مکرم رحمت اللہ بندیشہ صاحب، مربی سلسلہ و استاد جامعہ احمدیہ جرمنی

 

قرباني کي حکمت

حضور فرماتے ہيں:’’خداتعاليٰ نے شريعت اسلام ميں بہت سے ضروري احکام کے لئے نمونے قائم کئے ہيں چنانچہ انسان کو يہ حکم ہے کہ وہ اپني تمام قوتوں کے ساتھ اور اپنے تمام وجود کے ساتھ خداتعاليٰ کي راہ ميں قربان ہو۔ پس ظاہري قربانياں اسي حالت کے لئے نمونہ ٹھہرائي گئي ہيں ليکن اصل غرض يہي قرباني ہے جيسا کہ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے (الحج:38) يعني خدا کو تمہاري قربانيوں کا گوشت نہيں پہنچتا اورنہ خون پہنچتا ہے مگر تمہاري تقويٰ اس کو پہنچتي ہے۔ يعني اس سے اتنا ڈرو کہ گويا اس کي راہ ميں مر ہي جائو اور جيسے تم اپنے ہاتھ سے قربانياں ذبح کرتے ہو۔ اسي طرح تم بھي خدا کي راہ ميں ذبح ہو جائو۔ جب کوئي تقويٰ اس درجہ سے کم ہے تو ابھي وہ ناقص ہے‘‘۔

(چشمۂ معرفت۔ روحاني خزائن جلد23صفحہ99 حاشيہ)

دلوں کي پاکيزگي سچي قرباني ہے

(الحج:38) يعني دلوں کي پاکيزگي سچي قرباني ہے گوشت اور خون سچي قرباني نہيں جس جگہ عام لوگ جانوروں کي قرباني کرتے ہيں خاص لوگ دلوں کو ذبح کرتے ہيں۔ (براہين احمديہ حصہ پنجم۔ روحاني خزائن جلد21صفحہ424)

قرباني ميں ديگرمذاہب پر اسلام کي فضيلت

خطبہ الہاميہ ميں حضرت مسيح موعود نے فرمايا:

ميرا گمان ہے کہ يہ قربانياں جو ہماري اس روشن شريعت ميں ہوتي ہيں احاطہ شمار سے باہر ہيں۔ اور ان کو اُن قربانيوں پر سبقت ہے کہ جو نبيوں کي پہلي امتوں کے لوگ کيا کرتے تھے اورقربانيوں کي کثرت اس حد تک پہنچ گئي ہے کہ ان کے خونوں سے زمين کا منہ چھپ گيا ہے۔ يہاں تک کہ اگر اُن کے خون جمع کئے جائيں اور اُن کے جاري کرنے کا ارادہ کيا جائے تو البتہ ان سے نہريں جاري ہو جائيں اور دريا بہہ نکليں اور زمين کے تمام نشيبوں اور واديوں ميں خون رَواں ہونے لگے۔ اور يہ کام ہمارے دين ميں ان کاموں ميں سے شمار کيا گيا ہے کہ جو اللہ تعاليٰ کے قرب کا موجب ہوتے ہيں۔ (خطبہ الہاميہ۔ روحاني خزائن جلد16صفحہ32۔33)

قرباني صرف صاحبِ استطاعت پر واجب ہے

ايک شخص کا خط حضورؑ کي خدمت ميں پيش ہوا کہ ميں نے تھوڑي سي رقم ايک قرباني ميں حصہ کے طور پر ڈال دي تھي، مگر اُن لوگوں نے مجھے احمدي ہونے کے سبب اس حصہ سے خارج کردياہے۔کيا ميں وہ رقم قاديان کے مسکين فنڈ ميں دے دوں تو ميري قرباني ہوجائے گي؟ فرمايا:

قرباني تو قرباني کرنے سے ہي ہوتي ہے۔ مسکين فنڈ ميں روپے دينے سے نہيں ہوسکتي۔ اگر وہ رقم کافي ہے تو ايک بکراقرباني کرو۔ اگر کم ہے اور زيادہ کي تم کو توفيق نہيں تو تم پر قرباني کا دينا فرض نہيں۔(بدر 14فروري 1907ء صفحہ8)

غيراحمديوں کے ساتھ مل کر قرباني کرنا

ايک شخص نے سوال کيا کہ کيا ہم غيراحمديوں کے ساتھ مل کر يعني تھوڑے تھوڑے روپے ڈال کر کوئي جانور مثلًا گائے ذبح کريں تو جائز ہے؟ فرمايا:

ايسي کيا ضرورت پڑ گئي ہے کہ تم غيروں کے ساتھ شامل ہوتے ہو۔اگر تم پر قرباني فرض ہے تو بکرا ذبح کرسکتے ہواوراگر اتني بھي توفيق نہيں تو تم پر قرباني فرض ہي نہيں۔ وہ غير جو تم کو اپنے سے نکالتے ہيں اور کافر قرار ديتے ہيں وہ تو پسند نہيں کرتے کہ تمہارے ساتھ شامل ہوں تو تمہيں کيا ضرورت ہے کہ اُن کے ساتھ شامل ہو۔ خدا پر توکل کرو۔ (بدر14فروري1907ء صفحہ8)

ناقص جانور قرباني کيا جا سکتا ہے؟

ايک شخص نے حضرتؑ سے دريافت کيا کہ اگر جانور مطابق علامات مذکورہ در حديث نہ ملے تو کيا ناقص کو ذبح کرسکتے ہيں؟

فرمايا: مجبوري کے وقت تو جائز ہے مگر آج کل ايسي مجبوري کيا ہے۔ انسان تلاش کرسکتا ہے اوردن کافي ہوتے ہيں خواہ مخواہ حجت کرنا يا تساہل کرنا جائز نہيں۔

(بدر23جنوري 1908ء صفحہ2)

عيدالاضحي کا روزہ

عيدالاضحيہ کے دن قرباني کرکے اُس کا گوشت کھانے تک جوروزہ رکھا جاتا ہے اس بارہ ميں حضرت خليفةالمسيح الثانيؓ نے فرمايا:

مولوي محمد ابراہيم صاحبؓ بقاپوري نے مجھے لکھا ہے کہ جو روزہ اس عيد کے موقع پر رکھاجاتا ہے وہ سنت نہيں، اس کا اعلان کر ديا جائے مگر رسول کريمﷺکا يہ طريق ثابت ہے کہ آپ صحت کي حالت ميں قرباني کرکے کھاتے تھے تاہم يہ کوئي ايسا روزہ نہيں کہ کوئي نہ رکھے تو گنہگار ہوجائے يہ کوئي فرض نہيں بلکہ نفلي روزہ ہے اورمستحب ہے جو رکھ سکتا ہو رکھے مگر جو بيمار، بوڑھا يا دوسرا بھي نہ رکھ سکے وہ مکلّف نہيں اورنہ رکھنے سے گنہگار نہيں ہوگا مگر يہ بالکل بےحقيقت بھي نہيں جيسا کہ مولوي بقاپوري صاحب نے لکھا ہے مَيں نے صحت کي حالت ميں حضرت مسيح موعود کو اس پر عمل کرتے ديکھا ہے پھر مسلمانوں ميں يہ کثرت سے رائج ہے اور يہ يونہي نہيں بناليا گيا بلکہ مستحب نفل ہے جس پر رسول کريمﷺ کا تعامل رہا اور جس پر عمل کرنے والا ثواب پاتا ہے مگر جونہ کرسکے اسے گناہ نہيں۔ (روزنامہ الفضل 17 جنوري 1941ء صفحہ4)

متعلقہ مضمون

  • قمری مہینہ کا آغاز رؤیت ہلال سے

  • رمضان المبارک اور فقہی اُمور

  • دوست رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھائیں

  • کزنز کی باہمی شادی، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں