مچھلیوں سے گفتگو

سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے سمندر میں وہیل مچھلیوں سے گفتگو کی اور اس کی ریکارڈنگ جاری کردی ہے۔ یہ بات چیت 20 منٹ کے دورانیہ میں 36 مرتبہ دُہرائی گئی اور اس میں سنا جا سکتا ہے کہ مچھلیوں کی جانب سے سائنسدانوں کی تیار کردہ مصنوعی ریکارڈنگ (وہیل مچھلیوں سے مشابہت رکھنے والی آواز) کا جواب دیا گیا۔

سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ عمل سمندری حیات کے باہمی روابط کو سمجھنے میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا1۔

گردوں کی بیماری کی علامات

انڈین سوسائٹی آف نیفرولوجی کے ایک حالیہ تحقیقی مقالہ کے مطابق دنیا بھر میں 84 کروڑ افراد گردوں کے مختلف امراض سے متاثر ہیں۔ دنیا میں ہر دس میں سے ایک فرد کو گردوں کی کوئی نہ کوئی بیماری لاحق ہے۔ گردوں کی بیماریوں میں اضافہ کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان امراض کو ابتدائی مراحل میں زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ اس کی علامات میں اُلٹیاں آنا، بھوک نہ لگنا، پیروں اور ٹخنوں کا پھول جانا، سانس لینے میں مشکل پیش آنا، نیند نہ آنا، کم پیشاب آنا ، پیشاب میں بہت زیادہ جھاگ نظر آنا اور پیشاب میں خون آنا شامل ہیں۔ خاص طور پر اگر آپ شوگر یا بلڈ پریشر کے مریض ہیں تو ان میں کسی علامت کو ہرگز نظر انداز نہ کریں اور فوری اپنے معالج سے رجوع کریں2۔

جلی ہوئی روٹی کھانا نقصان دہ ہے

ایک تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ جب ہم آلو، روٹی، بسکٹ، اناج اور کافی سمیت کچھ کھانوں کو 120 ڈگری سینٹی گریڈ (248 فارن ہائیٹ) سے زیادہ گرم کرتے ہیں تو ان میں ایکریلامائڈ نامی مادہ بن جاتا ہے اور ان اشیاء میں شامل شکر اور ایک امینو ایسڈ ایسپیراگین کے درمیان ایک کیمیائی عمل شروع ہو جاتا ہے۔

اس کیمیائی عمل کو ‘میلارڈ ری ایکشن’ کہا جاتا ہے جس میں روٹی وغیرہ کا رنگ بھورا (براؤن) ہو جاتا ہے اور اس کا ذائقہ بدل جاتا ہے۔ سائنسدانوں کو معلوم ہوا ہے کہ اگر جانوروں کی خوراک میں ایکریلامائڈ کی مقدار بہت زیادہ ہو جائے تو یہ کینسر کا سبب بن سکتا ہے3۔

پیشاب میں جلن

انفیکشن ‘‘کینڈی ڈیاسس’ (Candidiasis) جو ‘کینڈیڈا البیکنز’ Candida albicans نامی فنگس (پھپھوندی) کے باعث پیدا ہوتا ہے اور یہ خواتین اور مردوں کے جنسی اعضا میں خارش اور جلن اور باعث بنتا ہے۔ ‘کینڈیڈا البیکنز’ نامی پھپھوندی عام طور پر انسانی جسم میں ایک توازن کی حد میں موجود ہوتی ہے اور اس کی موجودگی صحت کے لیے ضروری ہے۔ لیکن انسانی جسم میں موجود اس پھپھوندی کو ‘موقع پرست’ بھی کہا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے ہی اس پھپھوندی کے لیے ہمارے جسم کے حالات سازگار بنتے ہیں تو یہ انفیکشن کا باعث بن جاتی ہے۔ ہمارے جسم میں موجود اس فنگس کی مقدار جب صحت کے لیے درکار ضروری مقدار سے بڑھتی ہے تو ہمارا جسم عدم توازن کا شکار ہو جاتا ہے اور یہ انفیکشن ظاہر ہوتا ہے۔

جنسی اعضا کے علاوہ ‘کینڈی ڈیاسس’ انفیکشن جسم کے دوسرے حصوں میں بھی ظاہر ہو سکتا ہے۔ شیرخوار اور کم سن بچوں میں اس انفیکشن کی سب سے عام شکل اورل کینڈی ڈیاسس ہے، جسے تھرش بھی کہا جاتا ہے اور جو ہونٹوں، منہ کے اندر اور گلے میں ہوتا ہے۔ یہ انفیکشن زبان، گالوں کے اندرونی حصے اور گلے میں سفید دھبوں کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، جس سے نگلنے میں تکلیف ہوتی ہے اور جلن ہوتی ہے۔ تاہم ہر قسم کے ‘کینڈی ڈیاسس’ انفیکشن میں علاج اینٹی فنگل گولیوں کی مدد سے کیا جاتا ہے۔

1- www.bbc.com/reel/video/p0hp5111/listen-to-world-s-first-chat-between-humans-and-whales

2-www.bbc.com/urdu/articles/cp4gze48l49o

3- www.bbc.com/urdu/articles/c2x6vvz034ko

4- www.bbc.com/urdu/articles/c0d3m3jp8jxo

(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ مئی 2024ء صفحہ 44)

متعلقہ مضمون

  • محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی

  • محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی

  • محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی

  • خدمت انسانیت کا سب سے مشہور اعزاز : نوبل انعام