منعقدہ 28 دسمبر 1975ء بمقام مسجد فضل عمر ہمبرگ

جماعت احمدیہ جرمنی کا پہلا جلسہ سالانہ 28 دسمبر 1975ء کو مسجد فضل عمر ہمبرگ میں منعقد ہوا۔ اس تاریخی جلسہ کے بعض شرکاء سے مجلس ادارت اخبار احمدیہ جرمنی نے رابطہ کرکےاس یادگار جلسہ کی یادیں تازہ کیں، جو آج وسیع و عریض انتظامات کے ساتھ ہونے والے جلسہ ہائے سالانہ کا نقطہ آغاز ہیں۔ یہ وہی وقت تھا جب پاکستان میں جماعت احمدیہ کو سیاسی اغراض کے لئے ناٹ مسلم قرار دئیے جانے کے بعد خوشی کے شادیانے بجائے جا رہے تھے اور جماعت احمدیہ کو مختلف قانونی و آہنی سلاسل میں جکڑا جا رہا تھا۔ ان حالات میں جرمنی میں جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ کا آغاز نہایت معمولی انتظامات کے ساتھ ہوتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کےسائے تلے یہ جلسہ اس قدر ترقی کر جاتا ہے کہ جرمنی کے بڑے بڑے ہال شاملین جلسہ سے چھلک پڑتے ہیں۔ حاضری 70 افراد سے 45 ہزار سے تجاوز کر جاتی ہے تو اس کا بجٹ چند مارکوں سے کئی ملین یورو تک جا پہنچتا ہے، فالحمدللہ علیٰ ذٰلک۔

تاثرات معلوم کرنے کے لئےجلسہ جرمنی کے اوّلین منتظم اعلیٰ مکرم مولانا حیدر علی ظفر صاحب (مبلغ سلسلہ) سے مکرم عرفان احمد خان صاحب نے گفتگو کرتے ہوئے پوچھا کہ جرمنی کا پہلا جلسہ سالانہ 1975ء میں ہمبرگ میں ہوا جہاں آپ بطور مبلغ سلسلہ تعینات تھے۔ اس جلسہ کے انعقاد کا خیال آپ کو کیونکر آیا؟

جواب: مَیں1974ء میں جرمنی آیا اور میری تعیناتی ہمبرگ میں ہوئی۔ اسی سال پاکستان کی قومی اسمبلی نے احمدیوں کو ناٹ مسلم قرار دینے کا احمقانہ فیصلہ کیا جس کے بعد احمدیوں میں ملک سے ہجرت کر جانے کا رُجحان پیدا ہوا۔ شروع میں لوگ فرانکفرٹ آتے تھے۔ جب مقامی شہری انتظامیہ نے لوگوں کو Zirndorf جہاں Bundesamt für Migration und Flüchtlinge ہے، بھجوانا شروع کر دیا تو دوستوں نے ہمبرگ جا کر آباد ہونے کو ترجیح دی۔ پھر Zirndorf جانے والوں کو جرمنی کے مختلف شہروں میں بھجوایا جانے لگا۔ ہم سب لوگ جس ماحول سے آئے تھے وہاں احباب کا جماعت سے رابطہ رکھنا گویا ان کی سرشت میں شامل تھا۔ اس وقت کوئی ایسی تقسیم نہیں تھی کہ کون کون سے شہر کے احباب کس مشن کے تحت ہوں گے۔ اس وقت دو ہی مشن تھے ایک ہمبرگ اور دوسرا فرانکفرٹ۔ 1977ء میں پہلی بار میں نے بطور امیر و مشنری انچارج تقسیم کی کہ پوسٹ کوڈ ایک ہزار سے چار ہزار تک کے شہروں والے احمدی احباب ہمبرگ مشن کے تحت ہوں گے اور باقی پانچ سے آٹھ ہزار تک فرانکفرٹ مشن سے رابطہ رکھیں گے۔ اس طرح جو لوگ جرمنی میں مقیم احباب جماعت اپنے اپنے متعلقہ مشن سے باقاعدہ رابطہ میں ہوگئے۔ احباب سے رابطہ رکھنے کے لئے ایک سرکلر کا بھی اجراء کیا جسے ضرورت کے مطابق شائع کیا جاتا۔ اس کے علاوہ میں احباب سے ملنے ان کے پاس بھی جایا کرتا۔ اس دوران مَیں نے محسوس کیا کہ تربیتی نقطۂ نظر سے لوگوں کو اکٹھا کیا جائے۔ جلسہ سالانہ کا بڑا مقصد جماعت کی روحانی تربیت ہی ہے۔ حضرت مسیح موعود نے جس غرض کے تحت جلسہ سالانہ کا آغاز فرمایا تھا اس کو مدّنظر رکھتے ہوئے ہمبرگ مشن کی سطح پر اس کا آغاز کیا گیا تھا۔ احباب جماعت کو ہم اُن کے گھروں اور جماعتوں میں جا کر ملتے اور تحریک کرتے کہ ہم سب بھی باہمی محبّت و اخوت کا رشتہ مضبوط کرنے اور اللہ اور رسول کی باتیں سننے کے لیے اپنے مشن ہاؤس میں جمع ہوں۔ اُس وقت اس کا نام جلسہ سالانہ ہمبرگ رکھا گیا۔ جس کی امیر و مبلغ انچارج مکرم مولانا فضل الٰہی انوری صاحب سے باقاعدہ اجازت لی۔ جلسہ کی افتتاحی اور اختتامی تقریر انہوں نے ہی کی۔ افتتاحی اجلاس میں تلاوت کی سعادت مکرم رائے قمر احمد صاحب کو حاصل ہوئی۔ یہ ایک روزہ جلسہ تھا۔ جس میں تقاریر کے علاوہ علمی مقابلہ جات بھی ہوئے اور انعامات بھی دیے گئے۔ اس میں ہمبرگ کے علاوہ جو اَب مجھے یاد رہ گیا ہے Bassum, Düsseldorf, Bremen, Wesel, Dülmen, Schermbeck, Dormagen سے لوگ آئےتھے۔ اور بھی جگہوں سے آئے ہوں گے۔ ڈنمارک سے ڈینش احمدی Mr. Svend Hansen اور مکرم شوکت صاحب بھی تشریف لائے تھے۔ مقررین میں انڈونیشیا کے جناب Adang Suhendar صاحب (انڈونیشیا کے کمرشل اتاشی) اور گھانا کے کلیم اڈے بایو صاحب (Kaleem Adebayo) جو ہمبرگ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے، بھی شامل تھے۔ مذکورہ ڈینش احمدی تو ہمارے مہمان مقرر تھے۔

سوال: شروع کے سالانہ جلسے ہمبرگ میں منعقد ہوئے۔ ان میں سے کون سے جلسے آپ کو کروانے کی توفیق ملی اور ابتدائی انتظامی ڈھانچہ کیا تھا؟

جواب: ایک احمدی کا جلسہ سالانہ سے تعلق لڑکپن سے قائم ہو جاتا ہے۔ اب تو ایم ٹی اے کی بدولت آپ جلسہ کا ہی حصہ بن جاتے ہیں لیکن پہلے آپ جلسہ میں شامل نہ بھی ہو سکیں پھر بھی جلسہ کا ذکر، جلسہ کی روئیداد کسی نہ کسی طرح آپ کے کانوں تک پہنچ ہی جاتی تھی۔ اس طرح جلسہ کے ساتھ ایک قلبی تعلق زندگی کے سفرکے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے۔ مَیں نے بھی 8 سال کی عمر میں اپنے والد صاحب مرحوم مکرم چودھری رستم علی صاحب اور چودھری عبدالمومن کاٹھگڑھی صاحب کو ناصرآباد اسٹیٹ سے ربوہ جلسہ پر جاتے اور واپسی پر کِنّوں، مالٹے اور تبرک لاتے دیکھا۔ مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جرمنی آنے سے پہلے گیارہ جلسہ ہائے سالانہ میں شرکت کی توفیق ملی، ڈیوٹیاں بھی دیں، قادیان کے جلسہ میں بھی شرکت کی سعادت ملی۔ یہاں آئے تو دیگر ممالک سے آنے والے رسائل خصوصاً انگلستان سے آنے والے بلیٹن میں جلسہ سالانہ کا ذکر ہوتا۔ 1975ء میں پہلا جلسہ ہوا۔ 1976ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ علیہ جرمنی تشریف لائے تو اس بابرکت موقع پر احباب جمع ہوئے۔ اس لئے اس سال کا جلسہ1977ء کے جنوری میں کیا گیا اور تیسرا جلسہ دسمبر 1977ء میں منعقد ہوا۔ ان تینوں جلسہ ہائے سالانہ کی عمومی نگرانی مجھے کرنے کی توفیق ملی۔ 1978ء کاجلسہ بھی ہمبرگ میں ہوا لیکن اُس وقت مکرم لئیق احمد منیر صاحب یہاں مشنری تھے۔ 1975ء سے ہی جلسہ سالانہ پر مہمان خصوصی کو بلانے کا رواج پڑا۔ دوسرے جلسہ سالانہ پر بھی ڈنمارک سے Mr. Kamal Ahmad Krogh کو بلایا اور تیسرے جلسہ پر میں نے مکرم نور احمد بولستاد صاحب (ناروے) کو بحیثیت مہمان مقرر جلسہ پر مدعو کیا۔ اخبار احمدیہ کا باقاعدہ اجراء بھی 1977ء کے جلسہ سے ہوا جس میں جلسہ کی تفصیلات شائع کی گئیں۔ جہاں تک انتظامی ڈھانچہ کا تعلق ہے ضیافت کا شعبہ تو پہلے جلسہ سے ہی کام کر رہا تھا۔ البتہ جلسہ سالانہ کے انداز پر 1976ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی آمد کے موقع پر ڈیوٹیاں لگائی گئیں اور ڈیوٹی چارٹ بھی تیار کیا گیا۔ حضور نے جب انتظامی امور کے بارے میں دریافت فرمایا تو وہی چارٹ پیش کر دیا گیا۔ لوگوں کی رہائش گھروں کے علاوہ Pension میں کی گئی۔

اس پہلے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والے ہمبرگ میں موجود بعض احباب کے ساتھ گفتگو کرنے کے لئے مکرم سیّد افتخار احمدصاحب رُکن مجلس ادارت مؤرخہ 29 جون 2024ء کو مسجد فضل عمر ہمبرگ پہنچے جہاں احباب کے ساتھ ایک مختصر سی نشست کی اور جلسہ کے بارہ میں ان سے باری باری گفتگو ہوئی اور ان کی یادیں ریکارڈ کی گئیں۔ اس گفتگو کے دوران احباب ایک دوسرے کو جلسہ کے دوران ہونے والے مختلف واقعات یاد کراتے رہے جس سے بہت سی معلومات جمع ہو گئیں، الحمدللہ۔

سب سے پہلے مکرم ممتاز احمد بٹ صاحب نے بتایا کہ وہ نومبر1975ء میں جرمنی آئے اور اگلے ہی مہینہ جلسہ ہوا۔ اس موقع پر ان کی ڈیوٹی رجسٹریشن پر لگائی گئی تھی اور انہوں نے ہی تمام شاملین جلسہ کی فہرست تیار کی تھی جو اس وقت ہمارے ریکارڈ میں محفوظ ہے۔ اس فہرست کے آخر پر ان کے دستخط بھی موجود ہیں۔ قریباً 63 احباب کی اس فہرست کے علاوہ بھی بعض احباب جلسہ میں شامل ہوئے تھے جن کی نشاندہی اس مجلس میں موجود احباب نے کی لیکن ان کے نام کسی وجہ سے لکھنے سے رہ گئے تھے۔

مکرم بٹ صاحب نے بتایا کہ جلسہ کی انہیں بہت خوشی ہوئی تھی اور یہ تھوڑے سے احباب بھی بہت زیادہ لگتے تھے کیونکہ یہاں کبھی اتنا بڑا اجتماع ہوا ہی نہیں تھا۔ اور یہ تو وہم و گمان بھی نہ تھا کہ یہ جلسہ کبھی اتنا بڑا بھی ہوجائے گا کہ ہزاروں کی تعداد میں احباب جمع ہوں گے۔

مکرم خواجہ حمید احمد صاحب نے بتایا کہ انہیں اس جلسہ کی کوئی بات یاد نہیں ہے سوائے اس کے کہ کھانا مکرم خورشید احمد صاحب کی Ente گاڑی میں آیا تھا جسے وہ خود چلا رہے تھے۔

مکرم خواجہ عبدالجلیل بٹ صاحب نے بتایا کہ وہ نومبر1974ء میں جرمنی آئے تھے۔ اگلے سال 28دسمبر1975ء کو جلسہ ہوا تو اس روز خوب برف پڑی ہوئی تھی۔ مہمان خصوصی ڈنمارک سے آئے ہوئے مکرم سوین ہینسن صاحب تھے۔ باقاعدہ ڈیوٹیوں کا نظام نہیں تھا، سب مل جل کر کام کر رہے تھے، بہت اچھا دوستانہ ماحول تھا۔ کھانا ہم ایک فرم جس میں چند احمدی کام کرتے تھے میں تیار کرکے لائے تھے۔ ہم نے اپنی فرم کے مالک سے بات کی تو اس نے بخوشی ہمیں کھانا بنانے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ ہم سامان خرید کر لائے اور فرم کے کچن میں آلو گوشت اور زردہ بنایا۔ حاضری 70 کے قریب تھی اور ہم نے یہاں پہلی مرتبہ مسجد میں اتنے زیادہ لوگ دیکھےتھے جن میں بہت جوش خروش تھا۔ اس ایک روزہ جلسہ میں چند تقاریر ہوئی تھی جبکہ بعد کے جلسوں پر کھیلیں بھی ہوتی رہیں۔

مکرم نصیرالدین بٹ صاحب نے بتایا کہ وہ مکرم عبدالجلیل بٹ صاحب کے ساتھ ساتھ ہی تھے۔

مکرم حبیب احمد عمر صاحب نے بتایا کہ وہ اس تاریخی جلسہ میں شامل ضرور تھے مگر یادداشت میں بس یہی محفوظ ہے کہ مکرم مولانا فضل الٰہی انوری صاحب آئے تھے، مکرم حیدر علی ظفرصاحب انتظامات کر رہے تھے اور سب میں غیر معمولی جوش و خروش اور خوشی تھی۔ پاکستان سے آنے کے بعد پہلی مشق تھی، مختصر سے وقت میں اس جلسہ کی منصوبہ بندی ہوئی تھی۔ کوئی خاص ڈیوٹی میرے ذمہ نہ تھی۔ پاکستان کا بڑا جلسہ ذہن میں تھا اور اس کے مقابلہ پر یہ کچھ بھی نہ تھا لیکن یہ احساس ضرور تھا کہ یہاں بھی جلسہ کی طرز پر کچھ ہونا چاہیئے تاہم یہ کبھی سوچا نہ تھا کہ ایک دن یہ اتنا بڑا جلسہ بن جائے گا۔ اس جلسہ سے ایک دوسرے سے ملنے کا جذبہ پیدا ہوا، ہر ایک میں اخلاص تھا، محبّت و اپنائیت تھی۔ اس جلسہ میں چھوٹی چھوٹی تقریریں ہوئی تھیں۔ کھاناکھانے کا انتظام مسجد کے پچھلے حصّے میں ہی کیا گیا تھا۔ کھانا بہت اچھا بنایا گیا تھا۔ غرضیکہ بہت یادگار جلسہ تھا۔

مکرم بہادر خان کھوکھر صاحب نے بتایا کہ میں کولون کے قریبی علاقہ ڈورماگن میں رہتا تھا اور وہاں سے جلسہ میں شامل ہونے کے لئے ہمبرگ آیا تھا۔ میری ڈیوٹی رپورٹنگ پر لگائی گئی تھی۔ اسی طرح جلسہ کے دوران اعلانات بھی میں ہی کرتا تھا۔ خاص طور پر ربوہ کے شعبہ استقبال کی طرز پر جلسہ کے لئے تشریف لانے والے مہمانوں کو بار بار خوش آمدید کہتا۔ جلسہ کی کارروائی کے بارہ میں انہوں نے بتایا کہ ایک اجلاس میں تلاوت قرآن کریم مکرم ملک شریف احمد صاحب مرحوم نے کی تھی۔ نظم مکرم مبشر چیمہ صاحب مرحوم نے پڑھی اور تقاریر مکرم انوری صاحب، مکرم حیدر علی ظفر صاحب اور مکرم ہینسن صاحب نے کی تھیں۔ رہائش کا انتظام مسجد میں ہی تھا تاہم جن کے رشتہ دار یہاں رہتے تھے وہ ان کے گھروں میں چلے گئے تھے۔ اس بات کی بہت خوشی تھی کہ جلسہ میں اتنے لوگ شامل ہو رہے ہیں۔

مکرم فضل الرحمٰن انور صاحب فضلی نے بتایا کہ انہیں جلسہ کی کارروائی کے بارے میں تو یاد نہیں تاہم یہ ضرور یاد ہے کہ ہم نے کئی دن پہلے سے اس جلسہ کی تیاری شروع کر دی تھی اور ہر روز مسجد آکروقارِعمل کرتے۔ اسی دوران کھانے کا سوال سامنے آیا تو کسی نے مشورہ دیا کہ مسجد میں ہی تیار کرنا چاہیئے۔ اس کے لئے دیگچہ اور چولہے کی ضرورت تھی جو ہمارے پاس نہ تھا۔ ایک صاحب کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ اس کی قیمت پتا کرکے آئے، اس نے پتا کرکے جو قیمت بتائی وہ ہمبرگ مشن کے بجٹ سے کہیں زیادہ تھی، اس لئے یہ خیال ترک کر دیا گیا۔ اسی دوران اس فرم سے کھانا پکوانے کا خیال آیا جس میں ہمارے کئی احمدی دوست کام کرتے تھے۔ انہوں نے فرم کے مالک سے پوچھا تو اس نے بخوشی اجازت دے دی۔ اس فرم کا نام KATZ تھا اور اس کا مالک Herr Mannfred Heidorn تھا۔ فجزاہ اللہ۔

موصوف نے مزید بتایا کہ جب اس فرم سے کھانا آرہا تھا تو مسجد کے قریب پہنچ کر کھانا لانے والی گاڑی کو ایک حادثہ پیش آگیا، کسی دوسری گاڑی نے ٹکر مار دی جس سے اس کا ایک پہیہ نکل گیا۔ اس موقع پر مکرم خواجہ حمید احمد صاحب وہیں کہیں تھے اور انہوں نے یہ منظر خود دیکھا۔ بہرحال اس حادثہ کی خبر مسجد آکر کسی نے دی تو ہر ایک کو تشویش ہونا ایک طبعی امر تھا۔ اس موقع پر مَیں نے دیکھا کہ فوری طور پر مکرم مولانا حیدر علی صاحب ظفر نے دفتر کا دروازہ بند کرکے جائے نماز بچھا لیا اور نفل شروع کر دئیے، چند منٹ میں اطلاع آئی کہ گاڑی کا زیادہ نقصان نہیں ہوا اور کھانا بھی ضائع ہونے سے محفوظ رہا ہے اور مسجد میں بھی پہنچ گیا تو سب نے سکون کا سانس لیا۔

موصوف نے بتایا کہ ہمسایوں کی طرف سے کسی قسم کا کوئی منفی ردِّعمل نہ ہوا تھا۔ بلکہ اس زمانہ میں کسی کو کسی سے کوئی سروکار ہی نہ ہوتا تھا۔ جس کی وجہ سے ہمیں کبھی کوئی تنگی یا مشکل ہمسایوں کی طرف سے نہ ہوئی، الحمدللہ۔

ان دوستوں کے علاوہ اگر کوئی مزید احباب جرمنی کے اس پہلے جلسہ سالانہ میں شامل ہوئے ہوں تو ان سے درخواست ہے کہ اپنی یادداشتیں لکھ کر اخبار احمدیہ جرمنی کو بھجوائیں، جزاک اللہ۔

(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ اگست 2024ء صفحہ 27)

متعلقہ مضمون

  • پروگرام 48 واں جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ جرمنی 2024ء

  • جلسہ سالانہ کا ایک مقصد ’’زہد‘‘ اختیار کرنا ہے

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • ہدایات برائے جلسہ سالانہ جرمنی 2024ء