حضرت مسیح موعود کا مخالفین سے حسن سلوک

آنحضرتﷺ کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَمَا اَرْسَلْنَاکَ اِلَّا رَحْمَۃً للعَالَمِینَ۔ یعنی اے محمدﷺ ہم نے تجھے تمام جہانوں کے لئے رحمت ہی رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ آپ کی رحمت و شفقت کے نظارے ساری دنیا نے خود ملاحظہ کئے۔اہل طائف کے مظالم ہوں یا اہل مکہ کے، ابوسفیان کی دشمنی ہو یا ھند بنت عتبہ کی شقاوت قلبی، ہمارے پیارے نبی اکرمﷺ نے ہر دشمن کو بدلہ لینے کی بجائے کمال رحمت کا سلوک کرتے ہوئے معاف فرما دیا۔

ِلیا ظلم کا عَفو سے انتقام

علیک الصلٰوۃ علیک السلام

اسی طرح آپ کے بروز کامل حضرت مسیح موعودؑ کو بھی اللہ تعالیٰ نے اسی رحمت و شفقت کی تعلیم بذریعہ الہام دی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخاطب کرکے فرمایا تَلَطَّفْ بِالنَّاسِ وَ تَرَحَّمْ عَلَیْھِمْ یعنی تو لوگوں کے ساتھ رحم اور لطف کے ساتھ پیش آ۔ نیز فرمایا یَا اَحْمَد فَاضَتِ الرَّحْمَۃُ عَلٰی شَفَتَیْک۔ اے احمد تیرے لبوں پر رحمت جاری کی گئی ہے۔ ان رحمت کے نظاروں کی ایک جھلک حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ کی قلم سے درج ذیل ہے۔

شوکت میرٹھی کے متعلق

میرٹھ سے احمد حسین شوکت نے ایک اخبار شحنہ ہند جاری کیا ہوا تھا۔ یہ شخص اپنے آپ کو مجدّد السنہ مشرقیہ کہا کرتا تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ کی مخالفت میں اس نے اپنے اخبار کا ایک ضمیمہ جاری کیا۔ جس میں ہر قسم کے گندے مضامین مخالفت میں شائع کرتا۔ اور اس طرح پر جماعت کی دل آزاری کرتا۔ میرٹھ کی جماعت کو خصوصیت سے تکلیف ہوتی کیونکہ وہاں ہی سے وہ گندہ پرچہ نکلتا تھا۔ 2 ؍اکتوبر 1902ء کا واقعہ ہے کہ میرٹھ کی جماعت کے پریذیڈنٹ جناب شیخ عبدالرشید صاحب جو ایک معزز زمیندار اورتاجر ہیں تشریف فرما تھے۔ حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کیا کہ میں نے ارادہ کیا ہے کہ ضمیمہ شحنہ ہند کے توہین آمیز مضامین پر عدالت میں نالش کر دوں۔ حضرت حجۃاللہ نے فرمایا:

’’ہمارے لئے خدا کی عدالت کافی ہے۔ یہ گناہ میں داخل ہوگا اگر ہم خدا کی تجویز پر تقدم کریں۔ اس لئے ضروری ہے کہ صبر اور برداشت سے کام لیں‘‘۔

جو لوگ اس گندہ لٹریچر سے واقف نہیں وہ اس فیصلہ کی اہمیت سمجھ نہیں سکتے۔ مگر جنہوں نے اس کو دیکھا ہے وہ یقیناً کہہ سکتے ہیں کہ اگر اس شخص سے عدالت کے ذریعہ انتقام لیا جاتا تو عقلاً، عرفاً، اخلاقاً جائز ہوتا مگر حضرت مسیح موعود نے ہرگز پسند نہ فرمایا۔

یہ پہلا ہی موقع نہ تھا کہ حضرت اقدس نے اپنے دشمن کو اس طرح پر معاف کر دیا بلکہ اسی قسم کا ایک واقعہ اس سے پہلے بھی گزرا۔

میرا مقدمہ آسمان پر دائر ہے

ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک جو امرتسر کے میڈیکل مشن کے مشنری تھے اور مباحثہ آتھم میں عیسائیوں کی جانب سے پریذیڈنٹ تھے ایک دن خود بھی مناظر رہے۔ انہوں نے 1897ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف ایک مقدمہ اقدام قتل کا دائر کیا۔ یہ مقدمہ کچھ عرصہ تک چلتا رہا اور بالآخر محض جھوٹا اور بناوٹی پایا گیا اور حضرت اقدس عزت کے ساتھ اس مقدمہ میں بری ہوئے۔ مَیں جو اس مقدمہ کو شائع کرنے والا ہوں اور ایک عینی شاہد ہوں اس وقت عدالت میں موجود تھا جب کپتان ڈگلس ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور نے حضرت اقدس کو مخاطب کرکے کہا کہ

’’کیا آپ چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر کلارک پر مقدمہ چلائیں اگر آپ چاہتے ہیں تو آپ کو حق ہے ‘‘۔

حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا: ’’ مَیں کوئی مقدمہ کرنا نہیں چاہتا۔ میرا مقدمہ آسمان پر دائر ہے‘‘۔

اس موقع پر اگر کوئی دوسرا آدمی ہوتا جس پر قتل کے اقدام کا مقدّمہ ہو وہ اپنے دشمن سے ہرممکن انتقام لینے کی کوشش کرتا۔ مگر حضرت مسیح موعود نے اپنے دشمنوں کو معاف کرو کی تعلیم پر صحیح عمل کرکے دکھایا۔ ایک وقت تھا کہ مارٹن کلارک نے مباحثہ امرتسر میں حضرت اقدس کو اور آپ کی جماعت موجودہ کو چائے کی دعوت دی مگر آپ نے غیرت اسلامی کی بناء پر اس دعوت کو مسترد کیا کہ یہ شخص نبی کریمﷺ کو توگالیاں دیتا ہے اور آپ کی تکذیب پر زور دیتا اور مسلمانوں کو برگشتہ کرنے کے لئے پورا زور لگاتا ہے اور مجھے دعوت دیتا ہے۔ میری غیرت اس کوقبول نہیں کرسکتی کہ میں آنحضرتﷺ کے دشمن کے ہاں چائے پیئوں۔ اس حیثیت کا دشمن ہو اور پھر ذاتی طور پر اس نے حضرت مسیح موعودؑ کو خطرناک سازش کا نشانہ بنانا چاہا ہو۔ اس میں وہ بَری ہو کر اپنے اورنبی کریمؐ کے دشمن سے جائز طور پر انتقام لے سکتے تھے مگر آپ نے ایک منٹ کے لئے بھی اس کو گوارا نہ فرمایا اور کوئی مقدّمہ کرنا نہ چاہا۔ یہ عفو اور درگزر اگر ایسی حالت میں ہوتا کہ آپ کو قدرت نہ ہوتی تو اس کی کچھ قدر و قیمت نہ ہوتی لیکن یہ ایسے موقع پر آپ نے دکھایا کہ آپ کو حق تھا اور قانونی طور پر آپ سزا دلاسکتے تھے مگر آپ نے پسند نہ فرمایا اور معاف کر دیا۔…

مولوی محمد حسین بٹالوی پر احسان

اِسی مقدمہ ڈاکٹر کلارک میں مولوی محمد حسین بٹالوی ایک گواہ کی حیثیت سے حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف پیش ہوئے۔ مولوی محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃالسنہ بٹالہ کے رہنے والے تھے۔ ابتداء میں انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کی پہلی تصنیف براہین احمدیہ پر ایک زبردست ریویو لکھا اور حضرت کا اکرام و احترام بہت کرتے تھے۔ مگر بعد میں کسی مخفی شامتِ اعمال کی وجہ سے وہ مخالف ہوئے اور خطرناک مخالفت کا رنگ انہوں نے اختیار کیا۔ یہ مقام ان کی مخالفت کی نوعیت اور اس بارہ میں اس کی تفاصیل اور تذکرہ کا نہیں۔ وہ اتنا تلخ دشمن تھا کہ کفر و قتل کے فتوے اسی نے شائع کرائے اور بالآخر  وہ اس مقدمہ اقدامِ قتل میں عیسائیوں کا گواہ ہو کر آیا۔ اور وہ یہ ثابت کرنے کے لئے آیا تھا کہ فی الحقیقت جو الزام لگایا گیا ہے وہ گویا (نعوذباللہ) درست ہے۔ عدالت میں اس کے ساتھ کیا گزرا اور اس کی کس طرح پر کرکری ہوئی میں اسے بھی چھوڑ دیتا ہوں کہ یہ حصہ مخصوص ہے اس کی سیرت و سوانح کے اس باب سے جو آپ کے دشمنوں کے انجام کے متعلق ہے۔

غرض اس مقدّمہ میں مولوی محمد حسین صاحب کی یہ پوزیشن تھی کہ وہ حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف گواہ تھا روزانہ عدالتوں میں دیکھا جاتا ہے کہ ہر ایک فریق اپنے مخالف گواہوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے۔ ان کی عزت و وقار پر واقعات حقہ سے قطع نظر ایسے حملے ہوتے ہیں کہ وہ عاجز ہوجاتے ہیں۔ مولوی محمد حسین صاحب جب حضرت کے خلاف دل کھول کر گواہی دے چکے تو حضرت مسیح موعود کو اُن پر جرح کا موقع دیا گیا۔ حضرت کی طرف سے مولوی فضل الدین پلیڈر لاہور وکیل تھے جو اس سلسلہ میں داخل نہیں ہیں انہوں نے مولوی محمد حسین صاحب پر کچھ ایسے سوالات کرنے چاہے جو ان کی عزت و آبرو کو خاک میں ملادیتے۔ اُس نے حضرت مسیح موعودؑ سے کہا کہ میں یہ سوال کرنا چاہتا ہوں مگر حضرت صاحب نے ان کو روک دیا اور باصرار اور بزور روکا۔ مولوی فضل الدین صاحب اپنے فرض منصبی کو دیانت داری سے ادا کرنے کے لئے اور اپنے مؤکل کی صفائی اور بےگناہی ثابت کرنے کے لئے ایسے تلخ دشمن اور معاند گواہ کو اصلی صورت میں دکھا دینا چاہتے تھے اور اگر وہ سوالات ہو جاتے تو خدا جانے مولوی محمد حسین صاحب اس مقام پر کھڑے رہ سکتے یا گر جاتے۔ مگر حضرت نے قطعاً اجازت نہ دی بلکہ ایک بار ان کو کسی قدر سختی سے روک دیا کہ میں ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ یہ ایسی بات ہے کہ اس کے اپنے اختیار سے باہر ہے اور میں اس کی عزت کو برباد نہیں کرنا چاہتا۔ آخر مولوی فضل الدین صاحب بھی رُک گئے۔

مولوی فضل الدین صاحب احمدی نہیں مگر اس بلند ہمتی نے انہیں ہمیشہ آپ کا مداح رکھا ہے۔ خیا ل کرو کہ مولوی محمدحسین تو جان تک کا دشمن ہے اور آپ کو ایک قاتل ثابت کرنا چاہتا ہے اور آپ کی یہ شان رحم و درگزر ہے کہ ایک امر واقعہ کے متعلق اپنے وکیل کو اجازت نہیں دیتے کہ اس سے پوچھا جائے محض اس لئے کہ وہ ذلیل نہ کیا جاوے۔

اپنے عم زاد بھائیوں کو معاف کر دیا

حضرت مسیح موعودؑ کے چچازاد بھائیوں میں سے مرزا امام الدین کو حضرت صاحب اور سلسلہ کے ساتھ عداوت اور عناد تھا۔ اور وہ کوئی دقیقہ تکلیف دہی کا اٹھا نہ رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ اُس نے اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ مل کر اس راستہ کو جو بازار اور مسجد مبارک کا تھا ایک دیوار کے ذریعہ بند کردیا۔ دیوار ہماری آنکھوں کے سامنے بن رہی تھی اور ہم کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ اس کی یہ وجہ نہ تھی کہ ہم کچھ نہ کرسکتے تھے بلکہ حضرت مسیح موعود کی تعلیم تھی کہ شر کا مقابلہ شر سے نہ کرو۔ ورنہ اگرچہ جماعت اس وقت بہت ہی قلیل تھی اور قادیان میں بہت ہی تھوڑے آدمی تھے لیکن اگر اجازت ہوتی تو وہ دیوار ہرگز نہ بن سکتی۔ چنانچہ ایک دوسرے موقعہ پر جب حضرت مسیح موعود کی اجازت سے حضرت کی ذاتی زمین پر ایک مکان بنانے کا ارادہ کیا گیا اور فریق مخالف نے روکنے کا ارادہ کیا تھا تو ایک ہی دن میں وہ پورا مکان بن گیا تھا۔

