کتاب البریہ 24 جنوري 1898ء کو شائع ہوئي۔ جنگ مقدّس کے مناظرے (مئي 1893ء) ميں شکستِ فاش کے بعد عيسائي حضرات اپنے زخم چاٹ رہے تھے کہ انہيں دنوں عبدالحميد نامي ايک فاترالعقل شخص جو قبل ازيں قاديان رہ چکا تھا، عيسائيوں کے ہتھے چڑھ گيا۔ وہ جب امرتسر پہنچا تو پادريوں نے بہلا پھسلا کر اور پھر دھمکياں دے کر اُس کو يہ بيان دينے پر مجبور کر ديا کہ حضرت مسيح موعود نے اسے ڈاکٹر مارٹن کلارک کو قتل کرنے کي غرض سے يہاں بھيجا ہے۔ جس کے بعد حضرت مسيح موعود پر مقدمہ قتل بنا مگر دشمنوں کو منہ کي کھاني پڑي اور اللہ تعاليٰ نے اپنے فضل سے حضرت مسيح موعود کو باعزت بريت عطا فرمائي۔ چنانچہ اس موقع پر حضور نے کتاب البريہ تصنیف فرمائی اور مذکورہ مقدّمہ کي روئيداد اور تفصيل تحرير فرمائي بلکہ تمام گواہان کے بيان بھي شائع کر دئيے۔

بعدہٗ مسلمانوں کے دوغلے پن کا بھي ذکر کيا جو ايک طرف تو جماعت احمديہ کو انگريز کا خود کاشتہ پودا کہتے ہيں اور دوسري طرف انہوں نے انگريزي حکومت کو تحريريں لکھ کر اشتعال دلايا کہ يہ شخص حکومت کا مخالف ہے اور خاص طور پر عيسائيت کا دشمن ہے۔ يہي بات علماء نے اس مقدمہ کے دوران عدالت ميں بھي کہي۔ کتاب البريہ ميں حضور نے اس بات کي ترديد کي کہ آپ نے حضرت عيسيٰ کي توہين کي ہے۔ يہ بھي بيان فرمايا کہ آپ حکومت کے خيرخواہ اور فرمانبردار ہيں۔ اپني تحرير ميں سخت الفاظ کے استعمال کي وضاحت کرتے ہوئے تحرير فرماتے ہيں:

’’يہ بات بھي ميں تسليم کرتا ہوں کہ مخالفوں کے مقابل پر تحريري مباحثات ميں کسي قدر ميرے الفاظ ميں سختي استعمال ميں آئي تھي۔ ليکن وہ ابتدائي طور پر سختي نہيں ہے بلکہ وہ تمام تحريريں نہايت سخت حملوں کے جواب ميں لکھي گئي ہيں۔ مخالفوں کے الفاظ ايسے سخت اور دشنام دہي کے رنگ ميں تھے جن کے مقابل پر کسي قدر سختي مصلحت تھي۔ اس کا ثبوت اس مقابلہ سے ہوتا ہے جو ميں نے اپني کتابوں اور مخالفوں کي کتابوں کے سخت الفاظ اکٹھے کرکے کتاب مثل مقدمہ مطبوعہ کے ساتھ شامل کئے ہيں جس کا نام ميں نے کتاب البريہ رکھا ہے‘‘۔

(کتاب البريہ،روحاني خزائن جلد 13 صفحہ 11)

پھر حضور نے مزيد تحرير فرمايا کہ سخت الفاظ کے استعمال کي ضرورت کيوں پيش آئي۔ آپ نے احمدي مسلمانوں کو مخاطب کرکے فرمايا:

’’اگر کوئي ان ميں سے ان وصيتوں پر کاربند نہ ہو يا بےجا جوش اور وحشيانہ حرکت اور بدزباني سے کام لے تو اس کو ياد رکھنا چاہيے کہ وہ ان صورتوں ميں ہماري جماعت کے سلسلہ سے باہر متصوّر ہوگا اور مجھ سے اس کا کوئي تعلق باقي نہيں رہے گا‘‘۔

پھر فرمايا: ’’ہماري تمام نصيحتوں کا خلاصہ تين امر ہيں اوّل يہ کہ خدا تعاليٰ کے حقوق کو ياد کرکے اس کي عبادت اور اطاعت ميں مشغول رہنا۔ اس کي عظمت کو دل ميں بٹھانا اور اس سے سب سے زيادہ محبّت رکھنا اور اس سے ڈر کر نفساني جذبات کو چھوڑنا اور اس کو واحد لا شريک جاننا اور اس کے لئے پاک زندگي رکھنا اور کسي انسان يا دوسري مخلوق کو اس کا مرتبہ نہ دينا۔ اور درحقيقت اس کو تمام روحوں اور جسموں کا پيدا کرنے والا اور مالک يقين کرنا۔ دوم يہ کہ تمام بني نوع سے ہمدردي کے ساتھ پيش آنا۔ اور حتي المقدور ہر ايک سے بھلائي کرنا اور کم سے کم يہ کہ بھلائي کا ارادہ رکھنا۔ سوم يہ کہ جس گورنمنٹ کے زير سايہ خدا نے ہم کو کر ديا ہے يعني گورنمنٹ برطانيہ جو ہماري آبرو اور جان اور مال کي محافظ ہے اس کي سچي خير خواہي کرنا اور ايسے مخالف امن امور سے دور رہنا جو اس کو تشويش ميں ڈاليں۔ يہ اصول ثلاثہ ہيں جن کي محافظت ہماري جماعت کو کرني چاہيے اور جن ميں اعليٰ سے اعليٰ نمونے دکھلانے چاہئيں ‘‘۔

 (کتاب البريہ،روحاني خزائن جلد 13 صفحہ 14)

اسي کتاب ميں آپؑ نے عيسائيوں کے عقيدے کا بُطلان اس طرح سے بیان فرمايا:

’’اے عيسائيو! ياد رکھو کہ مسيح ابن مريم ہرگز ہرگز خدا نہيں ہے تم اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو۔ خدا کي عظمت مخلوق کو مت دو۔ ان باتوں کے سننے سے ہمارا دل کانپتا ہے کہ تم ايک مخلوق ضعيف درماندہ کو خدا کر کے پکارتے ہو سچے خدا کي طرف آجاؤ تا تمہارا بھلا ہو اور تمہاري عاقبت بخير ہو‘‘۔

(کتاب البريہ،روحاني خزائن جلد 13 صفحہ 55)

پھر آپؑ نے اپنے الہامات کا ذکر فرمايا جن ميں آپ کا مقام ظاہر فرمايا۔ اس کا آغاز تُو مجھ سے اور مَيں تجھ سے ہوں کے الہام سے شروع ہو کر اس فقرہ پر ختم ہوتا ہے کہ ’’اے لوگو! تمہارے پاس خدا کا نور آيا پس تم منکر مت ہو‘‘۔

(مرتبّہ: محمد انیس دیالگڑھی)

(اخبار احمدیہ جرمنی، شمارہ مارچ 2024ء صفحہ 16)

متعلقہ مضمون

  • روئداد جلسہ دعا

  • ہر مخالف کو مقابل پہ بلایا ہم نے

  • الموعود

  • قادیان کے آریہ اور ہم