تعارف کتب
مکرم ایچ ایم طارق صاحب

خود نوشت سوانح عمری مولانا حیدر علی ظفر صاحب مربی سلسلہ

جولائی 2022ء میں سفر جرمنی کے دوران مکرم حیدرعلی ظفر صاحب کی خود نوشت سوانح عمری ’’من آنم کہ من دانم‘‘ کےمطالعہ کا موقع ملا۔
اس کا عنوان ہی جہاں مصنف کے عجز و انکسار کا آئینہ دار ہے وہاں اس میں خودنوشت کی حکمت بھی مضمر ہے کہ اپنی ذات کے بارہ میں خود ایک انسان سے بڑھ کر بہتر اور کون بیان کرسکتا ہے اور پھرواقعی بلا کم و کاست نہایت سادگی اور اختصار سے اپنی روز مرہ ڈائری کا عمدہ خلاصہ آپ بیتی کی صورت میں افادۂ عام کےلیے پیش کردیا ہے۔
اگرچہ ہر شخص کا ایک اپنا جہاں اور اس کی زندگی کی ایک داستان ہوتی ہے مگر بیان کی توفیق کچھ خوش نصیبوں کے حصہ میں ہی آتی ہے،اور پھر واقف زندگی کا سفر پھولوں کی سیج نہیں،ایک پُل صراط ہوتا ہے جسے مصنف نے قریباً عبور کرکے یہ سچی کہانی لکھ چھوڑی ہے جو بہتوں کےلیے مشعل راہ اور لکھنے والےکے حق میں دعائے خیر کا موجب بنتی رہے گی۔
میں سمجھتا ہوں کہ واقف زندگی کا سرمایۂ حیات بھی ایک امانت ہوتا ہے، اور جنہیں اس امانت کا حق ادا کرنے کی توفیق ملے انہیں ضرور اپنی کہانی بغرض تحدیث نعمت لکھنی چاہیے۔ بہرحال اس کہانی کو اگر کوئی دوسرا عنوان دیا جاسکتا ہو تو وہ ’’انجام بخیر‘‘ ہی ہوگا۔ ان شاءاللہ۔ اس سے بڑھ کر کسی واقف زندگی کی اورکیا خواہش ہوسکتی ہے آغاز کتاب میں ہی مولانا نےخوب لکھا کہ آپ کا مطمح نظر ہمیشہ یہی رہا کہ
زندگی میری کٹے گی خدمت اسلام میں
وقف کردوں گا خدا کی راہ میں جان حزیں
اور پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ عزم صمیم پورا کرنے کی توفیق دی، آپ کو نصف صدی سے خدمت دین کی توفیق عطا ہورہی ہے اور اس دوران پاکستان میں اوکاڑہ،ڈیرہ غازی خان،لاہور اور کراچی کے علاوہ ایک بڑا حصہ بیرونی ممالک جرمنی،ڈنمارک، لائبیریا وغیرہ میں گزرا اور پہلی دفعہ قریباً پچیس برس کے بعد آپ کے اہل و عیال کو بیرون ملک آپ کے ساتھ آکر رہنے کا موقع مل سکا۔ بلاشبہ یہ ابراہیمی و اسماعیلی قربانی کا ایک نمونہ تھا جو آپ کا پورا کنبہ پیش کررہا تھا۔ اس دوران ان کی والدہ محترمہ کی وفات ہوئی تو آپ ان کا آخری دیدار بھی نہ کرسکے مگر ایک خادم دین فرزند صالح کی دعائیں یقیناً ان کے درجات کی بلندی کا موجب ہوئی ہوں گی۔ پھر بیرون ملک خدمت کے دوران ہی آپ کے نوزائیدہ بچے کی وفات کا صدمہ بھی پہنچا جس پر حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے صبر کی شرط کے ساتھ جو بشارت عطا فرمائی وہ تین نیک مبشر بچوں کی صورت میں آپ کے صبر کی سند بھی ہے۔ دوران خدمت مختلف مقامات پر اندرون ملک اور بیرون ملک تبادلوں اور تقرریوں کے موقع پر حسب معمول کئی کٹھن مقام بھی آئے مگر ہر مشکل اور آڑے وقت میں اللہ تعالیٰ آپ کا معین و مددگار ہوا۔ ربوہ میں تبادلہ پر جب مہنگا مکان کرایہ پر لینا پڑا تو غیبی امداد پہنچ گئی۔ یہی معاملہ ہر مخلص،دعاگو واقف زندگی کے ساتھ ہم نے دیکھا ہےکہ اللہ تعالیٰ خود ان کی تائید و نصرت کے سامان فرماتا ہے۔
آپ کو اللہ تعالیٰ نے قدردانی کا جذبہ بھی خوب عطا فرمایا ہے۔ ہمیشہ آپ نے اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی اور اپنی سوانح عمری میں بھی ان کا تذکرہ کرکے انہیں زندہ جاوید کردیا ہے۔
ماشاءاللہ آپ وہ خوش قسمت واقف زندگی ہیں جنہوں نے چار خلفاء سلسلہ کا زمانہ پایا اور ان سے وابستہ رہ کر خلافت کی برکات اور دعائیں حاصل کیں۔ دراصل آپ کی کامیابی کا راز خلفائے وقت کی اطاعت اور بابرکت قربت کے ساتھ ان کی دعاؤں کا ثمر ہی تو ہے کہ کہاں آپ سندھ کے ایک گاؤں سے آئے اور اللہ تعالیٰ نے وقف اور خلافت کی برکات سے ایک دنیا کی سیاحت کا موقع عطا فرمایا۔ حج بیت اللہ کی سعادت بھی آپ کو نصیب ہوئی۔
الغرض یہ کتاب نہ صرف برکات خلافت کی مجسم گواہ ہے بلکہ جماعتی ترقی اور صداقت کا بھی ثبوت ہے۔ جس کے مطابق جماعت جرمنی کی تدریجی ترقی آپ نے گزشتہ نصف صدی میں اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کی ہے اور میدانِ عمل میں نصرت الٰہی کو قدم بقدم بارش کی طرح نازل ہوتے دیکھا ہے۔ صرف جماعت ہمبرگ کی ترقی کے حوالہ سے آپ نے یہاں 1957ء میں تعمیر ہونیوالی پہلی مسجد فضلِ عمر کا ذکر کرتے ہوئے بجالکھا ہے کہ کہاں تنہائی کا وہ عالم کہ جب پہلے مبلغ چوہدری عبداللطیف صاحب اکیلے تھے اور کہاں آج یہی مسجد، ہمبرگ کے چودہ حلقوں میں سے ایک حلقہ کےلیے بھی ناکافی ہے چنانچہ آج جماعت احمدیہ جرمنی سو مساجد کے منصوبہ پر تیزی سے عمل پیرا ہے جس کی تکمیل جماعت کی ترقی اور صداقت کا ایک اور سنگِ میل ہوگا۔ الغرض آپ کی سوانح عمری مختصر، سادہ مگر دلچسپ اور ایمان افروز ہے۔ یہ کتاب درج ذیل ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔
https://ur.ebooks.org.uk/bookcase/pvcee

متعلقہ مضمون

  • روئداد جلسہ دعا

  • کتاب البریہ

  • ہر مخالف کو مقابل پہ بلایا ہم نے

  • الموعود