تقریر:مکرم ڈاکٹر فہیم یونس قریشی صاحب، امریکہ

يہ ہماري اپني کہاني ہے ليکن ہميں ياد نہيں۔ جب ہم اس دُنيا ميں آئے تھے، بچےتھے، عاجِز تھے۔ بھوک لگتي تھي تو چل کر ماں کے پاس نہيں جا سکتے تھے۔ اس ليے روتے تھے۔ پھر ماں لپک کر ہم تک پہنچ جاتي تھي۔ اس تجربہ کے پيچھے ايک حسّاس سائنس ہے۔ ايم۔آر۔اي سکين کي تحقيق سے پتہ چلتا ہے کہ بچہ کے رونے کي آواز ماں کے کانوں کے پردوں سے ہوتي ہوئي اس کے دماغ تک پہنچتي ہے اور پھرماں کے سر ميں چنے کے سائز کا ايک گلينڈ جسے Posterior pituitary کہتے ہيں، وہاں سے ايک ہارمون Oxytocin نکلتا ہے جس کے اثر سے ماں کي چھاتيوں ميں دودھ اُتر آتا ہے۔ تحقيق سے پتا چلتا ہے کہ يہ عمل سيکنڈز ميں مکمل ہوجاتا ہے اور يہ ماں کے اختيار ميں بھي نہيں ہوتا[1]۔

ماں اور بچے کا يہ تعلق ايک تمثيل ہے۔ اللہ تعاليٰ تولَم یلد ولَم یولد  ہے۔ ليکن اس تمثيل ميں شايد ہميں ہستي باري تعاليٰ کا زندہ ثبوت مل جائے۔

عموماً جب ہستي باري تعاليٰ کے دلائل کي بات ہوتي ہے تو ايسا محسوس ہوتا ہے جيسے کسي دہريہ کو بحث ميں ہرانا ہمارا مقصد ہے۔ ليکن اگر حضورِانور کي گزشتہ دو سال کي ورچول (virtual) ملاقاتوں کو سنيں تو حضورانور بار بار فرما رہے ہيں کہ ہميں پہلے اپنے بچوں کوسنبھالنا ہے تا کہ وہ ان دہريوں کے چنگل ميں نہ آجائيں[2]۔

اس ارشاد کے تحت، آج کي گفتگو اپنے بچوں اور بڑوں سے ہے۔ اور يہ گفتگو ہميں قرآنِ شريف کي روشني ميں کرني ہے۔ کوئي کہہ سکتا ہے کہ ہمارے دہريے دوست قرآن کي بات کو کيوں مانيں گے؟ ٹھيک ہے۔

ليکن ہم قرآن کو اس ليے پيش کرتے ہيں کہ يہ سائنسي تقاضوں پر پورا اُترتا ہے۔ يہ خدا کي طرح چُھپي ہوئي چيز نہيں۔ اس کا مشاہدہ کيا جا سکتا ہے۔ اس کے دلائل کو تجربے سے گزارا جاسکتا ہے۔ ساتويں صدي کا قرآن آج بھي استنبول کے Topkapi محل ميں جا کر ہاتھ ميں تھاما جا سکتا ہے[3]۔ اور کوئي دہريہ بھي يہ نہيں کہے گا کہ ہم نے پچھلے پانچ چھ سو سال کي سائنسي دريافتوں کو قرآنِ کريم ميں بعد ميں داخل کر ديا ہے۔

اسلام احمديت کو سائنس يا سوالوں سے ڈر نہيں لگتا۔ ہم نے تو سائنس ميں بہت ترقي کرني ہے۔

حضرت خليفةالمسيح نے تو نوبل انعام کو کم از کم ہدف کے طور پر مقرر فرمايا ہے۔ ليکن ہميں پوري سائنس چاہيے۔ يہ آدھي سي متکبرانہ سائنس نہيں۔ اس ليے جيسے جيسے ہمارے بچے سکولوں ميں اپني کلاسوں ميں آگے جائيں، ہمارا فرض ہے، والدين کا فرض ہے کہ ہم انہيں يہ بتائيں کہ بہت سے سائنسي حقائق قرآنِ شريف 1400 سال پہلے بيان کرچکا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کے الفاظ ميں ہم اپنے بچوں کو يہ بتائيں کہ’’قرآن خدا کا قول ہے اور سائنس خدا کا فعل ہے[4]‘‘۔

ہو سکتا ہے ہمارے بچے پرائمري سکولوں ميں پڑھ رہے ہوں کہ 500 سال پہلے Copernicus, Galileo اور Kepler جيسے سائنسدانوں نے يہ دريافت کيا تھا کہ سورج اور زمين ساکت نہيں بلکہ اپنے اپنے مدار ميں گردش کر رہے ہيں۔ ليکن کيا ہمارے بچوں کو يہ بھي پتا ہے کہ يہ حقيقت قرآن شريف نے 1400 سال پہلے بيان فرما دي۔ اللہ تعاليٰ سورةالانبياء آيت 34 ميں فرماتا ہے’’وہي ہے جس نے رات اور دن کو اور سورج اور چاند کو پيداکيا۔ سب (اپنےاپنے) مدارميں رَواں دَواں ہيں‘‘۔

سيکنڈري سکول کے بچے جب بائيولوجي اور فزکس کي کلاس ميں پڑھ رہے ہوں گے کہ قدرت نے ہر چيز کا جوڑا (يعني Pair) بنايا ہے۔ جيسے پھولوں کے نَر حصہ کو سٹيمنز اور مادہ کو پسٹل کہتے ہيں۔ ليکن کيا ہم نے اپنے بچوں کو يہ بتايا ہے کہ سينکڑوں سال پہلے اللہ تعاليٰ نے سورة يٰسين آيت 37 ميں فرمايا: ‘‘پاک ہے وہ ذات جس نے ہر قسم کے جوڑے پيدا کيے ہيں اس ميں سے بھي جس کو زمين اُگاتي ہے اور خود ان کي جانوں ميں سے بھي اور ان چيزوں ميں سے بھي جن کو وہ نہيں جانتے‘‘۔

يہ آخري حصہ قابلِ غور ہے۔ ’’اُن چيزوں ميں سے بھي جن کو وہ نہيں جانتے’’ جب يہ آيت نازل ہوئي تھي تو دنيا نہيں جانتي تھي کہ matter يعني مادہ کا جوڑا antimatter ہے۔ اسے Paul Dirac نے 1933ء ميں دريافت کرکے نوبل انعام حاصل کيا۔ دنيا نہيں جانتي تھي کہ ايک ايٹم کے اندر پروٹونز اور نيوٹرونز کے جوڑے ہيں۔ Ernest Rutherford اور James Chadwick نے 1919ء اور 1932ء ميں انہيں دريافت کيا۔ دنيا نہيں جانتي تھي کہ ان پروٹونز اور نيوٹرونز کے اندر اس سے بھي چھوٹے subatomic پارٹيکلز ہيں جنہيں Quarks کہتے ہيں۔ انہيں Murray Gell-Mann اور George Zweig نے 1964ء ميں کوارکس کو دريافت کيا۔ کيا آپ سوچ سکتے ہيں کہ ايک ريت کے ذرہ ميں 45 کروڑ کوارکس کے جوڑے ہيں۔ دنيا يہ سب نہيں جانتي تھي مگران آياتِ کريمہ سے پتا چلتا ہے کہ ہمارا خدا جانتا تھا۔

ايک طرفCopernicus, Kepler, Galileo, Dirac, Rutherford, Chadwick, Gellman اور ان جيسے لاکھوں پاؤنڈز کي تجربہ گاہوں ميں کام کرنے والے، نوبل پرائز جيتنے والے سائنسدان اور دوسري طرف عرب کے صحراؤں ميں ايک اُميّ رسولﷺ جولکھنا پڑھنا نہيں جانتے تھے۔ اگر اس کائنات کا کوئي خالق نہيں، کوئي خدا نہيں، توکس نے يہ سائنسي راز رسول اللہﷺ پر کھول ديے؟ اگريہ محض اتفاق ہے تو دوسري مذاہبي کتابوں ميں کثرت سے ايسے اتفاقات کيوں نہيں ملتے؟

کالج جانے والے وہ بچے جو سمندروں کي سائنس يعنيOceanography پڑھ رہے ہيں کہ سمندر کو پاني کي تين تہوں نے ڈھانپ رکھا ہے۔ پہلے 200 ميٹرز کو فوٹک زون (Euphotic zone) کہتے ہيں، جہاں تک روشني سرايت کرتي ہے۔ پھر 200 سے 1000 ميٹر کي تہہ کو ڈيسفوٹک زون (Dysphotic zone) کہتے ہيں، جہاں ہلکي سي روشني رہتي ہے۔ ليکن ايک کلوميٹر کے بعد تيسري تہ ايفوٹک زون (Aphotic zone) ميں مکمل اندھيرا ہے۔ اللہ تعاليٰ سورہ نور آيت 41 ميں فرماتا ہے:

ترجمہ: ’’ا (ان کے اعمال) اندھيروں کي طرح ہيں جو گہرے سمندر ميں ہوں جس کو موج کے اوپر ايک اور موج نے ڈھانپ رکھا ہو‘‘۔

جب 2012ء ميں جيمز کيمرن (James Cameron) بحرالکاہل کي تہ تک گيا تو اس کا خيال تھا کہ وہ عجيب و غريب مچھلياں ديکھے گا۔ اس نے کيا ديکھا؟ گھپ اندھيرا[5]۔ ماہر تيراک بھي يہ بتاتے ہيں کہ سمندر کي گہرائيوں ميں اتنا اندھيرا ہے کہ انسان کو اپنا ہاتھ تک نظر نہيں آتا۔ اللہ تعاليٰ سورہ نور آيت 41 ہي ميں فرماتا ہے ‘‘جب وہ اپنا ہاتھ نکالتا ہے تو اسے بھي نہيں ديکھ سکتا’’۔

آنحضرتﷺ نے سائنسدانوں کي طرح کبھي سمندروں کا سفر نہيں کيا۔ اگر قرآنِ کريم خدا کا کلام نہيں تو اُس اُمّي رسول کو سمندر کي تہوں ميں چھپے اندھيرے کس نے دکھائے؟

اور کچھ چيزيں ايسي ہيں جن کے بارہ ميں سائنس کہتي ہے کہ ہم انہيں ديکھ نہيں سکتے ليکن قرآنِ کريم کہتا ہے کہ تم انہيں ديکھو گے۔ سورہ انبياء آيت 31 ميں اللہ تعاليٰ فرماتا ہے:

اَوَلَمۡ يَرَ الَّذِيۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ کَانَتَا رَتۡقًا فَفَتَقۡنٰہُمَا۔

ترجمہ: ’’يا انہوں نے يہ نہيں ديکھا جنہوں نے کفر کيا کہ آسمان اور زمين دونوں بند تھے پس ہم نے ان کو کھول ديا‘‘۔

يہ آيت بگ بينگ (Big Bang) اور بليک ہولز (Black holes) کي پيش گوئي کرتي ہے ليکن مزيد غور کريں تو ايک لطيف نکتہ سمجھ ميں آتا ہے۔ اللہ تعاليٰ فرما رہا ہے۔ اَوَلَمْ يَرَا۔’’کيا انہوں نےنہيں ديکھا؟‘‘۔ صرف دس سال پہلے تک سائنسدانوں کا خيال تھا کہ  بليک ہولز کو نہيں ديکھا جا سکتا کيونکہ اس ميں سے روشني بھي باہر نہيں نکل سکتي۔ ليکن چار سال پہلے Event Horizon Telescope کے ذريعہ سائنسدانوں نے بليک ہولز کو بھي ديکھ ليا[6] اور ان کي تصاوير نيشنل جيوگرافک اور ديگر رسالوں ميں ہم سب نے بھي ديکھ ليں۔ اَوَلَمْ يَرَا۔ کيا يہ سب ديکھ کر بھي ہم ہستي باري تعاليٰ کو ماننے سے انکار کرديں؟ جس نے 1400 سال پہلے ان رازوں کي نشاندہي فرما دي تھي؟

ديکھيں بچے جوان ہو جائيں، ان کي شادياں ہوجائيں، اللہ تعاليٰ انہيں اولاد سے نواز دے۔ تب بھي ہستي باري تعاليٰ کے قرآني دلائل ان کي رہنمائي کرتے رہتے ہيں۔ اولاد نرينہ کي خواہش تو ايک فطري امر ہے اس ميں تو کوئي قباحت نہيں۔ ليکن ايسي ماؤں کو طعنے دينا، تکليفيں دينا، جنہيں اللہ تعاليٰ نے صرف بيٹيوں سے نوازا ہو۔ يہ تو ظلم ہے۔ ليکن بيسويں صدي کے شروع ميں بہت سے سائنسي تجربات سے يہ ثابت ہو گيا کہ پيدا ہونے والے بچے کي جنس کا تعلق تو صرف مرد کے جرثومے يا کرموسوم سے ہوتا ہے۔ عورت کا تو اس ميں کوئي دَخل ہي نہيں۔ مغربي دنيا کے لئے يہ ايک حيران کن سائنسي انکشاف تھا۔ ليکن قرآن تو 1400 سال سے ان مظلوم ماؤں کے حق ميں کھڑا تھا۔ اللہ تعاليٰ سورة نجم آيت 46 ميں فرماتا ہے ‘‘اسي نے نطفہ سے نَر اور مادہ کو پيدا کيا’’۔ بيٹيوں، بہوؤں، ماؤں پر ظلم کرنے والے يہ سوچ ليں کہ ايک دن اس خدا کو حساب بھي دينا ہے۔

بہت سي مثاليں ہيں جہاں اللہ تعاليٰ نے کوئي بات قرآن شريف ميں بيان کي اور سائنس نے سينکڑوں سال بعد اسے دريافت کيا۔

پہاڑ ساکت نہيں بلکہ بادلوں کي طرح چل رہے ہيں، سورة نمل:89۔ ہم نے پاني سے ہر زندہ چيز پيدا کي،سورة انبياء 31۔ جِلد سب سے زيادہ درد کو محسوس کرتي ہے،النساء:57۔ جنينيت يا ايمبريولوجي کي تفصيل المومنون 14، جنيٹک انجينرنگ۔ النساء120، کشش ثقل و گريويٹي۔ سورةالرعد3، ايسڈرين، سورةالواقعہ 71۔ واٹر سائيکل، الذّاريات 3 اور کئي آيات ہيں جو نظريہ ارتقاء يا ايوولوشن کي جزوي تائيد کرتي ہيں۔ قرآن شريف نے تو ہستي باري تعاليٰ کے سائنسي دلائل کا انبار لگا ديا ہے۔ ہستي باري تعاليٰ کے دلائل تو قرآن نےپھيلا ديے ہيں۔ آسمانوں ميں بھي اور سمندروں کي تہوں ميں بھي، سورج اور چاند ميں بھي اور ريت کے ذرّوں ميں بھي۔

ہستي باري تعاليٰ کي دليل تو آپ ميں سے ہر وہ احمدي ہے جس نے قبوليتِ دعا کا ذاتي تجربہ کيا ہے۔ ہستي باري تعاليٰ کا ثبوت تو يہ جماعت ہے۔ ہر نبي کي جماعت ہے جو ايک بچے کي طرح کمزور ہوتے ہوئے بھي دنيا کي سب طاقتوں کو ہرا ديتي ہے۔

صرف ديکھنے والي آنکھ چاہيے۔ خدا کے ثبوت تو ہر طرف ہيں۔ اللہ تعاليٰ سورة الحديد آيت5 ميں فرماتا ہے۔

وَھوَ مَعَکُمۡ اَيۡنَ مَا کُنۡتُمۡ 

وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے جہاں بھي تم ہو

ليکن تقريباً 25 سال کي دنياوي تعليم کے بعد افسوس ہے کہ ہم بڑے ہو جاتے ہيں يا شايد ہماري اَنا بڑي ہو جاتي ہے۔ جس کي طرف حضرت خليفةالمسيح الخامس نے ہميں افتتاحي خطاب ميں توجہ دلائي۔ بچوں کي طرح رونے کي بجائے ہم کچھ بڑوں کي طرح بحث کرنے لگتے ہيں۔ اور کچھ نوجوان آدھي سي سائنس پڑھ کر سمجھتے ہيں کہ اب انہيں اپنے حقيقي خالق کي ضرورت نہيں رہي۔ اس کے بارے ميں Quantum physics کا ايک باني Werner Heisenberg کہتا ہے۔

The first gulp from the glass of natural sciences will turn you into an atheist, but at the bottom of the glass God is waiting for you

’’سائنس کے گلاس سے پہلا گھونٹ پيتے ہي آپ دہريہ ہو جائيں گے۔ ليکن اسي گلاس کے پيندے ميں خدا آپ کا انتظار کر رہا ہے‘‘۔

سائنس کے گلاس سے پہلا گھونٹ پي کر کچھ لوگ سوال کرتے ہيں کہ اگر يہ کائنات خدا نے بنائي ہے تو پھروہ خدا کہاں ہے؟ سائنسي تجربات کي طرح ہميں نظر کيوں نہيں آتا؟ يہ تو ايسے ہي ہے جيسے ماں کے پيٹ ميں ايک بچہ يہ سوال کرے کہ ميري ماں کہاں ہے؟ نظر کيوں نہيں آتي؟ حالاںکہ ماں تو ہر طرف ہے۔ جيسے اليکٹروميگنيٹک سپيکٹرم کي شعائيں ہمارے ہر طرف پھيلي ہيں ليکن کيا آپ جانتے ہيں کہ انسان کي آنکھ ان ايک ہزار شعاعوں ميں سے نو سو چھيانوے کو نہيں ديکھ سکتي۔

حضرت مسيح موعودؑ فرماتے ہيں ’’جس کو خدائي کا جلوہ ديکھنا ہے اُسے چاہئے کہ دعا کرے۔ ان آنکھوں سے وہ نظر نہيں آتا بلکہ دعا کي آنکھوں سے نظر آتا ہے[7]‘‘۔

يہ ہے خدا کو ديکھنے کي سائنس۔

کچھ سائنس کا ايک گھونٹ پي کر يہ بھي کہتے ہيں کہ اگر دنيا اللہ تعاليٰ نے بنائي ہيں تو اللہ تعاليٰ کو کس نے بنايا ہے؟ يہ تو ايسے ہي ہے جيسے کوئي کہے کہ اس کمرے کو احمد نے پينٹ کيا ہے تو احمد کو کس نے پينٹ کيا ہے؟ مضحکہ خيز بات ہے۔ اسے ’’کيٹگري مسٹيک ‘‘کہتے ہيں يعني کسي چيز کو غلط زُمرہ ميں پَرکھنا۔ خدا ہماري طرح مادہ سے نہيں بنا۔ لطيف الخبير ہے[8]۔ اِس عظيم روحاني اَسرار کو ہم ايک تنگ سے سائنسي دائرے ميں تو نہيں سمجھ سکتے۔

بات يہ ہے کہ کچھ نوجوان دہريت کي طرف اس ليے بھي جاتے ہيں کيونکہ انہيں لگتا ہے کہ اس ميں آزادي ہے۔ نہ نماز کي ضرورت نہ قرآن کي حاجت۔ نہ پردے کي فکر نہ شراب کي۔ جو چاہو کرو۔ وہ سوچتے ہيں کہ مَيں کسي نا ديکھي ہستي کي غلامي کيوں کروں؟ مَيں تو آزاد ہوں۔ اچھا؟ آپ آزاد ہيں؟ ہستي باري تعاليٰ کے منکرين اگر سوچيں تو بدترين اور سب سے بڑے غلام ہيں۔ فيس بک Likes کےغلام، YouTube ويوز کے غلام، retweets کے غلام، مال کي ہَوس کے غلام، افسر (Boss) کي خوشامد کے غلام، اپنے ہي نفس کے غلام، فلمي اداکاروں کے، گلوکاروں، فن پاروں کے غلام۔ جيسے حضرت خليفةالمسيح الرابعؒ نے ستائيس سال پہلے جلسہ سالانہ برطانيہ ميں ہي فرمايا تھا۔ ‘‘وہ انسان جس نے ضرور پوجنا ہے، کسي کو ضرور پوجنا ہے۔ جب وہ خدا کو نہيں پوجتا تو اس کے معبود ذليل سے ذليل تَر ہوتے چلے جاتے ہيں[9]۔خدا پر حق اليقين رکھنے والے ان مصنوعي خداؤں سے تو آزاد رہتے ہيں۔

دنياوي سائنسي دلائل سے ہم خدا کو سمجھ تو سکتے ہيں ليکن گلاس کے پيندے تک پہنچنے کے ليے، خدا کا مشاہدہ اور تجربہ کرنے کے ليے، ’’خدا ہے‘‘ کے مقام تک پہنچنے کے ليے ہميں دعا کي سائنس کي ضرورت پڑتي ہے۔ جي! آپ نے ٹھيک پڑھا۔ دعا کي سائنس۔ کيونکہ حضرت مسيح موعودؑ نے جيسے دعاؤں کے لاتعداد معجزے دکھائے ہيں وہ کسي سائنس سے کم نہيں۔ ديکھيں سائنس نام ہے مشاہدے کا، تجربہ کا اور نتيجے کا۔ صحابہ احمديت نے حضرت مسيح موعودؑ کي قبوليتِ دعا کے بےشمار مشاہدے اور تجربے کيے۔ ايک مرتبہ حيدرآباد دکن سے ايک لڑکا عبدالکريم قاديان پڑھنے کي غرض سے آيا جب اسے پاگل کتے نے کاٹ ليا تو عبدالکريم کو rabies کي بيماري ہوگئي۔ قاديان سے 300کلوميٹر دور کسولي ميں Rabies کے علاج کے ليے ايک مشہور ہسپتال Pasteur Center تھا جہاں ہر سال تقريباً 20,000 Rabies کے مريضوں کا علاج ہوتا تھا۔ وہاں تشخيص اور علاج کروانے کے باوجود جب عبدالکريم ميں بيماري کي علامات ظاہر ہو گئيں تو دوبارہ Pasteur center تار بھيجا گيا تو جواب آيا:

”Sorry, nothing can be done for Abdul Karim”

’’ہميں افسوس ہے کہ عبدالکريم کے ليے اب کچھ نہيں کيا جا سکتا‘‘۔

دنياوي سائنس نے جواب دے ديا۔ ليکن حضرت مسيح موعود فرماتے ہيں۔’’تب ميرا دل اس کے ليے سخت درد اور بيقراري ميں مبتلا ہوا[10]‘‘۔

آپ کي درد مندانہ دعاؤں سے عبدالکريم کو نہ صرف اللہ تعاليٰ نے معجزانہ رنگ ميں شفا بخشي بلکہ موت کے منہ پر کھڑا عبدالکريم مزيد 28 سال تک زندہ رہا۔ خاکسار کو اللہ تعاليٰ نے 25000 سے زيادہ پيچيدہ infectious disease کے مريضوں کا علاج کرنے کي توفيق عطا فرمائي ہے۔ مَيں يہ مکمل اعتماد سےآپ کو کہہ سکتا ہوں کہ آج سوا سو سال کے بعد بھي اگر کسي unvaccinated انسان کو rabies کے مرض کي علامات ظاہر ہو جائيں تو آج بھي موت سو فيصد يقيني ہے۔ جن صحابہ نے عبدالکريم کي معجزانہ شفا کا مشاہدہ کيا ہوگا، آپ سمجھتے ہيں کہ ان کو ہستي باري تعاليٰ کے بارے ميں کسي اور دليل کي ضرورت رَہ گئي ہوگي؟ يہ ايک واقعہ ہوتا تو کہہ سکتے تھے کہ اتفاق ہے ليکن حضرت مسيح موعود نے تو 200 سے زيادہ نشان صرف حقيقةالوحي ميں بيان فرما دئيے ہيں۔ آپ اس کے بارہ ميں ايک پُرشوکت چيلنج ديتے ہوئے فرماتے ہيں:

’’اگر کوئي چالاکي اور گستاخي سے اس معجزہ ميں ميرا مقابلہ کرے اور يہ مقابلہ ايسي صورت سے کيا جائے کہ مثلاً قرعہ اندازي سے بيس بيمار ميرے حوالہ کئے جائيں اور بيس اس کے حوالے کئے جائيں تو خداتعاليٰ ان بيماروں کو جو ميرے حصہ ميں آئيں شفايابي ميں صريح طور پر فريقِ ثاني کے بيماروں سے زيادہ رکھے گا اور يہ نماياں معجزہ ہوگا[11]‘‘۔

اگر سوچيں تو حضرت مسيح موعودؑ يہاں قبوليتِ دعا کو بالکل انہيں مراحل سے گزار رہے ہيں جن سے ہم طِبّ کے ماہرين کسي نئے علاج کو گزارتے ہيں۔ جس کے تين مراحل ہيں۔

1.Randomization,2.Outcome measures, 3.Statistical analysis

يہي مسيح موعود بيان فرما رہے ہيں ليکن فرق يہ ہے کہ دنيا کي سائنس پر عمل کرنے سے صرف شفا نہيں ملتي ہے ليکن اس سائنس پر عمل کرنے سے زندہ خدا بھي ملتا ہے۔ يہ دعا کي سائنس ايسي قابلِ اعتماد ہے کہ آپ کے غلاموں کو بھي زندہ خدا کا تجربہ ہوا۔

حضرت مصلح موعودؓ کے زمانے ميں ايک احمدي بزرگ تھے جو اپني روزانہ کي آمدن سے ايک اَٹھنّي اپني اس دن کي ضرورت کے ليے رکھ کر باقي تمام رقم چندے ميں بھجوا ديتے تھے۔ ايک دن انہيں 300 روپے موصول ہوئے۔ انہوں نے سوچا رقم کچھ زيادہ ہے۔ کيوں نہ چھ مہينوں کي ضرورتوں کے ليے 90 روپے آج ہي رکھ لوں تاکہ آساني رہے گي۔ اس دن لوگ کہتے ہيں کہ جب وہ مسجد سے ظہر کي نماز پڑھ کے فارغ ہوئے تو فوراً گھر چل دئيے جو ان کا معمول نہيں تھا۔ کسي نے پوچھا ايسي کيا جلدي ہے؟ وہ کہتے ہيں مجھے ابھي نماز ميں آواز آئي ‘‘ہن مَيں چھ مہينے لئي تيرا رَبّ نہيں رَہيا؟ اور کہتے ہيں مَيں اسي وقت گھر جا کے اپني ايک اَٹھنّي رکھوں گا اور باقي کے سارے پيسے چندے ميں بھيج دوں گا[12]۔

دور کيوں جائيں۔ ان شاءاللہ کل آپ اور مَيں يہاں عالمي بيعت ميں حضرت خليفةالمسيح کے ہاتھ پہ خدا کي ايک زندہ دليل نہيں ديکھ ليں گے؟

ہميں اپنے بچوں کو بتانا ہے کہ دہريت کا راستہ سائنس کا راستہ نہيں، تکبّر کا راستہ ہے[13]۔

اسي تکبّر کي طرف تو اشارہ کرتے ہوئے حضرت خليفةالمسيح الخامس نے فرمايا تھا کہ حضورانور نے Richard Dawkins کو قرآنِ شريف کي 5 volume commentary اور اسلامي اصول کي فلاسفي کا انگريزي ترجمہ بھجوايا تھا ليکن اُس نے کہا کہ آپ ميري کتاب پڑھيں۔ مجھے آپ کي کتابوں کي ضرورت نہيں[14]۔

Richard dawkins, Sam harris, Christopher hitchen جيسے نام نہاد فلاسفرز، سائنس کے گلاس سے چند گھونٹ پي کر اپنے تکبّر اور شيخيوں کو عقل کا نام ديتے ہيں۔ ان کے لئے تو حضرت مسيح موعودؑ نے فرمايا تھا:

آواز آ رہي ہے يہ فونو گراف سے

ڈھونڈو خدا کو دِل سے نہ لاف و گزاف سے

سائنس کے گلاس کے پيندے تک کا سفر ايک لمبا سفر ہے۔ تحقيق سے پتا چلتا ہے کہ ايک بڑي سائنسي پيش رَفت کے ليے آج کل ايک اچھے سائنسدان کو 20-25 سال صَرف کرنے پڑتے ہيں[15]۔ اسي طرح ہم اور ہمارے بچے بھي 20 سے 25 سال تک سکولوں،کالجوں اور يونيورسٹيوں ميں جان مارتے ہيں۔ آج دعا کي سائنس کي اعليٰ ترين يونيورسٹي خلافت ہے۔ سوال يہ ہے کہ کيا ہم نے 20 سے 25 سال، اتني ہي محنت اور سچائي سے اس يونيورسٹي سے استفادہ کيا ہے؟ کيا ہماري يہ توقع جائز ہے کہ ايک ڈگري پانے کے ليے تو ہم اور ہمارے بچے 25 سال محنت کريں۔ ليکن زندہ خدا کو پانے کے ليے ہم 25 دن بھي رو رو کر دعائيں نہ کريں؟ حضرت مسيح موعودؑ فرماتے ہيں:

’’اللہ تعاليٰ کے فضل و کرم کا دودھ بھي ايک گِريہ کو چاہتا ہے۔ رونے اور آہ و زاري کو چاہتا ہے۔ اس لئے اس کے حضور رونے والي آنکھ پيش کرني چاہئے‘‘[16]۔

وہ عظيم نبيﷺ جو پيدا ہوا تو ايک يتيم بچہ تھا، جس کي ماں چھ سال ميں اُسے چھوڑ گئي، اُس نے غارِحِرا کي تاريکي ميں کس کرب سے دعائيں کي ہوں گي، کس دل سے خدا کو ڈھونڈا ہوگا، کہ خدا خود اس تک پہنچ گيا۔ بہت سال بعد بھي جب حضرت عبداللہ بن شخيرؓ فرماتے ہيں ’’مَيں نے رسول اللہﷺ کو ديکھا جب وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ اُن کي چھاتي سے رونے کي وجہ سے ايسے آواز آرہي تھي جيسے کيتلي ميں پاني اُبل رہا ہو[17]‘‘۔

آپ کے غلامِ صادق نے بھي دل ہي سے خدا کو ڈھونڈا۔ ايک صحابي حضرت مولانا عبدالکريم صاحبؓ سيالکوٹي بيان کرتے ہيں کہ طاعون کے دنوں ميں ايک رات مَيں نے حضرت مسيح موعودؑ کو سجدہ ريز اس طرح گڑگڑاتے ہوئے ديکھا جيسے ہنڈيا اُبل رہي ہو۔ قريب ہوکر مَيں نے سُنا تو آپ دعا کررہے تھے کہ اےاللہ، اس عذاب سے دنيا کو بچا لے[18]۔

اب کرنا کيا ہے؟ ديکھيں باتوں سے تو کچھ نہيں فائدہ ہوگا۔ تقريريں تو بے معني ہيں اگر ہم ان رستوں پر نہ چليں جو حضرت خليفةالمسيح نے ہمارے ليے متعين فرمائے ہيں۔

اب ہميں دو کام کرنے ہيں۔ پہلا کام تو يہ ہے کہ ہماري عمر کتني ہي بڑي ہوجائے خدا کے حضور ہميں اسي کمزور، عاجز بچے کي طرح حاضر ہونا ہے۔ اپني کہاني ياد کرني ہے۔ بھولني نہيں۔ جب بچپن ميں بھوک لگتي تھي تو ہم ماں پر شک تو نہيں کرتے تھے۔ بحث تو نہيں کرتے تھے۔ اس کي موجودگي کا انکار نہيں کرتے تھے اور زيادہ روتے تھے۔ اور اونچا روتے تھے۔ ہمارے پاس ماں تک پہنچنے کي طاقت نہيں تھي ليکن ماں ہماري چيخيں سن کر ہم تک پہنچ جاتي تھي۔ اور چنے کے سائز کے برابر تھا ماں کي رحمت کا منبع،posterior pituitary۔ اللہ تعاليٰ کي رحمت لامتناہي ہے اور وہ فرماتا ہے:

لَا تُدۡرِکُہُ الۡاَبۡصَارُ وَہُوَ يُدۡرِکُ الۡاَبۡصَارَ۔ (الانعام:104)

’’نظريں اس تک نہيں پہنچ سکتيں ليکن وہ نظروں تک پہنچتا ہے‘‘۔

نمازوں ميں رو رو کر دعائيں مانگني ہيں۔ ضرورت پڑنے پر خود استخارہ بھي کرنا ہے۔ کيونکہ حضرت مسيح موعودؑ فرماتے ہيں: ’’قبوليت دعا ہستي باري تعاليٰ کي زبردست دليل ہے[19]‘‘۔ کالجوں کي سائنس پر جتنا وقت ہم ديتے ہيں دعا کي سائنس پر بھي ديں تو ہستي باري تعاليٰ کے سوال حل ہو جائيں۔

دوسرا کام ہے اپنے نمونے سے دنياوي علم کے ساتھ، اپنے بچوں کو نماز اور قرآن کي طرف بلانا ہے۔ بچو! چلو اس کرکٹ ميچ سے پہلے نماز پڑھ ليتے ہيں۔اچھا اس نيٹ فلکس شو کو شروع کرنے سے پہلے قرآن کي تلاوت کرلو۔ ياد رَکھيں کہ عيسائيت سے دَہريہ ہونے والوں ميں اور اسلام سے دَہريہ ہونے والوں ميں ايک بڑا واضح فرق ہے۔

عيسائي جب بائبل کو غور سے پڑھتے ہيں تو دہريت کي طرف چلے جاتے ہيں۔

مسلمان جب قرآن کو غور سے نہيں پڑھتے تو دہريت کي طرف چلے جاتے ہيں۔

حضرت مسيح موعودؑ فرماتے ہيں سائنس ہزار ترقي کرلے، قرآن پر غالب نہيں آسکتي[20]۔

اگر ايک محنتي سائنسدان کي طرح کئي سال تک ہميں ان بنيادي باتوں پر عمل کرنے کي توفيق عطا ہوجائے، يہ باتيں جن کي طرف حضورانور ہميں کب سے بُلا رہے ہيں۔ تو اللہ کے فضل سے شايد وہ مقام عطا ہو جائے جس کے بارے ميں حضرت مصلح موعودؓ نے فرمايا تھا کہ: ‘‘ہم خدا کے ہوجائيں اور خدا ہمارا ہو جائے… ہم خدا کو ديکھيں اور دنيا ہم ميں خدا کو ديکھے[21]’’۔ تب ان شااللہ ہميں دہريوں سے بحث کرنے کي ضرورت ہي نہيں رہے گي۔ کيونکہ احمديت کا مقصد دماغوں کو ہرانا نہيں، دِلوں کو جيتنا ہے۔

يہ راستہ لمبا ہے۔ يہ راہ تنگ ہے پر يہي ايک راہ ہے۔ ہم نے مايوس نہيں ہونا۔ اس ليے اب حضرت مسيح موعودؑ کے پُراميد الفاظ پر اِس گفتگو کو مکمل کرتےہيں:

حضور فرماتے ہيں:

’’ايک بچہ جب بھوک سے بےتاب ہو کر دودھ کے لئے چِلاّتا اور چيختا ہے تو ماں کے پستان ميں دودھ جوش مار کر آجاتا ہے۔ بچہ تو دعا کا نام بھي نہيں جانتا ليکن اُس کي چيخيں دودھ کو کيوں کر کھينچ لاتي ہيں؟ …کيا ہماري چيخيں جب اللہ تعاليٰ کے حضور ہوں تو وہ کچھ بھي نہيں کھينچ کر لاسکتيں؟ آتا ہے اور سب کچھ آتا ہے۔ مگر آنکھوں کے اندھے جو فاضِل اور فلاسفر بنے بيٹھے ہيں وہ ديکھ نہيں سکتے‘‘[22]۔

ڈھونڈو خدا کو دل سے نہ لاف وگزاف سے

وآخر دعونا ان الحمدللہ رب العالمين


[1]-Why your brain short circuits when a kid cries? By Jessica Grose in the New York Times. August 12, 2020

[2]– This week with Huzoor 4th Jan 2022

[3]-https://www.islamic-awareness.org/quran/text/mss/topkapi

[4]– مذہب اور سائنس، انوارالعلوم جلد 9 صفحہ 500

[5]– The New York Times by William Broad. March 26, 2012

[6]-https://eventhorizontelescope.org/blog/astronomers-reveal-first-image-black-hole-heart-our-galaxy

[7]– ملفوظات جلد سوم صفحہ 618، ايڈيشن 1988ء

[8]– الانعام: 104

[9]– افتتاحي خطاب جلسہ سالانہ 1996ء۔خطابات طاہر جلددوم صفحہ 408

[10]-(تتمہ حقيقة الوحي، روحاني خزائن جلد 22صفحہ 480 آن لائن ايڈيشن)

[11]– حقيقةالوحي۔ روحاني خزائن جلد22 صفحہ91 آن لائن ايڈيشن

[12]– مشعل راہ جلد دوم صفحہ 166، فرمودہ 7 ستمبر 1969ء بمقام احمديہ ہال کراچي

[13]-What is the strongest proof for the existence of God that one could present to those who do not believe in God? Al-Hakam 3rd December 2021

[14]-This Week with Huzoor. 11th Dec 2020

[15]-The case for basic biological research by Isobel Ronai. Science and Society. Vol 25, Issue 2, page 65-69. Feb 2019

[16]– ملفوظات جلد اوّل صفحہ 352، ايڈيشن 1984ء

[17]– رياض الصالحين جلد اوّل مترجم از مولانا خيل الرحمٰن نعماني صفحہ 283، حديث نمبر 453

[18]– حضورانور ايدہ اللہ کا جلسہ سالانہ يوکے 2014ء سے اختتامي خطاب۔ الفضل انٹرنيشنل 6 مارچ 2015ء صفحہ 14، ماخوذ از سيرت حضرت مسيح موعودؑ از حضرت يعقوب علي عرفانيؓ صاحب صفحہ 411-412

[19]– ملفوظات جلد 3 صفحہ 6، ايڈيشن 2022ء

[20]– ماخوذ از ملفوظات جلد دہم، صفحہ 378۔ ايڈيشن 2022ء

[21]– سير روحاني صفحہ 404 ايڈيشن 2017ء

[22]-ملفوظات جلد اوّل صفحہ 129۔ ايڈيشن 1984ء

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • فیصلہ جات مجلس شوریٰ جماعت احمدیہ جرمنی 2024

  • تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے

  • خلافت اور جماعت کے باہمی پیار کا تعلّق