مضمون: مکرم ڈاکٹر شکیل احمد شاہد صاحب، پی ایچ ڈی

اس ميں کوئي شبہ نہيں کہ ميڈيکل سائنس نے موجودہ انسان کے معيار زندگي اور اس کي اوسط عمر کو گزشتہ زمانوں کي نسبت بہت بڑھا ديا ہے۔ مگر اس ميں بھي کوئي دو رائے نہيں کہ دورِ حاضر ميں نت نئي امراض اور سينکڑوں اقسام کے کينسر بھي اِنساني زندگي کا حصہ بن چکے ہيں۔ اس مضمون ميں ہم چند ايک عوامل کو تحرير کريں گے جن کے ان امراض کے بڑھنے ميں غالب امکان کو رَدّ نہيں کيا جاسکتا۔

دور حاضر کے لذيذ کھانے

کھانوں اور پکوانوں کے بنانے کي نئي سے نئي اقسام اور تراکيب ايجاد ہوگئي ہيں۔ ريستورانوں کے درميان گاہگوں کي تعداد ميں اضافہ کے لئے اپنے کھانوں کو منفرد بنانے کي دوڑ لگي ہوئي ہے۔ چنانچہ فاسٹ فوڈ اور دوسرے انتہائي درجہ حرارت پر تيار ہونے والے کھانے کي تياري کے دوران کئي کيميائي مادے اس کھانے کا حصہ بن جاتے ہيں جو انساني صحت کے لئے مضر ہيں۔ صرف ايک مثال ليتے ہيں۔ آج سے چند دہائياں پہلے شايد ہي کسي دکان پر بنے بنائے مصالحہ ملتے ہوں، ليکن آج ہمارے کھانوں کي تياري کے لئے کمپنيز نے طرح طرح کے تيار شدہ مصالحے متعارف کروا دئيے ہيں اور ان کي اخبارات و رسائل کے علاوہ ٹيليويژن پر بڑي ہي پر کشش تشہير کي جاتي ہے۔ ان مصالحہ جات ميں جہاں انہيں لذّت اور خوشبو دينےکے لئے کيميائي اجزا شامل کرنے پڑے وہاں پودوں پر چھڑکي جانے والي کيڑے مار ادويات کي باقيات بھي ان کا حصہ بن گئيں۔ چنانچہ يہ کيميائي مادے ايسے زہر کي طرح کام کرتے ہيں جو ايک دَم ہلاک کرنے کي بجائے رفتہ رفتہ انسان کو ہلاکت تک لے جاتے ہيں۔

مثلاً شان کے مصالحہ جات ميں کينسر پيدا کرنے والا کيميائي مادہ پايا گيا ہے۔ چنانچہ اس تحرير سے چند دن قبل جرمني کے ادارہ صحت نے ان مصالحہ جات جو تقريباً ہر پاکستاني کچن کا حصہ ہيں، کا ايک سٹاک مارکيٹ سے اٹھا ليا ہے۔ کيونکہ ان کے اندر کيڑے مار ادويات کي باقيات اور کينسر پيدا کرنے والا ايک کيميکل ethylene oxide پايا گيا ہے۔ بھلا ہو جرمني جيسے ترقي يافتہ ملک کا کہ جس کے ادارے مسلسل اس بات کي نگراني کرتے رہتے ہيں کہ ان کے ہاں مضر صحت اشيا فروخت نہ ہوں۔ حالانکہ يہ مصالحہ جات خالصتا ًپاکستاني اور ہندوستاني پکوانوں ميں استعمال ہوتے ہيں۔ ذيل ميں موجود لنک سے اس بارے ميں مزيد معلومات حاصل کي جاسکتي ہے۔

جن مصالحوں کو مارکيٹ سے اٹھا ليا گيا ہے ان کي فہرست درج ذيل ہے۔

Shan Chicken Jalfrezi

Shan Chicken Handi

Shan Curry Powder

Shan Beef Biryani

Shan Seekh Kabab

Shan Tikka

Shan Fish Biryani

Shan Garam Masala Powder

Shan Punjabi Yakhni Pilau

Shan Tikkiya Kabab Masala

Shan Vegetable Biryani

MDH Fish Curry Masala

شان کمپني کي طرف سے مورخہ 15 جون 2023ء کو جو نوٹس عوام کے لئے چھپا ہے اس کے کچھ حصہ کا اردو ترجمہ درج پيش ہے۔

‘‘خواتين و حضرات! ہمبرگ ميں ادارہ برائے حفظانِ صحت اور ماحوليات کي ايک رپورٹ کے مطابق شان برانڈ کي پروڈکٹس ميں ايتھيلن آکسائيڈ کي خاصي زيادہ مقدار پائي گئي ہے۔ براہ کرم ان مصنوعات کو فوري طور پر فروخت سے ہٹا ديں اور انہيں تلف کر ديں’’۔ اس بارے ميں مزيد معلومات درج ذيل ويب سائٹ پر موجود ہے۔

https://www.produktwarnung.eu

جرمني کے ادارہ صحت کي طرف سے بھي اسي قسم کا نوٹس مؤرخہ 11 جولائي 2023ء کو چھپ چکا ہے جس کي مزيد تفصيل درج ذيل ويب سائٹ ميں موجود ہے۔

https://www.lebensmittelwarnung.de/bvl-lmw-de/liste/alle/deutschlandweit/10/0

قيلولہ کا ختم ہوتا رواج

دوپہر کے کھانے کے بعد مختصر نيند کو قيلولہ کہتے ہيں۔ گرم ممالک ميں تو خاص طور پر لوگ دوپہر سے سہ پہر تک تپتي دھوپ کي تپش سے بچنے کي خاطر گھروں ميں آرام کرتے ہيں۔ يورپ ميں اس شدت کي گرمي تونہيں ہوتي مگر سورج سے نکلتي تيز شعاعيں بہرحال جلد پر اپنا اثر دکھاتي ہيں۔ ان تپتي دوپہروں ميں باہر کوئي جاگنگ کررہا ہےتو کوئي ساحل سمندر پر دھوپ لے رہا ہے۔ سورج کي شعاعوں ميں موجود الٹرا وائلٹ شعاعيں براہِ راست جلد کے سرطان کا باعث بنتي ہيں۔ ان شعاعوں سے بچنے کے علاوہ قيلولہ کے اور بھي بہت سےفوائد ہيں۔ مختصر نيند سے دن بھر کے تھکے دماغ کو آرام ملتا ہے اور دماغ ذہني سرگرميوں کے لئے دوبارہ سے تر و تازہ ہو جاتا ہے۔ تاہم يہ نيند قريبا آدھے گھنٹے ہي کي ہوني چاہئے۔ زيادہ سونے سے دماغ بوجھل ہوجاتا ہے۔

شکار کي ضرورت

زمانہ قديم کا انسان اپني خوراک کي ضرورت شکار سے پوري کرتا اور شکار کے لئےمسلسل کئي کئي گھنٹے تيز بھاگتا۔ شکار تھک جاتا مگر انسان نہيں۔ چنانچہ انسان کي جسماني ساخت ايسي ہے کہ جانداروں ميں سب سے زيادہ دير تک بھاگ سکتا ہے۔ شير چيتا وغير بہت تيز تو بھاگ ليتے ہيں مگر چند منٹ تک۔ مگر انسان کي بھاگنے کي مشق ايسي تھي کہ شکار کے پيچھے بھاگتے رہتے، جب شکار تھک جاتا تو اسے شکار کرليتے۔ چونکہ شکار کرنا خاصہ مشکل تھا اس لئے بعض اوقات کئي کئي دن بھوکا بھي رہنا پڑتا۔ اللہ تعاليٰ نے ان کے زندہ رہنے کے لئے جسم ميں يہ نظام رکھ ديا کہ خوراک سے حاصل ہونے والي توانائي کے ايک حصہ کو جسم ميں چربي کي شکل ميں جمع کرلے تاکہ بوقت ضرورت جسم اسي چربي سے زندہ رہنے کےلئے توانائي حاصل کرتا رہے۔ چنانچہ آج لاکھوں سال بعد بھي جسم کے جينز ميں يہ يادداشت محفوظ ہے اور کھائي ہوئي خوراک کا کچھ حصہ انساني جسم اس خوف سے کہ پتہ نہيں اگلا کھانا کب ملے، چربي کي شکل ميں محفوظ کرتارہتا ہے۔ تاہم آج انسان کے پاس اِتنا وقت ہے اور نہ ہي شکار کي وہ ضرورت۔ اگر جسم سے سخت محنت نہ لي جائے تويہ چربي اور کوليسٹرول موٹاپے کا باعث بن جاتے ہيں۔ نتيجةً جسم ميں کوليسٹرول کے اضافہ سے بيماريوں کا ايک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ بڑھتے کوليسٹرول سے موٹاپا، موٹاپے سے ذيابيطس، بلند فشار خون اور امراض قلب و جگر تک نوبت جا پہنچتي ہے۔

قارئين! دورِ حاضر ميں عمومي طور پر چونکہ خوراک وافر اور باآساني دستياب ہے، اس لئے ہم پرانے زمانے ميں رہنے والے انسان کي طرح شکار پر تو نہيں جا سکتے۔ ہاں ايک کام يہ کرسکتے ہيں کہ ہفتہ ميں کم از کم ايک مرتبہ يوں شکار پر جائيں کہ چھوٹا بيگ کمر پر باندھ کر دو اڑھائي کلوميٹر دور مارکيٹ تک بھاگتے ہوئے يا تيز چلتے ہوئے جائيں، وہاں سے ناشتہ کي تازہ اشياء خريد کر بھاگتے ہوئے ہي واپس آئيں اور اپنے اہل و عيال کے ساتھ ناشتہ کريں۔ اس مشقت سے جسم ميں موجود زائد کوليسٹرول تو ختم ہوگا ہي، ايسے ناشتہ کا بھي الگ ہي مزہ ہوگا۔

کام کي بدلتي نوعيت

صنعتي انقلاب سے قبل انسان کو بہت زيادہ جسماني مشقت کرنا پڑتي تھي۔ کسان ہو يا مزدور، ہاتھوں سے کام کرنا پڑتا۔ چنانچہ لوگوں کے خاندان بھي بڑے ہوتے، دس بارہ بچے تو عام سي بات تھي۔ زيادہ بچوں کا مطلب تھا، ايک کسان کے لئے کام بٹ جاتا۔ تاہم صنعتي انقلاب کے بعد روزگار اور کام کي نوعيت بھي بدلنا شروع ہوئي۔ سخت کام مشينوں کے سپرد ہوئے اور آہستہ آہستہ نوبت يہاں تک پہنچي کہ اب تو ہاتھ سے پيچ تک نہيں کسا جاتا، سب کام مشين کي مدد سے ہوجاتے ہيں۔

ايسے روزگار پيدا ہوگئےہيں جہاں دفاتر ميں کرسي پر ہي سارا سارا دن گزارنا پڑتاہے۔ اور اب تو نوبت ہوم آفس يعني گھر بيٹھ کر کام کرنے تک پہنچ گئي ہے۔ يعني پہلے دفتر سے گھر تک کے سفر ميں جو تھوڑي حرکت کرني پڑتي، وہ بھي جاتي رہي۔ ايسے ميں اگر انسان اپني جسماني ورزش کے لئے وقت نہ نکالے تو عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ صحت کے مسائل بڑھتے جاتے ہيں۔

ترقي يافتہ ممالک ميں لوگوں نے اس کا حل يہ نکالا ہے کہ اچھے موسم ميں کام پر بائيسکل کے ذريعہ جاتے ہيں۔ بڑے بڑے پروفيسرز، ڈاکٹرز عام سي سائيکل پر پائے جاتے ہيں۔ بدقسمتي سے پاکستاني معاشرے ميں سائيکل چلانا اب عيب شمار ہوتا جارہا ہے۔

ٹوٹتے دل

Broken Heart Syndrome

زمانہ رفتہ ميں اکثريت کي جيبيں تو خالي تھيں مگر دل ايک دوسرے کے احساس و محبّت سے بھرے ہوتے تھے۔ لوگ ايک دوسرے کے غموں اور خوشيوں ميں دل سے شريک ہوتے۔ دوستوں، عزيزوں کي موجودگي پريشانيوں کا علاج ہوا کرتي۔ انسان دوسروں کي کاميابيوں کو اپني ناکامي تصوّر نہ کرتے۔ قناعت اور شکر کا يہ حال تھا کہ بمشکل دو وقت کا کھانا ملنے پر لوگ نہ صرف دل سے شکر کرتے بلکہ کھانا سامنےآنے پر يہ دعا بھي کرتے کہ يااللہ سب کو دينا۔

پھر نيا زمانہ آيا جس ميں پيسہ کاميابيوں کا معيار ٹھہرا اور انسان کو دوڑ کے اس ميدان ميں لا کھڑا کيا کہ جس کي کوئي منزل ہي نہيں۔ دوسروں کےلئے تو الگ اپنے بچوں کے لئے وقت نکالنا بھي مشکل ہوگيا۔ آج جيبيں بھري ہوئي ہيں مگر دل اپني ذات کے سوا دوسروں کے احساس سے خالي ہوتے جا رہے ہيں۔ ٹيلي فون نے جہاں فاصلے کم کر دئے وہاں ذہني اُلجھنوں اور بيماريوں ميں بھي اضافہ کر ديا۔ ظاہر ہے جب گفتگو لمبي ہو تو پھر دوسروں کي چغلي، غيبت تک بھي نوبت پہنچ جاتي ہے جس سے حسد، احساسِ کمتري، وغيرہ پيدا ہونا عام سي بات ہے۔ غرض نئے زمانے ميں ذہني دباؤ جيسي بہت سي ذہني بيمارياں ہيں جو بالواسطہ يا بلاواسطہ ديگر جسماني بيماريوں سے جڑي ہوئي ہيں۔

دل کا ٹوٹنا تو محاورے کے طور پر استعمال ہوتا تھا، مگر آج تحقيق نے ثابت کيا ہے جب کوئي شخص کسي بڑے جذباتي واقعہ سے گزرتا ہےتو اس اچانک بڑے غم، حادثہ، شديد غصہ يا ذہني اذيت سے دل پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے، اسے دل کا ٹوٹنا يا broken heart syndrome کہتے ہيں۔ ايسے اوقات ميں ايڈرينالين ہارمون دل کے پٹھوں پر اثر انداز ہوکر اسے کمزور کرتا ہے جس سے سينے ميں درد، دل کي بےقاعدہ دھڑکن وغيرہ آثار ظاہر ہوتے ہيں۔

مثل مشہور ہے کہ ‘کمان سے نکلا تير اور منہ سے نکلے الفاظ واپس نہيں ہوتے’۔ اور کچھ الفاظ تير و تلوار سے گہرےزخم چھوڑ جاتے ہيں۔ اس لئے ‘پہلے تولو پھر بولو’ کے تحت بہت سوچ کر بات کرني چاہئےجو کسي کے دل دکھانے کا باعث نہ بنيں۔ ہمارے پيارے آقا و موليٰ حضرت محمد مصطفيٰﷺ نےمختصر ترين الفاظ ‘اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسلِمُونَ مِن لِسَانِہ وَيَدِہ۔ يعني مسلمان وہ ہے جس کي زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہيں’۔ ميں نہ صرف انساني معاشرے کے امن، باہمي احترام و محبّت کي گہري حکمت بيان فرما دي بلکہ زبان کا ہاتھ سے پہلے ذکر فرما کر سمجھا ديا کہ زبان سے دي گئي تکليف زيادہ ديرپا اور اذيت کا باعث بن جاتي ہے۔

يہاں يہ ذکر ضروري ہے کہ فون پر دوسري جانب فرد کو مطلع کئے بغير اس سے فون کا سپيکر آن کرکے بات کرنا بھي نہ صرف خيانت ہے بلکہ اس سے انسان کے لئے مشکلات اور پريشانياں بھي پيدا ہوجاتي ہيں۔ اس خيانت ميں جانے انجانے بہت سے افراد مرتکب ہورہے ہوتے ہيں۔ دوسري جانب فون پر موجود بولنے والے کو پتہ ہي نہيں ہوتا کہ جو باتيں وہ ايک شخص سے کر رہا ہے، اسے دوسري طرف پورا کنبہ سن رہا ہے۔اس سے پريشانياں تو پيدا ہوتي ہي ہيں، اخلاقي لحاظ سے بھي نہايت نامناسب ہے۔ اگر اشدّ مجبوري پر سپيکر آن کرنا بھي پڑے تو دوسري طرف اطلاع کرديني چاہئے کہ سپيکر آن ہے۔

غمخوار دوست اور بزرگوں کي صحبت

غمخوار کا مطلب ہي غم کھا جانے والا ہے۔ يہ بات تصديق شدہ ہے کہ غم بانٹنے سے ہلکے ہوتے ہيں۔ اگر انسان پريشانيوں کو اپنے ہمدرد سے بيان نہ کرے تو وہ پريشانياں بڑھتي بڑھتي اضطراب، بےچيني اور ذہني دباؤتک لے جاتي ہيں۔ سادہ زمانوں ميں چونکہ اپنے دوستوں، بزرگوں اور قريبيوں کي محفل ميں بيٹھ کر غم ہلکے کر لئے جاتے تھے، مگر اس مصروف زمانہ ميں يہ نعمت بھي ہاتھ سے گئي۔ ذہني دباؤ ميں روز افزوں زيادتي کا اندازہ اس بات سے لگايا جاسکتا ہے کہ اس مرض کي نئي سے نئي ادويات بازار ميں آ رہي ہيں اور ان کي فروخت ميں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ تاہم اب تو ماہر نفسيات بھي جان چکے ہيں کہ ان ادويات کے استعمال سے اس مرض کو قابو کرنا مشکل ہے اس لئے وہ مريض کے ساتھ دوستانہ تعلق بنا کر اس سے اس کي پريشانياں پوچھتے ہيں۔ يعني وہي بات چيت ، غم ہلکا کرنا جو دوست دوستوں سے کيا کرتے تھے۔ ليکن اس کے لئے غمخوار، ہمدرد دوست کا ہونا ضروري ہے۔ اور ايسا دوست اللہ تعاليٰ کي نعمتوں ميں سے ايک نعمت ہے۔ غالب نے يہ مضمون اس طرح سے باندھ کر بہت پہلے ہميں ان مسائل کا حل بتا ديا تھا ؎

يہ کہاں کي دوستي ہے کہ بنے ہيں دوست ناصح

کوئي چارہ ساز ہوتا، کوئي غم گسار ہوتا

اس کے علاوہ بھي درجنوں دوسرے عناصر ہيں، جيسے تمباکونوشي، ادويات کا بےجا استعمال، پلاسٹک کے برتن وغيرہ جو انساني صحت پر اثر انداز ہوتے ہيں۔ مٹي کے برتنوں اور مٹکوں ميں کھانے کے ساتھ ساتھ قدرتي معدنيات بھي جسم کو مل جاتے، جو اب قصہ پارينہ بن چکے۔ قارئين کو ديگر عوامل پر دعوت تفکر ديتے ہوئے اس تحرير کو ختم کرتا ہوں۔

 

 

 

متعلقہ مضمون

  • محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی

  • قرآنِ کریم اور کائنات

  • بھاگتے ذرّے اور سرن

  • عظیم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب اور سرن