اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و احسان ہے کہ اُس نے ہمیں خود اپنے ہاتھ سے قائم کی ہوئی جماعت کا حصہ بننے کی سعادت عطا فرمائی۔اور اپنی ہی قائم کردہ خلافتِ حقّہ اسلامیہ کے تابع رہ کر زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا فرما رہا ہے، الحمدللہ علیٰ ذالک ؏

ایں سعادت بزور بازو نیست

اس نعمت پر جہاں ہم پر شکر واجب ہوتا ہے وہاں کثرت سے خدا کے حضور استغفار کا فریضہ بھی عائد ہوتا ہے کیونکہ ایسی جماعتوں پر شیطان حملہ کرنے کی تاک میں رہتا ہے۔ اور شیطان لعین کے حملوں سے بچنے اور اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کے لیے استغفار مدد دیتا ہے۔ سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود نے بھی شرائط بیعت میں سے تیسری شرط میں ہم سے استغفار میں مداومت اختیار کرنے کا عہد لیا۔ اس لئے کسی لمحہ بھی ہمیں اس سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔

سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس نے شرائط بیعت کی وضاحت کرتے ہوئے استغفار میں مداومت کی بھی تفصیل بیان فرمائی۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:

پھر اس تیسری شرط میں استغفار کے بارہ میں بھی ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

فَقُلۡتُ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡؕ اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا۞ یُّرۡسِلِ السَّمَآءَ عَلَیۡکُمۡ مِّدۡرَارًا۞ وَّ یُمۡدِدۡکُمۡ بِاَمۡوَالٍ وَّ بَنِیۡنَ وَیَجۡعَلۡ لَّکُمۡ جَنّٰتٍ وَّ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ اَنۡہٰرًا۞

(نوح: آیات 11تا 13)

پس مَیں نے کہا اپنے ربّ سے بخشش طلب کرو یقیناً وہ بہت بخشنے والا ہے۔ وہ تم پر لگاتار برسنے والا بادل بھیجے گا۔ اور وہ اموال اور اولاد کے ساتھ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لئے باغات بنائے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری کرے گا۔

فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ وَ اسۡتَغۡفِرۡہُؕ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا۞

 (النصر:4)

پس اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ (اس کی) تسبیح کر اور اُس سے مغفرت مانگ۔ یقینا ًوہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔

اس بارہ میں ایک حدیث ہے۔ ابو بردہ بن ابی موسیٰؓ اپنے والد ابوموسیٰ ؓکے حوالہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھ پر میری امت کو دو امانتیں دینے کے بارہ میں وحی نازل کی جو یہ ہیں۔

وَ مَا کَانَ اللہُ لِیُعَذِّبَہُمۡ وَ اَنۡتَ فِیۡہِمۡؕ وَ مَا کَانَ اللہُ مُعَذِّبَہُمۡ وَ ہُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ ۞ 

(الانفال:34)

یعنی اللہ ایسا نہیں کہ انہیں عذاب دے جب تک تو ان میں موجود ہو اور اللہ ایسا نہیں کہ انہیں عذاب دے جبکہ وہ بخشش طلب کرتے ہوں۔ پس جب میں ان سے الگ ہوا تو میں نے ان میں قیامت تک کے لئے استغفار چھوڑا۔

(جامع ترمذی۔ کتاب تفسیر القرآن۔ تفسیر سورۃ الانفال)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص استغفار کو چمٹا رہتا ہے (یعنی استغفار کرتا رہتا ہے) اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر تنگی سے نکلنے کی راہ بنا دیتا ہے اور اس کی ہر مشکل سے اس کی کشائش کی راہ پیدا کردیتا ہے اور اسے ان راہوں سے رزق عطا کرتا ہے جن کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا۔

(سنن ابو داؤد۔ کتاب الوتر۔ باب فی الاستغفار)

حضرت اقدس مسیح موعود فرماتے ہیں کہ

’’…استغفار جس کے ساتھ ایمان کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں قرآنِ شریف میں دو معنے پر آیا ہے۔ ایک تو یہ کہ اپنے دل کو خدا کی محبّت میں محکم کرکے گناہوں کے ظہور کوجو علیحدگی کی حالت میں جوش مارتے ہیں خداتعالیٰ کے تعلق کے ساتھ روکنا اور خدا میں پیوست ہوکر اس سے مدد چاہنا۔ یہ استغفار تو مقربوں کا ہے جو ایک طرفۃالعین خدا سے علیحدہ ہونا اپنی تباہی کا موجب جانتے ہیں اس لئے استغفار کرتے ہیں تا خدا اپنی محبّت میں تھامے رکھے۔ اور دوسری قسم استغفار کی یہ ہے کہ گناہ سے نکل کر خدا کی طرف بھاگنا اور کوشش کرنا کہ جیسے درخت زمین میں لگ جاتا ہے ایسا ہی دل خدا کی محبّت کا اسیر ہو جائے تا پاک نشوونما پاکر گناہ کی خشکی اور زوال سے بچ جائے اور ان دونوں صورتوں کا نام استغفار رکھا گیا۔ کیونکہ غَفَرَ جس سے اِستغفار نکلا ہے ڈھانکنے اور دبانے کو کہتے ہیں۔ گویا استغفار سے یہ مطلب ہے کہ خدا اس شخص کے گناہ جو اس کی محبّت میں اپنے تئیں قائم کرتا ہے دبائے رکھے اور بشریت کی جڑیں ننگی نہ ہونے دے بلکہ الوہیت کی چادر میں لے کر اپنی قدوسیت میں سے حصہ دے۔ یا اگر کوئی جڑ گناہ کے ظہور سے ننگی ہوگئی ہو پھر اس کو ڈھانک دے اور اس کی برہنگی کے بداثر سے بچائے۔ سو چونکہ خدا مبدء فیض ہے اور اس کا نور ہر ایک تاریکی کے دور کرنے کے لئے ہروقت تیار ہے اس لئے پاک زندگی حاصل کرنے کے لئے یہی طریق مستقیم ہے کہ ہم اس خوفناک حالت سے ڈر کر اس چشمۂ طہارت کی طرف دونوں ہاتھ پھیلائیں تا وہ چشمہ زور سے ہماری طرف حرکت کرے اور تمام گند کو یکدفعہ لے جائے۔ خدا کو راضی کرنے والی اس سے زیادہ کوئی قربانی نہیں کہ ہم درحقیقت اس کی راہ میں موت کو قبول کرکے اپنا وجود اس کے آگے رکھ دیں’’۔ (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب۔ روحانی خزائن۔ جلد12۔ صفحہ 346-347)

پھرآپؑ نے فرمایا: ‘‘…جب خدا سے طاقت طلب کریں یعنی استغفار کریں تو روح القدس کی تائید سے ان کی کمزوری دور ہو سکتی ہے اور وہ گناہ کے ارتکاب سے بچ سکتے ہیں جیسا کہ خدا کے نبی اور رسول بچتے ہیں۔ اور اگر ایسے لوگ ہیں کہ گنہگار ہو چکے ہیں تو استغفار ان کو یہ فائدہ پہنچاتا ہے کہ گناہ کے نتائج سے یعنی عذاب سے بچائے جاتے ہیں کیونکہ نور کے آنے سے ظلمت باقی نہیں رہ سکتی۔ اور جرائم پیشہ جو استغفار نہیں کرتے یعنی خدا سے طاقت نہیں مانگتے۔ وہ اپنے جرائم کی سزا پاتے رہتے ہیں ‘‘۔

(کشتی نوح۔ روحانی خزائن۔ جلد19۔ صفحہ34)

حضرت اقدس مسیح موعود فرماتے ہیں:

’’بعض آدمی ایسے ہیں کہ ان کو گناہ کی خبر ہوتی ہے اور بعض ایسے کہ ان کو گناہ کی خبر بھی نہیں ہوتی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے استغفار کا التزام کرایا ہے کہ انسان ہر ایک گناہ کے لئے خواہ وہ ظاہر کا ہو خواہ باطن کا ہو اسے علم ہو یا نہ ہو اور ہاتھ اور پائوں اور زبان اور ناک اور کان اور آنکھ اور سب قسم کے گناہوں سے استغفار کرتا رہے۔ آج کل آدم کی دعا پڑھنی چاہئے۔

رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا وَ اِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡلَنَا وَ تَرۡحَمۡنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ۞

(الاعراف:24)

یہ دعا اوّل ہی قبول ہوچکی ہے۔ غفلت سے زندگی بسر مت کرو۔ جو شخص غفلت سے زندگی نہیں گزارتا ہرگز امید نہیں کہ وہ کسی فوق الطاقت بلا میں مبتلا ہو۔ کوئی بلا بغیر اذن کے نہیں آتی جیسے مجھے یہ دعا الہام ہوئی:

رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ ‘‘۔

(ملفوظات۔ جدید ایڈیشن۔ جلد دوم۔ صفحہ577)

حضرت اقدس مسیح موعود فرماتے ہیں:

وَاَنِ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَیۡہِ۔ یادرکھو کہ یہ دوچیزیں اس امت کو عطا فرمائی گئی ہیں۔ ایک قوت حاصل کرنے کے واسطے، دوسری حاصل کردہ قوت کوعملی طور پر دکھانے کے لئے۔ قوت حاصل کرنے کے واسطے استغفار ہے جس کو دوسرے لفظوں میں استمداد اور استعانت بھی کہتے ہیں۔ صُوفیوں نے لکھا ہے کہ جیسے ورزش کرنے سے مثلاً مگدروں اور موگریوں کو اُٹھانے او رپھیرنے سے جسمانی قوت اور طاقت بڑھتی ہے۔ اسی طرح پر رُوحانی مگدر استغفار ہے۔ اس کے ساتھ رُوح کو ایک قوت ملتی ہے اور دل میں استقامت پیدا ہوتی ہے۔ جسے قوت لینی مطلوب ہو وہ استغفار کرے۔ غفر ڈھانکنے اور دبانے کو کہتے ہیں۔ استغفار سے انسان اُن جذبات اور خیالات کو ڈھانپنے اور دبانے کی کوشش کرتا ہے جوخداتعالیٰ سے روکتے ہیں۔ پس استغفار کے یہی معنے ہیں کہ زہریلے مواد جو حملہ کرکے انسان کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں۔ اُن پر غالب آوے اور خداتعالیٰ کے احکام کی بجاآوری کی راہ کی روکوں سے بچ کر انہیں عملی رنگ میں دکھائے۔

یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان میں دو قسم کے مادے رکھے ہیں ایک سمی مادہ ہے جس کا مؤکل شیطان ہے اور دوسرا تریاقی مادہ ہے۔ جب انسان تکبر کرتا ہے اور اپنے تئیں کچھ سمجھتا ہے اور تریاقی چشمہ سے مدد نہیں لیتا تو سمی قوت غالب آجاتی ہے۔ لیکن جب اپنے تئیں ذلیل و حقیر سمجھتا ہے اور اپنے اندر اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت محسوس کرتا ہے اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک چشمہ پیدا ہو جاتا ہے جس سے اس کی روح گداز ہوکر بہہ نکلتی ہے اور یہی استغفار کے معنی ہیں۔ یعنی یہ کہ اس قوت کو پا کر زہریلے مواد پر غالب آ جاوے’’۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 348-349 مطبوعہ ربوہ)

اللہ تعالیٰ ہمیں استغفار کا مفہوم سمجھتے ہوئے اس میں مداومت اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

(صادق محمد طاہر)

(اخبار احمدیہ جرمنی، شمارہ جنوری 2024ء صفحہ 19)

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • جرمنی میں رہتے ہوئے سوئٹزرلینڈ میں کام کے مواقع

  • فیصلہ جات مجلس شوریٰ جماعت احمدیہ جرمنی 2024

  • سالانہ تقریب تقسیم انعامات جامعہ احمدیہ جرمنی