مرتبّہ: محمد انیس دیالگڑھی

 

1890ء کے آخر ميں حضرت مسيح موعودؑ نے رسالہ ’’فتحِ اسلام‘‘ تحرير فرمايا جو 1891ء کے اوائل ميں شائع ہوا۔ آپؑ نے اس کے ساتھ دو اور رسالے تاليف کرنے کا اعلان فرمايا جو دَر حقيقت رسالہ ’’فتحِ اسلام‘‘ کے ہي جزو ہيں۔ فرمايا کہ

’’پس مناسب ہے کہ جب تک کوئي صاحب ان تينوں رسالوں کو غور سے نہ ديکھ ليں تب تک کسي مخالفانہ رائے ظاہر کرنے کے ليے جلدي نہ کريں‘‘۔

(توضيح مرام، روحاني خزائن جلد 3صفحہ100)

رسالہ فتح اسلام ميں حضرت مسيح ناصريؑ کي وفات اور آپ کے مثيل کے رنگ ميں آنے والے مسيح موعودؑ کا تفصيل سے ذکر فرمانے اور پيش گوئيوں کي تفصيل لکھنے کے بعد ايک عظيم الشان الہامي خبر کا انکشاف فرمايا:

’’مسيح ابن مريم رسول اللہ فوت ہوچکا ہے اور اُس کے رنگ ميں ہو کر وعدہ کے موافق تُو آيا ہے۔ وَکَانَ وعد اللہُ مَفْعُولا‘‘۔

(ازالہ اوہام، روحاني خزائن جلد3صفحہ402)

مخالفت کے مارے حق پوش يک چشموں نے اس الہامي خبر يا دلائل کي طرف تو کوئي توجہ نہ کي اور مذکورہ تاليفات(توضيحِ مرام اور ازالۂ اوہام) کا انتظار کئے بغير فتاويٰ کي يلغار کر دي اور مخالفت کا ايک طوفان بدتميزي پورے ملک ميں برپا کرديا۔ اب مسيح وقت اکيلا تھا اور ملاؤں کا شور و غوغا تھا سب و شتم اور ظلم و ستم کي صليب تھي۔ حضرت مسيح موعودؑ کے بہت سے حامي جو آپ کو اسلام کا پہلوان سمجھتے تھے اس دعويٰ کے ساتھ آپ کے مخالف ہوگئے کہ يہ شخص ابن مريم کو مارتا ہے اور خود مسيح بنتا ہے حالانکہ مسيح تو آسمان سے اُترے گا۔

مولوي محمد حسين بٹالوي بھي آپ کے مداحوں ميں سے ايک تھے رسالہ ’’فتحِ اسلام‘‘کے بعد انہوں نے سب سے زيادہ مخالفت کي۔ اپنے رسالہ اشاعةالسنّہ ميں لکھا کہ

اشاعةالسنہ کا ريويو براہين اس کو امکاني ولي و ملہم نہ بناتا تو وہ اپنے سابقہ الہامات مندرجہ براہين احمديہ کي وجہ سے تمام مسلمانوں کي نظروں ميں بےاعتبار ہوجاتا… صرف اشاعةالسنہ کے ريويو نے فرقہ، اہل ِحديث اور اپنے خريداروں کے خيال ميں اس کے الہام و ولايت کا امکان جما رکھا تھا اور اس کو حامئ اسلام بنا رکھا تھا۔

لہٰذا اسي (اشاعةالسنہ) کا فرض اور اس کے ذمہ يہ ايک قرض تھا اُس نے جيسا اس کو دعاوئ قديمہ کي نظر سے آسمان پر چڑھايا تھا ويسا ہي ان دعاوي جديدہ کي نظر سے اس کو زمين پر گرا دے اور تلافئ مافات عمل ميں لاوے۔ جب تک يہ تلافي پوري نہ ہولے تب تک بِلا ضرورت شديد کسي دوسرے مضمون سے تعرض نہ کرے۔

