حضرت خلیفۃالمسیح الخامسکی زبان مبارک سے

سیّدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس کے خطبہ جمعہ 2 جنوری 2015ء کا متن

تشہّد و تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:

آج کا جمعہ اس نئے سال 2015ء کا پہلا جمعہ ہے۔ مجھے مختلف لوگوں کے نئے سال کے مبارکباد کے پیغام آ رہے ہیں۔ فیکسیں بھی اور زبانی بھی لوگ کہتے ہیں۔ آپ سب کو بھی یہ نیا سال ہر لحاظ سے مبارک ہو۔ لیکن ساتھ ہی مَیں یہ بھی کہوں گا کہ ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کا فائدہ ہمیں تبھی ہوگا جب ہم اپنے یہ جائزے لیں کہ گزشتہ سال میں ہم نے اپنے احمدی ہونے کے حق کو کس قدر ادا کیا ہے اور آئندہ کے لئے ہم اس حق کو ادا کرنے کے لئے کتنی کوشش کریں گے۔ پس ہمیں اس جمعہ سے آئندہ کے لئے ایسے ارادے قائم کرنے چاہئیں جو نئے سال میں ہمارے لئے اس حق کی ادائیگی کے لئے چستی اور محنت کاسامان پیدا کرتے رہیں۔ یہ تو ظاہر ہے کہ ایک احمدی ہونے کی حیثیت سے ہمارے ذمہ جو کام لگایا گیا ہے اس کا حق نیکیوں کے بجا لانے سے ہی ادا ہوگا لیکن ان نیکیوں کے معیار کیا ہونے چاہئیں۔ تو واضح ہو کہ ہر اس شخص کے لئے جو احمدیت میں داخل ہو تا ہے اور احمدی ہے یہ معیار حضرت مسیح موعود نے خود مہیا فرما دئیے ہیں، بیان فرما دئیے ہیں اور اب تو نئے وسائل اور نئی ٹیکنالوجی کے ذریعہ سے ہر شخص کم از کم سال میں ایک دفعہ خلیفۂ وقت کے ہاتھ پر یہ عہد کرتا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود کے بیان فرمودہ معیاروں کو حاصل کرنے کے لئے بھرپور کوشش کرے گا۔ اور ہمارے لئے یہ معیار حضرت مسیح موعود نے شرائطِ بیعت میں کھول کر بیان فرما دئیے ہیں۔ کہنے کو تو یہ دس شرائط بیعت ہیں لیکن ان میں ایک احمدی ہونے کے ناطے جو ذمہ داریاں ہیں ان کی تعداد موٹے طور پر بھی لیں تو تیس سے زیادہ بنتی ہے۔ پس اگر ہم نے اپنے سالوں کی خوشیوں کو حقیقی رنگ میں منانا ہے تو ان باتوں کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ جو شخص احمدی کہلا کر اس بات پر خوش ہو جاتا ہے کہ میں نے وفات مسیح کے مسئلے کو مان لیا یا آنے والا مسیح جس کی پیشگوئی کی گئی تھی اس کو مان لیا اور اس پر ایمان لے آیا تو یہ کافی نہیں ہے۔ بےشک یہ پہلا قدم ہے لیکن حضرت مسیح موعود ہم سے توقع رکھتے ہیں کہ ہم نیکیوں کی گہرائی میں جا کر انہیں سمجھ کر ان پر عمل کریں اور برائیوں سے اپنے آپ کو اس طرح بچائیں جیسے ایک خون خوار درندے کو دیکھ کر انسان اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ اور جب یہ ہوگا تو تب ہم نہ صرف اپنی حالتوں میں انقلاب لانے والے ہوں گے بلکہ دنیا کو بدلنے اور خداتعالیٰ کے قریب لانے کا ذریعہ بن سکیں گے۔

بہر حال ان باتوں کی تھوڑی سی تفصیل یاددہانی کے طور پر آج مَیں بیان کروں گا۔ یہ یاددہانی انتہائی ضروری ہے۔ ہماری بیعت کا مقصد ہمارے سامنے آتا رہنا چاہئے۔

پہلی بات جو آپ نے ہمیں فرمائی ہے وہ شرک سے بچنے کا عہد ہے۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 563)

ایک مومن جو خدا پر ایمان لانے والا ہو اور خدا پر ایمان کی وجہ سے ہی خداتعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں زمانے کے امام کی بیعت کر رہا ہو۔ ایسے شخص کا اور شرک کا تو دُور کا بھی واسطہ نہیں ہوسکتا۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک مشرک اللہ تعالیٰ کی بات مانے۔ لیکن نہیں جس باریک شرک کی طرف ہمیں حضرت مسیح موعود توجہ دلا رہے ہیں وہ کوئی ظاہری شرک نہیں ہے بلکہ مخفی شرک ہے جو ایک مومن کے ایمان کو کمزور کر دیتا ہے۔ اس کی وضاحت فرماتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:

’’ توحید صرف اس بات کا نام نہیں کہ منہ سے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کہیں اور دل میں ہزاروں بُت جمع ہوں۔ بلکہ جو شخص کسی اپنے کام اور مکر اور فریب اور تدبیر کو خدا کی سی عظمت دیتا ہے یا کسی انسان پرایسا بھروسہ رکھتا ہے جوخداتعالیٰ پر رکھنا چاہئے یا اپنے نفس کو وہ عظمت دیتا ہے جو خدا کو دینی چاہئے۔ ان سب صورتوں میں وہ خداتعالیٰ کے نزدیک بُت پرست ہے۔ بُت صرف وہی نہیں ہیں جو سونے یا چاندی یا پیتل یا پتھر وغیرہ سے بنائے جاتے اور ان پر بھروسہ کیا جاتا ہے بلکہ ہر ایک چیز یا قول یا فعل جس کو وہ عظمت دی جائے جو خداتعالیٰ کا حق ہے وہ خداتعالیٰ کی نگہ میں بُت ہے‘‘۔

 (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد 12صفحہ 349)

پس آج ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ گزشتہ سال میں ہم نے جن تدبیروں اور حیلوں پر انحصار کیا، انہی کو سب کچھ سمجھا یا یہ چیزیں صرف ہم نے تدبیر کے طور پر استعمال کیں اور خداتعالیٰ کے حضور جھک کر ان تدبیروں سے اللہ تعالیٰ کی خیر اور برکت چاہی۔ اپنے آپ کا انصاف کی نظر سے جائزہ خود ہمیں اپنے عہد کی حقیقت بتا دے گا۔

پھر آپ نے ہم سے یہ عہد لیا کہ جھوٹ نہیں بولوں گا۔

 (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 563)

کون عقلمند انسان ہے جو کہے کہ جھوٹ اچھی چیز ہے یا جھوٹ بولنا چاہتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ ’’انسان جب تک کوئی غرض نفسانی اس کی محرّک نہ ہو جھوٹ بولنا نہیں چاہتا ‘‘۔

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10صفحہ 360)

پس نفسانی غرض ہو، کوئی مفاد ہو تبھی انسان جھوٹ کی طرف مائل ہوتا ہے۔ لیکن اعلیٰ اخلاق یہ ہیں کہ جان مال یا آبرو کو خطرہ ہو پھر بھی جھوٹ نہ بولے اور سچ کا دامن کبھی نہ چھوڑے۔ جھوٹے اور سچے کا تو پتا ہی اس وقت چلتا ہے جب کوئی ابتلا دَرپیش ہو۔ ذاتی مفاد متاثر ہونے کا خطرہ ہو لیکن پھر بھی اس میں سے سرخرو ہو کر نکلے۔ اپنے ذاتی مفادات کو سچائی پر قربان کر دے۔

آجکل یہاں اور یورپیئن ممالک میں بھی اسائلم کے لئے لوگ آتے ہیں لیکن باوجود میرے بار بار سمجھانے کے ان وکیلوں کے کہنے پر جھوٹ بول دیتے ہیں۔ جھوٹ پر مبنی کہانی لکھواتے ہیں اور پھر بھی بعضوں کے بلکہ بہت ساروں کے کیس reject ہو جاتے ہیں۔ باقی دنیا میں بھی اور یہاں بھی جماعتی طور پر وکیلوں کی ایک مرکزی ٹیم ہے۔ وہ اسائلم لینے والوں کی مدد کرتی ہے۔ ان کو وکیلوں کی طرف رہنمائی کرتی ہے یا انہیں بعض ایسی ضروری باتیں بتاتے ہیں اور مشورہ دیتے ہیں جو اُن کے کیس کے لئے مفید ہوں۔ کئی مرتبہ ہوا ہے کہ مجھے کمیٹی کے صدر نے کہا کہ فلاں کا کیس اس لئے reject ہوا ہے کہ بےانتہا جھوٹ تھا۔ صرف ایک دنیاوی مفاد حاصل کرنے کے لئے جھوٹ کا سہارا لیا اور یہ بھی نہ سوچا کہ جھوٹ اور شرک کو اللہ تعالیٰ نے اکٹھا کرکے بیان فرمایا ہے۔ پھر اسی طرح بعض benefits لینے کے لئے غلط بیانی کرتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ: ’’جھوٹ بھی ایک بُت ہے جس پر بھروسہ کرنے والا خدا کا بھروسہ چھوڑ دیتا ہے ‘‘۔

 پس اس باریکی سے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔

 (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10صفحہ 361)

پھر فرمایا یہ عہد کرو کہ زَنا سے بچو گے۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 563)

حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ:

’’زَنا کے قریب مت جاؤ یعنی ایسی تقریبوں سے دور رہو جن سے یہ خیال بھی دل میں پیدا ہو سکتا ہو اور ان راہوں کو اختیار نہ کرو جن سے اس گناہ کے وقوع کا اندیشہ ہو ‘‘۔

