میرے والدین کے بہت سے احسانوں میں سے ایک احسان یہ ہے کہ انہوں نے مجھے پانچویں کلاس کے بعد ربوہ کے پاکیزہ ماحول میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ میں داخل کروا دیا۔ وہاں مجھے کچھ عرصہ بورڈنگ ہاؤس میں رہنے کا موقعہ ملا۔ سکول کے اساتذہ نہایت اعلیٰ اخلاق اور کردار کے مالک، شریف النفس، خدا دوست، ہمدرد، خیرخواہ اور بےشمار خوبیوں کے مالک تھے۔ بلکہ یہ کہنا درست بلکہ صد فی صد درست ہوگا کہ انہیں دیکھ کر بزرگ استاد کا نقشہ ذہن میں ابھرتا ہے۔ آج میں اپنے محسن و بزرگ استاد مکرم محمد ابراہیم صاحب بھامڑی کا ذکرِ خیر کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔

محترم محمد ابراہیم صاحب بھامڑی کی پیدائش بھامڑی گاؤں میں ہوئی۔ آپ کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے والد محترم چودھری عبدالکریم صاحب کے ذریعہ ہوا جنہوں نے 1918ء میں بیعت کی۔ اپنے گاؤں میں پرائمری کی چار کلاسیں پاس کرنے کے بعدمحترم ابراہیم صاحب بھامڑی اور آپ کےچار سال چھوٹے بھائی عبدالعزیز صاحب بھامڑی 1926ء میں مدرسہ احمدیہ قادیان میں داخل ہوگئے۔ دونوں بھائی سات سال تک مدرسہ احمدیہ اور دو سال تک جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے روزانہ پانچ میل پیدل سفر کرتے رہے۔ آپ کی خدمات سلسلہ کا جائزہ لیا جائے توکچھ اس طرح بنتا ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے پی اے 3سال، امپریسٹ کلرک 3سال، تعلیم الاسلام ہائی سکول 28سال اور وقف جدید 20سال۔ اس طرح آپ کی خدمات کا کل 54سال کا طویل عرصہ بنتا ہے اور ان خدمات کے ساتھ ساتھ بطور صدر محلہ دارالنصر غربی خدمات کے 50سال بھی ہیں۔ 1949ء میں فرقان فورس میں خدمت کی توفیق پائی جس کے اعتراف میں آپ کو تمغۂ پاکستان سے بھی نوازا گیا۔ آپ نے اپنی زندگی میں چار مرتبہ حضرت مسیح موعود کی کتب کا مطالعہ کیا۔ اس طرح درثمین، کلامِ محمود، حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے سینکڑوں اشعار آپ کو زبانی یاد تھے۔ آپ کی عمر 100 سال سے زائد تھی لیکن جب بھی فون پر بات ہوتی وہی پُرشوکت آواز، دبدبہ اور خداداد حافظہ کا یہ عالم کہ نام سنتے ہی سارا حدود اربعہ بیان کردیتے۔ میرے علاقہ کے گرد و نواح کے دیہات کے نام ہی ازبر نہیں بلکہ تمام شاگردوں کے نام بتاتے اور یہ بھی بتا دیتے کہ کون اس دنیا سے رُخصت ہوچکا ہے اور کون زندہ ہے۔ بعض کی اولاد سے بھی متعارف تھے۔

مجھ ناچیز کے ساتھ ان کا تعلق نہایت مشفقانہ تھا جسے دیکھ کر شفقتِ پدرانہ کا گماں ہوتا تھا۔ آپ نے 28 سال تک تعلیم الاسلام ہائی سکول میں پڑھایا۔ سکول میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ آپ بورڈنگ میں ٹیوٹر بھی تھے اور کچن کے انچارج بھی۔ سکول میں تدریس کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے آپ پانچوں نمازیں بورڈنگ کی مسجد میں پڑھایا کرتے تھے۔ نماز فجر دارالنصر سےآ کر پڑھاتے۔ پھر قرآنی علوم سے اخذ شدہ فی البدیہہ درس دیتے۔ اس میں حضرت مسیح موعود کے پاکیزہ اشعار ترنم کے ساتھ پڑھتے جو درس کو ایسا دلچسپ بنا دیتے کہ درس سنتے چلے جانے کی تمنا رہتی۔ قرآنِ مجید کی جلد کرواتے وقت دو صفحات کے درمیان ایک خالی صفحہ لگاتے جس پر نوٹس لیتے۔ درس کے بعد گھر چلے جاتے اور تیار ہوکر سکول آتے، نماز ظہر پڑھا کر گھر چلے جاتے اور عصر تک آرام کرتے۔ اکثر اوقات مجھے ساتھ لے جاتے تھے اور پھر نماز عصر کے لیے بورڈنگ آجاتے تھے۔ عصر کے بعد بھی درس ہوتا تھا اس کے بعد کھیلوں کا وقفہ۔ مغرب کے بعد کھانا۔ کچن کا انچارج ہونے کے باعث سودا سلف آپ منگوایا کرتے تھے۔ میرے یہ بزرگ اور محترم استاد دیانت داری کا ایسا پیکر تھے کہ مَیں نے بارہا دیکھا کہ سودا لکھتے وقت وہ اس طرح لکھتے کہ جو کچھ لکھا جائے اس میں ردّ و بدل ممکن نہ ہو۔ اس زمانہ میں ایک طالب علم کا ماہانہ خرچ کم و بیش 45 سے 50 روپے کے لگ بھگ تھا۔ کوئی چیز لینی ہوتی تو پرچی لکھی جاتی۔ اس پر کھاتہ نمبر لکھتے۔ سپریٹنڈنٹ صاحب سے دستخط کرواتے اور نیروبی ہاؤس سے چیزیں لیتے۔ میرے پر بہت اعتماد تھا۔ ایک مرتبہ میں کسی کام سے سکول سے چھٹی لے کر گیا۔ میرے ایک بورڈنگ کے ساتھی مکرم محمد رشید آف بھڈال ضلع سیالکوٹ نے شرارت کی اور جب محترم بھامڑی صاحب پڑھانے آئے تو ان سے کہا کہ آپ کا شاگرد تو سکول سے پھُٹ گیا ہے۔ یعنی بغیر اجازت چلا گیا ہے۔ آپ بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔ حمیداللہ کبھی سکول سے بغیر بتائے نہیں جا سکتا۔ شام کو جب رشید صاحب مجھ سے ملے تو سارا واقعہ سنا کر کہنے لگے کہ تم قتل بھی کر آؤ تو وہ کبھی نہیں مانیں گے۔ مَیں نے جواباً کہا کہ انہیں پتہ ہے کہ میں قتل نہیں کرسکتا۔

ایک دلچسپ واقعہ ایسا بھی ہے جسے میں نہیں بھول سکتا۔ جیسا کہ پہلے بیان کرچکا ہوں کہ وہ مجھے ظہر کے بعد اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ جب سکول میں امتحانات ہوتے تو مجھ پر مکمل اعتماد کرتے ہوئے مختلف کلاسوں کے پرچے نمبرز لگانے کے لیے مجھے بھی دے دیتے۔ نَویں کلاس کا ایک امتحان تھا۔ میں نےدرخواست کی کہ میرے پرچہ پر آپ نمبر لگائیں تو فرمانے لگے کہ تم خود لگاؤ۔ مَیں نے جب نمبرز لگا لیے تو کہنے لگے کہ اپنا پرچہ دکھاؤ۔ جس پر میں نے 93/100 نمبرز لگائے تھے۔ مجھ سے پوچھا کہ زیادہ نمبر تو نہیں لگائے؟ مَیں نےادب سے کہا ایک نمبر بھی کاٹ کر دکھائیں۔ خیر میں نے وہ پرچہ سنبھال لیا اور سالانہ امتحان کا انتظار کرنے لگا۔ جب سالانہ امتحانات کا وقت آیا تو میں نے ماسٹر صاحب سے کہا کہ باقی پرچے تو مَیں دیکھ لوں گا لیکن اس مرتبہ میرا پرچہ آپ خود چیک کریں۔ کہنے لگے ٹھیک ہے۔ میرا خیال تھا کہ 90 تک تو نمبر آ ہی جائیں گے۔ خیر استاذی المکرّم نے پرچے پر نمبر لگائے۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ ماسٹر صاحب نے میرے نمبر 93/100 ہی لگائے۔ میں نے نوماہی امتحانات والا پرچہ نکال کر ان کے سامنے رکھا اور حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کا یہ مصرع پڑھا ؏

’شاگرد نے جو پایا استاد کی دولت ہے‘

ماسٹر صاحب بہت خوش ہوئے اور مجھے محبّت سے گلے لگا لیا اور فرمایا یہ نہیں کہ مجھے تم پر اعتماد نہیں بلکہ اب تو اعتماد اَور پختہ ہوگیا ہے، الحمدللہ علیٰ ذالک۔

آپ اپنے شاگردوں سے بڑی فیاضی سے پیش آتے اور آپ کے شاگرد بھی آپ کے گرد محبّت کا ہالہ بنائے رکھتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ آپ وقف عارضی کے لیے ترگڑی ضلع گوجرانوالہ تشریف لے گئے۔ آپ کے شاگردوں نے وہاں بذریعہ خطوط رابطہ رکھا اور معلوم کرتے رہے کہ آپ کب واپس آئیں گے۔ آپ کے شاگردوں کی تعداد سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہےاور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔

آپ 17 دسمبر 2023ء کو ایک نہایت کامیاب زندگی گزار کر ربوہ میں بعمر 109 سال اپنے خالقِ حقیقی کے حضور حاضر ہوگئے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔

مؤرخہ 29 دسمبر 2023ء کو حضورانور نے خطبہ جمعہ میں آپ کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا: بڑے پیار اور محبّت اور شفقت کرنے والے تھے۔ مَیں بھی ان کا شاگرد رہا ہوں۔ انہوں نے سختی بھی کی۔ بلکہ مَیں ان کو جب ناظر اعلیٰ تھا ان کی سختی یاد کروایا کرتا تھا تو ہنس دیا کرتے تھے۔ لیکن ساتھ ہمدردی ہوتی تھی، اصلاح کی غرض ہوتی تھی۔

نماز جمعہ کے بعد حضورانور نے ماسٹر صاحب مرحوم کی نماز جنازہ غائب پڑھائی۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہمیں بھی ان کے نیک نمونہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔

(مکرم حمید اللہ ظفر صاحب۔ سیکرٹری تحریک جدید جرمنی)

متعلقہ مضمون

  • مکرم صلاح الدین قمر صاحب کاذکرِ خیر

  • مکرم کنور ادریس صاحب مرحوم کا ذکر خیر

  • محترم ڈاکٹر میاں ظہیر الدین منصور احمد صاحب

  • میرے پیارے والدین