(اشاعةالسنہ جلد13 نمبر1 صفحہ 3،4)

گويا کسي رسالے کا ريويو ہي کسي کو ولي و ملہم بنا سکتا ہے اور وہ بھي امکاني طور پر۔ اور خداتعاليٰ اشاعةالسنہ کے اعلان کے بعد کسي شخص سے مخاطب ہوگا۔

اَھمۡ يَقۡسِمُوۡنَ رَحۡمَتَ رَبِّکَ

حضرت مسيح موعود پر جو الہامات الٰہي نازل ہوئے ان ميں سے اکثر بڑي شان و شوکت سے پورے ہوئے اور آج بھي پورے ہورہے ہيں۔ ان ميں سے ايک الہام ايسا ہے جس کي چمک دمک چشم فلک نے کئي بار ملاحظہ کي اور آج بھي بدرِکامل کي طرح جگمگا رہا ہے وہ الہام رسالہ فتح اسلام کے صفحہ 9 پر يوں ہے۔

‘‘دنيا ميں ايک نذير آيا پر دنيا نے اُس کو قبول نہيں کيا ليکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زورآور حملوں سے اس کي سچائي ظاہر کر دے گا’’۔

امامِ وقت کي ضرورت کے بارہ ميں حضرت مسيح موعودؑ فرماتے ہيں:

’’اے دانشمندو! تم اس سے تعجب مت کرو کہ خداتعاليٰ نے اس ضرورت کے وقت ميں اور اس گہري تاريکي کے دنوں ميں ايک آسماني روشني نازل کي اور ايک بندہ کو مصلحتِ عام کے لئے خاص کرکے بغرض اعلائے کلمۂ اسلام و اشاعتِ نُور حضرت خيرالانام اور تائيد مسلمانوں کے لئے اور نيزاُن کي اندروني حالت کے صاف کرنے کے ارادہ سے دنيا ميں بھيجا۔ تعجب تو اس بات ميں ہوتا کہ وہ خدا جو حامي دين اسلام ہے جس نے وعدہ کيا تھا کہ مَيں ہميشہ تعليم قرآني کا نگہبان رہوں گا اور اسے سرد اور بے رونق اور بےنُور ہونے نہيں دُوں گا۔ وہ اس تاريکي کو ديکھ کر اور اِن اندروني اور بيروني فسادوں پر نظر ڈال کر چُپ رہتا اور اپنے اُس وعدہ کو ياد نہ کرتا جس کو اپنے پاک کلام ميں مؤکّد طور پربيان کر چکا تھا۔ پھر مَيں کہتا ہوں کہ اگر تعجب کي جگہ تھي تو يہ تھي کہ اُس پاک رسول کي يہ صاف اور کھلي کھلي پيشگوئي خطا جاتي جس ميں فرمايا گيا تھا کہ ہر ايک صدي کے سر پر خداتعاليٰ ايک ايسے بندہ کو پيدا کرتا رہے گا کہ جو اس کے دين کي تجديد کرے گا‘‘۔

(فتح اسلام، روحاني خزائن جلد3 صفحہ 6)

اب ايک طرف تو ان بڑے بڑے جُبّہ پوشوں کے فتاويٰ تکفير کي گھن گرج کو ديکھئے اور طوفان بدتميزي اور مخالفت کي اس آندھي کو ديکھئے جو ابھي تک تھمنے کا نام نہيں ليتي اور دوسري طرف اسلام کے زندہ خدا کے اس عظيم الشان وعدہ کو ديکھئے اور پھر خود ہي فيصلہ کيجئے کہ خدا کي تائيد و نصرت اور فعلي شہادت کس کے ساتھ ہے اور کون ہر ميدان ميں فتح ياب اور غالب رہا۔

ايمان رہا غالب

يا شعب ابي طالب

متعلقہ مضمون

  • روئداد جلسہ دعا

  • کتاب البریہ

  • ہر مخالف کو مقابل پہ بلایا ہم نے

  • الموعود