فرانکفرٹ سےشمال کی جانب قریباً چالیس کلومیٹر کے فاصلہ پر فریڈبرگ کے پڑوس میں آباد ایک قصبے Florstadt میں نو تعمیر شدہ مسجد مبارک کے اِفتتاح کے لئے سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس پانچ بجکر پچیس منٹ پر Florstadt پہنچے اور مسجد مبارک کی بیرونی دیوار پر نصب تختی کی نقاب کشائی فرمانے کے ساتھ ہی مسجد کے بابرکت ہونے کے لئےدعا کروائی۔ پھر مسجد کی بالائی منزل پر تشریف لے جا کر نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائیں جس کے ساتھ مسجد مبارک کا باقاعدہ افتتاح عمل میں آیا۔ نماز کے بعد چند منٹ تک احبا ب سے گفتگو فرمائی، اس دوران حضور انور نے صدر جماعت مکرم انس احمد صاحب سے گنبد اور مینار کی بابت دریافت فرمایا تو انہوں نے عرض کی کہ گنبد کی اجازت نہیں ملی جبکہ مینار کی مشروط اجازت ملی تھی کہ وہ چھت سے زیادہ اونچا نہ ہو۔ اس پر حضور انور نےفرمایا کہ گرجاگھر (Church) کا مینار تو کافی اونچا ہوتا ہے۔

علاوہ ازیں حضور انور نے دیگر احباب جماعت سے بھی چند منٹ تک گفتگوفرمائی۔ حضور انور نے مسجد کے اردگرد کے علاقہ میں دس منٹ کی Walk پر رہنے والے احباب کے بارے میں دریافت فرمایا۔ نیز دریافت فرمایا یہ چھوٹا شہر ہے یہاں کے لوگ کام کرنے کے لیے کہاں جاتے ہیں جس پر صدر جماعت نے عرض کی کہ زیادہ تعداد فرانکفرٹ جاتی ہے۔

حضور انور نے ازراہ شفقت گذشتہ سالوں میں یہاں نئے لوگ آنے والے احباب کے بارے میں دریافت فرمایا۔ اس پر ایک دوست مکرم زاہد رشید صاحب نے عرض کیا وہ 2016ء میں ننکانہ صاحب سے آئے تھے۔ حضور انور نے فرمایا کہ آپ کی ملاقات تو ہوگئی تھی۔ اس پر موصوف نےعرض کیا کہ میری فیملی بعد میں آئی ہے ان کی ابھی ملاقات نہیں ہوئی۔ اسی طرح ایک اَور دوست مکرم منیر احمد صاحب نے عرض کیا کہ ان کا تعلق احمدنگر ربوہ سے ہے اور وہ بھی چند سال پہلے آئے ہیں۔

بعدازاں حضور انور کچھ دیر کے لیے مسجد کی بالائی منزل کے کھلے حصّے (Terrace) پر تشریف لے گئے۔ اس دوران امیر صاحب جرمنی نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ جرمنی میں تعمیر ہونے والی مساجد میں سے یہ واحد ایسی مسجد ہے جہاں بجلی کا انتظام سولر سسٹم کے ذریعہ کیا گیا ہے۔

بعدازاں حضور انور مسجد کی نچلی منزل پر تشریف لے آئےجہاں خواتین حضور انور کی آمد کی منتظر تھیں۔ اس موقع پر بچیوں کے گروپ نے ترانے اور دعائیہ نظمیں پیش کیں۔ خواتین شرفِ زیارت سے فیضیاب ہوئیں۔ حضور انور نے ازراہِ شفقت بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔

جب حضور انور ہال سے باہر تشریف لائے تو فلورشٹڈ شہر کے میئر Mr. Herbert Unger نے حضور انور سے شرفِ ملاقات حاصل کیا۔ حضور انور ازراہِ شفقت موصوف سے گفتگو فرماتے ہوئےمسجد کے عقبی احاطہ میں تشریف لے گئے اور بادام کا پودا لگایا جبکہ میئر موصوف نے خوبانی کا پودا لگایا۔ اس کے بعد حضور انور ازراہ ِشفقت مسجد سے ملحق مربی ہاؤس میں تشریف لے گئے۔ آخر پر ممبران مجلس عاملہ جماعت فلورشٹڈ اور مسجد کی تعمیر کے دوران وقارِعمل کرنے والے احباب نے گروپ کی صورت میں حضور انور کے ساتھ تصاویر بنوانے کی سعادت پائی۔ اس کے بعد شہر میں واقع اُس ہال کی طرف تشریف لے گئے جہاں مسجد کے افتتاح کی نسبت سے ایک تعارفی تقریب منعقد ہوئی۔

پُر وقار تعارفی تقریب

مسجد مبارک کے افتتاح کے حوالہ سے ایک تقریب کا اہتمام مسجد سے چند کلومیٹر پر واقع ایک ہال ”Aralia Ballroom “میں کیا گیا تھا۔ یہ ہال مختلف فنکشنز، نمائشوں اور تقریبات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہاں حضور انور سوا چھ بجے کے قریب ورود فرما ہوئے۔ حضور انور کی آمد سے قبل اس تقریب میں شامل ہونے والے مہمان اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تھے۔ اِس تقریب میں 119 مہمان شامل تھے جن میں ممبر صوبائی پارلیمنٹ، دو شہروں کے میئرز، مقامی اور صوبائی سیاستدان، پولیس کے افراد، وکلاء اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے۔

حضور انورکی تشریف آوری کے ساتھ ہی تقریب کے ناظم (Moderator)مکرم آصف ملک صاحب نے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے تلاوت قرآن کریم کے لیے مکرم حافظ طاہر احمد صاحب کو دعوت دی۔ جس کا جرمن زبان میں ترجمہ فرید سمیع صاحب نے پیش کیا۔ اس کے بعد مکرم امیر صاحب جرمنی عبداللہ واگس ہاؤزر صاحب نے تعارفی ایڈریس پیش کیا۔

محترم امیر صاحب نے اس شہر کے تعارف میں بتایا کہ ضلع Wetterau کے وسط میں Florstadt کا خوبصورت شہر واقع ہے۔ اس شہر کی آبادی دس ہزار نفوس پر مشتمل ہے اور اس شہر کی تاریخ دو ہزار سال سے زیادہ پرانی ہے۔ اس شہر میں جماعت کی تعداد 160 افراد جماعت پر مشتمل ہے۔ آپ نے مسجد کا تعارف کراتے ہوئے اس کی تفصیل بتائی اور آخر پر اس شہر کی حکومتی انتظامیہ کے ان تمام افراد کا شکریہ ادا کیا جن کا تعاون مسجد کی تعمیر کے دوران جماعت کو حاصل رہا۔

اس کے بعد Florstadt کے میئر Mr. Herbert Unger نے اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے حضور انورکی خدمت میں السلام علیکم کے الفاظ کہےاور خوش آمدید کہا، اس کے بعد تمام حاضرین کو اور جماعت کے ممبران کو بھی سلام کہا۔ موصوف نے اپنی تقریرمیں کہا کہ بےشک مسجد کو بنانے میں بہت زیادہ وقت لگا ہے لیکن اب وہ بہت اعلیٰ طور پر مکمل ہوگئی ہے۔ جس شخص نے میری طرح مسجد کے قیام کے سارے مراحل ساتھ گزارے ہیں یعنی مسجد کا منصوبہ، اس کے اخراجات، شہر کی انتظامیہ سے عمارت بنانے کی منظوری لینا اور تعمیراتی کام سے لے کر آج افتتاح کے دن تک تو وہ یقیناً جان سکتا ہے کہ اس لمبے سفر میں احمدیہ جماعت کے ممبران کو کتنی مشکلات کا سامنا تھا اور یہاں کی جماعت کے ممبران کو کتنے فاصلے طے کرنے پڑے۔ ان تمام مشکلات کا سامنا مسجد کے سنگِ بنیاد رکھنے کے بعد بھی کرنا پڑا، جو احمدیہ مسلم جماعت کے خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمد نے خود تشریف لاکر اکتوبر 2015ء میں رکھا تھا۔

اس کے بعد میئر صاحب نے کہا کہ جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ ہم شہر کی انتظامیہ کی طرف سے اس بارہ میں بالکل بھی رضامند نہیں تھے کہ پلاٹ کے مالک نے یہ جگہ جماعت کو مسجد کے قیام کے لیے فروخت کردی۔

پلاٹ کے مالک نے نہ تو شہر کو یہ پلاٹ بیچا اور نہ ہی کسی اور تجارتی سرمایہ کار کو جنہیں اس پلاٹ میں دلچسپی تھی، بلکہ جماعت احمدیہ کو مسجد کے لیے یہ پلاٹ فروخت کر دیا باوجود اس کے کہ یہ ایک تجارتی علاقہ ہے۔ ہمارے نزدیک تو مسجد کی عمارت Council-Hall کے قریب ہونی چاہیے تھی۔ جب ہمیں اس پلاٹ کے بِک جانے کا علم ہوا تو وقت نہیں رہا تھا کہ ہم اسے قانونی طور پر بھی روک سکیں، لیکن آج ہم اس بارہ میں بہت خوشی محسوس کر رہے ہیں کہ ایک لمبے اور محنت طلب عرصہ کے بعد یہ مسجد اس جگہ بن گئی ہے۔ جماعت اور شہری اِنتظامیہ کے درمیان بہت اچھا تعاون رہا، جس کے نتیجہ میں ایک بہت ہی خوبصورت مسجد بن گئی جو ہمارے شہر کے عین وسط میں موجود ہے اور اِس طرح سے مذاہب کو سوسائٹی میں جگہ دینی چاہیے۔

جناب میئر نے خواہش اور تمنا کی کہ یہ مسجد مبارک نہ صرف احمدیہ مسلم جماعت کے ممبران کے لیے برکت کا باعث ہو بلکہ Florstadt کے تمام شہریوں، ہمسائیوں اور مہمانوں کے لیے بھی یہ مسجد برکت کا باعث ہو اور یہ مسجد سب کے لیے ہم آہنگی پیدا کرنے والی اور ہر ایک کو اکٹھا کرنے والی ہو۔

آخر پر مئیر صاحب نے نہایت جذباتی انداز میں حضور انور، تمام ممبران ِجماعت اور ہر اس فرد کے لیے جو اس مسجد میں داخل ہو اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم سب کا جو ایک ہی خدا ہےوہ اس مسجد کو مبارک کرے، (آمین)۔

بعدازاں نواحی قصبہ Niddatal کے میئر Michael Hahn صاحب نے اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے حضور انورکی خدمت میں سلام پیش کرتے ہوئے خوش آمدید کہااور بتایا کہ Niddatalمیں بھی احمدیہ مسلم جماعت کے ممبران مقیم ہیں اور یہ اس Florstadt جماعت کا حصہ ہیں۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ میں آپ کو آج اپنے شہر کے میونسپل اداروں کی طرف سے بھی مبارک باد پیش کرسکتا ہوں۔

موصوف نے کہا کے’’مسجد مبارک‘‘ کے معنی برکت والے ہوتے ہیں اور ایسے گھر کے لیے یہی خواہش ہوتی ہے کہ یہ برکت والا ہو۔ جس بات کی مجھے نہایت خوشی ہے وہ نیشنل امیرصاحب کے بیان کی ہے جو انہوں نے ایک معلوماتی نشست میں دیا تھا کہ آپ لوگ ہر ایک کو اس مسجد میں داخل ہونے دیتے ہیں سوائے شیطان کے۔ یہ ایک مذہبی جماعت ہونے کے باعث ایک بہت خوبصورت طرزِعمل ہے کہ ہر ایک سے آپ لوگ رابطہ میں رہنا چاہتے ہیں خواہ ان کا دوسرے مذاہب سےہی تعلق ہو۔

اس کے بعد Tobias Utter صوبائی ممبر پارلیمنٹ حاضرین سے مخاطب ہوئے۔ موصوف نے بھی سب سے پہلے حضور انور کی خدمت میں مؤدّبانہ سلام پیش کیا اور خوش آمدید کہا۔ پھر تمام حاضرین اور جماعت کے ممبران کو بھی خوش آمدید کہہ کر اپنی گفتگو کا آغاز اس بات سے کیا کہ آج کل جب کہ دنیا کے حالات نہایت ہی خوفناک ہیں، اس اندھیرے کے زمانہ میں ہمیں ایک خوشی کا دن میسرآیا ہے کیونکہ آج جماعت احمدیہ Florstadt اپنی مسجد مبارک کا افتتاح کر رہی ہے۔ مسجد کا یہ افتتاح اس بات کا ثبوت ہے کہ جرمنی میں حقیقت میں مذہبی آزادی میسر ہے۔ مسجد ایک ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں عبادت کی جا سکے لیکن ساتھ ہی اس جگہ پر لوگ آپس میں ملتے بھی ہیں اور یہ ایک امن کی جگہ بھی ہے۔ مجھےاس بات پر ہمیشہ خوشی ہوتی ہے کہ جماعت احمدیہ کو صرف اپنے جماعت کے ممبران کی فکر نہیں ہوتی بلکہ مجموعی طور پر انسانیت کی خدمت پر بھی توجہ دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں صوبہ Hesse میں مختلف اوقات میں احمدیہ مسلم جماعت سے رابطہ میں رہتا ہوں اور دیکھنے کو ملتا ہے کہ جماعت ہماری سوسائٹی کا فعّال حصّہ ہے۔ Hesse کی صوبائی حکومت بھی اپنے آپ کو ایسے مذہبی لوگوں کا ساتھی سمجھتی ہے جو اپنے دین کے ساتھ ساتھ خدمت انسانیت میں حصہ ڈالیں۔ کئی سالوں سے جماعت احمدیہ جرمنی Hesse کے صوبہ میں سکولوں میں دینی تعلیم کے نظام میں شامل ہے اور اس میں بہت کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔

بعدازاں موصوف نے کہا کہ آج اگرچہ خوشی کا دن ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں احمدیہ جماعت کو دی جانے والی تکالیف پر ہمیں تشویش ہے۔ اس سال میں تو ظلم اور تشدّد بہت بڑھ گیا ہے۔ اگر سچ کہا جائے تو پاکستان کے حالات آج کل اچھے نہیں۔ نہ ہی احمدیوں کے لیے اور نہ ہی عیسائیوں کےلیے۔ کچھ دن قبل ہی افواہوں کی وجہ سے تشدّدپسند لوگوں نے عیسائیوں اور ان کے عبادت خانوں پر حملہ کیا اور چرچ کو جلا دیا گیا۔ مذہبی جذبات کو غلط طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسے ظالم لوگ ناجائز طور پر مذہب کا استعمال کرتے ہیں تاکہ اپنے مذموم مقاصد حاصل کرسکیں، اسی لیے بہت سے لوگوں کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ چنانچہ ایسے اندھیرے وقت میں خدا کے نور کی ضرورت خاص طور پر بڑھ جاتی ہے اور پیار اور امن کی ضروریات بڑھ جاتی ہیں۔ احمدیہ مسلم جماعت میں خاص طور پر یہ اعلیٰ اقدار پائی جاتی ہیں۔ ہمیں مل کر مشکل حالات کا سامنا کرنا ہوگا اور اپنی جمہوریت کا دفاع کرنا ہوگا۔ آئندہ بھی ہم لوگوں کو جرمنی کے آئین کے مطابق امن اور رواداری میں مل کر رہنا ہوگا۔ ہماری جمہوریت اور ہمارا آئین ہر ایک فرد کو بہت سی آزادیاں دیتا ہے لیکن ساتھ یہ ذمہ داری بھی عائد کرتا ہے کہ اس آزادی کو صحیح طرح استعمال کیا جائے۔ ہر مقدّس کتاب کے بارہ میں بےشک بحث کریں، اس کے بارہ میں بات کریں، لیکن اسے جلانا اور دوسروں کے جذبات کو مجروح کرنا یہ مناسب نہیں۔

آخر پر موصوف نے کہا کہ یہ ہمارے لیے ایک بہت بڑا اعزاز ہے حضور انور ایک بار پھر ہمارے پاس تشریف لائے ہیں اور اپنی اپنے دستِ مبارک سے مسجد کا افتتاح فرمایا۔ خدا کرے کہ اس کا گھر ہمیشہ ایک رواداری والا گھر رہے جہاں لوگوں کی مدد کی جائے اور انہیں ایک دوسرے کی مدد کرنے کی ترغیب دلائی جائے اور خداتعالیٰ کا پیار ہم میں ظاہر ہو۔ شکریہ۔

آخر میں حضور انورنے خطاب فرمایا۔ تشہّد و تعوّذ اور تسمیہ کے بعد حضور انور نے السلام علیکم ورحمۃاللہ و برکاتہ کی دعا کے ساتھ سب مہمانوں کو مخاطب فرمایا۔ پھر فرمایا کہ ہم اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اُس نے ہمیں اس علاقہ میں ایک مسجد بنانے کی توفیق عطا فرمائی۔ مسجد ہمارے دین کے مطابق خداتعالیٰ کا گھر ہے۔ مسجد وہ جگہ ہے جہاں لوگ جمع ہو کر ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دین کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق ایک دوسرے سے محبّت پیار اور حسن سلوک کی تعلیم دیتے ہیں۔

مساجد کی حفاظت اور اس کا حق ادا کرنا ہر حقیقی مسلمان کا فرض ہے۔ یہ کبھی ہو نہیں سکتا کہ مسجد کا حق ادا کرنے والا کبھی کوئی ایسی حرکت کرے جس سے خداتعالیٰ کی عبادت کا بھی حق ادا نہ ہو رہا ہو اور لوگوں کے حق بھی ادا نہ ہورہے ہوں۔ قرآن کریم نے جہاں مسلمانوں کو کافروں پر سختی کرنے کی تعلیم دی ہے وہاں یہ نہیں کہاکہ مسلمان اپنے دین کی حفاظت کریں، بلکہ کہا جو لوگ مذہب کے خلاف ہیں، فتنہ و فساد پیدا کرنا چاہتے ہیں اورخدا کے انبیاء کی تعلیم کو ختم کرنا چاہتے ہیں، ان کے خلاف مسلمانوں کو اکٹھا ہونا چاہیے۔ اس لیے خداتعالیٰ نے قرآنِ شریف میں فرمایا کہ اگر ان کافروں کو سختی سے جواب نہ دیا تو پھر یہ نہیں کہ صرف مسلمان ختم ہوں گےبلکہ نہ کوئی چرچ باقی رہے گا، نہ کوئی یہودی عبادت گاہ باقی رہے گی اور نہ کوئی ٹیمپل باقی رہے گا گویاکہ یہ لوگ ان تمام مذاہب کے خلاف ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف انبیاء لے کر آئے۔

پس اسلام کی تو یہ بنیادی تعلیم ہے کہ ہر مذہب کی حفاظت کرنی ہے اور دوسرے مذہب کی عزت کرنی ہے۔ اس لیے ہم موسیٰؑ کی بھی عزت کرتے ہیں، عیسیٰؑ کی بھی عزت کرتے ہیں، ہندوؤں کے انبیاء کی بھی عزت کرتے ہیں، بدھا کی عزت کرتے ہیں اور ہر مذہب جو دنیا میں آیا اس کی عزت کرتے ہیں، بلکہ ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ جو لوگ بتوں کو پوجنے والے ہیں، جو شرک کرتے ہیں، ان کے بتوں کو بھی تم برا نہ کہو، کیونکہ وہ پھر اس کے جواب میں خدا کو بُرا کہیں گے۔ اورپھر جب وہ خدا کو بُرا کہیں گے تو اس سے پھر دنیا میں بَداَمنی پیدا ہوگی اور لڑائی جھگڑے کی فضا پیدا ہوگی۔ پس یہ اسلام کی تعلیم ہے جس کی بنا پر ہماری مسجد یں بنائی جاتی ہیں اور جس کے لیے ہم ایک جگہ جمع ہوتے ہیں۔

باقی رہی یہ بات کہ اس مسجد کی تعمیر کی وجہ سے بعض پڑوسیوں کو تحفظات تھے۔ یہ اس لیے تھا کہ انہوں نے ایسے مسلمانوں کو دیکھا تھا جو اِسلام کے نام پر غلط عمل کررہے تھے۔ غلط تعلیم دے رہے تھے۔ اِسلام کی تعلیم جو قرآن کریم کی تعلیم ہے یا جس کا اظہار ہمارے پاک نبیﷺ نے کیا، وہ تعلیم تو بڑی امن کی تعلیم ہے، پیار کی تعلیم ہے اور محبّت کی تعلیم ہے۔ قرآن کریم نے تو کہا ہے کہ پڑوسیوں کا حق ادا کرو اور اس حد تک حق ادا کرو کہ صرف یہ نہیں کہ جو تمہارا Next Door ہمسایہ ہے، وہی تمہارا ہمسایہ ہے بلکہ چالیس گھروں تک تمہارے ہمسائے ہیں۔ اور جو تمہارے ساتھ سفر کرنے والے ہیں وہ بھی تمہارے ہمسائے ہیں، دفتروں میں کام کرنے والے، فیکٹریوں میں کام کرنے والے سب تمہارے ہمسائے ہیں۔ ان کی عزت کرو اور احترام کرو۔ آنحضرتﷺ نے ہمسایوں کے حق کا اس حد تک ذکر کیا کہ صحابہؓ کہتے ہیں کہ ہمیں خیال ہوا کہ شاید ہماری وراثت میں بھی ہمسایوں کا حصہ بن جائے۔ اس لیے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کبھی احمدی مسلمان سے جو حقیقی اور سچا مسلمان ہے کسی ہمسائے کو کبھی کسی قسم کی تکلیف پہنچے۔ بس اس لحاظ سے مَیں دوبارہ اس بات کا اظہار کروں گا، پہلے بھی کئی بار کرچکا ہوں کہ ہمارے ہمسایوں کو اس بارے میں بےفکر رہنا چاہیے۔ مسجد بنی ہے تو ایک خدا کی عبادت کے لیے بنی ہے۔ مسجد بنی ہے تو علاقہ میں امن اور پیار اور محبّت اور بھائی چارے کی علامت کے طور پر بنی ہے۔ یہاں سے اب محبّت، پیار اور بھائی چارے کا نعرہ بلند ہوگا اور ہم ہر لحاظ سے اپنے ہمسایوں کا خیال رکھنے والے اور ان سے تعاون کرنے والے ہوں گے۔

حضور انورنے مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا:

میئر صاحب کا بھی مَیں شکریہ ادا کرتا ہوں، انہوں نے بھی دوستی کا حق ادا کیا۔ مسجد میں جہاں مَیں ابھی افتتاح کرنے گیا تھا، یہ تشریف لائے ہوئے تھے، یہ ملے اور پچھلی دفعہ بھی جب مَیں آیا تھا تو بھی ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ ان کو سب باتیں بھی یاد تھیں اور انہوں نے بڑی محبّت اور پیار کا اظہار بھی کیا۔ اس لحاظ سے مَیں ان کا بہت شکرگزار ہوں کہ یہ جماعت احمدیہ کو بہت عزت اور احترام سے دیکھتے ہیں اور ہمارے ساتھ بھرپور تعاون کررہے ہیں۔

مسجد گو ایک ایسی جگہ بنی ہے جو ایک ٹاؤن سنٹر ہے، تجارتی جگہیں زیادہ ہیں، بازار ہیں، دنیا کی مادی خرید و فروخت کے سامان یہاں زیادہ ہوتے ہیں۔ لیکن ایسی جگہوں پر مذہب کی بھی نمائندگی ہونی چاہیے تاکہ حقیقی روحانی تعلیم کا بھی دنیا کو پتا لگے۔ اس چیز کا بھی پتا لگے جو خداتعالیٰ اپنے بندوں کو دے رہا ہے۔ تاکہ بندے جب مادی چیزوں کو دیکھیں اور ان سے فائدہ اٹھائیں تو اپنے پیدا کرنے والے کا بھی شکرگزار بنیں اور اس لحاظ سے اس کو بھی ہمیشہ یاد رکھیں۔ کیونکہ ہمیں اسلام میں یہی تعلیم ہے کہ اگر تم خدا کا شکر ادا کرو گے تو اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں کو مزید تمہارے لیے بڑھائے گا۔ پس اس لحاظ سے بھی مَیں سمجھتا ہوں مسجدوں کا ان مادی کاروبار کی جگہوں میں بھی ہونا ضروری ہے۔ یا کسی بھی مذہب کی نمائندگی کا اور ان کی عبادت گاہ کا یہاں ہونا ضروری ہے۔ تاکہ وہ صرف دنیا میں نہ ڈوب جائیں بلکہ خدا کو بھی یاد رکھیں۔ اپنے پیدا کرنے والے کو بھی یاد رکھیں اور اس کی عبادت کا بھی حق ادا کرنے والے ہوں اور مجھے امید ہے کہ ان شاءاللہ اس مسجد کی تعمیر کے بعد احمدی اپنے اعلیٰ اخلاق کا مزید مظاہرہ کریں گے اور یہ مسجد امن، محبّت اور پیار کی علامت کے طور پر اس علاقہ میں جانی جائے گی۔

حضور انورنے نواحی قصبہ Niddatal کے میئر صاحب کا بھی شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا: انہوں نے بڑے نیک جذبات کا اظہار کیا۔ ممبر آف پارلیمنٹ بھی آئے ہیں ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ انہوں نے جن جذبات کا اظہار کیا کہ واقعی ہمیں دنیا میں اس وقت اَمن اور سلامتی کی ضرورت ہے۔ دنیا تباہی کی طرف جا رہی ہے۔ اور اس لیے تباہی کی طرف جا رہی ہے کہ ہم اپنے پیدا کرنے والے کو بھول گئے ہیں۔ مادیت میں ہم زیادہ ڈوب گئے ہیں۔ اپنے نفس کے حق کو زیادہ سمجھنے لگ گئے ہیں۔ دوسروں کے حق ادا کرنے کی طرف ہماری توجہ نہیں اور اس کا منطقی نتیجہ یہی نکلنا تھا جو نکل رہا ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف ظلم ہو۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ اگر تم بندوں کا حق ادا نہیں کرتے تو تمہاری عبادتیں بھی تمہارے منہ پر ماری جائیں گی، لَوٹا دی جائیں گی۔ اگر تم مسکین کا خیال نہیں رکھتے تو تمہاری نماز اور عبادتیں قبول نہیں ہوتیں، اگر تم یتیم کا خیال نہیں رکھتے تو تمہاری نماز اور عبادتیں قبول نہیں ہوتیں، اگر تم ضرورت مند کا خیال نہیں رکھتے، غریب کا خیال نہیں رکھتے تو تمہاری عبادتیں اور دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ مسجد تو ہمیں یہ تعلیم دیتی ہے کہ اگر ایک خدا کی عبادت کرنے آئے ہو توپہلے بندوں کے حق بھی ادا کرکے آؤ۔ یتیم کا بھی خیال رکھو، مسکین کا بھی خیال رکھو، ضرورت مند کا بھی خیال رکھو، تب میرے پاس آئو، میری مسجد میں آئو، عبادت کرنے آئو تو پھر میں تمہاری دعائیں بھی قبول کروں گا۔ پس مسجد تو ہمیں حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتی ہے۔ ممبر آف پارلیمنٹ نے ذکر کیا کہ ظلم ہو رہا ہے دنیا میں اور چرچ بھی گرائے جا رہے ہیں، مسجدوں کو بھی نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ جہاں ایک فرقہ دوسرے فرقہ سے اختلاف کرتا ہے یا ایک مذہب دوسرے مذہب سے اختلاف کرتا ہے، وہاں یہ باتیں ہو رہی ہیں اور بدقسمتی سے مسلمان ملکوں میں یہ ظلم زیادہ ہو رہے ہیں۔ یا اب تو یہاں یورپ میں بھی نظر آ رہے ہیں، جیسا کہ انہوں نے جنگ کی مثال بھی دی۔ ہمیں آنحضرتﷺ نے یہ تعلیم دی ہے کہ ان ظلموں کے خلاف آواز اٹھائو اور مظلوم کی بھی مدد کرو اور ظالم کی بھی مدد کرو۔ تو صحابہؓ نے آنحضرتﷺ سے پوچھا کہ مظلوم کی مدد تو ہم کرسکتے ہیں کہ اسے ظالم کے ہاتھ سے بچائیں لیکن ظالم کی مدد ہم کس طرح کرسکتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ظالم کی مدد یہ ہے کہ اس کے ظلم کے ہاتھ کو روکو کیونکہ اگر وہ ظلم میں بڑھتا چلا جائے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے نیچے آئے گا، اللہ تعالیٰ کے عذاب کے نیچے آئے گا اور یوں اپنی دنیا اور عاقبت خراب کرنے والا ہوگا۔ پس جو مذہبی انسان ہے وہ صرف اس دنیا پر نظر نہیں رکھتا بلکہ اگلے جہان پر بھی نظر رکھتا ہے، اس کو صرف اپنی فکر نہیں ہوتی، اسے یہ فکر بھی ہے کہ دوسروں کو اگلے جہان کے عذاب سے بچائے، اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچائے۔ پس یہ وہ مقصد ہے جس کے لیے ہم عبادت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب ہم اللہ تعالیٰ کا حق ادا کریں گے تو ہمارے اندر بندوں کے حق ادا کرنے کی روح بھی پیدا ہوتی ہے۔ ظالم اور مظلوم دونوں کی مدد کرنے کی روح بھی پیدا ہوتی ہے۔

