(مکرم محمد صالح بشارت جنجوعہ صاحب جماعت Düsseldorf)

خاکسار کے والد محترم محمد صادق جنجوعہ صاحب مؤرخہ 5 فروری 2016ء بروز جمعہ علی الصبح بعمر92سال اپنے مولائے حقیقی سے جاملے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ 1926ء میں تڑگڑی ضلع گجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ آپ میاں اللہ دتہ صاحب جنجوعہ صحابی حضرت مسیح موعودؑ کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔ پرائمری تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ فوج میں بھرتی ہوئے اور پھر لاہور میں سکونت اختیار کی۔ قیام پاکستان کے وقت 14 اگست 1947ء کو لاہور ریلوے اسٹیشن پر پرچم کشائی کی تقریب میں شمولیت کے لیے فوج کے تین افراد کو بذریعہ قرعہ اندازی منتخب کیا گیا جن میں سے ایک ابا جان بھی تھےبعد میں آپ کوتمغۂ پاکستان سےبھی نوازا گیا۔ علاوہ ازیں 1965ء میں تمغۂ جنگ اور 1971ء میں تمغۂ حرب بھی آپ کو ملا۔ فوج میں ملازمت کے دوران آپ کو داڑھی یا ملازمت میں سے ایک چیز کا انتخاب کرنے کا کہاگیا تو آپ نے سنّتِ رسولﷺ کی اتباع میں داڑھی رکھنے کو پسند فرمایا جس کی وجہ سے آپ کو ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔ انہی دنوں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے فرقان فورس میں بھرتی کے لیے تحریک کی تو والد صاحب کشمیر کے محاذ پر چلے گئے۔ اس کے بعد دوبارہ فوج میں شمولیت اختیار کرلی۔ آپ شروع سے ہی تبلیغ کا جذبہ رکھتے تھےاور دیوانہ وار تبلیغ کرتے تھے۔ انگریز دَور میں ایم ٹی وی کا انچارج احمدیت کی بہت مخالفت کرتا تھا۔ ابا جان نے بہت دعا کی جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ اس شخص کو ہٹا کر ابّا جان کو ایم ٹی وی(شعبہ ٹرانسپورٹ) کا انچارج بنا دیا گیا اور تبلیغ جاری رکھی۔ مرحوم نے تبلیغ کرنے کا ایک طریق یہ بھی اختیار کیا کہ طبیہ کالج سے حکمت پڑھ کر ڈگری حاصل کی اور مریضوں کا علاج کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو تبلیغ بھی کرتے رہے۔ زیرِتبلیغ لوگوں کو ربوہ کی زیارت کرواتے اور سوال و جواب کی مجالس منعقد کرواتے تھے۔ فوج میں تبلیغ کی وجہ سے متعدد بار کیس بھی بنے لیکن اللہ تعالیٰ نے بَری کیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے جب حضرت مسیحِ موعودؑ کی کتاب ‘‘سراج الدین عیسائی کے سوالوں کا جواب’’ کے وسیع پیمانے پر تقسیم کرنے کی تحریک فرمائی تو آپ صبح ایک تھیلا بھرلیتے اور فوج میں تقسیم کیا کرتے تھے جس کی وجہ سے آپ پر کیس بھی بن گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے بری فرمایا۔ جس کرنل نے کیس سنااس نے جب آپ کو بری کردیا تو والد صاحب نے اس کو دعا دی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو جنرل بنائے۔ چند سال بعد جب اس کرنل کی جنرل کے عہدہ پر ترقی ہوئی تو اس نے والد صاحب کو بلا کر عزت دی اور کہا کہ آپ نے جو مجھے دعا دی تھی وہ قبول ہوگئی ہے، الحمدللہ۔ ابا جان بہت بہادر، بے باک، نڈر اور دلیر انسان تھے۔ مسجد کے سامنے ہمارا گھر تھااور والد صاحب ہی امام مسجد تھے۔ بچوں کو قرآن پڑھاتے اور درس دیا کرتے تھے۔ 1988ء میں مخالفین نے ہمارے گھر پر دھاوا بول کر گھر کو آگ لگا دی۔ فائرنگ بھی کرتے رہے لیکن اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر ہرنقصان سےمحفوظ رکھا۔ 1991ء میں مکرم والد صاحب جرمنی آگئے اور تعلیم و تربیت اور تبلیغ کا سلسلہ یہاں بھی جاری رکھا۔ آپ کو مختلف جماعتی خدمات کی توفیق ملتی رہی۔ باجماعت نمازوں کا التزام کرتے اورباقاعدگی سے نمازِتہجد بھی ادا کرتے نیز اہلِ خانہ کو بھی اس کی تحریک کرتے۔ اپنی اولاد اور ان کے بچوں کی دینی و دنیاوی تعلیم کا بھی خیال رکھتے خاص طور پر قرآنِ کریم کی محبّت کو دلوں میں بٹھانے کی کوشش کرتے۔ بچوں کو اردو پڑھنا اور لکھنا سکھایا۔ جرمنی کے مختلف علاقوں میں تبلیغ اسٹالز لگانے میں حصہ لیا اور دیگر تبلیغی سرگرمیوں میں بھی ذوق و شوق سے حصہ لیتے۔ خوش اخلاقی، ملنساری اور مہمان نواز ی نمایاں اوصاف تھے۔ جب کوئی جماعتی مہمان آتا تو اصرار کرکے اپنا مہمان بناتے اور بڑے شوق سے خدمت کرتے۔ آپ کچھ عرصہ بیمار رہ کر چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے۔ باوجود معذوری کے ویل چیئر پر بیٹھ کر اجلاسات، اجتماعات اور جلسہ سالانہ پر آخر وقت تک شامل ہوتے رہے۔ مجلس انصاراللہ جرمنی کے تحت مقالہ نویسی کے مقابلہ میں باقاعدگی سے شامل ہوتے رہے۔ وفات سے چند ہفتے قبل ہمیں کہا کہ آپ کے دادا جان روزانہ خواب میں آکر کہتے ہیں کہ اب آجاؤ۔ اس لیے اب میرا کوئی پتہ نہیں کہ کس وقت بلاوا آجائے۔ آپ لوگوں نے رونا نہیں ہے بلکہ دعا کرنی ہے۔ خلافت سے محبّت وعقیدت کا تعلق رکھنا اور جماعت سے جڑے رہنا۔ آپ کی نماز جنازہ مکرم عبداللہ واگس ہاؤزر صاحب امیر جماعت جرمنی نے مؤرخہ5 فروری 2016ءکو مسجد بیت الشکور ناصرباغ میں بعد از نمازِ جمعہ پڑھائی۔ تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔ مرحوم نے پسماندگان میں پانچ بیٹے اور متعدد پوتے پوتیاں، پڑپوتے پڑپوتیاں یادگار چھوڑی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسیح موعودؑ کے اس دیوانے اور خلافت کے پروانے کی مغفرت فرمائے، درجات بلند فرمائے اور اپنے پیاروں کے قدموں میں جگہ عطا فرمائے، آمین۔

متعلقہ مضمون

  • مکرم صلاح الدین قمر صاحب کاذکرِ خیر

  • مکرم کنور ادریس صاحب مرحوم کا ذکر خیر

  • محترم ڈاکٹر میاں ظہیر الدین منصور احمد صاحب

  • میرے پیارے والدین