مکرم ملک سعادت احمد صاحب اور محترمہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کا ذکرِ خیر

میرے پیارے والدین محترم ملک سعادت احمد صاحب اور محترمہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ گزشتہ چند سالوں کے دوران ہم سے بچھڑ گئے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ میرے اَبا جی کی پیدائش16 اکتوبر 1924ء کو امرتسر ضلع گورداسپور میں ہوئی۔ آپ حضرت مسیح موعود کےجانثار صحابی حضرت ملک مولا بخش صاحب کے بیٹےتھے۔حضرت ملک مولا بخش صاحبؓ نے 1900ء میں جلسہ سالانہ قادیان کے موقعہ پر بیعت کی سعادت پائی۔ پھر کئی بار آپؓ کو قادیان جاکر حضورؑ سے روحانی فیض حاصل کرنے کی سعادت ملی۔ آپ کے ایمان افروز حالات کا تذکرہ اصحاب احمد جلد اوّل میں ملک صلاح الدین صاحب نے کیا ہے۔

میرے ابا جان کی شادی حضرت قاضی محبوب عالم صاحبؓ آف راجپوت سائیکل ورکس نیلا گنبدکی بیٹی محترمہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ سے 1946ء میں ہوئی۔ شادی کے بعد 1946ء میں کچھ عرصہ قادیان رہے پھر شملہ اور بعد میں ربوہ آگئے اور گول بازارکی مشہور دُکان ملک جی برادرز چلاتے رہے۔ میری پیدائش کے بعد پشاور اور لاہور میں بسلسلہ ملازمت مقیم رہے۔ اس دوران اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتی خدمات کی بھی توفیق پائی۔ آپ کے پاس ’’روزنامہ الفضل ربوہ‘‘کی ایجنسی تھی اور خود سائیکل پر صبح سویرے احمدی احباب کے گھروں تک اخبار پہنچایا کرتے تھے۔ آپ سیکرٹری مال کے عہدے پر بھی کافی عرصہ فائز رہے۔ اسلامیہ پارک لاہور کی مسجد میں نمازیں اور جمعہ پڑھایا کرتے تھے۔ گھر میں بھی باجماعت نمازوں کا اہتمام کرتے۔ آپ بےحد مہمان نواز اور سب کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے۔ ہم سب کو ہمیشہ خلیفۂ وقت اور جماعت کے ساتھ وابستہ رہنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ جس مجلس میں جاتے وہاں دینی باتوں کے ساتھ ساتھ موقع کی مناسبت سے نصائح کے علاوہ لطائف اور حکایات سنا کر ماحول کو پُر رونق بنا دیتے تھے۔

اپنے عزیز و اقارب اور رشتہ داروں سے خط و کتابت کے ذریعہ رابطہ رکھتے۔ آپ اللہ کے فضل سے ہمیشہ ہر کسی کی خوشی اور غمی میں شریک ہونے میں پہل کرتے۔ کسی کی وفات پر تو اپنی ڈائری کھول لیتے اور اُن کے سب عزیز و اقارب سے اظہار افسوس کرتے اور دیگر رشتہ داروں کو بھی اپنی طرف سے فوری اطلاع پہنچانے کے فرائض کے ساتھ ساتھ اظہار ہمدردی کرنا کبھی نہ بھولتے تھے۔

آپ اپنے ہر کام کو بڑی ذمہ داری اور سنوار کے کرتے اور جماعتی کام بھی بڑی ذمہ داری، خوش اسلوبی اور خاکساری کے ساتھ سر انجام دیتے۔

میرے سبھی بہن بھائی انگلستان اور جرمنی چلے آئے تھے، اس اعتبار سے مجھے کافی عرصہ والدین کے پاس رہنے اور خدمت کرنے کا موقع ملا۔ پھر 1984ء میں ہم سب بھی والدین کے ہمراہ جرمنی منتقل ہوگئے۔ یہاں آنے کے بعد بھی آپ سیکرٹری مال اور نائب سیکرٹری رشتہ ناطہ کے طور پر خدمات بجا لاتے رہے۔ آپ جماعتی جلسہ جات، ماہانہ اجلاسات میں شمولیت کے بہت پابند تھے۔ جرمنی کے جلسہ سالانہ میں تو بہر صورت شامل ہوتے، اس کے علاوہ جب تک صحت نے اجازت دی برطانیہ کے جلسہ سالانہ میں شمولیت اپنا فرض سمجھتے تھے۔ جلسہ کی پوری کارروائی بڑے اطمینان اور توجہ سے سنتے اور پھر گھر آکر ہم سب سے پوچھتے کہ فلاں تقریر سنی تھی۔ ابّا جی کے بابرکت وجود سے ہم سب نے علمی اور عملی طور پر بہت کچھ سیکھا،الحمدللہ۔

ہماری والدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ تو قریباً ایک سال پہلےہی ابا جی کو چھوڑ کر31 مئی 2016ء کو بعمر 88 سال اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ بےلوث محبّت کرنے والی اور صدقہ خیرات کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہتی تھیں۔ بہت دعا گو، تہجد گذار اور وقت پر نمازیں ادا کرنے والی تھیں۔ جب آپ کے پتے میں پتھری کی تشخیص ہوئی آخر وقت تک دعا کیا کرتیں کہ آپریشن نہ کروانا پڑے۔ ایک دفعہ حضرت مولانا بقاپوری صاحبؓ مرحوم کی خدمت میں بھی حاضر ہوکر دعا کی درخواست کی، حضرت مولانا صاحب نے ہاتھ اُٹھا کر اللہ کے حضور دعا کی اور بعد از دعا فرمایا کہ آپریشن نہیں ہوگا چنانچہ اللہ کا فضل رہا اور وفات تک امی کے آپریشن کی نوبت نہ آئی، الحمدللہ۔

ابّا جان مورخہ 4 مئی 2017ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ہمارےوالدین کی ازدواجی زندگی کے تقریباً 70 سال کا یہ عرصہ ہمیشہ آپس میں پیار و محبّت کے ساتھ گزرا۔ اپنی زندگی میں بھی اکٹھے رہے اور وفات کے بعد بھی دونوں فرانکفرٹ کے جنوبی قبرستان (Südfriedhof) میں ساتھ ساتھ مدفون ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمارے والدین پر ہزاروں رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے اور اُن کے درجات بلند فرمائے، آمین۔

رَبِّ ارْحَمْہُمَا كَمَا رَبَّیَانِی صَغِیرًا

(محترمہ ثمینہ منصور صاحبہ جرمنی)

(اخبار احمدیہ جرمنی، شمارہ مارچ 2024ء صفحہ 47)

متعلقہ مضمون

  • مکرم صلاح الدین قمر صاحب کاذکرِ خیر

  • مکرم کنور ادریس صاحب مرحوم کا ذکر خیر

  • محترم ڈاکٹر میاں ظہیر الدین منصور احمد صاحب

  • محترم ڈاکٹر محمدجلال شمس صاحب مرحوم مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ کا ذکر خیر