تری راہوں میں کیا کیا اِبتلا روزانہ آتا ہے
وفا کا امتحاں لینا تجھے کیا کیا نہ آتا ہے
احد اور مکہ اور طائف انہی راہوں پہ ملتے ہیں
انہی پر شعب بو طالب بے آب و دانہ آتا ہے
کنارِ آبِ جو تشنہ لبوں کی آزمائش کو
کہیں کرب و بلا کا اِک کڑا ویرانہ آتا ہے
جہاں اہل جفا، اہل وفا پر وار کرتے ہیں
سر ِدار اُن کو ہر منصور کو لٹکانا آتا ہے
جہاں شیطان مومن پر رمی کرتے ہیں وہ راہیں
جہاں پتھر سے مردِ حق کو سر ٹکرانا آتا ہے
یہ کیا انداز ہیں کیسے چلن ہیں کیسی رسمیں ہیں
انہیں تو ہر طریقِ نامسلمانانہ آتا ہے
بگولے بن کے اُڑ جانا روش غولِ بیاباں کی
ہمیں آب بقا پی کر اَمر ہو جانا آتا ہے
ہماری خاکِ پا کو بھی عدو کیا خاک پائے گا
ہمیں رُکنا نہیں آتا اُسے چلنا نہ آتا ہے
اسے رُک رُک کے بھی تسکین ِجسم و جاں نہیں ملتی
ہمیں مثلِ صبا چلتے ہوئے سستانا آتا ہے
عجب مستی ہے یاد یار مے بن کر برستی ہے
سرائے دل میں ہر محبوب دل رندانہ آتا ہے

(انتخاب از کلام طاہرؔ صفحہ 49-52)

متعلقہ مضمون

  • آئے وہ دن کہ ہم جن کی چاہت میں

  • طائر کے بعد اُس کانشیمن اُداس ہے

  • وقت کم ہے، بہت ہیں کام، چلو

  • تم چلے آئے مَیں نے جو آواز دی