار افرادِ جماعت کے رويّوں اور قربانيوں سے ہوتا ہے۔ ليکن ابھي بہت کچھ اس ميدان ميں آگے بڑھنے کي ضرورت ہے۔ خداتعاليٰ ہم ميں سے ہر ايک کو توفيق عطا فرمائے کہ ہم اس اہم بات کو سمجھنے والے ہوں۔ تقويٰ پر چلتے ہوئے اپني زندگيوں کو گزارنے والے ہوں۔ اور اللہ تعاليٰ نے ايک متّقي سے جو وعدے فرمائے ہيں، اُن سے حصہ پانے والے ہوں۔ اللہ تعاليٰ نے بہت سے وعدوں کے ساتھ متّقيوں سے يہ وعدہ بھي فرمايا ہے کہ وَالۡعَاقِبَةُ لِلۡمُتَّقِيۡنَ کہ انجام متّقيوں کا ہي ہے، يعني کاميابي اور اچھا انجام متّقيوں کا ہے۔

حضرت مسيح موعود فرماتے ہيں:

ہر قسم کے حسد، کينہ، بغض، غيبت اور کِبر اور رعونت اور فسق و فجور کي ظاہري اور باطني راہوں اور کسل اور غفلت سے بچو اور خوب ياد رکھو کہ انجام کار ہميشہ متّقيوں کا ہوتا ہے۔ جيسے اللہ تعاليٰ فرماتا ہے

 وَالۡعَاقِبَةُ لِلۡمُتَّقِيۡنَ (الاعراف:129)

اس ليے متّقي بننے کي فکر کرو۔(ملفوظات جلد دوم صفحہ 212۔ ايڈيشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

پس يہ ماحول جو جلسے کا ہميں مل رہا ہے اس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہم ميں سے ہر ايک کو اپني برائيوں پر نظر رکھتے ہوئے ہر قسم کي برائيوں سے بچنے کي کوشش کرني چاہئے اور ہر قسم کي نيکيوں کو اختيار کرنے کي طرف بھرپور توجہ ديني چاہئے تا کہ ہم اُس انجام کو حاصل کرنے والے ہوں جو ہميں کاميابي سے اللہ تعاليٰ کي رضا کو حاصل کرنے والا بنا دے۔ اور پھر اللہ تعاليٰ نے صرف انفرادي انجام پر ہي بس نہيں کي بلکہ افرادِجماعت کي جتني بڑي تعداد ايک کوشش کے ساتھ نيکيوں کو اختيار کرنے اور تقويٰ پر چلنے کي کوشش کرے گي من حيث الجماعت بھي جماعت پر اللہ تعاليٰ کے فضلوں کي بارش ميں اضافہ ہوگا۔ اللہ تعاليٰ کے فضل بڑھتے چلے جائيں گے۔ اور وہ وعدے جو خداتعاليٰ نے حضرت مسيح موعود سے فرمائے ہيں اُنہيں اپني زندگيوں ميں ہم پورا ہوتا ديکھيں گے۔ يقيناً يہ خداتعاليٰ کا وعدہ ہے، حضرت مسيح موعود سے بھي يہ وعدہ ہے جيسا کہ اپني سنت کے مطابق خداتعاليٰ تمام انبياء سے وعدہ فرماتا ہے کہ کَتَبَ اللہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ (المجادلہ:22) اللہ تعاليٰ نے يہ فيصلہ کر ديا ہے کہ ميں اور ميرے رسول غالب آئيں گے۔ پس غلبۂ احمديت اور غلبۂ اسلام تو ہونا ہي ہے ليکن اگر ہم تقويٰ پر ترقي کرنے والے ہوئے تو ہم اپني زندگيوں ميں ان شاءاللہ تعاليٰ ان ترقيات اور غلبہ کو ديکھنے والے ہوں گے۔ يہ انجام جو جماعت کا مقدر ہے اس کي شان ان شاءاللہ ہم خود ديکھيں گے۔

پس اس شان کو ديکھنے کے لئے، اس غلبے کو ديکھنے کے لئے اپنے تقويٰ کو، تقويٰ کے معيار کو بلند تر کرتے چلے جانے کي کوشش ہر احمدي کو کرتے رہنا چاہئے۔

جماعتي ترقي اور انجام کے بارے ميں اس حوالے سے حضرت مسيح موعود فرماتے ہيں کہ:

يہ بھي ياد رکھنے کے لائق ہے کہ حکم خواتيم پر ہے۔ يعني جو انجام ہے۔ خداتعاليٰ نے بھي يہي فرمايا ہے کہ

 اَلْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْن (الاعراف:129)۔

فرمايا کہ سنّت اللہ اسي طور پر جاري ہے کہ صادق لوگ اپنے انجام سے شناخت کئے جاتے ہيں۔ آپ فرماتے ہيں۔ اوائل ميں نبيوں پر ايسے سخت زلازل آئے کہ مدّتوں تک کوئي صورت کاميابي کي دکھلائي نہ دي اور پھر انجام کار نسيم نصرتِ الٰہي کا چلنا شروع ہوا۔ اپني جماعت کي ترقي کے بارے ميں آپ نے اس انجام اور الٰہي بشارتوں کا ذکر اس طرح فرمايا ہے، فرماتے ہيں: مواعيدِ صادقہ حضرت احديت سے بشارتيں پاتا ہوں۔ يعني کہ مَيں اللہ تعاليٰ کي طرف سے سچے وعدوں کي خوشخبرياں پا رہا ہوں۔ تو ميرا غم و درد بالکل دور ہو جاتا ہے اور اس بات پر تازہ ايمان آتا ہے۔ (مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ 62-63 مکتوب بنام حضرت حکيم مولوي نورالدّين صاحبؓ شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)

يعني جماعت کي ترقي کے انجام پر آپ کو خبريں اللہ تعاليٰ ديتا ہے تو فرماتے ہيں ميرا ايمان تازہ ہوتا ہے۔ پھر آپ فرماتے ہيں: مجھے تو خوشبو آتي ہے کہ آخرکار فتح ہماري ہے،(ان شاءاللہ)۔

(البدر جلد1 نمبر 3 مؤرخہ 14 نومبر 1902ء صفحہ 20)

پس يہ ترقي اور فتح تو جماعت احمديہ کا مقدر ہے۔ ہميں اس ترقي کا حصہ بننے کے لئے اپنے تقويٰ کے معيار اونچے کرنے کي ضرورت ہے۔ ان جلسے کے دنوں ميں اور پھر ان شاءاللہ کچھ دنوں بعد رمضان بھي شروع ہو رہا ہے، اس سے بھي بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنے تقويٰ کے معيار ہر احمدي کو بلند تر کرتے چلے جانے کي ضرورت ہے۔

اللہ تعاليٰ ہم سب کو اس کے حصول کي توفيق عطا فرمائے۔ ہر ايک کو جلسے کے ان دنوں سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کي توفيق عطا فرمائے۔ وہ تمام برکات ہم ميں سے ہر ايک سميٹنے والا ہو جو اس جلسے سے وابستہ ہيں۔ ہم حضرت مسيح موعود کي اُن دعاؤں کے وارث بنيں جو آپ نے جلسے ميں شامل ہونے والوں کے لئے کي ہيں اور جو آپ نے اپني جماعت کے افراد کے لئے کيں۔ بعض انتظامي باتيں بھي ہيں۔ جلسے کے تمام پروگراموں کو خاموشي سے تمام لوگوں کو سننا چاہئے اور حاضري بھي صحيح رہني چاہئے اور جو بھي علمي، روحاني، تربيتي مضامين ہوں، اُنہيں اپني زندگيوں کا حصہ بنانے کي کوشش کريں۔ اللہ تعاليٰ سب کو اس کي توفيق بھي عطا فرمائے۔

پھر انتظامي لحاظ سے ہي يہ بات بھي کہنا چاہتا ہوں کہ ہرلحاظ سے، ہر شامل ہونے والے کو جو يہاں انتظاميہ ہے، اُس سے تعاون کرنا چاہئے۔ اور انتظاميہ کو بھي، ڈيوٹي دينے والوں کو بھي اپني مہمان نوازي کا پورا پورا حق ادا کرنے کي کوشش کرني چاہئے۔

اسي طرح ڈيوٹي دينے والے بھي اور ہر شامل ہونے والا بھي اپنے ماحول پر بھي نظر رکھيں۔ اللہ تعاليٰ ہر ايک کو ہر شر سے محفوظ رکھے اور اللہ تعاليٰ ہر لحاظ سے اس جلسے کو بابرکت فرمائے۔

(خطبات مسرور جلد دہم صفحہ 405، خطبہ جمعہ 6 جولائي 2012ء)

 

متعلقہ مضمون

  • جلسہ روحانی پیاس بجھانے کا موقع

  • خطبہ جمعہ فرمودہ 10 اپریل 2009ء کا متن

  • کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں؟

  • جِن کو نِشانِ حضرتِ باری ہوا نصیب