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10صفحہ 342)

اب آجکل ٹی وی ہے، انٹرنیٹ ہے اس پر ایسی بیہودہ فلمیں چلتی ہیں یا کھولنے سے نکل آتی ہیں جو نظر کا بھی زنا ہے، خیالات کا بھی زنا ہے، پھر برائیوں میں مبتلا کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ گھروں کے ٹوٹنے کی وجہ ہے۔ کئی عورتیں اور لڑکیاں اپنے خاوندوں کے بارے میں لکھتی ہیں کہ سارا دن انٹرنیٹ پر بیٹھے رہتے ہیں اور بیٹھ کر گندی فلمیں دیکھتے ہیں۔ بعض مرد بھی اپنی بیویوں کے بارے میں لکھتے ہیں۔ اور پھر نتیجۃً خلع اور طلاق تک نوبت آ جاتی ہے۔ یا انہی فلموں کی وجہ سے جانوروں سے بھی زیادہ بدترین بن جاتے ہیں۔ احمدی معاشرہ عموماً تو اس سے بچا ہوا ہے۔ شاذ و نادر کے سوا کوئی ایسے واقعات نہیں ہوتے لیکن اگر اس معاشرے میں رہتے ہوئے اس گند سے اپنے آپ کو بچانے کی بھرپور کوشش نہ کی تو پھر کسی پاکیزگی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ پس اس بارے میں بھی بہت فکر سے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔

پھر ایک عہد ہم سے یہ لیا کہ بدنظری سے بچوں گا۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 563)

اس لئے خداتعالیٰ نے قرآنِ کریم میں غضِّ بصر کا حکم دیا ہے تا کہ بدنظری کا موقع ہی پیدا نہ ہو۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ آگ اس آنکھ پر حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کو دیکھنے کی بجائے جھک جاتی ہے۔

 (سنن الدارمی، کتاب الجہاد، باب فی الذی یسھر … الخ حدیث2404 صفحہ 773 مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت 2000ء)

حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:

’’ہمیں تاکید ہے کہ ہم نامحرم عورتوں کو اور ان کی زینت کی جگہ کو ہرگز نہ دیکھیں… ‘‘۔ فرماتے ہیں:’’ضرور ہے کہ بےقیدی کی نظروں سے کسی وقت ٹھوکریں پیش آویں۔ سو چونکہ خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ ہماری آنکھیں اور دل اور ہمارے خطرات سب پاک رہیں اس لئے اس نے یہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم فرمائی‘‘۔

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10صفحہ 343)

آپ نے فرمایا کہ:’’اسلام نے شرائط پابندی ہر دو عورتوں اور مَردوں کے واسطے لازم کئے ہیں۔ پردہ کرنے کا حکم جیسا کہ عورتوں کو ہے مَردوں کو بھی ویسا ہی تاکیدی حکم ہے غضّ بصر کا‘‘۔

(ملفوظات جلد 10 صفحہ 346)

اس بات پر بھی ہمیں غور کرنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ کس حد تک ہم اس پر عمل کرتے ہیں۔ پھر آپ نے ہم سے یہ عہد لیا کہ ہر ایک فسق و فجور سے بچوں گا۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 563)

اللہ تعالیٰ کے احکامات سے باہر نکلنا فسق ہے۔ آنحضرتﷺ نے ایک موقع پر فرمایا کہ ’’گالی گلوچ کرنا فسق ہے ‘‘۔

(سنن ابن ماجہ باب اجتناب البدع والجدل حدیث 46)

حضرت مسیح موعود نے ایک موقع پر فرمایا کہ:’’قرآن سے تو ثابت ہوتا ہے کہ کافر سے پہلے فاسق کو سزا دینی چاہئے‘‘۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 367۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

فرمایا: ’’جب یہ‘‘(یعنی مسلمان)’’فسق و فجور میں حد سے نکلنے لگے اور خدا کے احکام کی ہتک اور شعائر اللہ سے نفرت ان میں آگئی اور دنیا اور اس کی زیب و زینت میں ہی گم ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی اسی طرح ہلاکو، چنگیز خان وغیرہ سے برباد کرایا‘‘۔

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 133۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

آجکل بھی دنیا کا، مسلمانوں کا یہی حال ہے۔

پھر ایک عہد بیعت کرنے والے سے یہ لیا گیا ہے کہ ظلم نہیں کرے گا۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 563)

ظلم ایک انتہائی بڑا گناہ ہے۔ کسی کا حق غلط طریق سے دبانا بہت بڑا ظلم ہے۔ آنحضرتﷺ سے جب پوچھا گیا کہ کونسا ظلم سب سے بڑا ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا۔ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے بھائی کے حق میں سے ایک ہاتھ زمین دَبا لے۔ فرمایا اس زمین کا ایک کنکر بھی جو اس نے ازراہ ظلم لیا ہوگا تو اس کے نیچے کی زمین کے جملہ طبقات کا طوق بن کر قیامت کے روز اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔

(مسند احمد بن حنبل جلد دوم صفحہ 61 مسند عبد اللہ بن مسعود حدیث 3772 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1998ء)

یعنی اس زمین کے نیچے گہرائی تک جتنی زمین ہے، (اللہ جانتا ہے کتنی زمین ہے) اس کا ایک طوق بنے گا اور اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔ پس بڑے خوف کا مقام ہے۔ وہ لوگ جو مقدمات میں اَناؤں کی وجہ سے یا ذاتی مفادات کو حاصل کرنے کی وجہ سے لوگوں کے حق مارتے ہیں ان کو سوچنا چاہئے۔

پھر ایک عہد ہم سے یہ لیا گیا ہے کہ خیانت نہیں کریں گے۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 563)

اور خیانت نہ کرنے کا معیار آنحضرتﷺ نے کیا پیش فرمایا؟ فرمایا اس شخص سے بھی خیانت سے پیش نہ آؤ جو تم سے خیانت سے پیش آ چکا ہے۔

 (سنن ابی داؤد کتاب البیوع باب فی الرجل یاخذ حقہ من تحت یدہ حدیث 3535)

پس یہ معیار ہیں جو ہمیں حاصل کرنے ہیں۔ کوئی عذر نہیں کہ فلاں کی امانت میں نے اس لئے قبضے میں کر لی یا اس کی چیز دَبا لی کہ اس نے فلاں وقت میرے ساتھ خیانت کا معاملہ کیا تھا۔ اپنے حقوق کے لئے قضا یا اگر دوسرا فریق غیر از جماعت ہے تو عدالت میں جاؤ۔ اگر جماعت کہتی ہے تو عدالت میں جائیں لیکن خیانت کا تصوّر ہی مومن کے ایمان کی بنیاد ہلا دیتا ہے۔

پھر یہ عہد ہے کہ ہر قسم کے فساد سے بچوں گا۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

اپنوں کے ساتھ جھگڑوں اور فساد کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ غیروں سے جو ہمیں تکلیفیں پہنچا رہے ہیں ان سے بھی سلوک میں حضرت مسیح موعود نے ہمیں جو تعلیم دی ہے وہ کیا ہے؟

فرمایا: ’’وہ لوگ جو محض اس وجہ سے تمہیں چھوڑتے اور تم سے الگ ہوتے ہیں کہ تم نے خداتعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ میں شمولیت اختیار کرلی ہے ان سے دنگا یا فساد مت کرو بلکہ ان کے لئے غائبانہ دعا کرو۔ …’’ فرمایا: ‘‘دیکھو میں اس امر کے لئے مأمور ہوں کہ تمہیں بار بار ہدایت کروں کہ ہر قسم کے فساد اور ہنگامہ کی جگہوں سے بچتے رہو اور گالیاں سن کر بھی صبر کرو۔ بدی کا جواب نیکی سے دو اور کوئی فساد کرنے پر آمادہ ہو تو بہتر ہے کہ تم ایسی جگہ سے کھسک جاؤ اور نرمی سے جواب دو…’’ فرمایا: ‘‘جب میں یہ سنتا ہوں کہ فلاں شخص اس جماعت کا ہو کر کسی سے لڑا ہے۔ اس طریق کو میں ہرگز پسندنہیں کرتا۔ اور خداتعالیٰ بھی نہیں چاہتا کہ وہ جماعت جو دنیا میں ایک نمونہ ٹھہرے گی وہ ایسی راہ اختیار کرے جو تقویٰ کی راہ نہیں ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ 203-204۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس نہ اپنوں سے (جھگڑیں) نہ غیروں سے۔ ہم میں سے وہ لوگ جو (لڑائی جھگڑا کرنے والے ہیں) اگر بیویوں کے ساتھ سلوک میں یا اپنے بھائیوں کے ساتھ تعلقات میں یا اپنے ماحول کے لوگوں کے ساتھ سلوک میں حضرت مسیح موعود کی اس نصیحت کو سامنے رکھیں تو تھوڑے بہت معاملات بھی جو ان شکایات کے سامنے آتے ہیں یہ بھی نہ آئیں۔ یا کم از کم ان میں غیر معمولی کمی واقع ہو جائے۔

پھر ایک عہد ہم سے یہ لیا کہ بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہوں گا۔

 (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

یہ باغیانہ رویّہ چاہے نظام جماعت کے کسی ادنیٰ کارکن کے خلاف ہے یا حکومت وقت کے۔ حضرت مسیح موعود نے ایسے رویّوں سے بھی بچنے کی ہدایت فرمائی ہے جن سے بغاوت کی بُو آتی ہے۔ دین میں دَخل اندازی کے علاوہ حکومت وقت کے باقی احکامات کے خلاف ایسے رویّے دکھانا جو خود کو قانون شکن بنا رہے ہوں یا دوسروں کو قانون کے خلاف بھڑکا سکتے ہوں یہ اسلامی طریق نہیں ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ نفسانی جوشوں سے مغلوب نہ ہونے کا بھی عہد کرو۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

