مکرم مولانا عبدالباسط طارق صاحب مربی سلسلہ ناصر باغ جرمنی

 

حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ جنہیں خدا نے علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا تھا نے اپنی خداداد فراست سے احباب جماعت کی نظامِ خلافت کی برکات اور خلیفہ کے مقام کے بارہ میں قرآنِ کریم، احادیث، تاریخِ اسلام اور حضرت مسیح موعود کی تحریرات کی روشنی میں تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر ایسے رنگ میں راہ نمائی کی کہ انہیں اور ان کی نسلوں کو ہمیشہ ہمیش کے لئے فتنہ انکارِ خلافت سے محفوظ کردیا تاکہ وہ قیامت تک خلافت کی برکات سے مُتَمتّع ہوتے رہیں خلیفہ خدا بناتا ہے۔ خلیفہ معزول نہیں ہوسکتا خلافت موروثی نہیں ہے۔ خلافت آمریت نہیں ہے خلیفۂ وقت کی دعاؤں کوقبولیت کا خاص مقام حاصل ہے خداتعالیٰ کی تائید و نصرت ہمیشہ خلفاء کے شاملِ حال رہے گی خدائی جماعتوں میں ہمیشہ ہر زمانے میں منافقین موجود رہے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ ہر فردِ جماعت کو نظامِ خلافت اور اس کی برکات سے آگاہی ہو نیز خلیفۂ وقت سے ذاتی تعلق بھی ہو۔ ذیل میں خلفائے مسیح موعودؑ اور حضرت مسیح موعود کے ارشادات پیش کیے جاتے ہیں جن سے خلافت کے موضوع پر خوب روشنی پڑتی ہے۔

ارشادات حضرت مسیح موعود

’’خدا کا یہ قانونِ قدرت ہے کہ جب خدا کے رسول کا کوئی خلیفہ اس کی موت کے بعد مقرر ہوتا ہے تو شجاعت اور ہمت اور استقلال اور فراست اور دل قَوی ہونے کی روح اس میں پھونکی جاتی ہے‘‘
(تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد17،صفحہ186)
’’آنحضرتﷺ نے کیوں اپنے بعد خلیفہ مقرر نہ کیا اس میں یہی بھید تھا کہ آپ کو خوب علم تھا کہ اللہ تعالیٰ خود ایک خلیفہ مقرر فرمائے گا کیونکہ یہ خدا کا ہی کام ہے اور خدا کے انتخاب میں نقص نہیں‘‘
(ملفوظات جلد 10 صفحہ 229)

ارشاد حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ

’’خداتعالیٰ کے بنائے ہوئے خلیفہ کو کوئی طاقت معزول نہیں کرسکتی اس لیے تم میں سے کوئی مجھے معزول کرنے کی قدرت نہیں رکھتا اگر خدا نے مجھے معزول کرنا ہوگا تو وہ مجھے موت دے دے گا‘‘
(حیاتِ نور صفحہ527)

ارشاد حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ

’’خوب یاد رکھو کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور جھوٹا ہے وہ انسان جو یہ کہتا ہے کہ خلیفہ انسانوں کامقررکردہ ہوتا ہے‘‘ (انوارالعلوم جلد2 صفحہ 11)
’’چونکہ یہ وعدہ قوم سے ہے اس لیے ورثہ کے طور پر یہ عہدہ نہیں مل سکتا بلکہ وہی خلیفہ ہوگا جس پر قوم جمع ہوگی‘‘ (خلافتِ راشدہ، انوارالعلوم جلد 15 صفحہ 554)
مَیں اس بات کا قائل نہیں کہ خلیفہ کوئی غلطی نہیں کرسکتا مگر اس بات کا قائل ہوں کہ وہ کوئی ایسی غلطی نہیں کرسکتا جس سے جماعت تباہ ہو‘‘
(جماعت احمدیہ کا مشاورتی نظام صفحہ399)
’’خلیفہ کے فیصلہ کو شرح صدر کے ساتھ ماننا از حد ضروری ہے اگر تم اس اصل کو بھلا دو گے تو تمہارے اندر بھی تفرقہ اور تنفر پیدا ہوجائے گا…… ظاہر یا خفیہ خلیفہ کی ذات یا عزّت پر حملہ کرنا تم کو خداتعالیٰ کی لعنت کا مستحق بنا دے گا… اگر تم خداتعالیٰ کے قائم کردہ کی عزت پر ہاتھ ڈالو گے تو یاد رکھو کہ خداتعالیٰ تمہاری عزت کی چادر کو چاک چاک کر دے گا اور تم تباہ و برباد ہوجاؤ گے۔ (انوارالعلوم جلد14 صفحہ 478)
میرا مذہب ہے لَا خِلَافَۃَ اِلَّا بِالْمَشْوَرَۃِ خلافت جائز ہی نہیں جب تک اس میں شوریٰ نہ ہو۔ (انوارالعلوم جلد2 صفحہ25) جب تک ہم سے بار بار مشورے نہیں لیں گے اس وقت تک ان کے کام میں کبھی برکت پیدا نہیں ہوسکتی… اس (خلیفۂ وقت) سے جتنا تعلق رکھو گے اسی قدر تمہارے کاموں میں برکت پیدا ہوگی… اگر کوئی شخص امام کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ نہ رکھے تو خواہ وہ دنیا بھر کے علوم جانتا ہو وہ اتنا کام بھی نہیں کرسکے گا جتنا بکری کا بکروٹہ کرسکتا ہے۔
(الفضل 20 نومبر 1946ء)
’’مَیں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ خواہ تم کتنے ہی عقلمند اور مدبّر ہو، اپنی تدابیر اور عقلوں پر چل کر دین کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے جب تک تمہاری عقلیں اور تدبیریں خلافت کے ماتحت نہ ہوں اور تم امام کے پیچھے نہ چلو۔ ہرگز اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت تم حاصل نہیں کرسکتے‘‘
(الفضل 4 ستمبر 1937ء)
اس آیت(سورۃ نور:56) میں مسلمانوں کی قسمت کا آخری فیصلہ کیا گیا ہے اور ان سے وعدہ کیا گیا ہے کہ اگر وہ خلافت کے قائل رہے اور اس غرض کے لیے مناسب کوشش اور جدوجہد بھی کرتے رہے تو جس طرح پہلی قوموں میں خداتعالیٰ نے خلافت قائم کی ہے اسی طرح ان کے اندر بھی خداتعالیٰ خلافت قائم کرے گا… اگر مسلمان ایمان بالخلافت پر قائم نہیں رہیں گے اور ان اعمال کو ترک کردیں گے جو خلافت کے قیام کے لیے ضروری ہیں تو وہ اس انعام کے مستحق نہیں رہیں گے۔
(تفسیر کبیر جلد6 صفحہ367)
’’تمہارے لیے ایک شخص تمہارا درد رکھنے والا، تمہاری محبّت رکھنے والا، تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا، تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا اور تمہارے لیے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا ہے‘‘
(انوارالعلوم جلد2صفحہ158)
’’اللہ تعالیٰ جس کسی کو منصب خلافت پر سرفراز کرتا ہے تو اس کی دعاؤں کی قبولیت بڑھا دیتا ہے کیونکہ اگر اس کی دعائیں قبول نہ ہوں تو پھر اس کے اپنے انتخاب کی ہتک ہوتی ہے‘‘ (انوارالعلوم جلد2 صفحہ49)

حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ

’’روحانی خلفاء بندوں کے ہاتھوں معزول نہیں ہوسکتے اور جو ایسا سمجھے اس کے اندر نفاق اور بےحیائی کا مادہ ہے‘‘ (الفضل انٹرنیشنل 26 مئی 2000ء)
’’یہ سلسلہ خلافت دنیا کو اُمّت واحدہ بنانے کے لیے قائم ہوا ہے اور اس سلسلہ(احمدیہ) کا کوئی خلیفہ کبھی بھی کسی علاقے کا حاکم وقت اور بادشاہ نہیں بنے گا اور دنیا کی سیاست میں خلیفۂ وقت نہیں آئےگا‘‘
(خطبہ جمعہ 22 فروری 1974ء)
’’ایک خلیفہ کی زندگی میں نئی خلافت کے متعلق سازشیں کرنا یا مںصوبے باندھنا یا باتیں پھیلانا یا اس ضمن میں کسی شخص کا نام لینا خواہ وہ پسند ہو یا ناپسندیدہ اسلامی تعلیم کے حد درجہ خلاف اور انتہائی بےشرمی اوربےحیائی کی بات ہے اور پاکباز مومن اس قسم کی منافقانہ اور خبیثانہ باتوں سے ہمیشہ پرہیز کرتے ہیں‘‘
(الفضل انٹرنیشنل 26 مئی 2000ء)

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس

’’ہمارا یہ ایمان ہے کہ خلیفہ اللہ تعالیٰ خود بناتا ہے… جسے خدا یہ کُرتا پہنائے گا کوئی نہیں جو اس کُرتے کو اس سے اُتار سکے یا چھین سکے‘‘
(الفضل ربوہ 30 مئی 2003ء صفحہ 2)

خلفائے مسیح موعودؑ کا افراد جماعت پر عظیم الشان احسان

خلفائے مسیح موعودؑ کا افراد جماعت پر ایک عظیم الشان احسان ہے کہ انہوں نے خلافت کی اہمیت اور اس کی برکات کو کھول کھول کر بیان فرمایا۔ نیز منکرینِ خلافت کے اعتراضات کا ہر پہلو سے ایسا شافی اور مسکت جواب دیا ہے جیسا کہ مذکورہ بالا 16 حوالہ جات سے عیاں ہے کہ جماعت کے مخلصین تذبذب کی دَلدل اور شکوک و شبہات کے اندھیروں سے نکل کر اب بفضلِ خدا ایسے میدان میں آگئے ہیں جہاں صداقت کا سورج نصف النہار پر چمک رہا ہے حضرت خلیفہ اوّل مولوی نورالدین صاحب جن کے دَور ِخلافت میں اس فتّنہ نے سَر اٹھایا، نے اپنی پُرجوش اور دل ہلا دینے والی تقاریر اور خطبات سے منکرینِ خلافت کے سر پر پہ دَر پہ ایسی ضَربیں لگائیں کہ یہ فتنہ سَر نہ اُٹھا سکا۔ پھر حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃالمسیح الثانیؓ جنہیں خدا نے بالکل نوجوانی کی عمر میں مسندِخلافت پر بٹھایا تھا۔ جنہوں نے ان لوگوں سے جنہیں اپنے دنیاوی علوم اور اثر و رُسوخ پر گھمنڈ تھا۔ جن کے ہاتھ میں سلسلہ کے اموال کی چابیاں تھیں۔ ناتجربہ کار اور نالائق بچہ ہونے کے طعنے سنے، اس کے باوجود اپنے توّکل علیٰ اللہ، دل گداز دعاؤں اور محنتِ شاقہ سے جماعت کے افراد کو تفرقہ اور انتشار کے تاریک گڑھے میں گرنے سے بچا لیا۔ اپنے خطابات اور تحریرات سے جماعت کو ترقی اور کامیابی کی روشن شاہراہ پر گامزن کر دیا اور جماعت کو برکات خلافت کے مضبوط اور بلند فصیلوں والے قلعہ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا جس کی بلند دیوار کو پھلانگ کر انکار خلافت کا فتنہ قلعہ میں موجود افراد جماعت کو کبھی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ حضرت مرزا ناصر احمدخلیفۃالمسیح الثالثؒ کے دَورِ خلافت میں منکرینِ خلافت اور منافقین کی آوازیں اُٹھیں لیکن اتنی کمزور تھیں کہ کسی مخلص کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، الحمدللہ۔ ثم الحمدللہ کہ خلافتِ رابعہ اور خامسہ کے دَور میں جماعت ایسے مضبوط قدموں پر قائم ہوچکی ہے کہ کسی طرف سے بھی اُٹھنے والی شیطانی آوازیں اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہوچکی ہیں۔ گزشتہ 115 سال سے افراد جماعت نے خلافتِ احمدیہ کی اس قدر برکات دیکھی ہیں جن کا شمار کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔ خداتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ افراد جماعت کو ہمیشہ ترقی کی راہ پر چلاتا رہے اور ہرفتنے سے محفوظ رکھے، آمین۔

شہر برلن میں ایک ایمان افروز واقعہ

خاکسار کو مختلف اوقات میں جرمنی کے دارالحکومت برلن میں قریباً 16 سال جماعت کی خدمت کی توفیق ملی۔ برلن کے قیام کے دوران خاکسار ہروقت کُڑھتا رہتا تھا کہ سکولوں کالجوں مختلف تنظیموں اور اداروں کو لاہوری جماعت کی مسجد کا علم تھا اور وہ اس کو آکر دیکھتے اور اسلام احمدیت سے تعارف حاصل کرتے۔ پورے برلن شہر میں لاہوری عقیدہ سے تعلق رکھنے والی ایک فیملی بھی نہیں تھی اور نہ کوئی مرد واحد موجود تھا۔ ہمارا ایک نماز سینٹر تھا لیکن وہاں دعوت دینے کے باوجود کوئی نہیں آتا تھا۔ ایک مرتبہ لاہوری مسجد کے بزرگ امام مسجد سعید صاحب کہنے لگے کہ بیٹا مجھے جرمن نہیں آتی۔ یہاں طلباء و طالبات کی کلاسز آتی رہتی ہیں تم آکر انہیں لیکچر دے دیا کرو۔ ان کے بعد ریاض صاحب آئے وہ لاہور کے بڑے تاجر تھے۔ ان کے ساتھ دوستی ہوگئی ان کی عمر نیز دل کی امراض اور شوگر کی وجہ سے AOK ان کی ہیلتھ انشورنس نہیں کرتی تھی۔ خاکسار نے انہیں ہومیوپیتھی ادویات کی پیش کش کی غرضیکہ خاکسار کی لاہوری مسجد والوں سے اچھی سلام دعا تھی۔ پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا 2008ء میں لاہوری مسجد کو تالہ لگا دیا گیا اور عین اسی سال خدیجہ مسجد کا افتتاح ہوا۔ خدیجہ مسجد نئی گنجائش میں زیادہ اور خوبصورت ہے اور اس کی تعمیر کے دوران سخت مخالفت ہوئی جسے اخبارات اور میڈیا نے خوب نشر کیا جو لوگوں کی توجہ کا باعث بنی۔ چنانچہ مسجد کے افتتاح کے بعد اس کثرت سے سکول کالجز اور یونیورسٹی کے طلباء سیاسی پارٹیوں کے گروپس مختلف تنظیموں کے لوگ خدیجہ مسجد آئے کہ سنبھالنا مشکل ہوگیا اور ’’پھیر دے میری طرف اے سارباں جگ کی مہار‘‘ کا نظارہ سامنے نظر آنے لگا۔ اس کے تین سال بعد وہاں (لاہوریوں کی مسجد میں) ایک نوجوان لڑکا آکر رہنے لگا ورنہ یہ مسجد بالکل ویران ہوگئی تھی اور گھنٹی بجنے پر بھی کوئی کھولنے والا نہ تھا اب وہاں ایک امام مسجد ہیں جو فیملی کے ساتھ رَہ رہے ہیں اور سعودی عرب سے آئے ہیں ان کے ساتھ بھی اچھی سلام دعا ہے۔ ایک دفعہ لاہوری جماعت کے کچھ اعلیٰ عہدیداران لندن اور ہالینڈ سے اپنے ایک جرمن دوست کے ساتھ مجھے ملنے خدیجہ مسجد آئے۔ ان کی خاطر تواضع کی گئی مطالبے پر ان کو جماعتی لٹریچر دیا گیا۔ سارا دن وہ مسجد میں رہے۔ نمازوں میں بھی شرکت کی، شام کو وہ چلے گئے۔ اگلے دن ان کے جرمن دوست کا مجھے فون آیا کہ ان کے اعلیٰ عہدیدار نے جو اس کے گھر رات گزاری تھی۔ صبح ناشتہ پر نہایت دُکھ سے کہا کہ مَیں خدیجہ مسجد کے وزٹ کے بعد ساری رات نہیں سوسکا۔ ان کا امام جرمن بولتا ہے۔ ان کے پاس لٹریچر ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں ان کا چندہ اکٹھا ہوتا ہے۔ ان کے ممبران کی تعداد بھی دوسو سے زائد ہے۔ (اس وقت جماعت برلن کی تعداد قریباً پانچ سو ہے) اور سارا دن جرمنوں کو تبلیغِ اسلام ہوتی ہے غرضیکہ ان کے پاس سب کچھ ہے جبکہ ہم محروم ہیں۔ اس عہدیدار کے اس اقرارِشکست سے حضرت مصلح موعودؓ کا شعر یادآجاتا ہے۔
ماننے والے میرے بڑھ کے رہیں گے تم سے

شَرّ میں ایک خیر کا پہلو

دنیا میں بعض ایسے واقعات ہوتے ہیں جو بظاہر شَرّ اور مصیبت معلوم ہوتے ہیں لیکن مومنوں کے لیے خداتعالیٰ اسی شَر میں خیر اور بھلائی کا پہلو پیدا کر دیتا ہے فتنہ انکارِ خلافت میں بعض افراد کا خلافت پر طعنہ زَنی کرکے حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ جیسی بزرگ شخصیت کو شدید ذہنی اذّیت پہنچانا اور حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ جیسے نوجوان خلیفہ کی خلافت کے آغاز میں ہی فتنہ پردازی کرنا، خفیہ میٹنگیں کرنا لوگوں میں غلط اور منافقانہ خیالات پھیلانا، خلیفۂ وقت کی ذات بابرکات پر کیچڑ اُچھالنا اور اس طرح جماعت میں تفرقہ پیدا کرکے مومنین کے اخلاص اور ایمان کو ابتلاء میں ڈالنا پھر جماعت کے چند افراد کا ایک گروہ بن کر الگ ہوجانا اور قادیان چھوڑ کر لاہور اپنا الگ مرکز قائم کرنا یہ سب باتیں سوچ کر ہی جگر پارہ پارہ ہوجاتا ہے لیکن اس فتنہ انکارِخلافت کے نتیجہ میں خلافت کی اہمیت اور برکات خلیفۂ وقت کا مقام، خلیفہ خدا بناتا ہے، غرضیکہ خلافت کے ہر پہلو پر جماعت کو ہمیشہ کے لیے بہترین علمی مواد اور دلائل میسر آئے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے اپنے چھ سالہ دَورِخلافت میں خلافت کی بنیادوں کو مضبوط کیا اور خلافت کو انجمن کے ماتحت کرنے والوں اور خلیفۂ وقت کے اختیارات پر سوال اُٹھانے والوں کو بلاکر سخت سرزنش کی اور ان کی دوبارہ بیعت لی۔ انفرادی اور اجتماعی ملاقاتوں میں ایسے افراد پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔ اس کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمدصاحب المصلح الموعودؓ نے جن کو خدا نے علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا تھا۔ اپنے 52سالہ دَورِ خلافت میں اپنے بےشمار لیکچروں، تقاریر، دَرسوں، کتب اور مضامین کے ذریعہ ہر یک فردِ جماعت کے دل میں خلافت کی محبّت پیدا کر دی اور ان کے ذہنوں میں خلافت کی برکات اور غلبۂ اسلام کے لیے اس کی اہمیت قرآن اور احادیث کے قَوی دلائل سے ذہنوں میں بٹھا دی اور جماعت احمدیہ کو ہمیشہ ہمیش کے لیے خلافت کی برکات سے جوڑ دیا اور افراد جماعت کو ہمیشہ ہمیش کے لیے فتنہ انکارِ خلافت سے محفوظ کردیا۔ چنانچہ آئندہ جب کبھی بھی ایسا گروہ پیدا ہوا جو خلافتِ احمدیہ کے خلاف کوئی سازش کرے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مومنین کی بھاری اکثریت اسے رَدّ کردے گی۔
ام المومنینؓ حضرت عائشہ پر جب منافقین نے گندہ الزام لگایا تو آنحضرتﷺ اور جماعت المومنین کے لئے بہت بڑا صدمہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ اس واقعہ افک کے بارہ میں فرماتا ہے لَا تَحۡسَبُوۡہُ شَرًّا لَّکُمۡؕ بَلۡ ہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ (سورۃ نور:12) یعنی اس واقعہ کو شَر نہ سمجھو بلکہ یہ واقعہ تمہارے لیے خیر لے کر آیا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے تمہیں پردہ کے احکام مل گئے۔ پاکدامنی قائم رکھنے کے لیے ہدایات میسر آئیں۔ پاکدامن عورتوں پر الزام لگانا، اس کی سزا، بدکاری کی سزا، خانگی اور عائلی زندگی کی حفاظت کے طریق وغیرہ ہمیشہ کے لیے ایسے احکام مل گئے جو اسلامی معاشرہ میں چادر اور چاردیواری کے تحفظ کے لیے از حد ضروری تھے۔

قومیں اس سے برکت پائیں گی

حضرت مصلح موعودؓ کی پیشگوئی میں خداتعالیٰ نے یہ خوشخبری دی ہے کہ اس کے بابرکت وجود سے قومیں برکت پائیں گی چنانچہ اس وقت دو سو سے زیادہ ممالک میں ہزاروں جماعتیں ہرسال جلسہ ہائے یومِ خلافت و یومِ مصلح موعودؓ کا انعقاد کرتی ہیں اور ان جلسوں کی وجہ سے امریکن، افریقین، یورپین، جاپانی، انڈونیشین اور عرب غرض تمام اقوام کے لوگ خلافت کی برکات، اس کی اہمیت کے موضوعات پر تقاریر سن کر قرآن اور حدیث کے دلائل سیکھتے ہیں۔ ذیلی تنظیمیں خدام، انصار، لجنہ اماءاللہ اپنے تربیتی اور تبلیغی پروگراموں کے ذریعہ روحانیت میں ترقی کر رہے ہیں اور لاکھوں بھٹکی روحوں کو ہدایت دے کر اسلام میں داخل کر رہے ہیں۔ اسی طرح حضرت مصلح موعودؓ کی تفسیرکبیر آپ کی کتب اور تقاریر کا دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو رہا ہے جس سے مختلف اقوام کے ہزاروں لوگ علمی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس طرح خداتعالیٰ کی پیشگوئی ہرلمحہ اور ہر دَم پوری ہو رہی ہے اور قومیں اس سے مسلسل برکت پا رہی ہیں۔

اپنی نسل کو خلافت سے وابستہ رکھیں، ایک انتباہ

آنحضرتﷺ کی پیشگوئی تھی کہ آخری زمانہ میں اسلام کا سورج مغرب سے طلوع ہوگا۔ اس لیے خدائی تقدیر نے احمدیوں کی ایک بڑی تعدادکو یورپ میں اور مغربی ممالک میں لا کر آباد کر دیا اور بفضل خدا خلیفۂ وقت کی راہنمائی میں ترقی یافتہ ذرائع ابلاغ اور مذہبی آزادی کی وجہ سے احمدیت یعنی حقیقی اسلام بڑی سُرعت سے پھیلتا جا رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ہر دور اندیش اور صاحب فراست اگلی نسل کو بعض خطرات میں گھرا ہوا دیکھتا ہے۔ مغربی ممالک کا معاشرہ، یہاں کا نظامِ تعلیم، طرزِفکر کی بنیاد خالصۃً مادہ پرستی پر ہے۔ شخصی آزادی، نفس پرستی اور دنیاداری کی دَوڑ میں مسابقت انسان کو دین سے غافل کر دیتی ہے۔ مذہب اور اس کی اخلاقی اقدار کو پسماندگی اور جہالت قرار دے کر اس کا تمسخر اُڑایا جاتا ہے۔ یہ وہ ماحول ہے جس میں ہمارے ہزاروں احمدی لڑکے اور لڑکیاں پروان چڑھ رہے ہیں اوردن کا بڑا حصہ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں گزارتے ہیں اور ایسے ساتھیوں کی صحبّت میں رہتے ہیں جن کا مذہب یا دین سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس احمدیت یعنی حقیقی اسلام جس کی طرف ہم نے ساری نوعِ انسانی کو لے کر آنا ہے، کی بنیاد ایک زندہ خدا پر یقین، اخلاقی اور روحانی پاکیزگی، خدا اس کے رسول اور خلفاء کی مکمل اطاعت، اپنے اموال، وقت اور صلاحیتوں کو دین کی اشاعت کے لیے قربان کرنے پر ہے نیز عبادات اور دعاؤں پر زور دینا اور اس طرح خداتعالیٰ سے مدد طلب کرنا، تبلیغ دین میں مصروف رہنا، خلیفۂ وقت سے فدائیت کا تعلق رکھنا، ایک سچے احمدی کی علامات ہیں۔ ان مذکورہ بالا مادی اور روحانی اقدار کی جنگ ہروقت جاری ہے۔ ہمارے بچے دین محمدیؐ کی روحانی فوج کے سپاہی ہیں۔ اس لیے ہر احمدی ماں باپ کو ہروقت اس بات کا غم ہونا چاہیے کہ ہماری نسلوں کو خدانخواستہ مادہ پرستی کا اَژدھا نہ نگل جائے اس کے لیے ضروری ہے کہ والدین اپنا نمونہ بہتر کریں، پھر دعا اور سخت نگرانی سے اپنی اولاد کی دینی اور اخلاقی تربیت کریں اور انہیں خلافتِ احمدیت کی نعمتِ عظمیٰ سے منسلک کردیں۔ خلیفۂ وقت سے ذاتی محبّت کا تعلق اور اس کی اطاعت اور راہ نمائی ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو ہماری نسلوں کی حفاظت کی ضمانت ہے۔ احمدیت کی نعمت ہمیں اپنے بزرگوں سے ورثہ میں ملی، الحمدللہ علیٰ ذالک اور وہ خلافت سے ایک عاشقانہ تعلق رکھتے تھے۔ ہمیں ہر لمحہ اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ آیا خلافتِ احمدیہ سے وہ والہانہ تعلق ہم اپنی اگلی نسل میں منتقل کر رہے ہیں یا نہیں۔ ہمارے موجودہ پیارے امام نے ہمیں متعدد دفعہ ایک قرآنی دعا پڑھنے کا حکم دیا ہے اور وہ یہ ہے رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ ہَدَیتَنَا وَہَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَۃً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَہَّابُ۔ (اٰل عمران:9)
ترجمہ: اے ہمارے رب ہمارے دِلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے بعد اس کے کہ تُو ہمیں ہدایت دے چکا ہو اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کر یقیناً ً تو ہی ہے جو بہت عطا کرنے والا ہے۔
اس دعا کو بار بار پڑھنا، اس کے معانی پر غور کرنا اور اسے اپنے بچوں کو سکھانا ہمارا فرض ہے۔ دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری نسلوں کو ہمیشہ خلافت کے بابرکت سایہ تَلے دینی اور دنیاوی ترقیات سے نوازتا چلا جائے، آمین۔
وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • فیصلہ جات مجلس شوریٰ جماعت احمدیہ جرمنی 2024

  • تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے

  • خلافت اور جماعت کے باہمی پیار کا تعلّق