غزہ میں ہونے والی بربریت اور عالمی رائے عامہ

مکرم زبیر خلیل خان صاحب

 

یوں تو گزشتہ 75 سال سے فلسطین میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے تاہم اکتوبر 2023ء کو اس میں ایسی شدّت آئی ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ اس کا مختصر پس منظر اس طرح سے ہے کہ 2007ء میں غزہ کے علاقہ میں مقیم فلسطینیوں کی سیاسی پارٹی ’’حماس ‘‘ نے غزہ کے انتظامی امور سنبھال لیے تھے۔ اس کے بَرسر اقتدار آنے پر اسرائیل نے حماس کی دشمنی میں غزہ کے علاقہ کے لیے توانائی کے ذرائع مسدود کر دیے۔ درآمدات پر سخت پابندیاں عائد کر دیں اور غزہ کی تمام سرحدوں کو مکمل طور پر بند کرکے ان کا کنٹرول اسرائیل نے خود سنبھال لیا۔ اسرائیل کے اس ظالمانہ رویہ کے خلاف2008ء اور پھر 2014ء سے 2022ء تک حماس اور اسرائیل کے درمیان وقتاً فوقتاً مسلح جھڑپیں ہوتی رہیں یہاں تک کہ 7 اکتوبر 2023ءکو حماس نے اسرائیل پر ایک بڑا حملہ کر دیا’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘۔ حماس کی طرف سےکئے گئے اس حملہ کے ردِّعمل کے طور پر 1967ء کی جنگ کے بعد پہلی دفعہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف باقاعدہ جنگ کا اعلان کر دیا جو نصف سال گزر جانے پر بھی جاری ہے۔ اسرائیل کی اس بربریت کے نتیجہ میں غزہ میں اب تک 32000 سے زیادہ ہلاکتیں ہو چکی ہیں جن میں دو تہائی تعداد بچوں اور عورتوں کی ہے اور 75000سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ جبکہ غزہ کا رہائشی، سماجی، معاشی، صحت اور ذرائع آمدورفت کے بنیادی ڈھانچہ کا 75فیصد حصہ اسرائیلی بمبار ی کی وجہ سے بالکل تباہ ہوچکا ہے۔

فلسطین کے لیےاحمدیہ مسلم جماعت کی مساعی

موجودہ جنگ کے آغازمیں ہی عالمگیر احمدیہ مسلم جماعت کےسربراہ حضرت مرزا مسرور احمدصاحب خلیفۃالمسیح الخامس نے دکھ اور صدمے کا اظہار کیا۔ جنگ کی شدید مذمت کی اور متحارب فریقین کو اَمن کے حصول کی طرف توجہ دلائی۔ ابھی تک اسرائیل کی طرف سے نہتے فلسطینی بچوں، عورتوں اور بڑی عمر کے افراد پر کی جانے والی شدید قسم کی بربریت اور اس کے نتیجہ میں بےپناہ اموات اور زخمی ہو جانے والوں کے لیے نہ صرف دکھ اور صدمے کا مسلسل اظہار کرتے رہتے ہیں بلکہ باقاعدگی سےعالمگیر احمدیہ مسلم جماعت کےممبران کو ان بےگناہ فلسطینیوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحم اور فضل عطا ہونے کے لیے خصوصی دعاؤں کی تحریک بھی خطبہ جمعہ میں کرتے رہتے ہیں۔

بین الاقوامی سطح پر 9 مارچ 2024ء کو لندن میں احمدیہ مسلم جماعت کے زیرِانتظام اَمن سمپوزیم کا بھی انعقاد کیا گیا جس میں دنیا بھر کے رہنماؤں کے لیے دنیا میں اَمن قائم کرنے کےلیے اسلام کے سنہری اصولوں پر بھی احمدیہ مسلم جماعت کے سربراہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفۃالمسیح الخامس نے اپنے خطاب میں روشنی ڈالی۔ اس خطاب کو مختلف زبانوں میں ترجمہ کرکے متعلقہ حکام تک پہنچانے کی مساعی بھی جاری ہے۔ احمدیہ مسلم جماعت کے سربراہ کی ہدایات کی روشنی میں دنیا بھر کے احمدیوں نےاپنے ممالک کے حکام کو غزہ میں ہونے والی بربریت رکوانے کے لیے بہت بڑی تعداد میں خطوط اور ای میلز بھی لکھی ہیں۔ فلسطین کے علاقہ حیفہ میں موجود احمدیہ مسلم جماعت کے مقامی سربراہ شریف عودہ صاحب اس جنگ کے آغاز کے بعد سے دو دفعہ بڑے پیمانے پر اَمن سمپوزیم کا انعقاد اسرائیل کے علاقہ میں کرچکے ہیں جن میں مقامی یہودیوں کی بڑی تعداد کو اَمن کے قیام کے لیے اسلامی تعلیمات سے آگاہ کیا گیا۔ احمدیہ مسلم جماعت کی انسانیت کی خدمت کے لیے قائم تنظیم Humanity First کے زیرِانتظام مصر کے علاقہ کے ساتھ ملحقہ رَفح کراسنگ سے خوراک، ادویات، پانی اور دیگر ضروریات زندگی فلسطینی مہاجرین کے لیے باقاعدگی سے تقسیم کروائی جا رہی ہیں۔ دنیا کے تمام ممالک میں احمدیہ مسلم جماعت کے ممبران اپنے فلسطینی برادران کی مدد کے لیے دل کھول کر عطیات بھی دے رہے ہیں۔

عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ

26 جنوری 2024ء کے روز عالمی عدالت انصاف نے 1948ء میں قائم کئے جانے والے Genocide Convention کے مندرجات کے مطابق غزہ میں جاری فلسطینیوں کی انسانی نسل کشی کے خلاف جنوبی افریقہ کی طرف سے دائر مقدمہ کا عبوری فیصلہ سنایا۔ اس فیصلہ کو سترہ میں سے پندرہ ججز کی حمایت حاصل تھی۔ فیصلہ کے مطابق عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کو ہدایت کی کہ وہ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی پر مبنی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے اقدامات کرے۔ اسی طرح غزہ میں انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے بھی اقدامات یقینی بنائے۔ البتہ عالمی عدالت انصاف نے غزہ میں فوری جنگ بندی کے مطالبہ کو منظور نہیں کیا۔ اسرائیل نے اعلان کیا کہ وہ عالمی عدالت انصاف کےاس فیصلہ کو تسلیم نہیں کرتا اس لیے وہ کوئی قدم نہیں اٹھائے گا۔ عالمی برادری کو عالمی عدالت انصاف سے یہ شکوہ ضرور پیدا ہوا کہ اتنی بربریت اور ظلم کے باوجود انصاف دلوانے والے اس عالمی ادارے نے فوری جنگ بندی کی طرف کیوں توجہ نہیں دی۔ اس سے اس خدشہ کو تقویت ملتی نظر آئی کہ انصاف بھی طاقتوروں کی مرضی سے ہی ملتا ہے۔

اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی بےتوقیری

دنیا میں امن کے قیام کی ضمانت کے لیے اقوامِ متحدہ کا سب سے اہم ادارہ سیکیورٹی کونسل ہے۔ اس کے کل پندرہ ممبر ہیں جن میں پانچ مستقل ممبر ہیں جن کے پاس ویٹو کا حق ہے۔ مستقل ممبران میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین شامل ہیں۔ باقی دس غیرمستقل ممبران کا انتخاب دو سال کے لیے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی دو تہائی ووٹوں سے کرتی ہے۔ غزہ میں جاری جنگ کے لیے اس وقت تک سیکیورٹی کونسل میں سات مرتبہ قراردادیں پیش ہوچکی ہیں جن میں سے دو قراردادیں جو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی اشیاء سے متعلق تھیں وہ منظور ہوگئی تھیں۔ باقی پانچ قراردادیں جو جنگ بندی کے نقطۂ نظر سے تیار کی گئی تھیں ان میں سےتین کو امریکہ نے اور دو کو روس اور چین نے ویٹو کر دیا تھا۔ اگر گہرائی میں تجزیہ کیا جائے تو یہ کونسل انصاف کے اصولوں کے بالکل منافی بنائی گئی ہے۔ ویٹوکی طاقت رکھنے والا کوئی ملک بھی باقی چودہ ممالک کی رائے کو ردّ کر سکتا ہے جو کسی طرح بھی انصاف نہیں۔ اور اس ادارہ کی بےتوقیری میں اضافہ ہی کرتا ہے۔ غزہ کے معاملہ میں ایسا ہوتا صاف نظر آ رہا ہے۔

25 مارچ کو اقوامِ متحدہ نے اپنے چودہ ممبران کی رائے سے غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد منظور کرلی ہے۔ اس مرتبہ امریکہ نے قرارداد ویٹو نہیں کی البتہ رائےشماری میں حصہ نہیں لیا۔ امریکہ کی طرف سے ویٹو استعمال نہ کرنے کی وجہ سے اسرائیلی وزیراعظم نے امریکہ کی شدید مذمت کی ہے اور امریکہ کا مجوزہ دَورہ بھی منسوخ کر دیا ہے۔ ساتھ ہی اسرائیل کے وزیرِدفاع نے یہ بھی اعلان کیاہے کہ اسرائیل سیکیورٹی کونسل کی قرارداد پر عمل نہیں کرے گا اور غزہ میں جنگ جاری رکھے گا۔ طاقتور ممالک کی طرف ایسے اقدامات اقوامِ متحدہ کے اس اہم ادارہ کی بےتوقیری میں مزید اضافہ کا باعث بن رہے ہیں۔

حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے اقوام متحدہ کے ادارہ کے بارہ میں کیا ہی سچ فرمایا تھا:

یہ عجیب قسم کا امن عالم کا ادارہ ہے اور عجیب قسم کی یونائیٹڈ نیشنز ہے۔ فیصلے کرنے کا اختیار ہے، فیصلے نافذ کرنے کا اختیار نہیں۔ فیصلے نافذ کرنے کا اختیار بڑی طاقتوں کو ہے اور بڑی طاقتوں کی مرہونِ منت تمام دنیا کی قومیں بنی ہوئی ہیں۔ یہ ادارہ زندہ رہنے کے لائق نہیں ہے۔ یہ غلامی کو جاری رکھنے کا ادارہ ہے۔ غلامی کے تحفظات کا ادارہ ہے۔ آزادی کے تحفظات کا ادارہ نہیں ہے۔

(خطبات طاہر جلد 10 صفحہ 217، خطبہ جمعہ 8 مارچ 1991ء)

عرب اور مسلم ممالک کی بے حسی

اس وقت عرب دنیا میں22 عرب ممالک پر مشتمل عرب لیگ موجود ہے۔ اس کے علاوہ آرگنایئزیشن آف اسلامک کو آپریشن (OIC) بھی موجود ہے جس کے اس وقت 57ممبران ہیں۔ لیکن عرب لیگ اور آرگنایئزیشن آف اسلامک کوآپریشن میں اختلافات کی شدّت اس اَمر سے ظاہر ہو جاتی ہے کہ اردن کے سوا کسی مسلم ملک نے اپنے سفارتی تعلقات ختم نہیں کیے اور نہ ہی اپنے سفارتکار اسرائیل سے واپس بلائے ہیں۔ اگر عالمی عدالت انصاف میں Genocide کا معاملہ اُٹھایا گیا تو وہ بھی جنوبی افریقہ نے اُٹھایا جو مسلم ملک نہیں ہے۔ اسی طرح عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ لڑنے کے لیے آئرلینڈ آگے آیا جو مسلم ملک نہیں ہے۔ عرب ممالک اور اسلامی دنیا میں اتفاق اور اتحاد کی کمی صاف ظاہر کر رہی ہے کہ اس وقت عالم اسلام کو کسی ایسے رہبر کی ضرورت ہے جو مسلم اُمہ کو ایک جھنڈے تلے جمع کرسکے۔

امت مسلمہ کے لیے عاجزانہ مشورہ

خدائے برتر نے تو اپنے پیارے محمدﷺ کی اُمّت پر پیار اور رحم کی نظر کرتے ہوئے اپنے وعدہ کے مطابق اور زمانے کی ضرور ت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے عین وقت پر امام الزمان حضرت مرزا غلام احمد مسیح و مہدی موعود کو مبعوث کر دیا تھا۔ لیکن اُمّتِ مسلمہ کی بدقسمتی ملاحظہ ہوکہ اس نے خدائے برتر کی طرف سے بھیجے گئے اس مرسل کا انکار کر دیاحالانکہ پوری امت مسلمہ روزانہ اس اَمر کا مشاہدہ کرتی ہے کہ احمدیہ مسلم جماعت کے افراد جنہوں نے وقت کے امام کو قبول کیا وہ مسیح الزمان کے بعد قائم کردہ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کی بدولت کس طرح ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں اور خلافت کی بدولت ہی اتفاق اور اتحاد کے ساتھ ترقیات کی راہ پر گامزن ہیں۔ کاش دنیائے اسلام بھی اس نقطہ کو سمجھ کر وقت کے امام کو قبول کرلے تاکہ وہ بھی ہر قسم کے مسائل سے چھٹکارا حاصل کرکے مسیح محمدی کے حصار میں آ جائے،آمین۔

(اخبار احمدیہ جرمنی اپریل 2024ء صفحہ31)

متعلقہ مضمون

  • ایک احمدی خاتون صحافی کی عدالتی کامیابی

  • جرمنی میں رہتے ہوئے سوئٹزرلینڈ میں کام کے مواقع

  • ملکی و عالمی خبریں

  • سالانہ تقریب تقسیم انعامات جامعہ احمدیہ جرمنی