جِس نے نفسِ دُوں کو ہمت کرکے زیر پا کیا
چیز کیا ہیں اُس کے آگے رُستم و اسفندیار
گالیاں سُن کر دعا دو، پا کے دُکھ آرام دو
کِبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ اِنکسار
تم نہ گھبراؤ اگر وہ گالیاں دیں ہر گھڑی
چھوڑ دو اُن کو کہ چھپوائیں وہ ایسے اشتہار
چُپ رہو تم دیکھ کر اُن کے رسالوں میں سِتم
دم نہ مارو گر وہ ماریں اور کر دیں حالِ زار
دیکھ کر لوگوں کا جوش و غیظ، مت کچھ غم کرو
شدتِّ گرمی کا ہے محتاج بارانِ بہار
اِفترا اُن کی نگاہوں میں ہمارا کام ہے
یہ خیال، اللہ اکبر، کس قدر ہے نابکار
خیر خواہی میں جہاں کی، خوں کیا ہم نے جگر
جنگ بھی تھی صلح کی نیت سے اور کیں سے فرار
پاک دل پر بدگمانی، ہے یہ شقوت کا نِشاں
اب تو آنکھیں بند ہیں، دیکھیں گے پھر انجام کار
جبکہ کہتے ہیں کہ کاذب پھولتے پھلتے نہیں
پھر مجھے کہتے ہیں کاذب، دیکھ کر میرے ثمار

 

(انتخاب از درثمین، ‘‘مُناجات اور تبلیغِ حق’’)

متعلقہ مضمون

  • تیرے کرم نے پیارے یہ مہرباں بُلائے

  • کیا عجب تو نے ہر اک ذرّہ میں رکھے ہیں خواص

  • تیرے بن دیکھا نہیں کوئی بھی یارِ غمگسار

  • وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم