کامیاب حضرت امام حسینؓ ہوئے نہ کہ یزید

سیدنا حضرت مسیحِ موعودؑ فرماتے ہیں

حضرت امام حسین اور امام حسن خدا کے برگزیدہ اور صاحبِ کمال اور صاحبِ عفّت اور عصمت اور ائمۃالہدیٰ تھے وہ بلاشبہ دونوں معنوں کے رُو سے آنحضرتﷺ کے آل تھے… سو اہلِ معرفت اور حقیقت کا یہ مذہب ہے کہ اگر حضرت امام حسین اور امام حسن آنحضرتﷺ کے سفلی رشتہ کے لحاظ سے آل بھی نہ ہوتے تب بھی بوجہ اِس کے کہ وہ روحانی رشتہ کے لحاظ سے آسمان پر آل ٹھہر گئے تھے۔ وہ بلا شبہ آنحضرتﷺ کے روحانی مال کے وارث ہوتے۔ جبکہ فانی جسم کا ایک رشتہ ہوتا ہے تو کیا روح کا کوئی بھی رشتہ نہیں؟ بلکہ حدیث صحیح سے اور خود قرآنِ شریف سے بھی ثابت ہے کہ روحوں میں بھی رشتے ہوتے ہیں اور ازل سے دوستی اور دشمنی بھی ہوتی ہے۔ (تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ364-366حاشیہ)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں

بعض لوگ پوچھ بیٹھا کرتے ہیں کہ حضرت امام حسینؓ کیوں ناکام ہوئے اور یزید کیوں کامیاب ہوا۔ حالانکہ اگر غور کرتے تو یزید باوجود مال و دولت اور جاہ و چشم کے ناکام رہا اور حضرت امام حسینؓ باوجود شہادت کے کامیاب رہے۔ کیونکہ ان کا مقصد حکومت نہیں بلکہ حقوق العباد کی حفاظت تھا۔ تیرہ سو سال گذر چکے ہیں مگر وہ اصول جس کی تائید میں حضرت امام حسینؓ کھڑے ہوئے تھے یعنی انتخاب خلافت کا حق اہل ملک کو ہے، کوئی بیٹا اپنے باپ کے بعد بطور وراثت اس حق پر قابض نہیں ہوسکتا۔ آج بھی ویسا ہی مقدس ہے جیسا کہ پہلے تھا۔ بلکہ ان کی شہادت نے اس حق کو اور بھی نمایاں کر دیا ہے۔ پس کامیاب حضرت امام حسینؓ ہوئے نہ کہ یزید۔ (انوارالعلوم جلد10 صفحہ 589)

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں

اللہ کی راہ میں جو مارا جاوے اسے احیاء کہتے ہیں اور تین طرح سے وہ زندہ ہوتے ہیں جن کو ایک جاہل بھی سمجھ سکتا ہے اور متوسط درجہ کے آدمی بھی اور ایک مومن بھی سمجھ سکتا ہے۔… شہید کے بارے میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ جو تم میں سے مَرے گا اس کا بدلہ لیا جاوے گا… ایک جاہل بھی سمجھ سکتاہے… کہ جب میدان ہاتھ آوے اور فتح ہو جاوے تو مُردوں اور مقتولوں کو مُردہ اور مقتول نہیں سمجھتے اور نہ ان کا رنج و غم ہوتا ہے۔ میرا اپنا اعتقاد ہے کہ شہید کو ایک چیونٹی کے برابر بھی دَرد محسوس نہیں ہوتا اور مَیں نے اس کی نظیریں خود دیکھی ہوئی ہیں۔ (البدر 20 مارچ 1903ء صفحہ 69)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث فرماتے ہیں

بصرہ کے گورنر ابن زیاد نے قاضی شرح کو دربار میں طلب کیا… اور اس سے کہا کہ آپ حسین ابن علی کے قتل کا فتویٰ صادر کریں۔ قاضی شریح نے انکار کیا اور اپنا قلمدان اپنے سر پر دے مارا اور اُٹھ کر گھر چلا گیا… جب رات ہوئی تو ابن زیاد نے چند تھیلیاں زر کی سونے کی اشرفیوں کی اس کے لیے بھیجیں۔ صبح ہوئی شریح، ابن زیاد کے پاس آیا تو… پھر وہی گفتگو شروع کی کہ قاضی شریح نے کہا کہ کل رات میں نے قتل حسین پر بہت غور کیا اور اب مَیں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں (تھیلیاں لینے کے بعد) کہ ان کا قتل کر دینا واجب ہے چونکہ انہوں نے خلیفہ وقت پر خروج کیا ہے۔ پھر قلم اٹھایا اور فرزند رسولؐ کے قتل کا فتویٰ اس مضمون کا لکھا: ‘میرے نزدیک ثابت ہو گیا ہے کہ حسین ابن علی دین رسولؐ سے خارج ہوگیا ہے لہٰذا وہ واجب القتل ہے یعنی نبی کریمﷺ کے دین سے خارج ہوگیا ہے اور واجب القتل ہے’’۔ قاضی القضاۃ سے گورنر نے اوپر کی ہدایتوں کے مطابق یہ فتویٰ لیا اور اُمت مسلمہ آج تک اس فتوے کو ردّ کر رہی ہے۔ (مشعل راہ جلد دوم صفحہ 688)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع فرماتے ہیں

ؑمحرّم میں محبّت کی اور باہم رشتوں کو باندھنے کی تعلیم دینی ضروری ہے اور جیسا کہ مسیح موعود نے فرمایا ہے حقیقت یہ ہے کہ اوّل زور روحانی تعلق پر دینا ضروری ہے اور پھر جسمانی طور پر اگر تعلق ہے تو اس تعلق میں اضافہ ہوگا، کمی نہیں ہو سکتی۔ یعنی جسمانی تعلق سونے پر سہاگے کا کام دے گا لیکن شرط یہ ہے کہ پہلے روحانی تعلق قائم ہو اور روحانی تعلق پر زور دیا جائے پھر زائد کے طور پر جب جسمانی رشتہ دکھائی دے گا تو لازمًا سب کو محبّت ہو گی۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍جون 1994ء مطبوعہ خطباتِ طاہرجلد 13صفحہ 447-466)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

حضرت امام حسینؓ نے جو حق کے اظہار کے نمونے ہمارے سامنے قائم فرمائے ہیں اسے ہمیں ہر وقت پکڑے رہنا چاہئے۔ اور اگر ہم اس پر قائم رہے تو ہم اس فتح اور کامیابی کا حصہ بنیں گے جو حضرت مسیح موعود کے ساتھ مقدر ہے۔ ان شاءاللہ… اس مہینے میں درود بہت پڑھیں۔ یہ جذبات کا سب سے بہترین اظہار ہے جو کربلا کے واقعہ پر ہو سکتا ہے، جو ظلموں کو ختم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی مدد چاہنے کے لئے ہو سکتا ہے۔ آنحضرتﷺ پر بھیجا گیا یہ درود آپ کی جسمانی اور روحانی اولاد کی تسکین کا باعث بھی بنتا ہے۔ (الفضل انٹرنیشنل31؍دسمبر2010ءصفحہ6)