شعور و ظن، فکر و تجسس، غور و خوض، تلاش و جستجو انسان کی فطرت میں ودیعت کئے گئے ہیں۔ آغاز میں وہ اپنے ماحول میں خود کو اجنبی پاتا تھا۔ پھر دائیں بائیں دیکھنا شروع کیا، اپنے قریب کی دنیا دیکھی اور آگے بڑھا تو دیکھا کہ مزید کچھ ہے اور پھر اس سے آگے بھی کچھ ہوگا۔ مزید سفر کی ہمّت کی تو مزید علاقے دریافت کئے۔ نئے ملک و دیار، اجنبی تہذیب و تمدن اور اجنبی زبانوں نے اس کو مزید دیکھنے پر ابھارا۔ پھر وہ سمندر کی لہروں پر سوار ہوا۔ یہ ایک نئی دنیا تھی۔ پھر سمندر کے دوسرے کنارے بھی دریافت کئے اور پھر وہ نئے پانیوں اور نئے علاقوں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ اور پھر وہ وقت آیا کہ دنیا گلوبل وِلیج بن گئی۔جب چاہو جہاں چاہو جا پہنچو۔ دنیا کی دریافت کے بعد انسان دنیا کے ماحول کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا یہ دیکھنے کے لئے کہ دنیا کے اردگرد کیا ہے اور کیا یہاں بھی کوئی ہمسایہ ہے۔ اس تلاش میں وہ ایسا کھویا کہ روز نئی سے نئی دریافت ہو رہی ہے مگر اس کا کنارہ دکھائی نہیں دیتا، جتنی دور تک بھی نظر دوڑاتا ہے، اس کی نظر تھکی ماندی اس پیغام کے ساتھ واپس لَوٹ آتی ہے کہ ’ستاروں سے آگے جہاں اَور بھی ہیں‘۔ گویا ان لامتناہی وسعتوں اور وسیع و عریض نظام کے سامنے ہماری اس دنیا اور زمین کی حیثیت بیضۂ مُور سے بھی حقیر تر ہے۔ یہ دیکھ کر اس کے سر پر یہ دُھن سوار ہو گئی کہ یہ نظام کہاں سے آیا۔ میری اور اس کائنات کی پیدائش کیسے اور کب عمل میں آئی۔ سائنس ان تمام سوالات کا جواب دینے سے قاصر ہے بلکہ جیسے جیسے وہ دریافت کرتا رہا مزید اُلجھنوں میں گِھرتا چلا گیا ۔چنانچہ اس کے لئے اس نے دنیا بھر میں لامحدود وسائل سے تحقیقی عمل شروع کر رکھا ہے جس میں ہزاروں سائنسدان اپنی زندگیاں کھپا رہے ہیں۔ انہی میں سے ایک تجربہ گاہ ہمارے پڑوس میں ”سرن“ کے نام سے قائم ہے ، زیر نظر شمارہ میں اسی تجربہ گاہ کا تعارف قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک حیران کن حقیقت ہے کہ ان تمام دریافتوں اور کائنات کے راز ہائے سر بستہ کا قرآن کریم میں ذکر موجود ہے جن پر غور و فکر کرنے کی خداتعالیٰ نے بار بار تلقین فرمائی ہے۔ اس مضمون کے قرآنی مطالعہ سے بخوبی ثابت ہو جاتا ہے کہ اسلام کا خدا اور اس کا کلام اور رسول ہی برحق ہیں۔ اور جب یہ تمام پیشگوئیاں پوری ہوگئیں تو قرآن کریم میں بیان فرمودہ دیگر حقائق بھی یقیناً پورے ہوں گے اور انسان ایک دن خدا کے حضور کھڑا ہوا گا اور پھرثُمَّ لَتُسۡـَٔلُنَّ یَوۡمَئِذٍ عَنِ النَّعِیۡمِ کے مطابق پوچھا جائے گا کہ جب تو نے اتنی نعمتوں کو دریافت کر لیا تو کیا یہ نہ سمجھ سکا کہ ان کا پیدا کرنے والا بھی ہے ؎

چشم مست ہر حسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے                ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خمدار کا

(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ جولائی 2024ء صفحہ 1)

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کےمیزبانوں اور مہمانوں کے لیے زرّیں نصائح

  • قربانی وہی ہے جسے خداتعالیٰ قبول کرے

  • عہدِ خلافت خامسہ میں الٰہی تائید و نصرت

  • عید کی خوشیوں کو بڑھانے کا ایک بڑا ہی لطیف طریق