مکرم مولانا صداقت احمد صاحب، مبلغ انچارج جرمنی

اسلام دینِ فطرت ہے اور اِس کی تمام تعلیمات انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں۔ معمول کے حالات کے لیے اور احکامات ہیں جبکہ مجبوری، بیماری، خطرہ، موسم کی شدّت اورسفر وغیرہ کے حالات میں اُنہی احکامات میں حالات کی مناسبت سے نرمی کی تعلیم دی گئی ہے اور اِس کا مقصد لوگوں کو حرج اور تکلیف مالایطاق سے بچانا ہے۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کے بارے میں تمام اسلامی احکامات میں یہی فلاسفی کارفرما ہے۔

اسلام میں نماز اہم ترین عبادت ہے جو ہر مسلمان مَرد و زن پر دن کے مقررہ اوقات میں پانچ دفعہ ادا کرنی فرض قرار دی گئی ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایک اجتماعی عبادت ہے جو معمول کے حالات میں مَردوں کے لیے مساجد میں جا کر باجماعت ادا کرنی ضروری ہے۔ اِس مقصد کے لیے ضروری تھا کہ اِس عبادت کے اوقات کی تعیین کی جاتی چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَبًا مَّوْقُوْتًا۔ (سورۃالنساء: 104) ترجمہ: ’’یقیناً نماز مومنوں پر ایک وقتِ مقررہ کی پابندی کے ساتھ فرض ہے‘‘۔ یہ حکمِ قرآنی معمول کے حالات کے لیے ہے اور اوقات کی پابندی کے حوالے سے یہی اصل حکم ہے کہ پانچوں نمازیں الگ الگ اُن کے مقررہ اوقات میں ادا کی جائیں۔ اِسی لئے جب نماز کا وقت ہو جاتا ہے تو لوگوں کی اطلاع اور اُنہیں بلانے کے لیے اَذان کہی جاتی ہے اور پھر حکم یہ ہےکہ دیگر کام چھوڑ کر وقتِ مقررہ پر نماز ادا کی جائے۔ اِس اصل حکم میں مجبوری کےمخصوص حالات کی مناسبت سےکئی قسم کی نرمی کی تعلیم ہے جس میں احادیث کے مطابق نمازِ ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کا جمع کر لینا بھی شامل ہے۔ اِس بارے میں یہاں فقہ احمدیہ کی روشنی میں چند امور بیان کئے جاتے ہیں۔

بیماری، سفر، بارش، طوفانِ بادو باراں، سخت کیچڑ، سخت اندھیرے، خطرے اور سخت سردی وغیرہ کی صورت میں جبکہ مسجد میں بار بار جانے میں دِقّت کا سامنا ہو یا دینی اجتماع کی صورت میں ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازیں اکیلے بھی اور باجماعت بھی جمع کرکے پڑھی جا سکتی ہیں۔ جمع تقدیم یعنی ظہر کے وقت میں ظہر و عصر اور جمع تاخیر یعنی عصر کے وقت میں ظہر و عصر دونوں جائز ہیں۔ تقدیم اور تاخیر کی یہی صورت مغرب و عشاء پر بھی اطلاق پاتی ہے۔

یہ فیصلہ کرنا کہ آیا اِن حالات میں سے کوئی ایسی حالت ہے کہ نمازیں جمع کر لی جائیں دراصل امام اور مقتدیوں کی رائے پر منحصر ہے۔ اگر مقتدیوں کی اکثریت صورتِ حال کی اِس اقتضاء کو مانتی ہو تو امام کو اُن کی رائے کا احترام کرنا چاہئے۔ اِسی طرح اگر امام کی رائے ہو اور وہ نماز شروع کر دے تو مقتدیوں کو اُس کی اقتداء کرنی چاہئے۔ بہرحال جب نمازیں جمع کرنے کا فیصلہ ہو جائے تو سب مقتدیوں کو اُس کی پابندی کرنی چاہئے۔ جمع نماز کی اصل بنیاد حرج سے بچنا ہے۔اگر موسم کی متوقع صورتِ حال سخت سردی، برف باری یا بارش کی ہو اور اِس کے پیشِ نظر امام الصلوٰۃ اور مقتدیوں کی اکثریت کی رائے ہو کہ نمازیں جمع کرلینی چاہئیں تو ایسا کرنا جائز ہے۔غرض اِس بارے میں مناسب فیصلہ موجود لوگوں کی اکثریت بشمول امام الصلوٰۃ کرسکتی ہے۔

حدیث میں آتا ہے کہ حضورﷺ نے مدینہ میں بارش اور مرض کے بغیر نمازیں جمع کرائیں۔ حضرت ابنِ عباسؓ جو اِس حدیث کے راوی ہیں اُن سے پوچھا گیا کہ آخر اِس کی کیا وجہ تھی تو آپ نے جواب دیا کہ مقصد یہ تھا کہ لوگ حرج سے بچ جائیں۔ اِس حدیث میں اِس طرف بھی اشارہ ہے کہ بارش اور مرض کے علاوہ بھی بعض اور مشکلات اور دینی مصروفیات نمازیں جمع کرنے کا موجب بن سکتی ہیں۔ اِسی پر ہم شدید سردی کو بھی قیاس کرسکتے ہیں۔ لیکن کوشش یہ ہونی چاہئے کہ اِس بہانے سے لوگوں میں نمازیں جمع کرنے کی عام عادت جڑ نہ پکڑ سکےاور ضرورت کو ضرورت اور مجبوری پر ہی محمول سمجھا جائے۔

بعض مسائل

نمازِ ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کے جمع کرنے کی صورت میں اگر امام پہلی نماز پڑھا کے دوسری پڑھا رہا ہے اور اُس وقت ایک شخص مسجد میں آتا ہے تو اگر اُسے اِس بات کا علم ہو جاتا ہے کہ اُس وقت بعد والی نماز یعنی عصر یا عشاء ہو رہی ہےاور اُسے ابھی پہلی نماز یعنی ظہر یا مغرب بھی پڑھنی ہے تو وہ جماعت کے ساتھ شامل نہیں ہوگا اور پہلے ظہر یا مغرب کی نماز پڑھے گا اور پھر جماعت کے ساتھ شامل ہوگا۔ لیکن اگر اُسے علم نہیں ہوتا کہ امام کون سی نمازپڑھا رہا ہے تو وہ جماعت میں شامل ہو جائے۔ اِس طرح امام کی نیّت کے مطابق اُس کی نماز ہو جائے گی اور پھر بعد میں وہ اپنی پہلی نماز پڑھ لے۔

نمازیں جمع کرنے کی صورت میں سُنّتیں ادا نہیں کی جاتیں البتہ نماز جمعہ اور عصر جمع کرنے کی صورت میں پہلے والی چار سُنّتیں پڑھی جاتی ہیں۔ اِسی طرح مغرب و عشاء جمع کرنے کی صورت میں وتر بھی پڑھے جاتے ہیں۔

(ماخوذ از فقہ احمدیہ حصہ اوّل مطبوعہ 2004صفحہ 183-188)

خلاصہ کلام یہ کہ معمول کے حالات، صحت اور قیام کی صورت میں اصل حکم یہی ہے کہ پنجوقتہ نمازوں کو مقررہ اوقات میں الگ الگ ادا کیا جائے۔ صرف مجبوری کے مندرجہ بالا حالات میں نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو جمع کرنے کی اجازت ہے۔

انسان کا خاصہ ہے کہ وہ سہولت اور آرام کی طرف جلد مائل ہو جاتا ہے۔ اِس لئے ہم سب جانتے اور اپنی روزمرّہ زندگی میں مشاہدہ بھی کرتے ہیں کہ ہم میں سے کچھ افراد نمازوں کو جمع کرنے کے حوالے سے کمزوری دکھاتے ہیں اور بہانے اورخود ساختہ جواز کے سہارے شریعت کی رخصتوں سے فائدہ اٹھانے کو اپنی دانست میں جائز سمجھتے ہیں حالانکہ عبادات کے معاملے میں ایسا کرنا کسی صورت میں بھی درست نہیں اور اخلاص اور تقویٰ جو عبادات کا مغز ہے، کے بھی منافی ہے۔ مثال کے طور پر ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ گھریلو دعوتوں، ٹی وی پروگرامز اور دیگر معمولی مصروفیات کی وجہ سے بھی نمازیں جمع کرلی جاتی ہیں اور یوں ایسے لوگوں میں یہ عادت جڑ پکڑ جاتی ہے۔

بعض احباب ایک حدیث کی بناء یہ جواز بیان کرتے بھی سنے گئے کہ مسیح موعودؑ کے زمانے میں نمازیں جمع کی جایا کریں گی۔ وہ مسند احمد بن حنبل کی حدیث ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: تُجْمَعُ لَہُ الصَّلٰوۃُ۔ یعنی اُس کے لیے نمازیں جمع کی جائیں گی۔ یہ ایک پیشگوئی تھی جس کا تعلق آنے والے مسیح موعودؑ کی ذات سے تھا۔ اِس کا صرف اتنا مطلب ہےکہ ایک وقت آئے گا کہ مسیح موعودؑ کی دینی مصروفیات کی وجہ سے اُسے حرج سے بچانے کے لیے نمازیں جمع کی جائیں گی۔ یہ مطلب نہیں کہ مسیح موعودؑ اپنے زمانے میں خدانخواستہ شریعت میں تبدیلی کرکے آئندہ ہمیشہ کے لیے بلا جواز نمازیں جمع کرنے کا راستہ کھول دے گا۔ اِس کے لیے توشریعتِ اسلامیہ کے مطابق اب بھی وہی شرائط ہیں جن کا فقہ احمدیہ کی روشنی میں اوپر ذکر ہو چکا ہے۔ جہاں تک اِس پیشگوئی کا تعلق ہے تو یہ حضرت مسیح موعود کی زندگی میں پوری ہو چکی ہے جس کا آپ نے خود ذکر فرمایا ہے۔ چنانچہ اِس حوالے سے ذیل میں آپ فرماتے ہیں:

’’دیکھوہم بھی رخصتوں پر عمل کرتے ہیں۔ نمازوں کو جمع کرتے ہوئے کوئی دو ماہ سے زیادہ ہوگئے ہیں بسبب بیماری کے اور تفسیر سورۃ فاتحہ کے لکھنے میں بہت مصروفیت کے سبب ایسا ہو رہا ہے اور اِن نمازوں کے جمع کرنے میں تُجْمَعُ لَہُ الصَّلٰوۃُ کی حدیث بھی پوری ہو رہی ہے کہ مسیح موعودؑ کی خاطر نمازیں جمع کی جائیں گی۔ اِس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح موعود نماز کے وقت پیش امام نہ ہو گا بلکہ کوئی اور ہوگا اور وہ پیش امام مسیح کی خاطر نمازیں جمع کرائے گا۔ سو اب ایسا ہی ہوتا ہے۔ جس دن ہم بیماری کی وجہ سے بالکل نہیں آ سکتے اُس دن نمازیں جمع نہیں ہوتیں۔ اور اس حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت رسولِ کریمﷺ نے پیار کے طریق سے یہ فرمایا ہے کہ اُس کی خاطر ایسا ہوگا… خداتعالیٰ نے ایسے ہی اسباب پیدا کر دئیے کہ اتنے عرصہ سے نمازیں جمع ہو رہی ہیں، ورنہ ایک دو دن کے لیے یہ بات ہوتی تو کوئی نشان نہ ہوتا۔ ہم حضرت رسولِ کریمﷺ کے لفظ لفظ اور حرف حرف کی تعظیم کرتے ہیں ‘‘۔

(ملفوظات جلد اوّل مطبوعہ 2003صفحہ 446)

’’سب صاحبوں کو معلوم ہو کہ ایک مدّت سے خدا جانے قریباً چھ ماہ سے یا کم و بیش عرصہ سے ظہر اور عصر کی نماز جمع کی جاتی ہے۔ مَیں اِس کو مانتا ہوں کہ ایک عرصہ سے جو مسلسل نماز جمع کی جاتی ہے، ایک نَووارد یا نَومرید کو (جس کو ہمارے اغراض و مقاصد کی کوئی خبر نہیں) یہ شبہ گزرتا ہوگا کہ کاہلی کے سبب سے نماز جمع کرلیتے ہوں گے۔ جیسے بعض غیرمقلّد ذرا اَبر ہوا یا کسی عدالت میں جانا ہوا، تو نماز جمع کرلیتے ہیں اور بلا مطر اور بلا عُذر بھی نماز جمع کرنا جائز سمجھتے ہیں مگر مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم کو اِس جھگڑے کی ضرورت اور حاجت نہیں اور نہ ہم اِس میں پڑنا چاہتے ہیں کیونکہ مَیں طبعاً اور فطرتاً اِس کو پسند کرتا ہوں کہ نماز اپنے وقت پر اَدا کی جائے اور نماز موقوتہ کے مسئلہ کو بہت ہی عزیز رکھتا ہوں بلکہ سخت مطر میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ نماز اپنے وقت پر اَدا کی جائے، اگرچہ شیعوں نے اور غیرمقلدوں نے اِس پر بڑے بڑے مباحثے کئے ہیں مگر ہم کو اُن سے کوئی غرض نہیں۔ وہ صرف نفس کی کاہلی سے کام لیتے ہیں۔ سہل حدیثوں کو اپنے مفید مطلب پا کر اُن سے کام لیتے ہیں اور مشکل کو موضوع اور مجروح ٹھہراتے ہیں۔ ہمارا یہ مدّعا نہیں، بلکہ ہمارا مسلک ہمیشہ حدیث کے متعلق یہی رہا ہے کہ قرآن اور سنّت کے مخالف نہ ہو۔ وہ اگر ضعیف بھی ہو، تب بھی اُس پر عمل کرلینا چاہئے۔

اِس وقت جو ہم نمازیں جمع کرتے ہیں تو اصل بات یہ ہے کہ مَیں اللہ تعالیٰ کی تفہیم، القا اور الہام کے بدوں نہیں کرتا۔ بعض اُمور ایسے ہوتے ہیں کہ مَیں ظاہر نہیں کرتا مگر اکثر ظاہر ہوجاتے ہیں۔ جہاں تک خداتعالیٰ نے مجھ پر اِس جمع صلوٰتین کے متعلق ظاہر کیا ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نےہمارے لئے تُجْمعُ لَہُ الصَّلوٰۃُ کی بھی ایک عظیم الشان پیشگوئی کی تھی جو اب پوری ہو رہی ہے…… مَیں صاف صاف کہتا ہوں کہ مَیں جو کچھ کرتا ہوں خداتعالیٰ کے القاء اور اشارہ سے کرتا ہوں۔ یہ پیشگوئی جواِس حدیث تُجْمعُ لَہُ الصَّلوٰۃُ میں کی گئی ہے یہ مسیح موعود اور مہدی کی ایک علامت ہے۔ یعنی وہ ایسی دینی خدمات اور کاموں میں مصروف ہوگا کہ اُس کے لئے نماز جمع کی جاوے گی۔ اب یہ علامت جبکہ پوری ہوگئی اور ایسے واقعات پیش آ گئے پھر اِس کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے، نہ کہ استہزاء اور انکار کے رنگ میں‘‘۔

(ملفوظات جلد دوم مطبوعہ 2003 صفحہ 45-46)

نمازوں کو جمع کرنے کے حوالے سے ایک اور خرابی بھی راہ پا چکی ہے کہ بالعموم جماعتی پروگرامز میں نمازیں جمع کرنا ایک معمول نظر آتا ہے اور اِس نے اب باقاعدہ ایک رسم اور رواج کی صورت اختیار کرلی ہے۔ اکثریّت یہ سمجھنے لگ گئی ہےکہ جب بھی کوئی پروگرام ہو نمازیں جمع کرلینی چاہئیں حالانکہ اگر نمازوں کے اوقات کومدِّنظر رکھ کو پروگرامز ترتیب دئیے جائیں تو نمازیں جمع کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ بعض پروگرامز کی نوعیّت ایسی بھی ہوتی ہے کہ درمیان میں وقفہ کرکے نمازوں کو اپنے مقررہ وقت پر ادا کیا جا سکتا ہے۔ پروگرامز میں نمازیں جمع کرنے کے اِس معمول کے بارے میں حال ہی میں سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامسکا مندرجہ ذیل ارشاد موصول ہوا ہے:

’’ہمارے جماعتی پروگراموں میں نمازیں جمع کرنے کا رواج بہت بڑھ گیا ہے۔ اِس رسم کو توڑیں۔ اِس کو ختم کریں‘‘۔

حضورِانور کے اِس ارشاد پر عملدرآمد کے لیے عہدیداران کو توجہ دلائی گئی ہے اور ان شاءاللہ آئندہ اِس اَمر کا خیال رکھا جائے گا تاہم ضرورت اِس امر کی ہے کہ تمام افرادِ جماعت نمازیں جمع کرنے کے بارے شریعت کے احکامات اور حضرت اقدس مسیح موعود اور خلفائےاحمدیت کے ارشادات کو سمجھ کر اپنی ذاتی زندگی میں روزانہ کی پنجوقتہ نمازوں کو حتی المقدور الگ الگ اپنے مقررہ اوقات میں ادا کرنے کا التزام کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اِس کی توفیق عطا کرے، آمین۔

(اخبار احمدیہ جرمنی اپریل 2024ء صفحہ27)

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • فیصلہ جات مجلس شوریٰ جماعت احمدیہ جرمنی 2024

  • تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے

  • خلافت اور جماعت کے باہمی پیار کا تعلّق