محمد انیس دیال گڑھی

 

مؤرخہ 7؍ اگست 2023ء کو آخن کے ہر دلعزیز، شفیق اور فقیر منش اور مہربان، عبادت گزار اور مہمان نواز دوست مکرم مبشر احمد ججّہ صاحب بھی خدا کے بُلاوے پر اس کے حضور حاضر ہوگئے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مؤرخہ 10؍ اگست کو تقریباً تین صد مرد و خواتین کی حاضری میں مکرم اطہر سہیل صاحب نے مسجد منصور آخن کے احاطہ میں نماز جنازہ پڑھائی جس کے بعد Wilmersdorfer Str. 50 کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔
مکرم مبشر ججّہ صاحب 30؍مئی 1953ء کو سرگودھا کے ایک دور افتادہ گاؤں میں پیدا ہوئے۔ 1980ء میں جرمنی آئے۔ خاکسار 1984ء میں جرمنی آیا تو یہ آخن میں رہائش پذیر تھے جبکہ خاکسار اولپےکے ایک گاؤں میں۔ چونکہ ریجن ایک تھا لہٰذا اجتماعات، تربیتی کلاسز، داعیان الی اللہ کیمپس اور دیگر اجلاسات کے مواقع پر اُن سے تعارف ہوا اور پھر یہ تعارف بھائی چارے میں بدل گیا حالانکہ اس سے قبل ہماری کوئی شناسائی نہ تھی۔ حضرت مسیح موعود کی الٰہی جماعت میں ایسے بےشمار واقعات ہیں کہ پہلے تو کبھی شناسائی نہ تھی مگر بعد میں ایسے ایسے دوست اور بھائی ملے جن کی محبّت اور شفقت حقیقی بھائیوں سے کسی طور کم نہیں۔
مرحوم بہت سی خوبیوں کے مالک تھے ان میں سے چند خوبیاں جن کا ذکر کرنا مقصود ہے۔ ایک تو عبادت ہے۔ نمازوں کے سخت پابند تھے بلکہ اگر نماز باجماعت میں حاضری کا کوئی گوشوارہ ہوتا تو میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ بھائی مبشر ججّہ صاحب کا نمبر سب سے اُوپر ہوتا۔ یہی وجہ تھی کہ آخن میں مسجد منصور تعمیر ہونے پر بہت خوش تھے۔ اور دَرحقیقت اس مسجد کو آباد کرنے والوں میں مکرم مبشر ججّہ صاحب کا نام نمایاں تھا۔ مسجد کی تعمیر سے قبل بھی یہ نماز باجماعت کے پابند تھے اور بچوں کو بھی ساتھ لاتے اور اُس وقت یہ امام الصلوٰۃ بھی تھے۔ صرف نمازوں کی پابندی ہی نہیں بلکہ اُن کا نماز میں انہماک اور خشوع و خضوع بھی قابلِ دید تھا۔
دوسری بڑی خوبی خدا کے کلام، خدا کے رسولﷺ اور حضرت مسیح موعود اور آپ کے خلفاء سے عشق تھا۔ اور جب خلیفۂ وقت جرمنی تشریف لاتے تو خوشی سے دیوانے ہوجاتے اور ہر اُس مجلس میں پہنچنے کی کوشش کرتے جہاں خلیفۂ وقت موجود ہو۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے زمانے میں جب ریجن کولون میں تبلیغی میٹنگز منعقد ہوتیں تو تقریباً ہر میٹنگ پر حاضر رہتے اور نظریں چہرۂ مبارک پر ہی جمی رہتیں۔
ان کو یہ سعادت بھی نصیب ہے کہ جب حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ خلافت کے منصب پر متمکن ہونے کے بعد جرمنی تشریف لائے تو تین ستمبر 1982ء کو آپ نے آخن میں جمعۃالمبارک پڑھایا۔ اس موقع پر مبشر ججّہ صاحب کو اذان دینے کی سعادت نصیب ہوئی۔ پھر آپ کو یہ سعادت بھی نصیب ہوئی کہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے گھر تشریف لے جا کر آپ کے گھر کو برکت بخشی اور بچوں کے ساتھ تصویر بھی بنوائی۔
چُن لیا اُس نے ہم فقیروں کو
اپنی اپنی برات ہے یارو
تیسری عادت جو اُن کے خون میں داخل تھی کہ جماعت کے ہر جلسہ اور اجتماع میں شامل ہوتے تھے اور صرف جرمنی کے جلسہ ہی نہیں بلکہ یوکے کے ہر جلسہ میں بھی ذوق و شوق سے شامل ہوتے تھے۔ مجھے نہیں یاد کہ انہوں نے کوئی جلسہ چھوڑا ہو (سوائے اشد مجبوری کےیا کورونا وباء کی وجہ سے)۔ پھر جلسہ کی رُوداد جس ذوق و شوق اور جوش و خروش سے سناتے اُس کے لفظ لفظ سے جماعت اور خلافت سے محبّت ٹپکتی تھی۔
چنانچہ اِس سال بھی جلسہ سالانہ یوکے میں شامل ہوئے اور بہت خوش تھے کہ الحمدللہ یہ پابندی ختم ہوئی اور ہم دوبارہ خلافت کے سائے میں بابرکت دن گزارآئے۔
چوتھی عادت ان کی ملنساری اور مہمان نوازی تھی جس کا میں بھی شاہد ہوں۔ اگر کبھی آخن جانا ہوتا تو ضروردعوت دیتےمیں عموماً وقت نہ ہونے کا بہانہ کردیتا۔
مرحوم کپڑوں کا سٹال لگاتے تھے ایک روز وہاں ملاقات ہوگئی جہاں سٹال لگایا ہوا تھا۔ میرے انکار کے باوجود ایک تُرک فوڈ سٹال سے مجھے کھانا لے کر کھلایا کہ تم ہر دفعہ جُل دے جاتے ہو آج تمہیں یہ کھانا ہوگا۔ اور یہ محبّت، ملنساری اور مہمان نوازی سبھی کےلئے تھی خواہ وہ واقف ہویا اجنبی، اپنا ہو یا بیگانہ ؏
وہ سوچتا ہی نہ تھا، اپنا ہے یا بیگانہ
یہی وجہ ہے کہ مرحوم کے جنازے پر غیر از جماعت دوست بھی شامل تھے۔ چند سکھ حضرات تو خاص طورپر جنازے میں شامل ہوئے۔ یہ ان کی انسانیت سے محبّت کا ثبوت ہے۔
پانچویں عادت رزقِ حلال کا حصول تھا۔ آخر دم تک انتہائی محنت اور جفاکشی سےکپڑوں کا سٹال لگا کر اپنے ہاتھ سے رزق کماتے رہے۔ سٹال لگانا آسان کام نہیں۔ میں زندگی میں چند گھنٹے ایک دوست کے ساتھ ان کے سٹال پر کھڑا ہوا تھا تب سے میں نے توبہ کرلی۔ ایک تو ٹرنک اور ڈبے بھر بھر کے گھر سے اُٹھا کر لاؤ۔ پھر کھول کر سٹال میں لگاؤ اور پھر سارا دن بارش، برف یا دھوپ کی سختی برداشت کرو اور ہوسکتا ہے کہ اُس روز کرایہ بھی نہ نکلے۔ پھر شام کو ساری چیزیں دوبارہ پیک کرکے گاڑی میں رکھو اور گھر جاکر گیراج یا سٹور میں رکھو۔ اورایسا بھی ہوتا تھا کہ کسی روز موسم کی صورتحال کی وجہ سےکوئی بھی نہ آتا مگر مبشر ججّہ صاحب ان ساری باتوں سے بے پروا مستقل مزاجی سے رزق حلال کی تلاش میں لگے رہے اور بچوں کو محنت اور جفاکشی کا درس بھی دیا۔
آپ کی چھٹی عادت جو مجھے یاد آرہی ہے یہ ہے کہ جماعتی خدمت کو عین راحت جانتے تھے اور بشاشت سے اداکرتے۔ مقامی جماعت میں خدمات کے علاوہ آپ بطور ریجنل قائد مجلس خدام الاحمدیہ بھی خدمت انجام دیتے رہے۔ وفات کے وقت آپ جماعت آخن کے سیکرٹری تربیت تھے۔ آپ کے افراد خانہ بھی جماعتی خدمت کا شوق رکھنے والے ہیں۔ ان کی اہلیہ محترمہ امۃالوسیم صاحبہ جماعت آخن کی صدرلجنہ ہیں جبکہ بیٹے سلمان ججّہ صاحب اور ڈاکٹر اُسامہ ججّہ صاحب بھی جماعتی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔ سلمان ججّہ صاحب اس وقت مقامی جماعت میں سیکرٹری امورخارجہ ہیں جبکہ ڈاکٹر اُسامہ ججّہ صاحب سیکرٹری تعلیم اور ناظم اطفال ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات قبول فرمائے اور ساری نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا کرےآمین۔
آخر میں جس عادت کا ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ ان کی عاجزی، انکساری اور سادگی تھی۔ سادگی اور بےتکلّفی میں بات کردیتے تھے بسا اوقات لوگ بُرا مناتے یا ہنستے تھے اوربعض مرتبہ آپ خود محسوس کرلیتے کہ یہ بات اس طریق سے کہنا یا لکھنا مناسب نہیں تھا تواپنے الفاظ واپس بھی لے لیتے۔ ان کی سادہ باتیں اور ادائیں اب یاد آ رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرمائے، آمین۔
یاد کے بے نشاں جزیروں سے
تیری آواز آ رہی ہے ابھی

متعلقہ مضمون

  • مکرم صلاح الدین قمر صاحب کاذکرِ خیر

  • مکرم کنور ادریس صاحب مرحوم کا ذکر خیر

  • محترم ڈاکٹر میاں ظہیر الدین منصور احمد صاحب

  • میرے پیارے والدین