(مرتبّہ: مکرم زاہد ندیم بھٹی صاحب۔ بائیو ٹیکنالوجیسٹ)

دالوں کے فوائد
کنگز کالج لندن میں کاربوہائیڈریٹ بائیوکیمسٹری کے پروفیسر پیٹر ایلس کا کہنا ہے کہ ‘جب آپ آلو کھاتے ہیں تو آپ کے خون میں شکر میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا ہے، لیکن پھلیوں کا گلائیسیمک انڈیکس اور انسولینمک ردّعمل بہت کم ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق لوگوں کو دالوں اور چنوں سمیت زیادہ پھلیاں کھانی چاہئیں، کیونکہ عموماً فائبر ہماری غذا میں کافی نہیں ہوتا ہے۔ دالیں ٹائپ 2 ذیابیطس اور دل کی بیماریوں سمیت بعض بیماریوں کے خطرے کو کم کرنے میں مدد دے سکتی ہیں، کیونکہ ہم انہیں دیگر کھانوں کے مقابلے میں زیادہ آہستہ سے ہضم کرتے ہیں، جس سے ہمارے خون میں گلوکوز کی سطح زیادہ مستقل رہتی ہے1۔

درد کُش ادویات
یونیورسٹی آف ایبرڈین میں کلینیکل فارماکولوجی کے سینیئر لیکچرر ڈاکٹر میری جون میک لائڈ کے مطابق ہمیں درد اعصاب کے سروں پر زور پڑنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ محرکات یا تو سوجن یا پروسٹاگلینڈن کے اخراج کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ ان کے مطابق تمام پین کلرز یا درد ختم کرنے والی ادویات یا تو سوجن پر اثر کرتی ہیں یا پروسٹاگلینڈن کے اخراج کو کنٹرول کرتی ہیں۔ لیکن ان ادویات کے کام کرنے کا طریقہ قدرے مختلف ہوتا ہے۔ درد کا مقابلہ کرنے والی سب سے عام دوا ہے پیراسیٹا مول ہے جو ہلکے پھلکے درد کے لیے بہترین سمجھی جاتی ہے۔ ڈاکٹر میک لائڈ کے بقول ‘یہ دماغ کے اس حصے پر کام کرتی ہے جو بخار کم کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے اور ساتھ ہی پروسٹاگلینڈن کے بننے کو کم کرکے اعصاب کے سروں کو راحت پہنچاتی ہے’۔ حالانکہ ایسپرین اور آئبوپروفین کی طرح پیراسیٹا مول پٹھوں کی سوزش پر اتنے مؤثر انداز میں کام نہیں کرتی، مثال کے طور پر ٹخنے کے مڑ جانے یا ماہواری کے دوران ہونے والے درد میں۔ لیکن یہ تینوں ہی ادویات بغیر سٹیرائڈ والی اینٹی سوزش ادویات کے طور پر درجہ بند ہیں2۔

تیل کھانے کی عادات
یونائیٹڈ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ آف ایگریکلچر (یو ایس ڈی اے) کی تحقیق کے مطابق ہر پاکستانی سالانہ اوسطاً 24 لیٹر سے زیادہ تیل کھاتا ہے جو صحت عامہ کےعالمی معیار کے مطابق خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ تیل کھانے کی عادت 40 فیصد لوگوں میں دل کے امراض کا باعث بنتی ہے جس سے اموات بھی واقع ہو جاتی ہیں۔ ڈاکٹرز کے مطابق ‘زیادہ اور غیر معیاری تیل کا استعمال نہ صرف دل کے امراض کے ساتھ کینسر اور ذیابیطس جیسی بیماری کا باعث بن سکتا ہے بلکہ یہ آپ کے جسم میں موجود خلیوں اور ڈی این اے کو نہ صرف نقصان پہنچاتا ہے بلکہ جسم میں پائی جانے والی پروٹینز کو بہتر انداز میں کام کرنے سے بھی روکتا ہے3۔

بچہ دانی کی جسم سےباہر اسٹوریج
کینسر اس وقت تک بانجھ پن کا باعث نہیں بنتا جب تک کہ اس بیماری سے خواتین کے مخصوص اعضا براہ راست متاثر نہ ہوں۔ تاہم ریڈیو تھراپی کروانے والی خواتین میں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔
ریٹان ریبیرو نے اسی نکتے کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک ایسی تکنیک تیار کی ہے جسے ‘یوٹرائن ٹرانسپوزیشن’ کہتے ہیں۔ اس تجرباتی تکنیک کا مقصد، جسے برازیل کے انسٹیٹیوٹ آف روبوٹک سرجری میں اپنایا گیا ہے، ایسی خواتین میں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کو محفوظ بنانا ہے جو ریڈیو تھراپی کروا رہی ہیں۔ اس طریقے کے تحت خواتین کی بچہ دانی سمیت مخصوص اعضا کو ان کی جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ تھراپی کے دوران براہِ راست متاثر نہ ہوں۔ علاج کے بعد بچہ دانی سمیت ان اعضا کو ان کی اصل جگہ پر واپس منتقل کر دیا جاتا ہے۔ اس تجرباتی تکنیک سے حال ہی میں 33 سالہ میک اپ آرٹسٹ کریم ڈوس سانٹوس نے فائدہ اٹھایا ہے4۔

 

1-https://www.bbc.com/urdu/articles/c7292e7znpgo
2-https://www.bbc.com/urdu/articles/c3gzw16jpd7o
3-https://www.bbc.com/urdu/articles/c88542w9983o
4-https://www.bbc.com/urdu/articles/cd1n5vz8ykro

متعلقہ مضمون

  • محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی

  • محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی

  • محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی

  • محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی