صداقت پرکھنے کے لئے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے دئیے ہوئے چیلنجز

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے جب مسیح موعودؑ و مہدی معہودؑ ہونے کا دعویٰ کیا تو سنّت اللہ کےموافق آپ کی مخالفت شروع ہو گئی۔ علمی و روحانی جنگ کے میدان میں حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے دعویٰ کی تائید میں جہاں ٹھوس دلائل پیش کئےوہاں حق اور باطل میں امتیاز کرنے کے لئے اپنے مخالفین کو کئی چیلنج بھی دئیے جن کی تعداد بے شمار ہے۔ یہ چیلنج ان مذاہب کے ماننے والوں، سربراہوں اور راہنماؤں کے نام تھے مگر کسی کو یہ چیلنج قبول کرنےیا حضرت مسیح موعودؑ کے دعاوی کو توڑنے کی ہمت نہ ہوئی۔ نہ صرف مقابلہ کے لئے کوئی سامنے نہ آیابلکہ ہر مذہب اور مسلک والوں نے آپ کی مخالفت میں کتابوں پر کتابیں لکھ ڈالیں، مباحثے اور مناظرے بھی کئے، پیشگوئیاں بھی شائع کیں۔ مگر خداتعالیٰ کے فرستادہ کےسامنے کسی کی کوئی چال یا حربہ کامیاب نہ ہوا کیونکہ جس خدا نے آپؑ کو مبعوث کیا تھا وہ آپ کی پشت پر تھا اور یہ اُسی کا وعدہ ہے کہ خدا اور اس کے رسول نے ہی غالب آنا ہے۔

(المجادلہ:22)

حضرت مسیح موعودؑ نے کئی قسم کے چیلنج دیئے مثلاً کتب نویسی کے مقابلہ کے چیلنج، عربی زبان میں تفسیرنویسی کا چیلنج، فضائل القرآن میں مقابلہ کے چیلنج، عربی نویسی میں مقابلہ کے چیلنج اور آریہ سماج کے عقائد سےمتعلق علمی چیلنج وغیرہ۔اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ نے اردو، عربی اور فارسی میں 88 تالیفات پر مشتمل زندگی بخش تحریریں پیش کیں۔ ان کے علاوہ سینکڑوں مضامین، اشتہارات اور ملفوظات بھی ہیں۔ 88کتب میں سے 11کتب کا جواب لکھنے پر اور معارف قرآنی اور متعدد علمی صداقتوں کے لئے حضورؑ نے ہزاروں روپےکے انعامی چیلنج دئیے مگر کسی کو آج تک مقابلہ کی جرأت نہ ہوئی ؎

آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند

ہر مخالف کو مقابل پہ بلایا ہم نے

ان کتب کا مقابلہ کرنے پر انعامی رقوم کی مختصر تفصیل یہ ہے:

1۔ براہین احمدیہ ہر چہار حصص 10,000 روپے

2۔ سرمہ چشم آریہ 500 روپے

3۔ کرامات الصادقین 1000 روپے

4۔ نورالحق 5000 روپے

5۔ اعجاز احمدی 10,000 روپے

6 اتمام الحجۃ 1000 روپے

7۔ تحفہ گولڑویہ 500 روپے

8۔ سرالخلافہ 27 روپے

رقوم کے علاوہ درج ذیل کتب کے با لمقابل کتاب یا ان کا رَدّ لکھنے پر اپنا جھوٹا ہونا تسلیم کرلینے کے وعدہ پر مبنی چیلنج دیئے۔ 1۔ اعجازالمسیح، 2۔ حجۃاللہ، 3۔ الھدیٰ و التبصرۃ لمن یرىٰ۔

علاوہ ازیں بعض پیشگوئیوں اور نشانات کے بارے میں بھی آپؑ نے مختلف چیلنجز دئیے۔ ان میں سے ایک کسوف و خسوف سے متعلق بھی تھا۔ جس کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ سیّدنا حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ نے آخری زمانہ میں آنے والے حضرت مہدی کےنشان صداقت کے طور پر ماہ رمضان میں چاند اور سورج گرہن کی پیشگوئی فرمائی تھی جو حضرت امام باقر محمد بن علیؓ کی روایت سے سنن الدارقطنی میں درج ہے۔ یہ نشان 1311ھ بمطابق 1894ء کو رمضان المبارک میں چاند کی 13 اور سورج کی 28 تاریخ کو گرہن لگنے سے پورا ہوا۔ جسے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے اپنی صداقت کا آسمانی گواہ قرار دیا اور اعلان فرمایا:

آسماں میرے لئے تو نے بنایا اِک گواہ

چاند اور سورج ہوئے میرے لئے تاریک و تار

اس نشان کو دیکھ کر اگر ایک طرف بڑی تعداد میں سعید فطرت لوگوں کوقبول حق کی توفیق ملی تو دوسری طرف وقت کے علماء نے طرح طرح کے اعتراض کئے۔ ایک اعتراض یہ تھا کہ یہ حدیث ضعیف ہے جس پر حضرت بانیٔ سلسلہ نے یہ چیلنج دیاکہ

’’اگر کسی نے اکابر محدثین میں سے اس حدیث کو موضوع ٹھہرایا ہے تو اُن میں سے کسی محدث کا فعل یا قول پیش تو کرو جس نے لکھا ہو کہ یہ حدیث موضوع ہے۔ اور اگر کسی جلیل الشان محدّث کی کتاب سے اس حدیث کا موضوع ہونا ثابت کر سکو تو ہم فی الفور ایک سو روپیہ بطور انعام تمہاری نذر کریں گے جس جگہ چا ہو امانتاً پہلے جمع کرا لو‘‘۔

(تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد نمبر17صفحہ 133-134)

اس میدان میں مخالفین جب لا جواب ہوگئے تو انہوں نے بعض ایسے مدعیان کے نام پیش کئے جن کے دعویٰ کے زمانہ میں رمضان کے مہینے میں حدیث میں بیان فرمودہ تاریخوں کے مطابق کسوف و خسوف ظہور پذیر ہوا۔ مگر محض ایسے مدعیان کے نام پیش کر دینے سے کیا بنتا ہے جب تک ان میں سے کسی ایسے مدعی کا دعویٰ اس کی اپنی کتاب سے پیش نہ کیا جائے نیز یہ ثابت نہ کیا جائے کہ اس نے کسوف و خسوف کے نشان کو اپنے دعویٰ کی صداقت کے لیے پیش بھی کیا تھا۔ اس سلسلہ میں بھی حضرت مسیح موعودؑ نے ایک زبردست چیلنج دیا۔ حضورؑ فرماتے ہیں:

’’کیا تم ڈرتے نہیں کہ تم نے رسول اللہﷺ کی حدیث کو جھٹلایا حالانکہ اس کا صدق چاشت گاہ کے آفتاب کی طرح ظاہر ہو گیا۔ کیا تم اس کی نظیر پہلے زمانوں میں سے کسی زمانہ میں پیش کر سکتے ہو کیا تم کسی کتاب میں پڑھتے ہو کہ کسی شخص نے دعویٰ کیا کہ میں خداتعالیٰ کی طرف سے ہوں اور پھر اس کے زمانہ میں رمضان میں چاند اور سورج کا گرہن ہوا جیسا کہ اب تم نے دیکھا۔ پس اگر پہچانتے ہو تو بیان کرواور تمہیں ہزار روپیہ انعام ملے گا اگر ایسا کر دکھائو۔ پس ثابت کرو اور یہ انعام لے لواور میں خداتعالیٰ کو اپنے اس عہد پر گواہ ٹھہراتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو اور خدا سب گواہوں سے بہتر ہے۔ اور اگر تم ثابت نہ کر سکو اور ہرگز ثابت نہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جو مفسدوں کے لئے طیار کی گئی ہے ‘‘۔

(نور الحق حصہ دوم۔ روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 212)

مگرآج تک کسی مخالف کوایسی نظیر پیش کرنے کی توفیق نہ مل سکی۔ راقم الحروف نے صداقت مسیح موعودؑ کے اس نشان پر ہونے والے اعتراضات کو مدّنظر رکھتے ہوئے خود تفصیل میں جاکر تحقیق کی جس میں نہ صرف حضورؑ کی زندگی کے بعد رمضان میں ہونے والے 109 گرہنوں کا جائزہ لیا گیا بلکہ ایسے مدعیان کی تاریخ پیدائش، عمر اور ان کی زندگی میں ہونے والے گرہنوں کا تاریخ اور دیگر کتب سے مطالعہ کیا گیا۔ مگر حدیث کے بیان اور اس کی روشنی میں حضرت مسیح موعودؑ کے دیئے گئے چیلنج کے مقابلہ میں کوئی ثبوت نہ مل سکا اور اس طرح 1894ء کے رمضان میں ہونے والے گرہن حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

یارو جو مرد آنے کو تھا وہ تو آ چکا

یہ راز تم کو شمس و قمر بھی بتا چکا

حضرت مسیح موعودؑ نے اسی کتاب نورالحق حصہ دوم کے ٹائٹل پیج پر زیرِ عنوان ’’تنبیہ‘‘ تحریر فرمایا کہ نورالقرآن حصہ اوّل و دوم پادری عماد الدین، مولوی محمد حسین بٹالوی اور ان کے انصار و اعوان کی حقیقت علمیہ ظاہر کرنے کے لئے تیار ہوئی ہے اور بالمقابل کتاب لکھنے پر پانچ ہزار روپیہ انعام دیا جائے گا۔ چنانچہ آپؑ نے تحریر فرمایا:

‘‘یہ کتاب مع پہلے حصہ اس کے پادری عمادالدین اور شیخ محمد حسین بٹالوی صاحب اشاعۃالسنّۃ اور ان کے انصار و اعوان کی حقیقت علمیہ ظاہر کرنے کے لئے تیار ہوئی ہے جس کے ساتھ پانچ ہزار روپیہ انعام کا اشتہار ہے۔ اگر چاہیں تو روپیہ پہلے جمع کرا لیں۔ اور اگر بالمقابل کتاب لکھنے کے لئے تیار ہوں اور انعامی روپیہ جمع کرانا چاہیں تو ایسی درخواست کی میعاد اخیر جون 1894ء تک ہے۔ بعد اس کے سمجھا جائے گا کہ بھاگ گئے اور کوئی درخواست منظور نہیں ہوگی’’۔

(ٹائیٹل پیج۔ نورالحق حصہ دوم۔ روحانی خزائن جلد8 صفحہ 187)

وہ جون کا مہینہ گذر گیا مگر محمد حسین بٹالوی اور نہ ان کے رفقاء اور پادریوں میں سے کسی کو مقابلہ میں آنے کی ہمت ہوئی اور نہ ہی دوسرے انعامات کو حاصل کرنے کے لئے سامنے آنے کی جرأت۔

امریکہ کے مشہور پادری ڈاکٹر جان الیگزنڈر ڈوئی کے ساتھ روحانی مقابلہ اور مباہلہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ اس ڈاکٹرڈوئی نے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا اور بزعم خود یورپ اور امریکہ کی اقوام کی اصلاح اور انہیں سچا عیسائی بنانے کا بیڑہ اٹھایا۔مگر یہ شخص اسلام اور نبی کریمﷺ کا بدترین دشمن تھا۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو جب اس شخص کے دعاوی کا علم ہوا تو آپ نے 8 اگست 1902ء کو ایک چٹھی لکھی جس میں حضرت عیسیٰؑ کی وفات اور سرینگر کشمیر میں ان کی قبر کا ذکر کرتے ہوئے اُسے مباہلہ کا چیلنج دیا، آپؑ نے فرمایا:

’’ہم ڈوئی کی خدمت میں بہ ادب عرض کرتے ہیں کہ اس مقدمہ میں کروڑوں مسلمانوں کو مارنے کی کیا ضرورت ہے ایک سہل طریق ہے جس سے اس بات کا فیصلہ ہو جائے گا کہ آیا ڈوئی کا خدا سچا خدا ہے یا ہمارا خدا۔ وہ بات یہ ہے کہ ڈوئی صاحب تمام مسلمانوں کو بار بار موت کی پیشگوئی نہ سنائیں بلکہ ان میں سے صرف مجھے اپنے ذہن کے آگے رکھ کر یہ دعا کریں کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرجائے‘‘۔

(ریویو آف ریلجنز اردو دسمبر 1902ء)

جب ڈوئی نے اس چیلنج کا کوئی جواب نہ دیا تو حضور نے 1903ء میں ایک اور چٹھی کے ذریعہ اپنے مباہلہ کےچیلنج کو پھر دُہرایا۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے اس چیلنج کا تذکرہ امریکہ کے بہت سے اخبارات میں ہوا۔ جب پبلک نے ڈوئی کو بہت تنگ کیا اور جواب دینے پر مجبور کیا تو اس نے اپنے اخبار کے دسمبر 1903ء کے پرچے میں لکھا کہ:

’’ہندوستان کا ایک بے وقوف محمدی مسیح مجھے بار بار لکھتا ہے کہ یسوع مسیح کی قبر کشمیر میں ہے اور لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تو کیوں اس شخص کو جواب نہیں دیتا مگر کیا تم خیال کرتے ہو کہ مَیں ان مچھروں اور مکھیوں کا جواب دوں گا۔ اگر مَیں ان پر پاؤں رکھوں گا تو ان کو کچل کر مار ڈالوں گا‘‘۔

(بحوالہ احمدیہ پاکٹ بک۔ مطبوعہ فضل پرںٹنگ پریس قادیان صفحہ 184)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو جب ڈوئی کی اس گستاخی اوربےادبی اور شوخی اور شرارت کی اطلاع ملی تو آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور اس فیصلہ میں کامیابی کے لیے زیادہ توجہ اور الحاح سے دعائیں کرنا شروع کیں۔آسمان پر خداتعالیٰ نے اپنے پیارے مسیح و مہدی کے لیے اپنی غیرت کا اظہار کیا اور ڈوئی پر عین اس وقت فالج کا حملہ ہوا جبکہ وہ اپنے عالی شان و خوبصورت شہر صیحون میں ہزاروں کے مجمع سے مخاطب تھا۔ دوران تقریر ہی خدائے قادر قیوم نے اس کی زبان کو بند کر دیا جس سے وہ آنحضرتﷺ کے خلاف بد زبانی کیا کرتا تھا۔ دوسری طرف جس شخص کو اس نے صیحون میں اپنا نائب مقرر کیا تھا اُسی نے بعد میں اعلان کر دیا کہ ڈوئی چونکہ غرور، تعلّی، فضول خرچی اور لوگوں کے پیسوں پر تعیش کی زندگی بسر کرنے کا مجرم ہے اس لئے اب وہ ہمارے چرچ کی قیادت کرنے کا قطعاً اہل نہیں۔ بعد میں اُسے چرچ سے کلیتاً بےدخل اور علیحدہ کر دیا گیا۔ جس کے نتیجہ میں اس کی صحت دن بدن اور بھی خراب ہوتی چلی گئی۔ اُسے نہ صرف اس کے مریدوں بلکہ اس کے اہل و عیال نے بھی چھوڑ دیا۔ مصیبتوں کے اس عالم میں 9 مارچ1907ء کو نہایت ذلت کی حالت میں وہ اس جہان سے رخصت ہو کر حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کرگیا۔

حضرت مسیح موعود نے صیحون پر آفت آنے اور ڈاکٹر ڈوئی کے عبرتناک انجام کی جو پیشگوئی کی تھی اس کا ایک ایک لفظ بڑی شان سے پورا ہوا جس کو متعدد امریکی اخبارات نے بڑی فراخدلی سے تسلیم کیا۔ بوسٹن ہیرلڈ نے اپنی 23 جون 1907ء کی اشاعت کا ایک پورا صفحہ مرزاغلام احمد قادیانی کی ڈاکٹر ڈوئی کی ہلاکت اور صیحون کی تباہی کی بابت پیشگوئی کی تفاصیل شائع کرنے کے لئے وقف کر دیا۔ مرزا صاحب کی ایک بڑی تصویر دی اور ساتھ ہی جلی حروف میں لکھا:

“Great Is Mirza Ghulam Ahmad, The Messiah’’

