قسط دوم

گنپت روڈ کاغذ کے کاروبار کا مرکز تھا۔ ابھی ہم دُکانوں کے آگے سے گزر رہے تھے کہ ایک صاحب کاؤنٹر کے پاس پڑی کرسی سے کھڑے ہو کر زور زور سے پُکارنے لگے مولانا آگئے، مولانا آ گئے۔ اتنی دیر میں ہم دُکان تک پہنچ گئے۔ یہ مکرم عبداللطیف ستکوہی صاحب کی دُکان تھی اور میری ان سے پہلی ملاقات۔ سلام دعا کے بعد مکرم شفیع اشرف صاحب نے مکرم ستکوہی صاحب کو بتایا کہ یہ نوجوان ربوہ سے آیا ہے اس کو پاسپورٹ بنوانے کے لئے ایک لاکھ روپے کی ضمانت چاہیے۔ ستکوہی صاحب اپنے مخصوص لب و لہجہ میں پنجابی زبان میں جس طور مخاطب ہوئے اس کو اسی طرح پنجابی زبان میں ادا کرنا یا لکھنا میرے بس میں نہیں۔ خلاصہ یہ ’’بچیا بچیا… ضمانت چاہیے… جاؤ جاؤ کچہری جاؤ۔ وہاں وکلاء کے ڈھارے ہیں۔ وہاں محمود بھلر ایڈوکیٹ کا بورڈ تلاش کرنا اور محمودبھلر سے کہنا ستکوہی نے بھجوایا ہے۔ ضمانت کے کاغذات تیار کرو‘‘۔ محترم ستکوہی صاحب تیز تیز بولنے کے عادی تھے۔ مَیں ابھی سنبھلنے نہ پایا تھا اور آنکھ اٹھا کر شفیع اشرف صاحب کی طرف دیکھنے کی کوشش کی کہ ستکوہی صاحب نے خود ہی پوچھ لیا پتہ ہے کچہری کہاں ہے؟ میرا جواب نفی میں تھا۔ ستکوہی صاحب ملازم سے مخاطب ہوئے کہ مجھے کچہری کا راستہ بتا دے۔ چنانچہ سمجھائے ہوئے راستہ پر پیدل کچہری کی طرف چل پڑا۔ سارا راستہ غور کرتا رہا کہ اس شخص نے یہ نہیں پوچھا یہ بچہ کون ہے۔ اس کا شجرہ نَسب کیا ہے۔ یہ کس ملک اور کیوں جانا چاہتا ہے۔ ایک لاکھ کی ضمانت کے لئے آپ میرے پاس کیوں آئے ہیں۔ ایک نوجوان جو ایک ہفتہ سے لاہور کی سڑکوں پر مارا مارا پھرا ہو۔ روزانہ میلوں کے فاصلے پیدل طے کرکے ہر شام ناکام گھر واپس لَوٹا ہو اس کے لئے یہ لمحات ناقابلِ یقین تھے۔ تب مجھے والد محترم کا نصیحت بھرا خط یاد آیا اور اپنے ان شکوہ بھرے بےصبرے الفاظ پر شرمندگی ہوئی جس کے جواب میں والد صاحب کو لکھنا پڑا۔ ‘‘آخری کوشش کرکے دیکھو، پھر بھی بات نہ بنے تو ربوہ واپس آ جاؤ۔ خدا جس حال میں رکھے اس میں خوش رہنے کے ڈھنگ سیکھو’’۔ محمودبھلر ایڈوکیٹ سے ملا۔ وہ ہنس پڑ ے تو میرے دل میں خطرے کی گھنٹی ایک بار پھر بجی۔ لیکن جلد ان کے جواب سے اطمینان ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ستکوہی صاحب کو بتا دیں۔ ضمانت کے کاغذات ایسے نہیں بنتے۔ مَیں کچہری کے اوقات کے بعد مطلوبہ اسٹامپ فارم لے کر دُکان پر آؤں گا۔ ان کے بنک سے بھی کاغذات چاہئیں۔ ساری تفصیل بتاؤں گا۔ مجسٹریٹ کے سامنے ستکوہی صاحب کو بھی جانا پڑے گا۔ تین چار دن لگیں گے۔ میں محمود بھلر صاحب کا پیغام لے کر ستکوہی صاحب کے پاس واپس لوٹ آیا۔ مکرم شفیع اشرف صاحب ابھی تک وہاں نویدِ سحر سننے کے لئے موجود تھے۔ میرے واپس لَوٹنے تک دوپہر ہو چکی تھی اور ستکوہی صاحب دوپہر کے کھانے پر بےدَر نوجوان کے منتظر تھے۔ کچھ کھانا ستکوہی صاحب کے گھر سے آیا تھا اور کچھ بازار سے منگوایا گیا اور یوں سب مل کر ستکوہی صاحب کے دسترخوان سے سیرشکم ہوئے۔ کھانے کے بعد مولانا اشرف صاحب تو نیکی کی راہ ہموار کرکے دِلّی دروازے کی مسجد کو سدھار گئے اور مَیں دُکان کے ایک کونے میں سمٹ کر کاغذ کے بیوپار کے گُر ناپنے لگا۔ مَیں آج بھی مولانا شفیع اشرف صاحب مرحوم کا دل سے قدر دان ہوں اور ان کی نیکی اور مشکل وقت میں ان کا مدد کے لئے کھڑے ہو جانے کا منظر میری آنکھوں کے سامنے رہتا ہے۔ محمود بھلر ایڈوکیٹ حسب وعدہ ستکوہی صاحب سے ملنے تشریف لائے۔ ضمانت کی ضرورت اور نوعیت مَیں نے بیان کی۔ پاسپورٹ فارم پر آفیسر کے ہاتھ کا اندراج دکھایا۔ باقی گفتگو ان دونوں ستکوہی صاحب اور بھلر صاحب کے درمیان ہوئی۔ جس کا حاصل یہ طے پایا کہ آئندہ دو روز میں متعلقہ کام مکمل کئے جائیں گے۔ تیسرے روز ہم تینوں صبح کا ناشتہ ستکوہی صاحب کے مکان کرشن نگر میں ایک ساتھ کریں گے۔ جس کے بعد لاہور کارپوریشن کے دفتر میں موجود کسی مجسٹریٹ کے پاس حاضر ہو کر اسٹامپ فارم اور ضمانتی کاغذات کی تصدیق کنفرم کروائی جائے گی۔
تیسرے روز طے شدہ پروگرام سے فارغ ہوئے تو کاروبار اور عدالتیں کھل چکی تھیں لیکن مسیح پاک کے یہ دو درویش درختِ وجود کی ایک کونپل کی ہریالی کی خاطر اپنا وقت اور مال قربان کرنے پر خوشی خوشی آمادہ تھے۔ یہ پہاڑ جیسا مسئلہ حل کرنے میں دوپہر ہوگئی۔ جس کے بعد پاسپورٹ فارم جمع کروانے کی باری آئی۔ متعلقہ افسر نے تین ماہ بعد پتہ کرنے کی تلقین کی۔ کمرے سے باہر نکلا تو ایک اَور صاحب کمرے سے میرے ساتھ باہر نکلے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا کہ خدمت کر دو تو جلدی بھی بن سکتا ہے۔ مَیں اس راز کو سمجھ نہ سکا اور اپنے محسنوں کا شکریہ ادا کرنے دِلّی دروازے اور گنپت روڈ کی راہ لی۔ جرمنی آنے کے بعد ستکوہی صاحب مرحوم سے بیسیوں ملاقاتیں ہوئیں۔ جلسہ سالانہ برطانیہ پر ہم متعدد بار ایک ہی گھر میں ابراہیم ایاز مرحوم صاحب کے ہاں ٹھہرتے رہے لیکن اس درویش صفت فدائی احمدی کو یاد نہیں تھا کہ میرے ساتھ رہائش پذیر وہ ہے جس کا کبھی مَیں نے مشکل حالات میں ہاتھ پکڑا تھا۔ ستکوہی صاحب عجیب بےنیاز شخصیت کے مالک تھے۔ مجھے یقین ہے ان سے فیض پانے والا مَیں اکیلا نہیں بلکہ اس فیض رَساں وجود سے محض احمدی ہونے کے ناطے سینکڑوں نے فیض پایا۔ عزیزم ڈاکٹر عمران احمد خان نے نشتر میڈیکل میں داخلہ لیا تو یہی مرحلہ دَرپیش تھا۔ ستکوہی صاحب سے رابطہ کیا تو وہ پہلے ہی کسی طالب علم کی ضمانت دے بیٹھے تھے۔ لیکن چودھری نصیر احمد صاحب جو سکول کالج کی سائنس لیبارٹری میں استعمال ہونے والا سامان فروخت کرتے تھے کو فون کرکے زَرِ ضمانت پر راضی کیا اور انہوں نے بھی کوئی دوسرا سوال نہیں کیا اور فوراً رضامندی ظاہر کر دی۔ نظامِ سلسلہ کی بدولت ہم خلافت کی جس لڑی میں پروئے گئے ہیں مشکل گھڑی میں کوئی نہ کوئی سبیل آسان راہ کی نکل آتی ہے۔ باہمی محبّت و اخوت کی آواز پر کان دھرنے اور خلیفہ وقت کے منشاء کے مطابق زندگی بسر کرنے والے خسارے میں نہیں رہتے۔ گو ان واقعات پر آدھی صدی گزر گئی لیکن آج بھی کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ میں عبداللطیف ستکوہی صاحب کے بلندی درجات کے لئے دعا نہ کرتا ہوں۔
تین ماہ بعد پاسپورٹ کے اجراء کا پتہ کرنے گیا تو دفتر کے ملازمین نے ایک دوسرے کی شکلوں کو تکنا شروع کر دیا دس پندرہ منٹ بٹھا کر تین ماہ بعد دوبارہ آنے کو کہا، مجھ جیسے جب انکار سن کر باہر نکلتے تو شکاری خیر مقدم کے لئے موجود ہوتے۔ ایک بھلے شکاری نے حقیقت پسندانہ راہ سجھائی۔ اس نے صاف بتایا کہ پاسپورٹ بنوانے کے دو طریق ہیں۔ اوّل ہماری مدد حاصل کرو دوم بڑے افسر کو تگڑی سفارش سے اپروچ کرو۔ نہیں تو ایسے ہی چکر کاٹتے رہو گے۔ یہ فقرہ مَیں نے ربوہ واپس آ کر والد محترم (مکرم مسعود احمد صاحب دہلوی) کے گوش گزارش کر دیا۔ انہوں نے اپنے حلقہ اثر میں مشورہ کیا اور فیصلہ ہوا کہ پاسپورٹ آفس میں کسی احمدی ملازم کا معلوم کیا جائے۔ چنانچہ لاہور کا ایک پھیرا خاص اس مقصد کے لئے کیا گیا۔ ملازمین سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ آفس سپرنٹنڈنٹ احمدی ہیں۔ بعض اعتبار سے کیا بھلا وقت تھا کہ آپ ایسی گفتگو بِلا خوف و خطر کے کر لیتے تھے۔ مَیں نے نام تو نوٹ کرلیا لیکن ساتھ ہی مجھے خیال آیا کہ اب ان کا تعلق دار تلاش کرنے میں وقت صرف ہوگا۔ فریدعارف صرف میری وجہ سے رُکا ہوا ہے۔ اس کو محوِ پرواز ہونے کی جلدی ہے۔ چلو سپرنٹنڈنٹ سے بات کرکے دیکھتے ہیں۔ مَیں ان کے دفتر میں پیش ہوگیا۔ بتایا ربوہ کا ہوں۔ پوچھنے لگے منور انیس کو جانتے ہو۔ مَیں نے کہا میرے سے کالج میں چار سال سینئر تھے۔ بڑے بھائی کے دوست تھے والد صاحب سے بہت عقیدت رکھتے ہیں۔ پوچھا والد کون ہیں۔ مَیں نے نام لیا۔ فوراً کرسی سے کھڑے ہو گئے۔ فرمایا مَیں منور انیس کا ماموں ہوں۔ کاغذ کے ایک ٹکڑے پر مجھ سے پوچھ کر کوائف لکھے۔ ملازم ساتھی کو دئیے۔ دو منٹ سے بھی کم وقت میں ملازم نے وہ پاسپورٹ ان کی میز پر رکھ دیا۔ انہوں نے پاسپورٹ کے ایک ایک صفحہ کو بغور دیکھا۔ پاسپورٹ کی کاپی بند کرکے میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا پہلے مل لیتے تو انٹرنیشنل پاسپورٹ جاری ہو جاتا۔ اب صرف چھ ملکوں کے لئے کارآمد ہے۔ اس ملازم کے ساتھ جا کر رجسٹر پر وصول پا لینے کے دستخط کرکے جرمنی جانے کی تیاری کرو۔ یوں اچانک پاسپورٹ مل جانے کی جو خوشی اس روز ہوئی اس کا لطف آج بھی اٹھاتا ہوں اور سر خدا کے حضور شکرانے سے جھک جاتا ہے۔
ربوہ پہنچا تو اگلا مرحلہ شروع ہوا۔ کافی عرصہ سے کرایہ کی رقم اکٹھی کرنے کی جہد مسلسل جاری تھی۔ جرمنی کا ویزہ تو نہیں چاہیے تھا البتہ مشورہ برداروں کا کہنا تھا کہ واپسی کا ٹکٹ پاس نہ ہو تو جرمنی میں داخل ہونے نہیں دیا جاتا۔ مَیں ابھی اسی کشمکش سے گزر رہا تھا کہ پاکستانی کرنسی کی قیمت گر گئی۔ ائیر ٹکٹ اور ساتھ لے کر جانے والا زرِمبادلہ دوگنا مہنگا ہوگیا۔ مایوسی نے ایک بار پھر میرے گرد حلقہ بنا لیا اور یوں جرمنی ایک بار پھر میرے لئے خوابوں کی سرزمین بن گیا۔ مَیں حسن عارف صاحب مرحوم کی اہلیہ خالہ اختر کی ڈانٹ کھا کر گھر میں دبک گیا اور برادرم فرید عارف اکیلا جرمنی کو پرواز کرگیا۔
اس داستان حیرت کے چند ماہ بعد 18 دسمبر 1972ء کو جرمنی آمد کیسے ہوئی۔ درمیانی عرصہ میں میرے پر کیا بیتی اور جرمنی میں پچاس سال کیسے گزرے اس کے ذکرکے لئے مضمون ابھی جاری ہے۔

(اخبار احمدیہ جرمنی اپریل 2024ء صفحہ 40)