اپنے خطاب کے آخر پر حضور انورنے دعا کرتے ہوئے فرمایا:

اللہ کرے کہ اب اس مسجد کے بننے کے بعد یہاں جماعت احمدیہ کے جو افراد رہتے ہیں، وہ پہلے سے بڑھ کر اپنے وجود کی پہچان کروانے والے ہوں۔ جو پیار، محبّت، امن اور بھائی چارہ کی پہچان ہے۔ اُس تعلیم کو فروغ دینے والے ہوں، جو پیار، محبّت اور بھائی چارے کی تعلیم ہو اور یوں ہم دنیا میں امن قائم کرنے والے ہوں، ظلم کا خاتمہ کرنے والے ہوں اور ظلم کے خلاف ہم ہمیشہ آواز اٹھانے والے ہوں۔ اللہ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔

حضور انور کا یہ خطاب سات بج کر سات منٹ تک جاری رہا۔ بعدازاں حضور انور نے دعا کروائی۔ دعا کے بعد تمام مہمانوں کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا۔

کھانے کے دوران Florstadt شہر کے میئر Mr. Herbert Unger سٹیج پر حضور انور کی بائیں جانب بیٹھے ہوئے تھے۔ حضور انور ازراہِ شفقت موصوف سے گفتگو فرماتے رہے۔ کھانے کے بعد میئر صاحب موصوف اجازت لے کر رخصت ہوئے تو Niddatal کے میئر Michael Hahn حضور انور کی بائیں جانب اور صوبائی ممبر پارلیمنٹTobias Utter صاحب حضور انور کے دائیں جانب آکر بیٹھ گئے۔ حضور انور نے ازراہِ شفقت ان دونوں مہمانوں سے بھی گفتگو فرمائی۔ بعدازاں بعض مہمانوں نے حضور انور کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں۔ رات آٹھ بجے حضرت امیرالمومنین یہاں سے روانہ ہوئے تو یہ بابرکت تقریب اپنے اختتام کو پہنچی، الحمدللہ۔

اگلے روز مسجد کے افتتاح اور تعارفی تقریب کی تفصیلی خبریں مقامی اخبارات میں جلی سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئیں۔

(اخبار احمدیہ جرمنی، شمارہ جنوری 2024ء صفحہ 25)

متعلقہ مضمون

  • جلسہ گاہ میں ایک تعارفی پروگرام

  • پہلا جلسہ سالانہ جرمنی

  • جماعتِ احمدیہ جرمنی کے ایک جفا کش دیرینہ خادم

  • جماعتی سرگرمیاں