پہلے بھی مَیں نے بتایا کہ آجکل ٹی وی اور انٹرنیٹ کے ذریعے نفسانی جوشوں سے مغلوب ہونے کے بہت سے مواقع ہیں۔ پھر لڑائی جھگڑے، دنگا فساد بھی اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ انسان نفسانی جوشوں سے مغلوب ہوتا ہے۔ پس چھوٹی سے چھوٹی بات بھی جو کسی بھی طرح نفسانی جوشوں کو ابھارنے والی یا ان سے مغلوب کرنے والی ہے ان سے بچنے کی بھرپور کوشش کرنا ایک احمدی کا فرض ہے۔

پھر فرمایا کہ احمدیت میں داخل ہو کر اس بات کا بھی عہد کرو کہ تم نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی بھی پابندی کرنی ہے کہ نمازوں کو پانچ وقت اس کی تمام شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے۔

 (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

دس سال کے عمر کے بچے پر بھی نماز فرض ہے۔ پس والدین کو اس کی نگرانی کی ضرورت ہے اور اس نگرانی کا حق تبھی ادا ہوگا جب خود والدین نمازوں میں نمونہ ہوں گے۔ بہت ساری شکایتیں میرے پاس آتی ہیں۔ بعض بچے بھی کہتے ہیں کہ ہمارے والدین نماز نہیں پڑھتے یا بیویاں کہتی ہیں کہ خاوندنماز نہیں پڑھتے۔ بچے کیا نمونہ دیکھ رہے ہوں گے؟ مردوں کے لئے پانچ وقت کی نماز شرائط کے ساتھ ادا کرنے کا مطلب ہے کہ مسجد جا کر باجماعت نماز ادا کریں سوائے بیماری یا کسی بھی خاص جائز عذر کے۔ اگر اس پر عمل شروع ہو جائے تو ہماری مسجدیں نمازیوں سے بھر جائیں۔ صرف عہدیداران ہی اس پر عمل کرنا شروع کر دیں تو بہت فرق پڑ سکتا ہے۔ اس بارے میں مَیں وقتاً فوقتاً کہتا رہتا ہوں لیکن ابھی بھی بہت کمی ہے اور کوشش کی ضرورت ہے۔ جماعتی نظام اور ذیلی تنظیموں کو اس بارے میں بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ ’’جو شخص نماز ہی سے فراغت حاصل کرنی چاہتا ہے اس نے حیوانوں سے بڑھ کر کیا کیا ‘‘۔

(ملفوظات جلد 5صفحہ 254 ایڈیشن 1985ء)

پھر اس میں اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں۔ پس اس طرف ہر احمدی کو بہت بڑھ کر کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔

پھر یہ عہد ہم سے لیا کہ نماز تہجد کا بھی التزام کریں گے۔

 (ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ’’تمہیں نماز تہجد کا التزام کرنا چاہئے کیونکہ یہ گزشتہ صالحین کا طریق رہا ہے اور قرب الٰہی کا ذریعہ ہے۔ یہ عادت گناہوں سے روکتی ہے اور برائیوں کو ختم کرتی ہے اور جسمانی بیماریوں سے بچاتی ہے‘‘۔

 (سنن الترمذی کتاب الدعوات باب 112 حدیث 3549)

پس نہ صرف روحانی علاج ہے بلکہ جسمانی علاج بھی ہے۔ حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ ’’ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ تہجد کی نماز کو لازم کر لیں۔ جو زیادہ نہیں وہ دو ہی رکعت پڑھ لے کیونکہ اس کو دعا کرنے کا موقع بہرحال مل جائے گا۔ اس وقت کی دعاؤں میں ایک خاص تاثیر ہوتی ہے ‘‘۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 245۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس اس طرف بھی ہمیں توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پھر آپ نے آنحضرتﷺ پر درود بھیجنے کا ہم سے عہد لیا۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

آنحضرتﷺ فرماتے ہیں جس شخص نے مجھ پر درود پڑھا اللہ تعالیٰ اس پر دس گنا رحمتیں نازل فرمائے گا۔

(صحیح مسلم کتاب الصلوٰۃ باب القول مثل قول المؤذن لمن سمعہ …حدیث 849)

پس بڑی اہمیت ہے درود کی اور دعاؤں کی قبولیت کے لئے بھی درود انتہائی ضروری ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ دعا آسمان اور زمین کے درمیان ٹھہر جاتی ہے اور جب تک تو اپنے نبی پر درودنہ بھیجے اس میں سے کوئی حصہ بھی اوپر نہیں جاتا۔

 (سنن الترمذی کتاب الصلوٰۃ باب ماجاء فی فضل الصلوٰۃ علی النبیﷺ حدیث 486)

پھر بیعت میں ایک عہد ہم یہ کرتے ہیں کہ استغفار میں باقاعدگی اختیار کریں گے۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا جو شخص استغفار کو چمٹا رہتا ہے یعنی بہت زیادہ استغفار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر تنگی سے نکلنے کی راہ بنا دیتا ہے اور اس کی ہر مشکل سے اس کے لئے کشائش کی راہ پیدا کردیتا ہے اور ان راہوں سے رزق دیتا ہے جن کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا۔

(سنن ابی داؤد۔ کتاب الوتر باب فی الاستغفار حدیث 1518)

حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ:’’بعض آدمی ایسے ہیں کہ ان کو گناہ کی خبر ہوتی ہے اور بعض ایسے کہ ان کو گناہ کی خبر بھی نہیں ہوتی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ استغفار کا التزام کرایا ہے کہ انسان ہر ایک گناہ کے لئے خواہ وہ ظاہر کا ہو خواہ باطن کا ہو، اسے علم ہو یا نہ ہو …استغفار کرتا رہے‘‘۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 275۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس اس اہمیت کو بھی ہمیں ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے۔

پھر ہم سے یہ عہد لیا کہ خداتعالیٰ کے احسانوں کو ہم یاد رکھیں گے۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

اللہ تعالیٰ کے احسانوں میں سے سب سے بڑا احسان تو یہی ہے کہ اس نے ہمیں زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی۔ اگر اللہ تعالیٰ کا یہ احسان یاد رہے تو حضرت مسیح موعود سے خالص تعلق جوڑنے کی کوشش بھی ہر وقت رہے گی اور آپ کی باتوں پر عمل کرنے کی طرف توجہ رہے گی۔

پھر یہ عہد ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا رہوں گا۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ہر اہم کام اگر اللہ تعالیٰ کی حمد کے بغیر شروع کیا جائے تو وہ بےبرکت اور بے اثر ہوتا ہے۔

 (سنن ابن ماجہ، ابواب النکاح باب خطبۃ النکاح حدیث نمبر 1894)

پھر آپﷺ نے فرمایا کہ جو شخص تھوڑے پر شکر نہیں کرتا وہ زیادہ پر بھی شکر نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ خداتعالیٰ کا بھی شکریہ ادا نہیں کرپاتا۔

 (مسند احمد بن حنبل جلد 6صفحہ 297 مسندنعمان بن بشیرؓ حدیث 18640 مطبوعہ بیروت1998ء)

پس اللہ تعالیٰ کی حمد کو اس طرح کریں کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے بھی ممنون احسان رہیں۔ پھر ایک عہد ہم نے یہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عام مخلوق کو تکلیف نہیں دیں گے۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

پھر یہ عہد ہے کہ مسلمانوں کو خاص طور پر اپنے نفسانی جوشوں سے ناجائز تکلیف نہیں دیں گے۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

جس حد تک عفو کا سلوک ہو سکتا ہے کرنا ہے۔ لیکن اگر مجبوری سے کسی کے حد سے زیادہ تکلیف دِہ رویّے کی وجہ سے اصلاح کی خاطر، ذاتی عناد کی وجہ سے نہیں، غصّے کی وجہ سے نہیں بلکہ اصلاح کی خاطر کسی کو سزا دینی ضروری ہے تو پھر اپنے ہاتھ میں معاملہ نہیں لینا بلکہ حکّام تک بات پہنچانی ہے۔ جو اصلاح بھی کرنی ہے صاحب اختیار نے کرنی ہے۔ ہر ایک کا کام نہیں کہ اصلاح کرتا پھرے۔ خود کسی سے بدلے نہیں لینے۔ عاجزی اور انکساری کو اپنا شعار بنانا ہے۔

پھر یہ عہد ہے کہ ہر حالت میں خداتعالیٰ کا وفادار رہنا ہے۔ خوشی اور تکلیف ہر حالت میں خداتعالیٰ کا دامن ہی پکڑے رکھنا ہے۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایامومن کا کام بھی عجیب ہے۔ اس کے سارے کام برکت ہی برکت ہوتے ہیں۔ یہ فضل صرف مومن کے لئے ہی خاص ہے۔ اگر اس کو کوئی خوشی اور مسرت اور فراخی نصیب ہو تو اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہے اور اس کی شکرگزاری اس کے لئے مزید خیر و برکت کا موجب بنتی ہے اور اگر اس کو کوئی دکھ، رَنج، تنگی اور نقصان پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے۔ اس کا یہ طرز عمل بھی اس کے لئے خیر و برکت کا ہی باعث بن جاتا ہے کیونکہ وہ صبر کے ثواب کو حاصل کرتا ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الزھدوالرقاق باب المؤمن امرہ کلہ خیر حدیث 7500)

پس ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کی طرف ہی دوڑنا ایک مومن کا کام ہے۔ اور جب یہ ہوگا تو اس عہد کو بھی ہم پورا کرنے والے ہوں گے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہر ذلّت اور دکھ کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں اور کبھی کسی مصیبت کے وارد ہونے پر منہ نہیں پھیریں گے۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ’’جو میرے ہیں وہ مجھ سے جدا نہیں ہو سکتے۔ نہ مصیبت سے، نہ لوگوں کے سبّ و شتم سے، نہ آسمانی ابتلاؤں اور آزمائشوں سے‘‘۔

(انوارالاسلام، روحانی خزائن جلد 9صفحہ 24)

پس ہم نے اللہ تعالیٰ کی خاطر حضرت مسیح موعود کا بن کر رہنا ہے اور اس کے لئے کوشش کرنی ہے ان شاءاللہ اور دکھ اور ذِلّت بھی دئیے جائیں تو کبھی اس کی پرواہ نہیں کرنی یہ ہمارا عہد ہے۔

پھر یہ عہد ہے کہ رسم و رواج کے پیچھے نہیں چلیں گے۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جو شخص دین کے معاملے میں کوئی ایسی رَسم پیدا کرتا ہے جس کا دین سے کوئی تعلق نہیں تو وہ رسم مردود اور غیر مقبول ہے۔

(صحیح البخاری کتاب الصلح باب اذا اصطلحوا علیٰ صلح جور… حدیث 2697)

پس اس بارے میں ہر وقت ہمیں بہت ہوشیار رہنا چاہئے۔ آج کل شادی بیاہ کے معاملے میں غلط قسم کے رسوم و رواج پیدا ہوگئے ہیں۔ احمدیوں کو اس سے بچنا چاہئے۔ اپنے دائیں بائیں دیکھ کر، دوسروں کو دیکھ کر ان رسوم میں نہیں پڑنا چاہئے۔ اس بارے میں تفصیل سے بھی ایک دفعہ مَیں بتا چکا ہوں۔ سیکرٹریان تربیت اور لجنہ کو چاہئے کہ وہ وقتاً فوقتاً جماعت کے سامنے یہ باتیں رکھتے رہیں تا کہ غیرمقبول فعل سے افراد جماعت بچتے رہیں۔ پھر یہ عہد ہے کہ کبھی ہوا و ہوس کے پیچھے نہیں چلوں گا۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:

’’جو کوئی اپنے ربّ کے آگے کھڑا ہونے سے ڈرتا ہے اور اپنے نفس کی خواہشوں کو روکتا ہے تو جنّت اس کا مقام ہے۔ ہوائےنفس کو روکنا یہی فنا فی اللہ ہونا ہے اور اس سے انسان خداتعالیٰ کی رضا کو حاصل کرکے اِسی جہان میں مقام جنت کو پہنچ سکتا ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد 7صفحہ 413 تا 414۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر یہ عہد ہے کہ قرآنِ شریف کی حکومت کو بکلّی اپنے سر پر قبول کروں گا۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:

’’سو تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ۔ مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے ‘‘۔

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 26)

پھر یہ عہد ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے ہر فرمان کو ہم اپنے لئے مشعل راہ بنائیں گے۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:

’’ ہمارا صرف ایک ہی رسول ہے اور صرف ایک ہی قرآنِ شریف اس رسول پر نازل ہوا ہے جس کی تابعداری سے ہم خدا کو پا سکتے ہیں‘‘۔

(ملفوظات جلد 5 صفحہ 125۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس اس کے حصول کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔

پھر یہ عہد ہے تکبّر اور نخوت کو مکمل طور پر چھوڑ دیں گے۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:

’’مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ قیامت کے دن شرک کے بعد تکبر جیسی اور کوئی بلا نہیں۔ یہ ایک ایسی بلا ہے جو دونوں جہان میں انسان کو رُسوا کرتی ہے‘‘۔

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ598)

پس بڑے خوف کا مقام ہے۔ پھر فرمایا:

’’ مَیں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ تکبر سے بچو کیونکہ تکبر ہمارے خداوند ذوالجلال کی آنکھوں میں سخت مکروہ ہے‘‘۔

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ402)

پھر یہ عہد لیا گیا ہے کہ فروتنی اور عاجزی اختیار کروں گا۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی خاطر عاجزی اور انکساری اختیار کی اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ رفع کرے گا، اس کو بلند کر دے گا اور یہاں تک کہ اس کو علّیین میں جگہ دے گا۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 191 مسند ابی سعید الخدریؓ حدیث نمبر 11747 مطبوعہ بیروت 1998ء)

عاجزی انکساری اختیار کرنے سے ایک درجہ بلند ہوتا جائے گا۔ اگر یہ مسلسل رہے تو یہاں تک بلند ہوتا جائے گا کہ جنّتوں کے جو اعلیٰ ترین معیار ہیں ان میں جگہ دے دے گا۔ پھر یہ عہد ہے کہ ہم ہمیشہ خوش خُلقی اپنا شیوہ بنائیں گے۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

اس کو بھی ہر ایک کو سامنے رکھنا چاہئے۔

پھر یہ عہد ہے کہ حلیمی اور مسکینی سے اپنی زندگی بسر کریں گے۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:

’’اگر اللہ تعالیٰ کو تلاش کرنا ہے تو مسکینوں کے دل کے پاس تلاش کرو ‘‘۔

(ملفوظات جلد 6صفحہ 54۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر یہ عہد لیا کہ دین کی عزت اور ہمدردیٔ اسلام کو اپنی جان مال عزت اور اولاد سے زیادہ عزیز سمجھوں گا۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

پھر یہ عہد لیا کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے ہمیشہ ہمدردی کروں گا۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ’’یاد رکھو اللہ تعالیٰ نیکی کو بہت پسند کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق سے ہمدردی کی جاوے… پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو یاد رکھو کہ تم ہر شخص سے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو ہمدردی کرو اور بلا تمیز ہر ایک سے نیکی کرو کیونکہ یہی قرآن شریف کی تعلیم ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ 285-284۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر یہ عہد لیا کہ خداداد طاقتوں سے بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچاؤں گا۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں: ’’جس قدر خلقت کی حاجات ہیں اور جس قدر مختلف وجوہ اور طُرق کی راہ سے قَسّامِ ازل نے بعض کو بعض کا محتاج کر رکھا ہے ان تمام امور میں محض لِلّٰہ اپنی حقیقی اور بےغرضانہ اور سچی ہمدردی سے جو اپنے وجود سے صادر ہوسکتی ہے ان کو نفع پہنچاوے اور ہر یک مدد کے محتاج کو اپنی خداداد قوت سے مدد دے اور ان کی دنیا و آخرت دونوں کی اصلاح کے لئے زور لگاوے‘‘۔

(آئینہ کمالاتِ اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 61-62)

پس دنیا کی روحانی ترقی کے لئے کوشش بھی بنی نوع کو فائدہ پہنچانے میں داخل ہے اور مادی اور روحانی فائدہ پہنچانا ہمارا فرض ہے۔ پس جہاں ظاہری ہمدردی اور مدد پہنچانی ہے، انہیں فائدہ پہنچانا ہے، خدمت خلق کرنی ہے، وہاں تبلیغ بھی بنی نوع انسان کے فائدے کے لئے ایک احمدی کا فرض ہے۔

پھر یہ عہد آپ نے لیا کہ آپ سے ایک ایسا قریبی رشتہ اللہ تعالیٰ کی خاطر ہم نے قائم کرنا ہے جس میں اطاعت کا وہ مقام حاصل ہو جو نہ کسی رشتے میں پایا جاتا ہے نہ کسی خادمانہ حالت میں پایا جاتا ہے۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 564)

ان تمام باتوں کی اطاعت کرنی ہے جو آپ ہماری دینی، علمی، روحانی اور عملی تربیت کے لئے ہمیں فرما گئے ہیں یا آپ کے بعد خلافت احمدیہ کے ذریعہ سے جماعت کے افراد تک وہ پہنچتی ہیں جو شریعت کے قیام کے لئے ہیں۔ جو قرآنِ کریم اور آنحضرتﷺ کے ارشادات اور اسوۂ حسنہ کے مطابق ہیں کہ اس کے بغیر نہ ہی ہماری ترقی ہو سکتی ہے، نہ ہماری اِکائی قائم رہ سکتی ہے۔

پس ہمیں یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ گزشتہ سال میں ہم نے اپنے عہد کو کس حد تک نبھایا اور اگر کمیاں ہیں تو اس سال ہم نے کس طرح انہیں پورا کرنا ہے۔

حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ:’’ہماری جماعت میں وہی داخل ہوتا ہے جو ہماری تعلیم کو اپنا دستور العمل قرار دیتا ہے۔ اور اپنی ہمّت اور کوشش کے موافق اس پر عمل کرتا ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 439۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

اللہ تعالیٰ ہم سے صَرفِ نظر فرماتے ہوئے ہماری گزشتہ سال کی کمزوریوں کو معاف فرمائے اور اس سال میں ہمیں زیادہ سے زیادہ بھرپور کوشش کے ساتھ اپنی زندگیوں کو حضرت مسیح موعود کی خواہشات کے مطابق ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔

(خطبات مسرور جلد 13 صفحہ 1-15)

(اخبار احمدیہ جرمنی، شمارہ جنوری 2024ء صفحہ 7)

متعلقہ مضمون

  • جلسہ روحانی پیاس بجھانے کا موقع

  • خطبہ جمعہ فرمودہ 10 اپریل 2009ء کا متن

  • کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں؟

  • جِن کو نِشانِ حضرتِ باری ہوا نصیب