ان چیلنجز سے پہلے حضرت مسیح موعود نے اپنے دعویٔ مسیحیت کے فوراً بعد جب وفات مسیحؑ کا اِعلان فرمایا تو مخالفت کا ایک طوفان بدتمیزی شروع ہوگیا۔ بحث، مباحثے، مناظرے اور آسمانی نشان دکھانے کی باتیں شروع ہوگئیں۔ وفات و حیات مسیح کے بارہ میں مباحثوں اور مناظروں سے علمائے دین کہلانے والے مولویوں نے کوئی سبق نہ سیکھا بلکہ آپ کو سبّ وشتم اور لعن طعن کا نشانہ بنایا گیا اور آپ پر لعنت بھیجنےاور دجّال کہنے کو بڑا ثواب کا کام سمجھا جانے لگا۔ وفات و حیات مسیح پر از روئے قرآن و حدیث اپنے اپنے دعویٰ کو سچ ثابت کرنےکی پیشکش کا بھی جب کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکلا تو حضرت مسیح موعودؑ نے مولوی سیّد نذیر حسین صاحب کو قسم کھانے کا انعامی چیلنج دیا جس کے الفاظ یہ ہیں:

‘‘بالآخر یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کسی طرح سے بحث کرنا نہیں چاہتے تو ایک مجلس میں میرے تمام دلائل وفات مسیح سن کر اللہ جلّ شانہ کی تین بار قسم کھا کر یہ کہہ دیجئے کہ یہ دلائل صحیح نہیں ہیں اور صحیح اور یقینی امر یہی ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم زندہ بجسدہ العنصری آسمان کی طرف اٹھائے گئے ہیں اور آیات قرآنی اپنی صریح دلالت سے اور احادیث صحیحہ متصلہ مرفوعہ اپنے کھلے کھلے منطوق سے اسی پر شہادت دیتی ہیں۔ اور میرا عقیدہ یہی ہے۔ تب میں آپ کی اس گستاخی اور حق پوشی اور بد دیانتی اور جھوٹی گواہی کے فیصلہ کے لیے جناب الٰہی میں تضرع اور ابتہال کروں گا۔ اور چونکہ میری توجہ پر مجھے ارشاد ہو چکا ہے کہ اُدْعُونِی اَسْتَجِبْ لَكُمْ اور مجھے یقین دلایا گیا ہے کہ اگر آپ تقویٰ کا طریق چھوڑ کر ایسی گستاخی کریں گے اور آیت لَا تَقْفُ مَالَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ کو نظر انداز کر دیں گے تو ایک سال تک اس گستاخی کا آپ پر ایسا کھلا کھلا اثر پڑے گا جو دوسروں کے لیے بطور نشان کے ہوجائے گا۔ لہٰذا مظہر ہوں کہ اگر بحث سے کنارہ ہے تو اسی طور سے فیصلہ کر لیجئے تا وہ لوگ جو نشان نشان کرتے ہیں ان کو خداتعالیٰ کوئی نشان دکھا دیوے۔ وَہُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُلِلہ رَبِّ الْعَالَمِینَ۔

حلفی اقرار دربارہ ادائے پچیس روپیہ فی حدیث اور فی آیت۔ بالآخر مولوی سیّد نذیر حسین صاحب کو یہ بھی واضح رہے کہ اگر وہ اپنے اس عقیدہ کی تائید میں جو حضرت مسیح ابن مریم بجسدہ العنصری زندہ آسمان پر اٹھائے گئے آیات صریح بینہ قطعیۃالدلالت و احادیث صحیحہ متصلہ مرفوعہ مجلس مباحثہ میں پیش کر دیں اور جیسا کہ ایک امر کو عقیدہ قرار دینے کے لیے ضروری ہے یقینی اور قطعی ثبوت صعود جسمانی مسیح ابن مریم کا جلسہ عام میں اپنی زبان مبارک سے بیان فرما دیں تو میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ فی آیت و فی حدیث پچیس روپیہ ان کی نذر کروں گا۔

الناصح المشفق المشتہر المعلن مرزاغلام احمد قادیانی

17ا کتوبر 1891ء

(مجموعہ اشتہارات جلد1 صفحہ248-249)

مولوی سیّد نذیر حسین دہلوی نے نہ صرف قسم کھانے سے بلکہ بحث کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد انہیں اور دیگر علماء کو مباحثہ اور مناظرہ کا چیلنج دیا گیا۔ جس پر مولوی محمد بشیر صاحب بھوپالوی تحریری مباحثہ کے لئے آئے۔ یہ مباحثہ 23 اکتوبر 1891ء کو ہوا۔ فریقین نے تین تین پرچے لکھے جو کہ ‘‘الحق مباحثہ دہلی’’ کے نام سے شائع شدہ ہیں۔ جو شخص بھی مباحثہ دہلی کو بغور پڑھے گا اس پرصاف کھل جائے گا کہ علماء کے ہاتھ میں حیات مسیح کو ثابت کرنے کے لئے کوئی قطعی دلیل، کوئی آیت اور نہ ہی کوئی صحیح حدیث ہے۔حضرت عیسیٰ کے مع جسم عنصری آسمان پر چڑھنے اور پھر کسی وقت جسم عنصری کے ساتھ آسمان سے نازل ہونے کا ثبوت دینے کے لئے حضرت مسیح موعودؑ نے ایک ہزار روپے کا چیلنج دیا، فرمایا:

’’وہ لوگ بڑی غلطی پر ہیں جو یہ گمان کرتے ہیں کہ حضرت عیسٰی مسیح جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چڑھ گیا اور جسم عنصری کے ساتھ نازل ہوگا۔ یادر ہے کہ یہ خیال سراسر افتراء ہے۔ حدیثوں میں اس کا نام و نشان نہیں۔ اگر کسی حدیث رسول اللہﷺ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چڑھ گیا تھا اور پھر کسی وقت جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر سے نازل ہوگا اور چڑھنا اور اترنا دونوں اَمر جسم عنصری کے ساتھ کسی حدیث سے ثابت ہو جائیں تو مجھے خداتعالیٰ کی قسم میں ایسی صحیح حدیث پیش کرنے والے کو ہزار روپیہ انعام دوں گا ‘‘۔

(مجموعہ اشتہارات جلد2 صفحہ 425حاشیہ)

حضرت مسیح موعودؑ نے قرآنِ مجید سے مسیحؑ کی وفات پر مزید دلائل دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کی وفا ت کے لئے توفّی کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ جیسا کہ سورۃ المائدہ آیت 118 میں ہے۔

وَکُنۡتُ عَلَیۡہِمۡ شَہِیۡدًا مَّا دُمۡتُ فِیۡہِمۡۚ فَلَمَّا تَوَفَّیۡتَنِیۡ کُنۡتَ اَنۡتَ الرَّقِیۡبَ عَلَیۡہِمۡؕ وَاَنۡتَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ۔

اللہ تعالیٰ کے اس سوال کے جواب میں کہ اے عیسیٰ! کیا تُو نے نصاریٰ کو تثلیث کی تعلیم دی تھی؟ آپؑ نے کہا جب تک مَیں ان میں تھا مَیں اُن پر نگران رہا۔ جب تُو نے میری روح قبض کرلی، وفات دے دی تو تُو ہی ان پر نگران تھا اور تو ہر چیز پر نگران ہے۔

یہ آیت جو کہ وفات مسیحؑ پر ایک قطعی دلیل ہے اسی کو بعض علماء نے متنازع بنا دیا اور کہا کہ اس کے معنی تو پورا پورا لینا ہے یعنی یہ کہ روح کے ساتھ جسم کو بھی لے لینا۔ اس سے وہ حضرت مسیحؑ کا زندہ آسمان پراُٹھایا جانا ثابت کرتے ہیں۔حضرت عیسیٰؑ کی طبعی وفات کے بارہ میں بعض اور آیات بھی قرآنِ مجید میں موجود ہیں جو کہ مباحثوں اور مناظروں میں زیرِبحث رہیں اور یہ سلسلہ ختم ہونے کو نہیں آتا تھا۔ میرے نزدیک درج ذیل چیلنج ان مناظروں اور مباحثوں کے لئےایسا چیلنج بن گیا کہ آج تک نہ کسی نے اس کا جواب دیا اور نہ ہی اس کا امکان ہے۔ فرمایا:

’’جب سے دنیا میں عرب کا جزیرہ آباد ہوا ہے اور عربی زبان جاری ہوئی ہے کسی قول قدیم یا جدید سے ثابت نہیں ہوتا کہ توفّی کا لفظ بھی قبض جسم کی نسبت استعمال کیا گیا ہو بلکہ جہاں کہیں توفّی کے لفظ کو خدائےتعالیٰ کا فعل ٹھہرا کر انسان کی نسبت استعمال کیا گیا ہے وہ صرف وفات دینے اور قبض روح کے معنی پر آیا ہے نہ قبض جسم کے معنوں میں۔ کوئی کتاب لغت کی اس کے مخالف نہیں۔ کوئی مثل اور قول اہل زبان کا اس کے مغائر نہیں غرض ایک ذرہ احتمال مخالف کے گنجائش نہیں۔ اگر کوئی شخص قرآن ِکریم سے یا کسی حدیث رسول اللہﷺ یا اشعار و قصائد و نظم و نثر قدیم و جدید عرب سے ثبوت پیش کرے کہ کسی جگہ توفی کا لفظ خداتعالیٰ کا فعل ہونے کی حالت میں جو ذوی الروح کی نسبت استعمال کیا گیا ہو وہ بجز قبض روح اور وفات دینے کے کسی اور معنی پر بھی اطلاق پا گیا ہے یعنی قبض جسم کے معنوں میں بھی مستعمل ہوا ہے تو میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ ایسے شخص کو اپنا کوئی حصہ ملکیت کا فروخت کرکے مبلغ ایک ہزار روپیہ نقد دوں گا اور آئندہ اس کی کمالات حدیث دانی اور قرآن دانی کا اقرار کرلوں گا‘‘۔

(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 262۔ اشتہار نمبر 66)

حضرت مسیح موعود کی نیابت میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالث نے جلسہ سالانہ جنوری1967ء کے موقع پر اس چیلنج کو دہراتے ہوئے فرمایا:

’’آج بھی میں اللہ جل شانہٗ کی قسم کھا کر اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ مَیں ایسے شخص کو اپنا کوئی حصہ ملکیت کا فروخت کرکے یا اللہ تعالیٰ مجھے ویسےہی توفیق دے تو بغیر کوئی حصہ ملکیت فروخت کئے ایک ہزار روپیہ نقد دوں گا اور آئندہ اس کے کمالاتِ حدیث دانی اور قرآن دانی کا اقرار کر لوں گا۔ یہ آسان راہ ہے۔ صلح کی راہ ہے۔ شرافت کی راہ ہے۔ تہذیب کی راہ ہے۔ آئیں اور اس راہ سے صداقت کو ڈھونڈنے کی کوشش کریں‘‘۔

 (خطابات ناصر جلسہ سالانہ جلد اوّل صفحہ 171، اختتامی خطاب 28 جنوری 1967ء)

بعدازاں حضرت مسیح موعود کے چوتھے جانشین حضرت مرزا طاہر احمد صاحب نے 1994ء میں مسلمانوں کے لیے اس چیلنج کو دُہراتے ہوئے انعامی رقم ایک کروڑ روپیہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:

’’مَیں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ تم سب مولوی مل کر اگر کسی طرح مسیح کو اُتار دو۔ صدی سے پہلے پہلے تو تم میں سے ہر ایک کو کروڑ روپیہ دوں گا۔… مسیح تو دور کی بات ہے اگر صدی ختم ہونے سے پہلے وہ دجّال کا گدھا ہی بنا کے دکھا دو جس کے آئے بغیر مسیح نے نہیں آنا تو پھر ایک ایک کروڑ روپیہ ہر ایک مولوی کو ملے گا اور یہ دعویٰ میرا آج بھی قائم ہے‘‘۔

(الفضل انٹرنیشنل 6 دسمبر 1996ء صفحہ 4،10)

امام الزماں کے یہ چیلنجز آج بھی پوری شان و شوکت کے ساتھ قائم ہیں اور مخالفین کو دعوت مقابلہ دے رہے ہیں۔

(اخبار احمدیہ جرمنی، شمارہ مارچ 2024ء صفحہ 21)

متعلقہ مضمون

  • جرمنی میں رہتے ہوئے سوئٹزرلینڈ میں کام کے مواقع

  • سالانہ تقریب تقسیم انعامات جامعہ احمدیہ جرمنی

  • حرمت والےمہینے اور حج

  • حضورانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے لیے دعائیہ تحریک