کربلا کل اور آج
دریائے فرات کے کنارے بغداد سے قریباً سو کلومیٹر دور عراق کی بستی کربلا ایک چٹیل و بےآباد ویرانہ کے سوا کچھ بھی نہ تھی۔ مگر آج چھ لاکھ سے متجاوز آبادی پر مشتمل یہاں ایک مرجع خلائق شہر آباد ہے۔ پوری طرح سرسبزوشاداب، حسین و دلکش عمارات، کھلے بازار، پلاسٹک و پیتل کی انڈسٹریاں، عبائیں قالین اور کڑھائی کے کام۔ سوسے زائد مساجد، درجنوں کا لجز، سکول، مدارس اور یونیورسٹی سے دینی و دنیاوی علوم کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ اسلامی دنیا میں مکّہ و مدینہ کے بعد مشہور ترین مقامات میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ شہرت کا اصل سبب حضرت امام حسینؓ اور حضرت عباسؓ کے مزار ہیں جن کے طلائی گنبد اور بلند میناروں سے شہر کی عظمت و رونق دوبالا ہو رہی ہے۔ اسلامی کیلنڈر کے ماہِ محرّم الحرام کی آمد پر ہر سال دنیا بھر میں کربلا کا ذکر بڑی کثرت سے فضا میں گونجتا ہے۔ دنیا بھر سے قریباً 20 لاکھ افراد ہر سال زیارت کے لیے آتے ہیں۔
مختصر پس منظر
کربلا کی وجۂ شہرت تاریخ اسلامی پر لگا ایک بدترین سیاہ داغ ہے۔ ایک انتہائی پاکیزہ، گہوارۂ امن و سکون اسلامی انقلاب آنحضرتﷺکے مبارک وجود کے ساتھ برپا ہوا پھر وصال مبارک کے بعد آہستہ آہستہ مخالفین اسلام و معاندین کے بھڑکانے سے چند دبی چنگاریاں پھیلنے لگیں اور اپنے عروج کو پہنچ کر بھڑک اٹھیں تو کربلا کہلائیں۔ ایک ہی بزرگ عبدالمطلب کے گیارہ بیٹے تھے۔ ابولہب۔ ضرار۔ عباس زبیر۔ عبداللہ۔ حارث۔ جمل۔ ابوطالب۔ مقوم قشم۔ غیداق۔ ان کے آگے بچے بھی کثرت سے ہوئے جیسے حضرت عباسؓ کے دس بچے تھے۔ اس طرح بڑی کثرت سے اولاد و نسل پھیلی۔ حضرت عبداللہ کے فرزند تھے محبوب خدا محمد مصطفی احمد مجتبیٰﷺ۔ حضرت ابوطالب کی اولاد سے حضرت علی اور حضرت عقیل و غیرہم تھے۔
حارث کے فرزند ابوسفیان کی اولاد معاویہ اور زیاد تھے۔ معاویہ کے ہاں یزید اور زیاد کے ہاں عبیداللہ (ابن زیاد) پیدا ہوئے۔
دبی چنگاریوں سے بھڑکتی آگ دیکھ کر تاریخ پڑھنے والوں کا ذہن بنو ہاشم اور بنو اُمیہ کی طرف جاتا ہے۔ بدقسمتی سے نا معلوم خاندانی رنجشیں، قبائلی عصبیّتیں اور معاندین کی ریشہ دوانیاں تھیں جو بھیانک صورت اختیار کرگئیں۔ ان سب کے بڑوں میں تو معجزانہ طور پر ایک ہاتھ پر جمع ہوجانے سے اتحاد و یگانگت نے جنم لیا۔ پھر غالباً نیتیں خراب نہ ہونے کے باوجود متنوع سوچوں، دلخراش حوادث اور خوابیدہ نفاق و مفاد پرستی نے ایک بہت بڑا دھماکہ کردیا جس کے مہلک اثرات نے تاریخِ عالم کو ہلا کے رکھ دیا۔ یہ اثرات صدیوں بعد بھی کم ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ اسی قیامت خیز دھماکہ کو ہم واقعہ کربلا کے نام سے جانتے اور بیان کرتے ہیں۔
معاویہ کا عہدِ امارت
41ھ تا 60ھ
قرونِ اولیٰ کا سب سے گھمبیر متنازع عہدِحکومت اگر کسی باپ بیٹے کا معلوم کرنا ہو تو بلاشبہ وہ معاویہ اور یزید کا ہے۔ امیر معاویہ سے پہلے قریب کے واقعات سے آگاہ لوگ بآسانی جان سکتے ہیں کہ معاویہ اپنے بعد کے لئے کتنے فکرمند ہوں گے۔ حاکم کوفہ مغیرہ بن شعبہ نے 50ھ میں مشورہ دیا کہ اپنے بعد حالات درست رکھنا ہیں تو شاہی طرز پر اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد نامزد کر دیں اور اس کے حق میں تمام صوبہ جات سے عہد اطاعت و وفاداری کا اہتمام فرمائیں۔ اسی تجویز کو پسند کرتے ہوئے جناب معاویہ نے چند عملی قدم اٹھائے:
1: اپنی فہم و دانش اور تجربے کے مطابق یزید کی تربیت شروع کردی۔
2: تمام صوبہ جات میں عہد اطاعت کے لیے فضا ہموار کرنے کے پیغامات بھیجے۔
3: دمشق میں ایک خاص مشاورتی میٹنگ بلائی جس میں ہر صوبہ کا وفد مدعو تھا۔ اعتماد میں لینے کے لیے با ت شروع تھی۔ جب مدینہ سے آئے ہوئے نمائندہ محمد بن عمرو بن حزم مخاطب ہوئے تو انہوں نے کہا: اپنے فیصلہ کے متعلق قیامت کے روز آپ ہی جوابدہ ہوں گے۔ ہم تو اس فیصلہ کے بہرحال پابند ہوں گے۔ ایک معروف معتمد بزرگ ضحاک بن قیس نے بڑے جوش و خروش سے تجویز کی حمایت کی۔ مصر سے آئے نمائندے احنف بن قیس خاموش تھے۔ پوچھنے پر کہنے لگے: جھوٹ بولوں تو خدا سے ڈرتا ہوں۔ سچ بولوں تو آپ سے ڈرتا ہوں !! اس مشاورتی میٹنگ کے بعد مجموعی طور پر فضا ہموارہوگئی۔
4: صوبہ حجاز یعنی مکّہ و مدینہ کی طرف سے امیر معاویہ مطمئن نہ تھے اس لئے اگلے سال 51ھ میں حج پر جانے سے پہلے مدینہ تشریف لے گئے جہاں کے پانچ بڑوں سے سفارتی سطح پر رابطہ کر چکے تھے لیکن معاویہ کے مدینہ پہنچنے سے پہلے وہ بڑے لوگ مکّہ چلے گئے تھے۔
5: مکّہ پہنچ کر امیر معاویہ نے ان بڑوں کو مدعو کیا اور اعتماد میں لینا چاہا۔ عبداللہ بن عمرؓ نے کہا کہ جس پر سارے متفق ہوجائیں گے میں بھی تسلیم کرلوں گا۔ تاہم دیگر بڑوں یعنی عبداللہؓ بن عباس، عبداللہؓ بن زبیر، عبدالرحمٰن بن ابی بکرؓ اور حضرت امام حسینؓ سمیت سب نے عبداللہؓ بن زبیر کو اپنا نمائندہ بنا لیا او رانہوں نے اپنی گفتگو میں بہت صاف کہا کہ تین باتیں ہیں:
i: آنحضرتﷺ کے نمونہ پر اس معاملہ کو آزاد چھوڑ دیں۔
ii: حضرت ابوبکر صدیقؓ کے نمونہ پر غیر رشتہ دار کسی موزوں مومن کو نامزد کر دیں۔
iii: حضرت عمرؓ کے نمونہ پر کمیٹی بنا دیں جس کے اراکین غیرجانبدار ہوں۔
اس طرح تمام اہم لیڈروں اور اشخاص سے مذاکرات کے بعد جناب معاویہ نے سیاسی چال کے طور پر یہ بات پھیلا دی کہ گویا سب مان گئے ہیں۔ البتہ یزید کو کچھ خاص نصائح بطور وصیّت کیں کہ:
i: عبداللہؓ بن عمر کی طرف سے مطمئن رہنا۔ وہ عبادت گزار انسان عبادت میں مگن رہتے ہیں ان سے کوئی خطرہ نہیں۔
ii: عبداللہؓ بن زبیر لومڑ کی طرح ہے یہ ہتھے چڑھ جائے تو اسے قتل کرا دینا۔
iii: حسینؓ ابن علیؓ پر غالب آؤ تو انہیں قتل نہ کرنا اور قرابت داری کا خیال کرنا۔
یزید کے عہدِ حکومت کا آغاز
معاویہ کی وفات پر یزید نے حسب نامزدگی و وصیّت اقتدار سنبھالا تو عہد اطاعت و وفاداری کا فرمان جاری کردیا۔ اہل شام نے فوراً بیعت کرلی۔ عامل مدینہ ولید بن عتبہ کو پیغام بھیجا کہ مدینہ کے اکابرین سے بیعت لیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے مشیر مروان بن الحکم کو بلا لیا اور ان کے مشورہ سے:
1: حضرت امام حسینؓ کو بلایا۔ آپ اصل معاملہ بھانپ گئے اور ولید سے مل کر وفاتِ معاویہ پر اظہارِ افسوس کے بعد کہا کہ میرا اس طرح الگ تھلگ آکر بیعت کرنا مناسب نہیں۔ بیعت کروں گا تو سرِعام کھل کر کروں گا اس لئے کل تک مہلت چاہئے جو دے دی گئی۔ مروان بن الحکم نے کہا یہ سخت غلطی ہے اب مہلت دی ہے تو کبھی قابو نہیں پاسکو گے۔
2: عبداللہؓ بن زبیر کو علم ہوا تو انہوں نے رات تک کی مہلت لی اور عامل سے ملے بغیر رات ہی کو مدینہ سے مکّہ کے لیے روانہ ہوگئے۔ صبح علم ہوا تو موجودہ اور سابق عاملان مدینہ ولید بن عتبہ اور مروان بن الحکم خاص دستہ لے کر تعاقب کے لیے پیچھے گئے مگر شام تک تلاش میں ناکامی کے بعد واپس مدینہ آگئے۔
اسی دوران اکابرین کے حسب مشورہ امام حسینؓ بھی دوسرے روز 27 رجب 60ھ بمطابق 3 مئی 680ء اپنے اہلِ خانہ سمیت کل 21 افراد لے کر مکّہ روانہ ہوگئے۔ عبداللہؓ بن زبیر نے اپنا قیام بیت اللہ میں کرلیا اور امام حسینؓ شعب ابی طالب چلے گئے۔ یہ 3شعبان بمطابق 9مئی بروز جمعہ کا دن تھا۔ دونوں مکّہ میں اکٹھے پہنچے۔
چند دن بعد عبداللہؓ بن عمر اور عبداللہؓ بن عباس بھی مکّہ روانہ ہوگئے۔ ذوالحجہ کے آغاز تک قیام مکّہ کے دوران اہلِ کوفہ نے یہ علم ہونے پر کہ امام حسینؓ مدینہ چھوڑ کر مکّہ تشریف لے گئے ہیں، مکّہ میں آپؓ کو ہزاروں کی تعداد میں خطوط لکھ کر پر زور استدعا کی کہ آپ کوفہ تشریف لے آئیں ہم سب آ پ کے وفادار و جاں نثار موجود و منتظر ہیں۔
کوفہ میں ہلچل
کوفہ معروف طور پر حضرت علیؓ کا عقیدت مند اور حامی تھا۔ یہاں کے عامل نعمان بن بشیر بڑے تحمل سے کام کرنے والے تمام صورتِ حال کے ذمہ دار تھے۔ کوفہ شہر میں بھی بڑی بڑی بلند قامت شخصیات تھیں۔ یزید کی تخت نشینی کے ساتھ ساتھ خبریں پہنچیں کہ امام حسینؓ مدینہ سے ہجرت کرکے مکّہ تشریف لے گئے ہیں۔ ان حالات میں:
1: معروف با اثر لیڈر سلیمان بن صرد خزاعی کے مکان پر بڑے لوگ جمع ہوئے جن میں ہانی بن عروہ، رقاطہ بن شداد۔ مسیّب بن ناجیہ شامل ہیں۔ قرار داد پاس کی گئی جو مکتوب کی صورت میں حضرت امام حسینؓ کی خدمت میں مکّہ بھیج دی گئی۔ مضمون کا خلاصہ یہ تھا کہ ہم تمام اہلِ کوفہ آپ کے والد ماجد کے وفادار و جان نثار اب آپ کو پوری حمایت کا یقین دلاتے ہیں یہاں تشریف لائیے لاکھوں جان نثار بیعت کریں گے۔ ہم فقط آپ کو عالم اسلام کا واحد خلیفہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ ہی اس کے مستحق ہیں۔ یہ مکتوب لے کر قیس اور عبدالرحمٰن مکّہ روانہ ہوگئے۔
2: پھر بات عام ہوئی تو لوگوں نے دھڑا دھڑ خطوط لکھنے شروع کئے۔ عبداللہ بن سلع ہمزانی نے بہت جذباتی خط لکھ کر کوفہ آنے کی اپیل کی۔ عبداللہ بن وال نے نعمان بن بشیر کو بھگا دینے کے علاوہ بھرپور حمایت کا یقین دلایا۔ ایسے خطوط مجموعی طور پر 12000 سے بھی زائد ہوگئے جن کا مضمون یہی تھا کہ کوفہ کی زمین سرسبز ہے۔ پھل پک چکے ہیں لشکر تیار ہے جلد تشریف لائیے۔
3: دوسری طرف عامل کوفہ نعمان بن بشیر پر دباؤ بڑھ رہا تھا کہ قدم اٹھاؤ۔ حضرت امام حسینؓ نے اپنے چچا زاد معتمد حضرت مسلم بن عقیل کو ان خطوط کے جواب میں کوفہ پہنچنے کا ارشاد فرمایا۔ وہ روانہ ہوئے مگر پہلے مدینہ گئے۔ وہاں سے دو گائیڈ ساتھ ہوئے مگر رستہ میں ہی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اس پر انہوں نے اپنی ہچکچاہٹ کا خط لکھا مگر امام کی طرف سے تاکید آنے پر سفر جاری رکھا اور کوفہ میں معروف با اثر لیڈر مختار بن ابوعبیدہ ثقفی کے ہاں اترے۔ بڑا عظیم الشان پُرتپاک استقبال ہوا اور پہلے ہی دن ہزارہا نے بیعت کرلی جس پر انہوں نے امام حسینؓ کی خدمت میں پورے اطمینان کا خط لکھتے ہوئے فوراً کوفہ پہنچنے کی درخواست کی کہ بہترین سازگار فضا ہے لاکھوں کے بیعت کرنے کی توقع ہے۔ یہ خط عابس بن ابی شیبہ لے کرگئے جس میں لکھا تھا ایک لاکھ تلوار آپ کی نصرت کے لیے تیار ہے۔
4: مسلم بن عقیل کے پر جوش استقبال نے حالات کو یکسر بدل دیا۔ دوسری طرف سرکاری ایجنسیوں اور متعدد اہم شخصیات نے یزید کو اطلاعات اور رپورٹس بھیجیں کہ حالات قابو سے باہر ہورہے ہیں اور فوری نہ سنبھالا گیا تو صوبہ ہاتھ سے نکل جائے گا۔ یزید نے اپنے والد کے معتمد مشیر سرجون کو طلب کرکے مشورہ چاہا۔ اس نے کہا کہ کوفہ کو سنبھالنے کے لیے موزوں ترین آدمی عبیداللہ بن زیاد ہے جس کے والد زیاد بن ابی سفیان عامل کوفہ و بصرہ رہے ہیں اور خود ابن زیاد آج کل بصرہ کا عامل ہے۔ یزید ذاتی طور پر زیاد اور پھر ان کے بیٹے عبیداللہ کو پسند نہیں کرتا تھا مگر حالات کا تقاضا تھا کہ ایسا کرنا پڑا اور یزید نے ابن زیاد کے نام فرمان جاری کیا کہ بصرہ میں کسی کو نائب مقرر کرکے خود کوفہ پہنچو اور بگڑتی صورتِ حال کو سنبھالو۔ اس تمام بدلتی صورتِ حال کے ساتھ مکّہ میں تمام عمائدین حضرت امام حسینؓ کو کوفہ جانے سے روک رہے تھے جن میں حضرت عبداللہؓ بن عباس اور عبداللہؓ بن زبیر بھی شامل ہیں۔
ابن زیاد کی بصرہ سے کوفہ آمد
عبید اللہ بن زیاد نے اپنے بھائی عثمان کو بصرہ میں نیابت سونپ دی اور اگلے روز روانگی کا پروگرام بنا لیا کہ رات کو اطلاع ملی کہ ایک قاصد امام حسینؓ کے خطوط با اثر شخصیات کے نام لایا ہے کہ کوفہ پہنچ کر امام حسینؓ کی بیعت اور حمایت کرو۔ ابن زیاد کے خسر منذر بن جارود کی مخبری پر قاصد پکڑا گیا اور صبح ابن زیاد نے سب کو جمع کرکے پر زور تقریر کی کہ یہ قاصد پکڑ ا گیا ہے اور اس نے سب نام بتا دئیے ہیں جن کے نام خطوط آئے ہیں فی الحال میں ان سب کو معاف کرتا ہوں اور تنبیہ کرتا ہوں کہ یزید کی اطاعت سے مت نکلیں ورنہ وہ حال ہوگا جو ابھی اس قاصد کا تمہارے سامنے ہوگا۔ پھر اس قاصد کو بے دردی سے قتل کروا دیا اور خود حسبِ پروگرام کوفہ کے لیے روانہ ہوگیا۔
کوفہ میں فضا پوری طرح امام حسینؓ کے لیے چشم براہ تھی اور ہر فرد فوراً بیعت کرنے کے لیے پُر جوش۔ دوسری طرف عاملِ کوفہ نعمان بن بشیر بہت محتاط ہوکر گویا گورنر ہاؤس میں محصور تھے۔ ابن زیاد نے اپنا لشکر کوفہ سے باہر روک دیا اور خود حجازی لباس پہن کر داخل کوفہ ہوا۔ لوگ اسے امام حسینؓ خیال کرکے پر جوش استقبال کرنے لگے۔ وہ سیدھا گورنر ہاؤس پہنچا جہاں بیرونی گیٹ بند کرکے عامل یعنی گورنر نعمان بن بشیر اپنے مصاحبین کے ساتھ چھت پر موجود سارے حالات کا جائزہ لے رہے تھے۔ اوپر سے ہی دستک سن کر مخاطب ہوا کہ:
اے ابن رسول اللہ! آپ بہت مقبول، بزرگ اور خدا رسیدہ انسان ہیں۔ خدارا ایک قائم ہوجانے والی حکومت کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھائیں اور واپس چلے جائیں۔
ابن زیاد معاملہ سمجھ گیا اور حجازی عمامہ اتار کر بولا کہ گیٹ کھولو مَیں ہوں ابن زیاد! فوراً گیٹ کھلا اور ابن زیاد نے چارج سنبھال لیا۔ اور پوچھا کہ مسلم بن عقیل کہاں ہیں؟ اور جلد ہی بڑی حکمت سے معلوم کرلیا کہ وہ ابن زیاد کی آمد پر مختار ثقفی کے گھر سے ہانی بن عروہ کے بڑے گھر میں فروکش ہوگئے ہیں۔ ابن زیاد نے دراصل اپنے ایک معتمد معقل تمیمی کو سمجھا کر تین ہزار دراہم کی تھیلی دی کہ جاؤ اور ہانی بن عروہ کو جو اپنے محل سے باہر براجمان ہوگا کسی طرح لجاجت سے کہو کہ مَیں بصرہ سے آیا ہوں اور وہاں سے فلاں فلاں لیڈر بھی پہنچنے والے ہیں۔ مَیں یہ ہدیۂ عقیدت ہتھیاروں کی خرید کے لیے لایا ہوں اور مَیں فقط آنے والوں کی اطلاع حضرت مسلم تک پہنچانا چاہتا ہوں کیونکہ انہی کے پاس پہنچنے کی ہمیں امام حسینؓ کی طرف سے تاکید ہوئی ہے۔ ہانی اس چال میں آگئے اور حضرت مسلم سے ملا دیا۔ ازاں بعد ابن زیاد کے حکم پر ہانی لائے گئے جو حضرت مسلم کے متعلق بےخبری ظاہر کرنے لگے۔ تب معقل کو سامنے کر دیا گیا اور ہانی شرمسار ہوئے اور گرفتار کرکے ایک کمرے میں بند کردئیے گئے۔ باہر شور مچ گیا کہ ہانی پکڑے اور قتل کردئیے گئے ہیں۔
یہ سن کر حضرت مسلم نے اپیل کی اور چار ہزار کا لشکر جمع ہو کر گورنر ہاؤس کی طرف بڑھا اور ابن زیاد کے خلاف لڑنے مرنے پر تیار ہوا۔ عبدالرحمٰن کندی، مسلم بن عوسجہ اور ابو تمام صائدی بڑے بڑے جتھوں کے ساتھ شامل ہوئے۔
ابن زیاد نے کثیر بن شہاب اور محمد بن اشعث کو اس لشکر میں پھوٹ ڈالنے اور اسے منتشر کرنے کا مشن سونپا اور وہ کامیاب رہے۔ چنانچہ لشکر تتر بتّر ہوگیا اور جو چند باقی رہے وہ بھی مغرب کے وقت ادھر ادھر ہوگئے۔ مسلم تنہا ایک گلی میں چلے اور کندہ قبیلہ کی بوڑھی خاتون طوعہ نے دیکھا تو پانی پلا دیا اور گھر میں پناہ دی۔ اس بڑھیا کا بیٹا بلال آیا تو دیکھ کر پریشان ہوگیا کیونکہ باہر تو منادی ہو رہی تھی کہ سب لوگ عشاء میں جمع ہوں اور حصین بن نمیر پولیس افسر گھر گھر تلاشی لے رہا ہے تاکہ مسلم کو پکڑے۔ بلال نے اپنے دوست عبدالرحمٰن ابن محمد بن اشعث کو بتایا اور یوں رپورٹ ہونے پر 50 کی نفری گرفتار کرنے آئی۔ حضرت مسلمؓ نے تلوار سونت لی۔ محمد بن اشعث نے کہا کہ جان نہ گنوا بیٹھیں خود کو میری امان میں دے دیں۔ سپاہیوں نے گھیرے میں لے کر تلوار ان سے لے لی اور ابن زیاد کے سامنے پیش کردیا۔ جہاں ہانی کے ساتھ ہی قید کر دئیے گئے۔ ابن زیاد کے ساتھ کافی گفتگو کے بعد واضح ہوگیا کہ قتل کردئیے جائیں گے اس لئے وصیّت کی جس کا اہم حصہ امام حسینؓ کے لیے مکّہ ہی رک جانے اور کوفہ نہ آنے کا پیغام تھا کہ اہلِ کوفہ نے بے وفائی اور عہدشکنی کرکے منہ مکمل طور پر موڑ لیا ہے۔
مسلمؓ اور ہانی شہید کردئیے گئے۔ اور جس دن شہید کئے گئے وہی دن تھا یعنی 3ذی الحجہ کہ مکّہ سے امام حسینؓ کوفہ کے لیے روانہ ہوئے۔
حضرت امام حسینؓ کا مکّہ سے کربلا کا سفر
نامور شیعہ عالم و مؤرخ جناب ملا باقر مجلسی کی بہت مشہور کتاب ہے جلاءالعیون۔ اس میں بڑی تفصیل کے ساتھ حضرت امام حسینؓ کے بلند عزم و ارادہ پہاڑوں سے مضبوط شخصیت اور ایک ایک دن کی رُوداد درج ہے۔ آج ممکن ہے متعدد مقامات کے نام بھی تبدیل ہوگئے ہوں مگر واقعات کا استناد قائم رکھنے کے لیے 3 ذوالحجہ سے دس محرّم الحرام تک کی گویا ایک ڈائری مدِّنظر رکھتے ہوئے مکّہ سے کربلا تک قریباً 900کلومیٹر کا ایک مہینہ میں سفر اور 14مقامات کا ذکر جہاں امام عالی مقام رُکے، ٹھہرے یا قیلولہ کیا اور پھر اگلے مقام کی طرف بڑھتے گئے۔ یہ ذکر محض نمونہ کے طور پر ایک آدھ بات کرنے تک محدود ہے:
1: تنعیم: اس جگہ یمن کے عامل کے بھیجے ہوئے تحائف وغیرہ لے جانے والا قافلہ ملا۔ امام حسینؓ کی رائے تھی کہ تحائف پر امام زمان کا حق ہے اور وہ یزید نہیں ہوسکتا۔ قافلہ پر تصرف ہوا اور اس قافلہ کے اونٹ وغیرہ اب قافلۂ حسینی کا حصہ بنے۔
اس جگہ مدینہ سے حضرت امام حسینؓ کے چچازاد عبداللہ بن جعفر کا خط لے کر ان کے بیٹے عون اور محمد بھی پہنچے۔ خط میں تھا کہ سفر کی جلدی نہ کریں۔ مَیں بھی آرہا ہوں۔ عبداللہ بن جعفر کے کہنے پر حاکم مدینہ عمرو بن سعید نے خط لکھ دیا کہ امام حسینؓ مدینہ تشریف لے آئیں۔ حاکم کے بھائی یحییٰ اور عبداللہ بن جعفر بھی خط لے کر آن پہنچے اور بہت روکا کہ کوفہ جانے کی بجائے مدینہ چلیں مگر حضرت امام حسینؓ نے اپنا ارادہ ترک نہیں فرمایا۔
عبداللہ بن جعفر روکنے سے ناکام ہو کر بادیدۂ اشکبار و بادلِ افگار واپس مدینہ جاتے ہوئے بیٹوں کو حضرت امام حسینؓ کا پورا ساتھ دینے کی تاکید کرگئے۔
2: ثعلبیہ: کوفہ کے بشیر بن غالب یہاں ملے۔ کوفہ کااحوال بتایا کہ لوگوں کے دل امام کے ساتھ ہیں مگر تلواریں بنی اُمیّہ کی طرف ہیں۔ اس سے پہلے معروف شاعر فرزدق بھی یہی بات کہہ چکے تھے اور مشورہ بھی دیا تھا کہ آگے نہ جائیں !
3: چشمۂ غدیب: قیلولہ فرمایا اور اٹھ کر بیٹے علی اکبر کے سوال پر بتایا کہ ابھی خواب میں آنے والا وقت دیکھا ہے کہ ہمارے ساتھ کیا کچھ مقدر ہے۔ اشارہ اس طرف تھا کہ سب کے لیے ایک عظیم شہادت مقدر ہے۔
4: ہیمیہ: ابوہریرہ نام کے ایک شخص نے عندالملاقات مدینہ سے چلے آنے کا سبب پوچھا تو آپؓ نے فرمایا مال و عزت کے بعد اب بنو اُمیّہ مجھے قتل کرنے کے دَرپے ہوئے تو میں نے مدینہ چھوڑ دیا۔ اس دوران حاکم مدینہ ولید کو امام حسینؓ کے ارادے کا علم ہوا تو انہوں نے ابن زیادکو لکھا کہ ان سے متصادم نہ ہونا۔ مگر اس پر اس بات کا کوئی اثر نہ ہونا تھا نہ ہوا۔
5: بطن رمہ: سے عبداللہ بن یقطر کو اہلِ کوفہ کے نام خط دے کر بھیجا کہ میں آرہا ہوں۔ نواح مکّہ سے 8ذی الحجہ کو نکل کر اب قریب ہوں۔ قاصد پکڑا گیا تو اس نے خط تلف کردیا۔ تاہم ابن زیاد کے پولیس افسر حصین بن نمیر نے اس کو ابن زیاد کے پیش کیا تو اس نے اس کا سر قلم کرا دیا۔ یہی حال ایک اور قاصد قیس بن مسہر کا ہوا۔
6: قادسیہ: ابن زیاد نے حصین بن نمیر کی کمان میں لشکر بھیج دیا جو قادسیہ سے قطقطانیہ تک پھیلا ہوا تھا۔
7: حاجز: ایک چشمۂ آب پر پہنچے۔ وہاں عبداللہ بن مطیع ملا اور حیران ہوا کہ آپ کہاں؟ تفصیل سن کر کہنے لگا کہ میں آپ کو خدا کی قسم دیتا ہوں کہ خود کو معرضِ تلف میں نہ لائیے۔ بہت خطرناک حالات ہیں کوفہ ہرگز ہرگز نہ جائیں مگر امام کے قدم نہیں رُکے۔ اسی مقام پر ابن زیاد کی طرف سے بصرہ و شام کے راستے بند کرانے کا علم ہوا۔
ایک قافلہ زہیر بن قین بجلی کی قیادت میں متوازی سفر کررہا تھا۔ حضرت امام حسینؓ نے اس کو بلایا تو لبیک کہہ کے ہمراہ ہوا اور بیوی کو وداع کردیا۔
8: خزیمہ: یہاں رات گزاری اور علم ہوا کہ ظالموں نے مسلم اور ہانی شہید کر دئیے ہیں۔ یہ بات کوفہ کی طرف سے آنے والے عبداللہ بن سلیمان اور منذر بن شمعل نے بتائی اور تاکید کی کہ آگے نہ جائیں بہت خطرناک صورتِ حال ہے۔
اسی جگہ قاصد عبداللہ بن یقطر کے شہید ہونے کی اطلاع ملی اور آبدیدہ ہوگئے۔ اور بادیدۂ تر ہاتھ اٹھا کر دردناک دعا کی کہ ‘‘ہمار ے شیعوں نے ہماری نصرت سے ہاتھ اُٹھا لیا ہے’’۔
9: بطنِ عقبہ: بنی عکرمہ کا ایک بزرگ ملا اور کہنے لگا: ‘‘یا ابن رسول اللہ! مَیں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ واپس جائیے اور بخدا آپ نہیں جاتے مگر نوکِ سنان و شمشیرِ جان ستان کی طرف جاتے ہیں ’’۔
10: اشراف: رات گزاری اور صبح حکم دیا کہ پانی بھر کے ہمراہ لے لو۔ پھر چل پڑے۔ دوپہر کے وقت سامنے دور لشکر پر نظر پڑی اور خطرہ بھانپ کر رخ ایک پہاڑ کی طرف کرلیا کہ تصادم کی صورت میں پہاڑ پشت پر ہو۔
حُرّ بن یزید رباحی ایک ہزار سواروں کے ساتھ عین شدتِ گرما میں قافلۂ حسینی کے قریب صف آراء ہوا۔ امام نے ان میں آثار تشنگی دیکھ کر حکم دیا کہ سب کو اور ان کے جانوروں کو پانی پلایا جائے۔
حُرّ بن یزید دراصل حصہ تھا بڑے لشکر کا جو ابن زیاد نے حصین بن نمیر کی قیادت میں آنے والے حالات پر قابو پانے کے لیے بھیجا تھا۔
یہاں حُرّ نے بھی اپنے دستے سمیت نماز ظہر پھر نماز عصر امام حسینؓ کی اقتداء میں ادا کیں اور امام نے بتایا کہ مَیں اہلِ کوفہ کے با اصرار بلاوے پر آیاہوں اور عصر کے بعد خطاب میں فرمایا:
‘‘اَیُّھَا النَّاس! اگر تمہاری رائے پھر گئی ہے تو میں بھی واپس جاتا ہوں ’’۔ مگر حُرّ نے کہا کہ مجھے حکم ہے کہ آپ کو واپس نہ جانے دوں۔ آپ کی تعظیم کرتا ہوں مگر یا کوفہ چلیں یا کسی اور راستے سے مدینہ چلے جائیں۔
11: قصر بنی مقاتل: متوازی چلتے ہوئے قصر مقاتل پہنچے۔
12: قطقطانیہ: قطقطانیہ میں ایک خیمہ نظر پڑا۔ اس خیمہ سے نکل کر عبداللہ بن حُرّ آیا تو امام نے اپنی حمایت کا کہا۔ عبداللہ نے گھوڑا پیش کردیا جو امام نے قبول نہیں کیا کیونکہ جو خود حمایت میں نہیں آتا اس کی طرف سے کوئی ہدیہ بھی کیوں قبول کیا جائے۔
قطقطانیہ میں کئی کشفی نظارے بھی دیکھے کہ شہید کردئیے جائیں گے اور شہادت کے بعد اُمّت اور بنو ہاشم پر ہمیشہ کے لیے کٹھن وقت شروع ہوجائے گا۔
13: کربلا (2محرّم الحرام 61ھ): صبح تیار ہو کر دوسری طرف جانا چاہا مگر حُرّ مانع ہوا یہاں تک کہ چلتے چلتے کربلا پہنچے اور اسی وقت دور سے ایک سوار نمایاں ہوا۔ وہ بڑی تیزی سے آیا مگر امام حسینؓ کو چھوڑ دیا اور حُرّ کو جا سلام کیا۔ وہ دراصل ابن زیاد کا قاصد تھا۔ حُرّ نے خط کھول کر پڑھا تو لکھا تھا کہ جہاں خط ملے وہیں امام حسینؓ کو روک دو اور ان کو ایسے بیابان میں اتارو جہاں پانی اور آبادی نہ ہو۔ حُرّ نے یہ خط بآواز بلند سنا دیا۔
حضرت امام حسینؓ کے رفقاء میں سے یزید بن مہاجر نے قاصد کو پہچان کر پوچھا کہ کیا پیغام ہے؟
زہیر نے جنگ کا مشورہ دیا مگر اما م نے فرمایا کہ پہل نہیں کرسکتا۔
یہ دو محرّم الحرام 61ھ روز چہار شنبہ تھا خط سنانے کے بعد حُرّ نے ابن زیاد کو رپورٹ بھیجی جس پر ابن زیاد نے امام حسینؓ کے نام خط بھیجا: ‘‘یزید بن معاویہ نے مجھے خط لکھا ہے کہ آپ کو مہلت نہ دوں۔ یا آپ سے بیعت لوں یا انکار کی صورت میں یزید کے پاس بھیج دوں’’۔
قاصد نے خط کا جواب چاہا تو فرمایا کہ اس کا جواب میرے پاس نہیں۔ بس اتنا یاد رکھو کہ اس پر عذاب اترا ہے۔ اس کے بعدحضرت امام حسینؓ نے اپنے اصحاب کو خطاب کیا اور خدا کی خاطر شہادت کی عظمت بتائی اور صورتِ حال واضح کردی۔ اس پر زہیر پھر ہلال بن نافع بجلی پھر بریربن خضیر نے لبیک کہا اور پوری جان نثاری کا یقین دلایا۔ امام نے تمام اصحاب اور بچوں پر نظر ڈال کر دعا دی۔
3 محرّم الحرام 61ھ
ابن زیاد واپسی جواب پر آگ بگولا ہوگیا اور عمر بن سعد کو پیغام جنگ بھیج دیا جو چار ہزار نفری کے ساتھ پہلے ہی کربلا کے نزدیک پہنچا ہوا تھا۔ چنانچہ وہ کربلا میں آگیا۔ ابن سعد نے حضرت امام حسینؓ سے رابطہ کرنا چاہا اور عروہ بن قیس احمسی کو کہا مگر وہ خود خطوط لکھ کر کوفہ بلانے والوں میں سے تھا اس لئے معذرت کی۔ اسی طرح کئی اور نے انکار کیا آخر نہایت شجاع، بیباک اور بےحیا شخص کثیر بن عبداللہ نے خود کو اس کام کے لیے پیش کیااور کہا کہ حکم ہو تو سر کاٹ کے لے آؤں۔ ابن سعد نے کہا نہیں صرف یہ پوچھ کے آؤ کہ یہاں آپ کیوں آئے ہیں؟
کثیر خیموں کے نزدیک گیا۔ حضرت امام حسینؓ کو ملنا چاہا تو رفقاء نے کہا کہ پہلے ہتھیار کھول کے آؤ۔ مگر وہ اس پر راضی نہ ہوا۔ تب قرہ بن قیس کو بھیجا گیا تو حضرت امامؓ نے فرمایا: تم لوگوں نے بے شمار خطوط لکھ کر بلایا۔ اگر میرا آنا اب منظور نہیں ہے تو مجھے واپس جانے دو۔
