(مرتبّہ: مکرم زاہد ندیم بھٹی صاحب۔ بائیو ٹیکنالوجیسٹ)

سبزیوں میں پلاسٹک ذرات

سبزیوں میں پلاسٹک ذرات کی آلودگی جدید طرزِ زندگی کی ایک اہم ‘میراث’ ہے، لیکن اب یہ اتنی زیادہ پھیل چکی ہے کہ اس کے ذرّات ہماری ان سبزیوں میں بھی سامنے آ رہے ہیں جو ہم کھاتے ہیں۔ پلاسٹک کے ذرات کھانے کی فصلوں کو بھی براہِ راست آلودہ کر سکتے ہیں۔ 2020ء کے ایک مطالعے میں سپر مارکیٹوں کے ذریعے فروخت ہونے والے پھلوں اور سبزیوں میں اور اٹلی کے جزیرے سِسلی میں کیٹینیا میں مقامی آڑھتیوں کی طرف سے فروخت کی جانے والی مصنوعات میں مائیکرو پلاسٹک اور نینو پلاسٹکس کے موجود ہونے کا پتہ چلا ہے۔ وہاں سیب سب سے زیادہ آلودہ پھل تھے اور گاجروں میں نمونے کی گئی سبزیوں میں مائیکرو پلاسٹک کی سب سے زیادہ مقدار تھی۔ نیدرلینڈ کی لیڈن یونیورسٹی میں ماحولیاتی زہریلے اور حیاتیاتی تنوع کے پروفیسر ولی پیجننبرگ کی تحقیق کے مطابق، فصلیں نینو پلاسٹک کے ذرات کو پانی اور مٹی ان کی جڑوں میں چھوٹی دراڑوں کے ذریعے جذب کرتی ہیں جو ایک نینو میٹر سے سو نینو میٹر سائز کے چھوٹے چھوٹے ذرّے، یا انسانی خون کے سفید خلیوں سے تقریباً 1000 سے 100گنا چھوٹے بنتے ہیں۔

ہم سوتے میں بستر سے گرتے کیوں نہیں؟

ہم چاہے65 سینٹی میٹر کے کیمپنگ بیڈ پر ہوں یا 200 سینٹی میٹر کے کِنگ سائز بیڈ پر، ہم میں سے اکثر لوگ وہیں بیدار ہوتے ہیں جہاں رات سوئے ہوں پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم سوتے ہوئے بیڈ سے گرتے کیوں نہیں؟ حالانکہ ہم خواب دیکھتے ہیں، حرکت کرتے ہیں، باتیں کرتے ہیں، ہنستے ہیں، کبھی چادر اوڑھ لیتے ہیں تو کبھی اتار دیتے ہیں۔ بعض اوقات تو ساتھ سوئے ہوئے فرد کو لات بھی مار دیتے ہیں لیکن بالغ افراد شاذ ہی بستر سے گرتے ہیں۔ یونیورسٹی آف آکسفورڈ میں پروفیسر رسل فوسٹر نے بیان کیا کہ یہ درست ہے کہ نیند میں ہمارا اردگرد سے رابطہ بالکل منقطع ہوتا ہے لیکن ایک حِس ایسی موجود ہے جو کبھی سوتی نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ چھٹی حِس کی طرح ہے۔ جب ہم بچے ہوتے ہیں تو یہ اس قدر اچھی نہیں ہوتی۔ اسی لیے بچپن میں کچھ لوگ بیڈ سے گِر جاتے ہیں۔ مگر عمر کے ساتھ اس میں بہتری آتی ہے۔ تو نیند میں بھی ہم پوری طرح اپنے حالات سے بے خبر نہیں ہوتے اور ہمارے جسم کے سینسر جاگتے رہتے ہیں اور ہمیں اپنی محفوظ پوزیشن برقرار رکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

کیا ہم واقعتاً ٹھنڈ لگنے سے بیمار ہوتے ہیں؟

موسم سرما کے ساتھ نزلہ زکام، انفلوئنزا اور کورونا وائرس کی نشوونما میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ تحقیق کے مطابق مندرجہ ذیل عوامل اس کا سبب ہیں:
1۔ موسم سرما میں ہم کمروں میں بند ہو کر از خود ایسا ماحول پیدا کرتے ہیں جو وائرس اور بیکٹیریا وغیرہ کی نشوونما کے لیے نہایت سازگار ہوتا ہے اور بند اور تاریک گھروں میں اکثر افراد بیمار پڑ جاتے ہیں۔
2۔ موسم سرما میں چونکہ سورج کی روشنی ویسے ہی کم ہوتی ہے جس سے ہمارے جسموں میں وٹامن ڈی بہت کم بنتا ہے، جس کے باعث ہمارا دفاعی نظام کمزور ہو جاتا ہے اور ہم جلد بیمار ہو جاتے ہیں۔
تیسرا اہم ترین کردار ہوا میں نمی کی مقدار کا ہے جو موسم سرما میں بہت کم ہو جاتی ہے۔ جس کے سبب نتھنوں اور گلے میں خشکی سے باریک دراڑیں پڑ جاتی ہیں جن میں سے وائرس جلد ہمارے خلیوں میں داخل ہو پاتا ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ ٹھنڈ یا سردی لگ جانے جیسا کوئی عمل سائنسی طور پر ثابت نہیں بلکہ مذکورہ بالا عوامل ہیں جو وائرس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی بیماریوں کو خاص طور پر موسم سرما میں آسان بنا دیتے ہیں۔ لہٰذا موسم سرما میں بھی ہمیں ضرور کھلی ہوا میں جانا چاہیے، یہ عمل بیماریوں کی روک تھام اور دفاعی نظام کی بہتری کے لیے کارآمد ہے۔

حوالہ جات:

-https://www.bbc.com/urdu/articles/c90kyzg85ddo

– https://www.bbc.com/urdu/articles/c4nd6wpxegdo

-https://www.sciencenews.org/article/why-easier-catch-cold-flu-covid-winter

متعلقہ مضمون

  • محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی

  • محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی

  • محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی

  • محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی