محترم پروفیسرڈاکٹر عبدالسلام صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں زمین آسمان کی تخلیق پر غور کرنے کا بار بار حکم دیا ہے اور قرآنِ حکیم کی تقریباً ساڑھے سات سو آیات[1] میں جدید سائنسی علوم بیان ہوئے ہیں۔ خود اپنے پیش کردہ نظریہ کی بنیاد سورہ اخلاص بتایا کرتے تھے۔ سرن کی تجربہ گاہ دراصل کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھانے اور تخلیق ارض و سما کی تہہ میں جانے کے لئے قائم کی گئی تھی، اس اعتبار سے محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو اس تجربہ گاہ سے طبعاً گہرا لگاؤ تھا۔ آپ کی خواہش اور کوشش رہتی کہ اس قسم کے تحقیقی ادارے ہر جگہ کثرت سے قائم کئے جائیں چنانچہ سب سے پہلے آپ نے اپنے وطن عزیز پاکستان (جس کی شہریت آخر دم تک رکھی) میں ایک اعلیٰ معیار کا تحقیقی ادارہ قائم کرنے کی کوشش کی تھی۔

آپ کو 1979ء میں دو قوتوں یعنی Electromagnetic Force اور Weak Nuclear Force کو ایک ثابت کرنے پر نوبل انعام دیا گیا۔ آپ کے اس عظیم کارنامے نے پارٹیکل فزکس کے اسٹینڈرڈ ماڈل کی بنیاد رکھی۔ Bosons جن کی دریافت جولائی 2012ء میں سرن CERN میں ہی ہوئی اور God Particle کے نام سے جانے جاتے ہیں، کو محترم پروفیسر صاحب موصوف نے ہی سٹینڈرد ماڈل میں متعارف کروایا تھا۔ وزن کے علاوہ اس پارٹیکل کی دیگر تمام تر خصوصیات 1967-68ء میں ڈاکٹر عبدالسلام صاحب اور Steven Weinberg نے اپنے پیش کردہ نظریہ Electroweak Theory میں معلوم کرلی تھیں۔ سرن کے سائنسدانوں نے 1983ء میں W اور Z بوزون (Boson)کو دریافت کیا تو اس سے ڈاکٹر صاحب کے مذکورہ بالا دونوں قوتوں کے ایک ہونے کا تجرباتی ثبوت بھی مہیا ہوگیا[2]۔

سرن نے دنیائے تحقیق میں اپنا لوہا گو بہت دیر پہلے منوا لیا تھا، تاہم سال 2012 میں اسے جو شہرہ آفاق مقبولیت حاصل ہوئی وہ بالواسطہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی بھی مرہونِ منّت ہے۔ آپ کے پیش کردہ سٹینڈرڈ ماڈل کی آخری گتھی سلجھانے کے لئے ہگز بوزون کی دریافت ہونا باقی تھی۔ یہ پارٹیکل جتنا اہم تھا، اتنا ہی سائنسدانوں کے لئےدرد سر بھی۔ کیونکہ یہ اپنی پیدائش کے ساتھ ہی دوسرے اجزا میں تحلیل ہوجاتا ہے۔ مگر اتنا اہم ہے کہ باقی تمام ذرات کو اسی کی وجہ سے وزن حاصل ہوتا ہے۔

چونکہ نوبل انعام صرف سائنسدان کی زندگی ہی میں دیا جاتا ہے، اس لئے اگر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب جولائی 2012ء میں حیات ہوتے تو راقم کی رائے میں کوئی وجہ نہیں کہ انہیں ہگز بوزون کی دریافت پر بھی ایک نوبل انعام مل جاتا۔ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی ریسرچ سے یہ حتمی طور پر ثابت ہوچکا تھا کہ یہ پارٹیکل ضرور موجود ہے اور یہ ضرور دریافت ہو جانا چاہئے۔ چونکہ یہ کائنات کی تخلیق اور بہت ابتدائی حالات کو جاننے سے متعلق غیر حل شدہ سوال تھا، اس لئے 2012 میں دریافت ہونے پر اسے اس صدی کی سب سے بڑی دریافت بھی کہاگیا۔ علاوہ ازیں آپ کا وہ نظریہ جس پر آپ کو نوبل انعام ملا وہ بھی سرن ہی میں ثابت ہوا تھا۔ یوں سرن کے ساتھ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی گہری وابستگی کا پتہ چلتا ہے۔

ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی پاکستان سے بے لوث محبّت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ آپ کی شدید خواہش تھی کہ پاکستان کے طلبہ سائنسی تحقیق کے میدان میں آگے بڑھیں۔ چنانچہ آپ کی ساری عمر کوشش رہی کہ دنیا میں سائنسی تحقیق کے بڑے بڑے اداروں میں طلبہ کو مختلف کورسز کے لئے داخلےدِلوائیں۔ چنانچہ اپنے قائم کردہ ادارے International Centre for Theoretical Physics (ICTP) جو بعد ازاں The Abdus Salam International Centre for Theoretical Physics بن گیا، میں سینکڑوں پاکستانی طلبا نے تحقیقی کام کرکے اپنے سائنسی کیرئیر کا آغاز کیا خصوصاً 1980ء میں ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے ذاتی طور پر پاکستانی سائنسدانوں کی بہت بڑی تعداد کو CERN اور ICTP کےباہمی ریسرچ پروگرام کے تحت سرن میں جگہیں دلوائیں[3]۔ ڈاکٹر عبدالسلام 1983-86ء تک CERN کی Scientific Policy Committee کے رکن بھی رہے۔

یہ تھے ڈاکٹر عبدالسلام، پہلے احمدی مسلمان سائنسدان، جنہیں اللہ تعالیٰ نے حیرت انگیز طور پر ذہین بنایا تھا۔ سرن جو کائنات کی گھتیاں سلجھانے کا عظیم تحقیقی ادارہ ہے وہاں بھی مصروف عمل نظر آتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آپ کی سرن سے وابستگی اور سائنسی خدمات کے اعتراف میں یہاں Meyrin Site پر ایک سڑک Route Abdus Salam کو آپ سے منسوب کر دیا گیاہے جو آپ کی سائنسی تحقیق کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

آپ نے پاکستان کے کے لئےبھی گرانقدر خدمات سرانجام دیں۔ آپ 1960-1974ء تک وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی کے ایڈوائزر رہے۔ اس دوران علاوہ بہت سی دوسری سائنسی خدمات کے آپ نے SUPARCO کی بنیاد رکھی، آپ اس ادارے کے founding director رہے۔ اسی طرح Pakistan Institute of Nuclear Science and Technology (PINSTECH) کے قیام کا تصور آپ ہی کا مرہون منت ہے۔ اس ادارے کے قیام میں بھی آپ کی گراں قدر خدمات ہیں[4]۔

قارئین! ڈاکٹرعبدالسلام صاحب کی زندگی سے متعلق مزید معلومات کے لئے آن لائن کتاب ’’مسلمانوں کا نیوٹن‘‘ سے استفادہ کرسکتے ہیں[5]۔

(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ جولائی 2024ء صفحہ 18)

متعلقہ مضمون

  • محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی

  • قرآنِ کریم اور کائنات

  • بھاگتے ذرّے اور سرن

  • سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے