محترمہ امۃالمجید صاحبہ، ہمبرگ

 

حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے دورۂ جرمنی 1955ء کی اِس وقت جماعت احمدیہ جرمنی میں واحد شاہد سابق مبلغ سلسلہ محترم چودھری عبداللطیف صاحب مرحوم کی بیٹی محترمہ امۃالمجید صاحبہ ہیں۔ تاریخ کمیٹی جرمنی کے ممبران نے ان سے اس دورہ کے بارہ میں اپنی یادیں بیان کرنے کی درخواست کی تو انہوں نے بتایا کہ اُس وقت ان کی عمر ساڑھے دس سال تھی۔ بچپن کی اِس عمر میں انہوں نے جو کچھ دیکھا اور یاد رہا، اس کی روشنی میں ہمارے سوالات کے جواب دیتے ہوئے بتایا کہ حضورؓ کا یہ دَورہ میری زندگی کا نہایت اہم اور قابلِ ذکر واقعہ ہے۔ حضورؓ کے قافلہ کے لیے Europäischer Hof کی ایک منزل مخصوص تھی۔ حضورؓ کی اہلیہ حضرت اُم ّمتین صاحبہ، حضرت مہر آپا صاحبہ، آپ کے دو بیٹے مکرم مرزا مبارک احمد صاحب اور مکرم ڈاکٹر مرزا منوّر احمد صاحب نیز آپؓ کے داماد حضرت سیّد میر داؤد احمد صاحب حضورؓ کے معالجِ خصوصی حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحبؓ اور پرائیویٹ سیکرٹری صاحب حضورؓ کے ہم رکاب تھے۔ اس دورہ کے دوران ہمیں سب سے بڑی برکت اور سعادت یہ ملی کہ حضورؓ ہر روز سب افراد قافلہ کے ہمراہ ہمارے گھر تشریف لاتے رہے۔ آپؓ ناشتہ اور دوپہر کا کھانا تو اپنی قیام گاہ پر ہی تناول فرماتے تاہم رات کے کھانے کے لئے ہمارے گھر کو برکت بخشتے تھے۔ اس وقت ہماری رہائش Oderfelder Str.18 ہمبرگ پر تھی۔ میری والدہ محترمہ شریفہ لطیف صاحبہ کھانا تیار کرتیں اور محترمہ Frau Knieper کھانا بنانے میں مدد کرتیں۔ یہ ملک عمر علی صاحب کی خوش دامن تھیں خاص طور پرحضورؓ کے لئے جرمن طرز کا پرہیزی کھانا تیارکرتی تھیں جو میری والدہ تیار نہیں کرسکتی تھیں۔ حضورؓ ہمارے گھر کے بڑے کمرےمیں خواتین مبارکہ کے ساتھ کھانا تناول فرماتے جبکہ باقی سارے مرد دوسرے کمرے میں کھانا کھاتے تھے۔ حضورؓ میرے والد اور میری والدہ کے سلوک اور میزبانی سے بہت خوش تھے اسی وجہ سے حضورؓ نے بعد میں جب آپؓ لندن تشریف لے گئے تو ہم سب کو بھی وہاں بلایا جہاں ہم نےقریباً ایک ماہ تک حضورؓ کے مہمان ہونے کا شرف پایا۔ ہمبرگ میں قیام کے دوران حضورؓ نے خریداری بھی کی اور صاحبزادی امۃالمتین صاحبہ مرحومہ اور صاحبزادی امۃالجمیل صاحبہ کی شادی کے لیے زیور اور برتن خریدے۔ حضورؓ ہمبرگ کے ٹاؤن ہال میں بھی تشریف لے گئے اور ڈاکٹروں کو بھی دکھایا۔ حضورؓ کے ساتھ سیر یا خریداری کے لئے جانے کا موقع نہیں ملاالبتہ ابّا جان مرحوم ہر جگہ ساتھ ہوتے تھے۔ مجھے صرف ایک مرتبہ حضورؓ کے قیام والے ہوٹل میں ملنے جانا یاد ہے۔ میرے ابّا بتاتے تھے کہ حضورؓ نے ازراہِ شفقت میرے دونوں بھائیوں کو چند پونڈ (برطانوی کرنسی) عطا فرمائے تھے۔ میرے بھائی اس وقت بہت چھوٹے تھے۔ دورہ کے دوران کا ایک واقعہ جو میری یادداشت پر نقش ہے وہ یوں ہے کہ میں اکثر جرمن بولتی تھی، میری والدہ صاحبہ مرحومہ مجھے منع کرتی تھیں تاکہ اردو بھول ہی نہ جائے۔ ایک مرتبہ حضورؓ کے سامنے بھی ایسی صورت پیدا ہوئی تو حضورؓ نے میری والدہ کو روکا اور فرمایا کہ اسے جرمن بولنے دو، ایک وقت آئے گا کہ ہمیں جرمن بولنے والوں کی ضرورت ہوگی اور یہ اُس وقت ترجمانی کا کام سرانجام دےگی۔ اور بعینہٖ ایسا ہی ہوا اور مجھے بعد میں بہت سے ترجمانی کے مواقع میسر آئے۔ جن میں سے ایک اہم واقعہ یہ بھی ہے کہ جب حضرت نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہ سوئٹزرلینڈ کی مسجد محمود کے سنگِ بنیاد کے لیے تشریف لائیں تو مجھے اس موقع پر ان کی ترجمانی کی سعادت نصیب ہوئی۔ اسی طرح بعض مواقع پر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی بھی ترجمانی کرنے اور لجنہ اماءاللہ کی بعض تقریبات میں بھی ترجمہ کرنے کی توفیق ملی۔ جب حضورؓ نے ہمیں بعد میں لندن بلایا تو وہاں حضورؓ کا ذاتی خانساماں کھانا تیار کر رہا تھا جبکہ ایک خاتون سوئٹزرلینڈ سے بھی آئی تھیں جو یورپین کھانا تیار کرتی تھیں، اس کی ترجمانی کا موقع بھی مجھے ملا۔ ہمبرگ کے دورے کے دوران ایک روز جرمن نَومسلم احمدی مکرم عبدالکریم ڈنکر صاحب نے ایک روز حضرت مصلحِ موعودؓ کو مع اہلِ قافلہ ایک ریسٹورنٹ میں کھانے کی دعوت دی تھی جو اس دَور میں بہت بڑی بات تھی۔ حضورؓ نے اسی دورہ میں میرے والد صاحب کو مسجد بنانے کا ارشاد بھی فرمایا۔

متعلقہ مضمون

  • جلسہ گاہ میں ایک تعارفی پروگرام

  • پہلا جلسہ سالانہ جرمنی

  • جماعتِ احمدیہ جرمنی کے ایک جفا کش دیرینہ خادم

  • جماعتی سرگرمیاں