از مولانا شاہ معین الدین ندوی
تلخیص: سیّد افتخار احمد

 

نام و نسب

حسينؔ نام، ابو عبداللہ کنيت ’’سيّد شباب اہل الجنہ‘‘ اور ريحانةالنبي لقب۔ علي مرتضيٰؓ، باپ اور سيّدہ بتولؓ جگر گوشہ رسول (حضرت فاطمہؓ) ماں تھيں، اس لحاظ سے آپ کي ذات گراميؔ قريش کا خلاصہ اور بني ہاشم کا عطر تھي، شجرہ طيّبہ يہ ہے: حسينؓ بن عليؓ بن ابي طالب بن ہاشم بن عبد مناف قرشي ہاشمي و مطلبي۔

پيدائش

ابھي آپ شکم مادر ميں تھے کہ حضرت حارثؓ کي صاحبزادي نے خواب ديکھا کہ کسي نے رسولِ اکرم کے جسم اطہر کا ايک ٹکڑا کاٹ کر ان کي گود ميں رکھ ديا ہے۔ انہوں نے آنحضرتﷺ سے عرض کيا کہ يا رسول اللہ مَيں نے ايک ناگوار اور بھيانک خواب ديکھا ہے، فرمايا کيا؟ عرض کيا ناقابل بيان ہے، فرمايا بيان کرو آخر کيا ہے؟ آنحضرتﷺ کے اصرار پر انہوں نے خواب بيان کيا، آپ نے فرمايا يہ تو نہايت مبارک خواب ہے۔ فاطمہؓ کے لڑکا پيدا ہوگا، اور تم اسے گود لو گي۔

کچھ دنوں کے بعد اس خواب کي تعبير ملي اور رياض نبويؐ ميں وہ خوش رنگ ارغواني پھول کھلا، جس کي مہک حق و صداقت، جرأت و بسالت، عزم و استقلال، ايمان و عمل اور ايثار و قرباني کي واديوں کو ابدالآباد تک بساتي اور جس کي رنگيني عقيق کي سرخي، شفق کي گلگوني اور لالہ کے داغ کو ہميشہ شرماتي رہے گي۔ يعني شعبان سن 4ہجري ميں عليؓ کا کاشانہ حسينؓ کے تولّد سے رشک گلزار بنا۔

ولادت باسعادت کي خبر سن کر آنحضرتﷺ تشريف لائے اور نومولود بچہ کو منگا کر اس کے کانوں ميں اذان دي، اس طرح زبانِ وحي و الہام نے اس بچہ کے کانوں ميں توحيدِالٰہي کا صور پھونکا۔ پھر فاطمہ زہراؓ کو عقيقہ کرنے اور بچہ کے بالوں کے ہم وزن چاندي خيرات کرنے کا حکم ديا۔ پدربزرگوار کے حکم کے مطابق فاطمہ زہراؓ نے عقيقہ کيا[1]۔ والدين نے حربؔ نام رکھا تھا ليکن آنحضرتﷺ کو يہ نام پسند نہ آيا آپؐ نے بدل کر حسينؓ رکھا[2]۔

حليہ

حضرت امام حسنؓ و حسينؓ دونوں بھائي شکل و صورت ميں آنحضرتﷺ کے مشابہ تھے[3]۔

عہد نبويؐ

حضرت حسينؓ کے بچپن کے حالات ميں صرف ان کے ساتھ آنحضرتﷺ کے پيار اور محبّت کے واقعات ملتےہيں۔ آپﷺ ان کے ساتھ غيرمعمولي شفقت فرماتے تھے۔ تقريباً روزانہ دونوں (حضرت حسينؓ اور ان کے بڑے بھائي حضرت حسنؓ) کو ديکھنے کے ليے حضرت فاطمہؓ کے گھر تشريف لےجاتے اور دونوں کو بلا کر پيار کرتے اور کھلاتے۔ دونوں بچے آپ سے بے حد مانوس اور شوخ تھےليکن آپ نے کبھي کسي شوخي پر تنبيہ نہيں فرمائي۔ بلکہ ان کي شوخياں ديکھ ديکھ کر خوش ہوتے تھے۔ حضرت حسينؓ کا سن صرف سات برس کا تھا کہ نانا کا سايہ شفقت اُٹھ گيا۔

عہدِ صديقي

حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ ميں امام حسينؓ کي عمر سات آٹھ سال سے زيادہ نہ تھي۔ اس ليے ان کے عہد کا کوئي خاص واقعہ قابل ذکر نہيں ہے بجز اس کے کہ حضرت ابوبکرؓ نبيرہ (نواسہ) رسول کي حيثيت سے حضرت حسينؓ کا بہت احترام کرتے تھے۔

عہد فاروقي

حضرت عمرؓ کے ابتدائي عہدِ خلافت ميں بھي بہت صغيرالسن تھے۔ البتہ آخري عہد ميں سن شعور کو پہنچ چکے تھے ليکن اس عہد کي مہمات ميں ان کا نام نظر نہيں آتا۔ تاہم حضرت عمرؓ بھي حضرت حسينؓ پر بڑي شفقت فرماتےتھے اور قرابتِ رسول صلعم کا خاص لحاظ رکھتےتھے چنانچہ جب بدري صحابہؓ کے لڑکوں کا دو دو ہزار وظيفہ مقرر کيا تو حضرت حسينؓ کا محض قرابت رسول کے لحاظ سے پانچ ہزار ماہوار مقرر کيا[4]۔

آپ کسي چيز ميں بھي حضرت حسنينؓ کي ذات گرامي کو نظرانداز نہ ہونے ديتے تھے۔ ايک مرتبہ يمن سے بہت سے حلّے آئے۔ حضرت عمرؓ نے تمام صحابہؓ ميں تقسيم کئے۔ آپ قبر اور منبر نبوي کے درميان تشريف فرما تھے۔ لوگ ان حلوں کو پہن پہن کر شکريہ کے طور پر آ کر سلام کرتے تھے۔ اسي دوران ميں حضرت حسنؓ و حسينؓ حضرت فاطمہؓ کے گھر سے نکلے۔ آپ کا گھر حجرۂ مسجد کے درميان ميں تھا۔ حضرت عمرؓ کي نظر ان دونوں پر پڑي تو ان کے جسموں پر حلّے نظر نہ آئے۔ يہ ديکھ کر آپ کو تکليف پہنچي اور لوگوں سے فرمايا مجھے تمہيں حلّے پہنا کر کوئي خوشي نہيں ہوئي۔ انہوں نے پوچھا اميرالمومنين يہ کيوں؟ فرمايا اس ليے کہ ان دونوں لڑکوں کے جسم ان حلوں سے خالي ہيں۔ اس کے بعد فوراً حاکم يمن کو حکم بھيجا کہ جلد سے جلد دو حلّے بھيجو اور حلّے منگوا کر دونوں بھائيوں کو پہنانے کے بعد فرمايا، اب مجھے خوشي ہوئي[5]۔

عہدِ عثمانيؓ

حضرت عثمانؓ کے زمانہ ميں پورے جوان ہوچکے تھے۔ چنانچہ سب سے اوّل اسي عہد ميں ميدان جہاد ميں قدم رکھا اور سن 30 ہجري ميں طبرستان کي فوج کشي ميں مجاہدانہ شريک ہوئے[6]۔ پھر جب حضرت عثمانؓ کے خلاف بغاوت برپا ہوئي اور باغيوں نے قصرِ خلافت کا محاصرہ کر ليا تو حضرت عليؓ نے اپنے دونوں بيٹوں کو حضرت عثمانؓ کي حفاظت پر مامور کيا کہ باغي اندر گھسنے نہ پائيں۔ چنانچہ حفاظت کرنے والوں کے ساتھ ان دونوں نے بھي نہايت بہادري کے ساتھ باغيوں کو اندر گھسنے سے روکے رکھا۔ جب باغي کوٹھے پر چڑھ کر اندر اتر گئے اور حضرت عثمانؓ کو شہيد کر ڈالا اور حضرت عليؓ کو شہادت کي خبر ہوئي تو انہوں نے دونوں بيٹوں سے نہايت سختي کے ساتھ باز پرس کي کہ تمہارے ہوتے ہوئے باغي کس طرح اندر گھس گئے[7]۔

جنگ جمل و صفّين

جنگ جمل ميں اپنے والد بزرگوار کے ساتھ تھے، اِختتام جنگ کے بعد کئي ميل تک حضرت عائشہؓ کو پہنچانے کے ليے ساتھ گئے۔ جنگِ جمل کے بعد صفّين کے قيامت خيز واقعہ ميں بھي آپ نے بڑي سرگرمي کے ساتھ حصہ ليا۔ اِلتوائے جنگ کے بعد معاہدہ نامہ ميں بحيثيت شاہد کے حضرت حسينؓ کے بھي دستخط تھے پھر جنگ صفين کے بعد خوارج کي سرکوبي ميں بڑے انہماک سے حصہ ليا۔

حضرت عليؓ کي شہادت

40 ہجري ميں حضرت عليؓ پر قاتلانہ حملہ ہوا، زخم بہت کاري تھا۔ جب حالت زيادہ نازک ہوئي تو حضرت حسنؓ و حسينؓ کو بلا کر مفيد نصيحتيں کيں اور محمد بن حنفيہ کے ساتھ حسن سلوک کي تاکيد کرکے مرتبہ شہادت پر ممتاز ہوگئے۔

عہد معاويہ

حضرت عليؓ کي شہادت کے بعد حضرت حسنؓ خليفہ ہوئے ليکن آپ مسلمانوں کي خون ريزي سے بچنے کے ليےامير معاويہؓ کے حق ميں خلافت سے دستبرداري پر آمادہ ہوگئے اور اپنے بھائي حسينؓ کو آگاہ کياتو انہوں نے اس کي پُرزور مخالفت کي مگر حضرت حسنؓ نے يہي مناسب سمجھا اور 41 ہجري ميں حضرت حسنؓ خلافت سے دستبردار ہوگئے۔ حضرت حسينؓ کو بھي برادر بزرگ کے فيصلہ کے سامنے سر خم کرنا پڑا۔ آپ 49 ہجري ميں قسطنطنيہ کي مشہور مہم ميں جس کا کماندار سفيان بن عوف تھا، مجاہدانہ شرکت کي تھي۔

فضائل اخلاق

آپ کي ذات گرامي فضائل و اخلاق کا مجموعہ تھي، راس الاخلاق عبادتِ الٰہي ہے۔ چنانچہ ارباب سير لکھتے ہيں کہ

 کان الحسين رضي اللہ عنہ کثير الصلوٰة و الصوم والحج والصدقہ و افعال الخير جميعاً۔

يعني حضرت حسينؓ بڑے نمازي، بڑے روزہ دار، بہت حج کرنے والے تھے، اکثر پاپيادہ حج گئے، زہير بن بکار مصعب سے روايت کرتے ہيں کہ حسينؓ نے پچيس حج پاپيادہ کئے[8]۔

صدقات و خيرات

مالي اعتبار سے آپ کو خدا نے جيسي فراخي عطا فرمائي تھي، اسي فياضي سے آپ اس کي راہ ميں خرچ بھي کرتے تھے۔ ابن عساکر لکھتے ہيں کہ حسينؓ خدا کي راہ ميں کثرت سے خيرات کرتے تھے[9]۔ کوئي سائل کبھي آپ کے دروازہ سے ناکام نہ واپس ہوتا تھا۔ ايک مرتبہ ايک سائل مدينہ کي گليوں ميں پھرتا پھراتا ہوا در ِدولت پر پہنچا۔ اس وقت آپ نماز ميں مشغول تھے۔ سائل کي صدا سن کر جلدي جلدي نماز ختم کرکے باہر نکلے۔ سائل پر فقرو فاقہ کے آثار نظر آئے۔ اسي وقت قنبر خادم کو آواز دي۔ وہ حاضر ہوا۔ آپ نے پوچھا ہمارےاخراجات ميں سے کچھ باقي رَہ گيا ہے۔ قنبر نے جواب ديا۔ آپ نے دوسو درہم اہلِ بيت ميں تقسيم کرنے کے ليے دئيے تھے۔ وہ ابھي تقسيم نہيں کئے گئے ہيں۔ فرمايا۔ اس کو لے آؤ۔ اہلِ بيت سے زيادہ ايک مستحق آ گيا ہے چنانچہ اسي وقت دو سو کي تھيلي منگا کر سائل کے حوالہ کر دي اور معذرت کي کہ اس وقت ہمارا ہاتھ خالي ہے۔ اس ليے اس سے زيادہ خدمت نہيں کرسکتے[10]۔ حضرت عليؓ کے دَورِ خلافت ميں جب آپ کے پاس بصرہ سےا ٓپ کا ذاتي مال آتا تھا توآپ اسي مجلس ميں اس کو تقسيم کر ديتے تھے[11]۔

صدقات و خيرات کے علاوہ بھي آپ بڑے فياض اور سيرچشم تھے۔ شعراء کو بڑي بڑي رقميں دے ڈالتے تھے۔ ايک مرتبہ حضرت حسنؓ نے آپؓ کو ٹوکا تو حضرت حسينؓ نے جواب ديا کہ بہترين مال وہي ہے جس کے ذريعہ سے آبرو بچائي جائے[12]۔

وقار و سکينہ

سکينت اور وقار آپ کا خاص وصف تھا۔ آپ کي مجلس بھي وقار اورمتانت کا مرقّع ہوتي تھي۔

انکسار و تواضع

آپ ميں تمکنت و خود پسندي مطلق نہ تھي اور آپ حد درجہ خاکسار اور متواضع تھے۔ ادنيٰ ادنيٰ اشخاص سے بےتکلّف ملتے تھے۔ ايک مرتبہ کسي طرف جا رہے تھے۔ راستہ ميں کچھ فقراء کھانا کھا رہے تھے۔ حضرت حسينؓ کو ديکھ کر انہيں بھي مدعو کيا۔ ان کي درخواست پر آپ فوراً سواري پر سے اُتر پڑے اور کھانے ميں شرکت کرکے فرمايا کہ تکبّر کرنے والوں کو خدا دوست نہيں رکھتا اور ان فقراء سے فرمايا کہ مَيں نے تمہاري دعوت قبول کي ہے اس ليے تم بھي ميري دعوت قبول کرو اور ان کو گھر لے جاکر کھانا کھلايا[13]۔

ايثار و حق پرستي آپ کي کتابِ فضائل و اخلاق کا نہايت جلي عنوان ہے اس کي مثال کے ليے تنہا واقعہ شہادت کافي ہے کہ حق کي راہ ميں سارا کنبہ تہِ تيغ کرا ديا ليکن ظالم حکومت کے مقابلہ ميں سپر نہ ڈالي۔

اَزواج و اَولاد

آپ نے مختلف اوقات ميں متعدد شادياں کيں۔ آپ کي ازواج ميں ليليٰ، حباب، حرار اور غزالہ تھيں۔ ان سے متعدد اولاديں ہوئيں۔ جن ميں علي اکبر، عبداللہ اور ايک چھوٹے صاحبزادے واقعہ کربلا ميں شہيد ہوئے، امام زين العابدين علي بن حسين باقي بچےتھے،انہي سے آپؓ کي نسل چلي۔ صاحبزاديوں ميں سکينہ، فاطمہ اور زينت تھيں۔ بعض کتابوں ميں حضرت امام حسينؓ کي ازواج ميں ايک کا نام يزدگرد شاہ ايران کي لڑکي شہر بانو کا بھي ملتا ہےاور کہا جاتا ہے کہ حضرت امام زين العابدينؓ انہي کے بطن سے تھے۔

سيّدنا حضرت مسيح موعود نے بھي ترياق القلوب صفحہ 274-275 پر فرمايا ہے کہ ايران کي شہزادي شہر بانو بھي حضرت امام حسينؓ کے عقد ميں آئي تھيں اور وہي سادات کي دادي ٹھہريں۔

[1]– مستدرک حاکم ج 3صفحہ 76 فضائل حسينؓ، موطا امام مالک کتاب العقيقہ باب ماجاء في العقيقہ ميں بھي اس کا ذکر ہے۔

 

[2]– اسدالغابہ جلد 2 صفحہ 18

 

[3]– اس کا ذکر حديث کي متعدد کتابوں ميں ہے۔

 

[4]– فتوح البلدان بلا ذري ذکر عطاء عمر بن الخطاب

 

[5]– ابن عساکرج 4 صفحہ 321-322

 

[6]– ابن ايثرجلد 3صفحہ 84

 

[7]– تاريخ الخلفاء سيوطي صفحہ 159

 

[8]– يعقوبي جلد2 صفحہ 192-193

 

[9]– تہذيب الاسماء نودي جلد2 صفحہ 163

 

[10]– ايضاً

 

[11]– ان عساکر جلد4 صفحہ 312

 

[12]– ايضاً صفحہ 322

 

[13]– ايضاً

 

متعلقہ مضمون

  • عظیم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب اور سرن

  • تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے

  • چند یادیں

  • اسلام کا بطلِ جلیل