غیر کیا جانے کہ دلبر سے ہمیں کیا جوڑ ہے

وہ ہمارا ہو گیا اُس کے ہوئے ہم جاں نِثار

ہر قدم میں میرے مولیٰ نے دیئے مجھ کو نشاں

ہر عدو پر حجّتِ حق کی پڑی ہے ذوالفقار

نعمتیں وُہ دیں مرے مولیٰ نے اپنے فضل سے

جن سے ہیں معنیٔ اَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ آشکار

ہے غضب کہتے ہیں اب وحیِ خدا مفقود ہے

اب قیامت تک ہے اس اُمت کا قصّوں پر مدار

وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم

اب بھی اُس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار

گوہرِ وحیِ خدا کیوں توڑتا ہے ہوش کر

اِک یہی دیں کے لیے ہے جائے عِزّ و افتخار

یہ وہ ہے مفتاح جس سے آسماں کے دَر کھلیں

یہ وہ آئینہ ہے جس سے دیکھ لیں رُوئے نگار

ہے یہی وحیِ خدا عرفانِ مولیٰ کا نشان

جس کو یہ کامل ملے اُس کو ملے وہ دوستدار

دیکھتا ہوں اپنے دِل کو عرشِ ربّ العالمیں

قرب اتنا بڑھ گیا جس سے ہے اُترا مجھ میں یار

(انتخاب از درِثمین، ’’محاسنِ قرآن کریم‘‘)

(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ مئی 2024ء صفحہ 6)

متعلقہ مضمون

  • تیرے کرم نے پیارے یہ مہرباں بُلائے

  • کیا عجب تو نے ہر اک ذرّہ میں رکھے ہیں خواص

  • تیرے بن دیکھا نہیں کوئی بھی یارِ غمگسار

  • یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی