مکرم عرفان احمد خان صاحب۔فرانکفرٹ

گزشتہ ہفتہ کے دوران گہرے پانیوں سے وابستہ دو خبروں نے پوری دنیا کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرلی۔ ایک کا شمار خلق خدا کے ان سات سو افراد سے تھا جو اچھے مستقبل کی تلاش میں گھر سے بے گھر ہوکر ایک ایسے ٹھکانے کی تلاش میں تھے جہاں وہ اپنے مستقبل کے خواب پورے کر سکیں ایک دوسری المناک خبر دنیا کے ان پانچ امیر ترین افراد سے متعلق ہے جو دنیا کی ہر زمینی اسائش سے لطف اٹھانے کے بعد خوب سے خوب تر کی تلاش میں گہرے پانیوں میں جا اُترے۔ جن سات سو افراد نے اپنی زندگی کو آزمائش میں ڈالا وہ 30 میٹر لمبی مچھلیاں پکڑنے والی کشتی میں سوار تھے۔ وہ امیدوں کے چراغ جلاتے لیبیا کے ساحل سے روانہ ہو کر یونان کے ایک ساحلی گاؤں PYLOS میں اپنی زندگی کا چراغ گل کر بیٹھے۔ بتایا جا رہا ہے کہ ان میں 350 پاکستانی تھےجن میں سے 166 کا تعلق کوٹلی آزاد کشمیر سے تھا۔ ان سب نے سات سات ہزار ڈالر دے کر موت کو گلے لگایا۔ ان کے خاندانوں کے دلخراش انٹرویوز آجکل انٹرنیشنل ذرائع ابلاغ پر دیکھنے والوں کو خون کے آنسو رلا رہے ہیں۔ یورپی یونین بارڈر کوسٹ گارڈ ایجنسی FRONTEX کے بیان کے مطابق 2023ء کے پہلے پانچ ماہ میں پانچ ہزار سے زائد پاکستانی کشتیوں کے ذریعہ یورپ میں داخل ہو چکے ہیں۔ ایسے واقعات و حادثات منہ بولتا ثبوت ہیں اس بات کا کہ ہمارا نظام ناکام ہو چکا ہے۔ دنیا آگے کی طرف بڑھ رہی تو ہمیں پیچھے کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ مذہبی جنونیت انسان کا پیٹ نہیں بھر سکتی۔ ترقی یافتہ دنیا کو جن ماہرین کی تلاش ہے وہ ہماری یونیورسٹیاں پیدا نہیں کر پا رہیں۔ غیرتعلیم یافتہ، بے ہنر بے روزگار افراد جب روزی کی تلاش میں دنیا میں نکلتے ہیں تو کئی ایک منزل کو پا لیتے اور کئی راستہ میں ہی لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
جرمنی ایک ترقی یافتہ صنعتی ملک ہے۔ بیس پچیس سال پہلے کے مشینی دور میں ایک ایک مشین پر ایک سے زائد افرادی قوت کی ضرورت رہتی تھی۔ اب ٹیکنالوجی کی ترقی کی بدولت خودکار مشینوں کا دَور ہے لیکن اس کے باوجود مشین اور فرد کا باہمی تعلق ختم نہیں کیا جا سکا۔ لاکھوں مہاجرین کو پناہ دینے کے باوجود جرمنی کو ہر سال چار لاکھ نئی افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ اس وقت بھی ایک ملین ملازمتیں لوگوں کی منتظر ہیں۔ ایمیگریشن کے بارے میں جرمنی کی پالیسی ہمیشہ حوصلہ شکن رہی ہے۔ ایک وقت تھا کہ جرمنی کی سب سیاسی پارٹیوں کے منشور میں غیرملکیوں کے لئے گنجائش نہ تھی۔ جرمنوں کا مزاج بھی اس نوعیت کا ہے کہ یورپی یونین ممبر ممالک سے آکر کام کرنے والوں کو بھی انہوں نے خوش دلی سے قبول نہیں کیا۔ جب جرمنی میں شرح پیدائش مسلسل گرنی شروع ہوئی تو تھنک ٹینک کی طرف سے مستقبل کے حوالے سے بعض منفی اثرات کی نشان دہی کی گئی۔ صنعت کاروں کی انجمن نے بھی ان کو قبول کرتے ہوئے اپنی آواز بلند کی۔ چنانچہ ملک میں غیرملکیوں کو قبول کرنے کا ماحول پیدا کرنا سیاسی پارٹیوں کی مجبوری بن گیا۔ سب سیاسی پارٹیوں نے اپنے اپنے منشور میں اس کی گنجائش پیدا کی۔ صنعت کاروں کے لئے دوستانہ حکومت کا سربراہ ہونے کے باوجود ہیلمٹ کوہل اپنے دَور اقتدار میں غیرملکیوں کے لئے کسی فراخ دلی کا مظاہرہ نہ کرسکے۔ البتہ انجیلا میرکل نے بعض شرائط کے ساتھ بلیو کارڈ سکیم کا اجراء کیا تھا۔ یہ سکیم بھی سپیشلسٹ اور بہترین مہارت رکھنے والے لوگوں کے لئے تھی جس میں سالانہ تنخواہ کی شرط چوالیس ہزار یورو رکھی گئی تھی۔ سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اس سکیم سے سب سے زیادہ فائدہ انڈین آئی ٹی ماہرین نے اُٹھایا لیکن جرمنی میں مستحکم ہونے کے بعد اکثریت امریکہ چلی گئی یا مشرقی یورپ سے آنے والے اپنے ملکوں کو واپس سدھار گئے۔ اس طرح سے جرمن حکومت کی یہ سکیم توقع کے مطابق نتائج دینے میں کامیاب نہ رہی۔ یہی وجہ ہے کہ جرمنی کی موجودہ اتحادی حکومت 2021ء سے ایمیگریشن قوانین کو پُرکشش بنانے کے لئے غور و فکر کر رہی ہے۔ ایمیگریشن قوانین کو نرم کرنے کے لئے جو فیصلے سیاسی سطح پر ہوئے ان کے بارے میں ماہ جون کے شروع میں جرمن چانسلر اور صنعت کاروں کی انجمن کے نمائندگان کے درمیان طویل مذاکرات ہوئے جس کے بعداس ایمیگریشن سکیم نے حتمی شکل اختیار کی جس کا آجکل بہت چرچا ہے۔
ایک کا تعلق افرادی قوت کی کمی کو پر کرنے کے لئے لوگوں کو جرمنی میں لانا اور راستہ کی مشکلات یعنی سرخ فیتے کےنظام کو آسان بنانا اور دوسرے جو یہاں آباد ہیں ان کو جرمن شہریت اختیار کرنے کی ترغیب دینا اور دُہری قومیت کی سہولت مہیا کرنا ہے۔
جرمنی کی وزیرِ داخلہ نے 23 جون کو پارلیمنٹ میں ایمیگریشن اصلاحات کی جو تفصیل پیش کی ہے اسے موجودہ اپوزیشن جرمنی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کرسچین ڈیموکریٹ یونین نے بھی ملکی ضرورت کے مطابق قرار دیا ہے۔ نئی سکیم کے تحت Blue Card کو Opportunity Card میں بدل دیا گیا ہے۔ پوائنٹ سسٹم رائج کر دیا گیا ہے جو یہ پوائنٹ حاصل کرلے گا اس کو جرمنی کا ایک سال کا ویزا جاری کر دیا جائے گا۔ اس ایک سال میں وہ جرمنی میں نوکری تلاش کرکے اپنے قیام کو مستقل کروا سکے گا۔ سیاحتی ویزہ پر آنے والے اگر نوکری تلاش کرلیں تو ان کو بھی یہاں پر ہی قیام کی اجازت ہوگی۔ اس سے قبل ان کو واپس اپنے ملک جا کر ویزہ کو تبدیل کروانا پڑتا تھا۔ ہفتہ میں بیس گھنٹہ کام کرنے والوں کو بھی ایسی ہی سہولیات حاصل ہوں گی، جرمنی میں عام طور پر ہفتہ میں 35 سے 40 گھنٹہ کام کرنا پڑتا ہے۔
جرمنی میں ایک بہت بڑا مسئلہ غیرملکی یونیورسٹی کی ڈگری کی توثیق کا ہے۔ اب ایسی ڈگری رکھنے والوں کو اس سے آزاد کر دیا گیا ہے۔ کسی بھی یونیورسٹی کی ڈگری رکھنے والا اگر دو سال کا تجربہ رکھتا ہے تو وہ ڈگری کی توثیق کا انتظار کئے بغیر فوری کام شروع کرسکے گا۔ پوائنٹ سسٹم میں جرمن کے ساتھ انگریزی کو بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ اب دوںوں میں سے ایک زبان کا کسی حد تک آنا ضروری ہوگا۔ پوائنٹ سکیم کے تحت جرمنی آنے والوں کو اپنے کو اپنے شریک حیات کو جرمنی ساتھ لانے کی اجازت ہوگی۔ ایسے پناہ گزین جو 29 مارچ 2023ء تک اپنےآپ کو رجسٹر کروا چکے ہیں اور ان کو ایسی ملازمت مل رہی ہے جس پر کام کی اجازت دینے والے دفتر کو اعتراض نہیں تو وہ ملازمت شروع کر کے اپنا اسائلم ویزہ عام ویزہ میں تبدیل کروا سکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو پیشہ وارانہ تربیت حاصل کرنے کی بھی اجازت ہوگی۔
یاد رہے کہ صنعت کاروں کی انجمن نے حکومت سے وعدہ کیا ہے کہ جرمنی آنے والے پروفیشنل لوگوں کی تعلیم اور بہتر کارکردگی کے لیے تربیت کرنے کی ذمہ داری ہم پوری کرنے کو تیار ہیں۔ پارلیمنٹ کے اس اجلاس میں جرمن سیاست دانوں کی طرف سے کی جانے والی تقریر ایک خوشگوار تبدیلی ہے۔ مثلاً جرمن چانسلر کے دستِ راست Martin Rosemann کا یہ کہنا کہ ہمیں زیادہ پُرکشش پیشکش نوجوانوں کو دینی چاہیے تاکہ وہ ہمارے ملک میں آ کر کام کریں۔ جرمن وزیرِ داخلہ کا یہ بیان کہ یہ اصلاحات بڑی لمبی گفت و شنید کی بعد کی گئی ہیں۔ امید ہے جرمن بیورو کریٹ اس سسٹم کی راہ میں مشکلات کھڑی نہیں کریں گے۔ یہ ماضی کے مقابلہ میں ایک حیرت انگیز تبدیلی ہے۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ لوگ دو دو سال سے اپنے ویزوں کے اجراء کا انتظار کر رہے ہیں۔ سفارت خانے تاریخ ہی نہیں دیتے۔ ویزہ کی حتمی منظوری دینے والے دفتر کے ڈائریکٹر نے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ میرے پاس جو کام جمع ہے اس کو نبٹانے کے لئے مزید پچاس افراد کا عملہ چاہیے تب جا کر میں تین ماہ میں رُکے ہوئے کام کو مکمل کر سکوں گا۔
دُہری شہریت
ایک اور اہم فیصلہ جس پر جرمن سیاست دانوں میں اتفاق رائے پیدا ہو رہا ہے وہ جرمن شہریت اختیار کرنے کے طریق کار کو آسان کرنا اور دُہری شہریت رکھنے کی اجازت دینا ہے۔ اس حوالہ سے یورپی یونین ممالک اپنی اپنی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ اٹلی، سویڈن، آئرلینڈ، فرانس دُہری شہریت رکھنے کی اجازت دیتے ہیں۔ جبکہ جرمنی اب تک اس بارے میں بہت سخت پالیسی رکھتا ہے۔ جرمن قومیت اختیار کرتے وقت اپنی پیدائشی قومیت کو چھوڑنے کا سرکاری سرٹیفکیٹ پیش کرنے پر جرمن شہریت کے کاغذات منظور کئے جاتے ہیں۔ جن کی دُہری شہریت کا علم ہو جائے انہیں عدالت کی طرف سے ہزاروں میں جرمانے بھی کئے گئے۔ بعض سے جرمن شہریت واپس بھی لے لی گئی۔ ان میں زیادہ تعداد ترکیہ کے لوگوں کی تھی۔ جرمنی میں جو تین ملین سے اوپر ترکیہ کے لوگ رہتے ہیں ان میں ابھی بھی 1.45 ملین ترکیہ کا پاسپورٹ رکھتے ہیں۔ اس حوالہ سے جو نرمی کی جا رہی ہے اس میں ایک تو آپ اب آٹھ سال کی بجائے پانچ سال بعد جرمن پاسپورٹ کے لئے درخواست دے سکیں گے۔ جو بچے جرمنی میں پیدا ہوں گے اور ان کے والدین میں سے کسی ایک کو جرمنی میں پانچ سال کی مدّت ہو چکی ہو تو وہ بچہ جرمن شمار ہوگا۔
دُہری شہریت کی اجازت نہ ہونے کے سبب جرمن پاسپورٹ لینے والوں کی شرح دوسرے یورپی ممالک کی نسبت بہت کم ہے۔ سویڈن میں شہریت بدلنے والوں کی شرح 8.6 فیصد جبکہ جرمنی میں 1.1 فیصد ہے۔ اس لئے اب جرمنی بھی دُہری شہریت رکھنے کی اجازت دینے پر تیار ہے۔

متعلقہ مضمون

  • ایک احمدی خاتون صحافی کی عدالتی کامیابی

  • ملکی و عالمی خبریں

  • عیدالاضحی کے موقع پر پاکستان کے احمدیوں کی قربانیاں

  • ملکی و عالمی خبریں