وہ ایام عجیب ایام تھے۔ ابتلاؤں پر ابتلا آتے تھے اور جماعت ان ابتلاؤں کے اندر ایک لذیذ ایمان کے ساتھ اپنی ترقی کی منزلیں طے کرتی تھی۔ غرض وہ دیوار چن دی گئی اور اس طرح ہم سب کے سب پانچ وقت کی نمازوں کے لئے مسجد مبارک میں جانے سے روک دیئے گئے۔ اور مسجد مبارک کے لئے حضرت صاحب کے مکانات کا ایک چکر کاٹ کر آنا پڑتا تھا۔ یعنی اس کوچہ میں سے گزرنا پڑتا تھا جو حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اوّلکے مکان کے آگے سے جاتا ہے اور پھر منوّر بلڈنگ کے پاس سے بازار کی طرف کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے مکان کی طرف کو چلا جاتا ہے۔ جماعت میں بعض کمزور اور ضعیف العمر انسان بھی تھے۔ بعض نابینا تھے اور بارشوں کے دن تھے۔ راستہ میں کیچڑ ہوتا تھا اور بعض بھائی اپنے مولیٰ حقیقی کے حضور نماز کے لئے جاتے ہوئے گر پڑتے تھے۔ اور ان کے کپڑے گارے کیچڑ میں لَت پَت ہو جاتے تھے۔ ان تکلیفوں کا تصوّر بھی آج مشکل ہے جبکہ احمدیہ چوک میں پکے فرش پر سے احباب گزرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ اپنے خدام کی ان تکالیف کو دیکھ کر بہت تکلیف محسوس کرتے تھے۔ مگر کچھ چارہ سوائے اس کے نہ تھا کہ حضرت رَبُّ الْعِزَّت کے سامنے گڑگڑائیں۔

غرض وہ دیوار ہوگئی۔ راستہ بند ہو گیا۔ اور پانی تک بند کر دیا گیا۔ آخر مجبوراً عدالت میں جانا پڑا اور عدالت کے فیصلہ کے موافق خود دیوار بنانے والوں کو اپنے ہی ہاتھ سے دیوار ڈھانی پڑی جو بجائے خود ایک نشان تھا اور اس کی تفصیل انہیں دنوں میں الحکم میں چھپ چکی ہے۔

(الحکم 24؍ اگست 1901ء)

عدالت نے نہ صرف دیوار گرانے کا حکم دیا بلکہ حرجانہ اورخرچہ کی ڈگری بھی فریق ثانی پر کردی۔

ناظرین خیال کریں گے کہ جس فریق نے آپ کو اور آپ کی جماعت کو اس قدر تکلیف دی ہو کہ ان کی آمد و رَفت کا راستہ محض ایذا دہی کے لئے بند کردیا ہو اور پانی بند کرکے کربلا کا نمونہ دکھایا ہو کیا وہ فریق اس قابل تھا کہ اس کے ساتھ کوئی سلوک کیا جاتا؟

اس جرم کی پاداش میں جو سلوک بھی ان سے کیا جاتا وہ عقل اور انصاف و اخلاق کے معیار پر بالکل جائز اور درست ہوتا مگر اخلاق اور اعلیٰ اخلاق کے معلّم کی زندگی کے آئینہ میں دیکھو کہ وہ ان دشمنوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے۔

حضرت اقدس نے کبھی اس خرچہ اور حرجہ کی ڈگری کا اجرا پسند نہ فرمایا۔ یہاں تک کہ اس کی میعاد گزرنے کو آگئی۔ جب گورداسپور میں مقدمات کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا تو خواجہ کمال الدین صاحب نے محض اس خیال سے کہ اس کی میعاد نہ گزر جائے اس کے اجرا کی کارروائی کی۔ اور اس میں حسبِ ضابطہ نوٹس مرزا نظام الدین صاحب کے نام جاری ہوا کہ اس وقت فریق ثانی میں سے وہی زندہ تھے۔ مرزا امام الدین فوت ہوچکے تھے۔ حضرت مسیح موعود کواس واقعہ کی کچھ خبر نہ تھی۔ مرزا نظام الدین صاحب کو جب نوٹس ملا تو انہوں نے حضرت مسیح موعود کو ایک خط لکھا۔ میں اس وقت قادیان میں موجود تھا۔ مرزا نظام الدین صاحب نے مجھ کو وہ خط سنایا۔ اس کا مضمون یہ تھا کہ دیوار کے مقدمہ کے خرچہ وغیرہ کی ڈگری کے اجرا کا نوٹس میرے نام آیا ہے اور میری حالت آپ کو معلوم ہے۔ اگرچہ میں قانونی طور پر اس روپیہ کے ادا کرنے کا پابند ہوں اور آپ کو بھی حق ہے کہ آپ ہر طرح وصول کریں۔ مجھ کو یہ بھی معلوم ہے کہ ہماری طرف سے ہمیشہ کوئی نہ کوئی تکلیف آپ کو پہنچتی رہی ہے۔ مگر یہ بھائی صاحب کی وجہ سے ہوتا تھا۔ مجھ کو بھی شریک ہونا پڑتا تھا۔ آپ رحم کرکے معاف فرما دیں تو آپ اس قابل ہیں وغیرہ وغیرہ۔

یہ اُس خط کا مفہوم تھا اور یہ بھی چاہا گیا تھا کہ اگر معاف نہ کریں تو باقساط وصول کر لیں۔

حضرت اقدس اس وقت گورداسپور میں مقیم تھے اور یہ بھی بارشوں کے ایام تھے۔ حضرت اقدسؑ کے پاس جس وقت خط پہنچا آپ نے سخت رنج کا اظہار کیا کہ کیوں اجرا کرائی گئی ہے۔ مجھ سے کیوں دریافت نہیں کیا گیا۔ اس وقت خواجہ صاحب نے عذر کیا کہ ’’محض میعاد کو محفوظ کرنے کے لئے ایسا کیا گیا وَ اِلَّا اجرا مقصود نہ تھا ‘‘۔

حضرت اقدسؑ نے اس عذر کو بھی پسند نہ فرمایا اور فرمایا کہ ’’آئندہ کبھی اس ڈگری کو اجرا نہ کرایا جاوے۔ ہم کو دنیا داروں کی طرح مقدمہ بازی اور تکلیف دہی سے کچھ کام نہیں۔ انہوں نے اگر تکلیف دینے کے لئے یہ کام کیا تو ہمارا یہ کام نہیں ہے۔ خدا نے مجھے اس غرض کے لئے دنیا میں نہیں بھیجا‘‘۔

اور اُسی وقت ایک مکتوب مرزا نظام الدین صاحب کے نام لکھا اور مولوی یار محمد صاحب کو دیا کہ وہ جہاں ہوں ان کو جا کر فوراً پہنچائیں۔ چنانچہ مولوی یار محمد صاحب اسے لے کر قادیان پہنچے اور قادیان میں انہیں نہ پاکر اور یہ معلوم کرکے کہ مرزا نظام الدین صاحب موضع مسانیاں گئے ہوئے ہیں، مسانیاں پہنچے۔ اور وہاں جا کر وہ خط ان کو دیا گیا جس میں نہایت ہمدردی کا اظہار تھا اور ان کو اس ڈگری کے کبھی اجرا نہ کرنے کے متعلق یقین دلایا گیا تھا اور سب کچھ معاف کردیا تھا۔

مرزا نظام الدین صاحب پر اس خط کا جو اثر ہوا وہ ان کی زندگی کے باقی ایام سے ظاہر ہوتا تھاکہ انہوں نے عملاً مخالفت کو ترک کر دیا تھا۔

مَیں نے نہایت سادہ الفاظ میں واقعات کو لکھ دیا ہے اس سے حضرت مسیح موعود کے عفو و درگزر کی جو نمایاں مثال نظر آتی ہے مجھ کو ضرورت نہیں کہ اسے رنگ آمیزی سے پیش کروں۔

یہ ہے عفو و درگذر کا نمونہ اور دشمنوں کو معاف کرنے کی تعلیم کا عملی سبق جو حضرت مسیح موعود نے اپنی جماعت کو دیا۔

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ صفحہ 108تا119)

کیا خوب فرمایا ہے ؎

گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو

رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے

آپ نے نہ صرف خود اس رحمت کے نظارے دنیا کو دکھائے بلکہ اپنے ماننے والوں کو بھی یہی تعلیم دی۔

گالیاں سن کے دعا دو پا کے دکھ آرام دو

کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار

(سیّد افتخار احمد)

(اخبار احمدیہ جرمنی، شمارہ مارچ 2024ء صفحہ 29)

متعلقہ مضمون

  • سیرت حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ

  • حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی عید

  • سیرت حضرت عثمان

  • جلسہ ہائے سیرت النبیﷺ