ابن سعد نے یہ رپورٹ ابن زیاد کو بھیج دی کہ امام حسینؓ واپس جانے کو تیار ہیں۔ ابن زیاد رپورٹ پڑھ کر مطمئن ہوا۔ تب شمر ذی الجوشن نے ابن زیاد کو اُکسایا کہ واپس مت جانے دو۔ یہی تو موقع ہے اسے قابو کرلینے کا۔ یاد رہے یہ شمر ذی الجوشن حضرت علیؓ کا برادر نسبتی تھا۔
4 محرّم الحرام 61ھ
ابن زیاد نے عمر بن سعد کو خط لکھوا کر بھیجا کہ امام حسینؓ اور ان کے تمام اصحاب بیعت کریں۔ اس کے بعد دیکھا جائے گا کہ کیا مناسب ہے۔
ابن زیاد نے خط بھیج کر مسجد میں خطاب عام میں انعام و اکرام کی باتیں کیں اور پبلک کو قتلِ حسین پر اُکسایا جس پر لوگ تیار ہوتے گئے۔ اور مختلف وفود لشکر کی صورت تیار ہوتے رہے جن کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:
شمر ذی الجوشن 4000، یزید بن رکاب 2000، حصین بن نمیر4000، شیث بن ربعی4000، محمد بن اشعث بن قیس1000۔
5محرّم الحرام 61ھ
عمر بن سعد کوابن زیاد کی طرف سے یہ فرمان ملا کہ صبح و شام صورتِ حال سے آگاہ کرو اور تیار ہونے والے لشکروں کو بھیجنے کا کام جاری رہا۔
6محرّم الحرام 61ھ
مختلف لشکر کربلا پہنچ گئے۔ حبیب بن مظاہر نے قریب ہی آباد قبیلہ بنی اسد کو مائل بہ نصرت کرنے کے لیے حضرت امام حسینؓ سے اجازت چاہی۔ رات کو گئے اور 90 افراد پوری حمایت کے لیے تیار ہوئے۔ جس کی جاسوس نے اطلاع کردی تو عمر بن سعد نے ارزق شامی کی کمان میں 400 نفری بھیجی اور مقابلہ میں غالب رہے تاہم حبیب بن مظاہر ٹھیک سلامت واپس پہنچ گئے اور سب حال واپس آکرحضرت امام حسینؓ کو سنایا۔
عمرو بن حجاج کی کمان میں 500 آدمی ڈیوٹی پر دریائے فرات پر تعینات کردئیے گئے تاکہ پانی سے روکیں۔ اس پر لکھا ہے کہ:
‘‘جب تشنگی نے اصحاب وفادارِ انام ابرار پر غلبہ کیا حضرت پاس آ کے شکایتِ پیاس بیان کی۔ حضرت نے ایک بیلچہ دستِ مبارک میں لیا اور عقب خیمہ حُرّ م محترم تشریف لائے اور پشتِ خیمہ سے نو قدم سمت قبلہ چلے اور وہاں ایک بیلچہ زمین پر مارا کہ باعجاز آنحضرتؐ چشمہ آبِ شیریں ظاہر ہوا اور امام حسینؓ نے مع اصحاب وہ پانی نوش کیا اور مشکیں وغیرہ بھر لیں ’’۔
7 محرّم الحرام 61ھ
خیمہ کے پیچھے چشمۂ آب کی خبر معاندین تک پہنچی تو سختی بڑھا دی گئی۔ پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے 30 سوار اور 20 پیادے حضرت عباس کے ہمراہ بھیجے۔ عمرو بن حجاج نے روکا اور پوچھا کون ہو؟ ہلال بن نافع نے کہا کہ تمہارا ابنِ عم ہوں اور پانی پینے آیا ہوں۔ اس نے کہا تم جلدی پی لو۔ دیگر کو نہیں پینے دوں گا۔ ‘‘ہلال نے اپنے اصحاب کو آواز دی کہ جلدی پانی بھر لو۔ حجاج نے اپنے لشکر سے کہا ہے کہ پانی نہ بھرنے دو۔ قریب تھا کہ آتش حُرّ ب و ضرب مشتعل ہو مگر اصحابِ امام حسینؓ نے جلد مشکیں پانی سے بھر لیں اور روانہ ہوئے اور کوئی آسیب و گزند نہ پہنچا’’۔
رات حضرت امام حسینؓ نے عمر بن سعد کو طلب کیا کہ چند باتیں کروں گا۔ امام حسینؓ بیس آدمی اپنے لشکر سے لے کر علیحدہ ہوئے اور وہ شقی بھی مع بیس آدمیوں کے اپنے لشکر سے جدا ہوا۔ حضرت نے اپنے اصحاب سے کہا ٹھہرے رہو اور عباس و علی اکبر کو اپنے ہمراہ لیا۔ اس رُوسیا ہ نے بھی اپنے اصحاب سے کہا رُک جاؤ۔ حفص اپنے ایک غلام اور پسر کو ہمراہ لے کے آیا۔ امام حسینؓ نے حجّت تمام کرنے کو اس شقی سے کہا: اے کم بخت تو مجھ سے مقابلہ کرتا ہے حالانکہ تو جانتا ہے کہ مَیں کون اور کس کا پسر ہوں۔ آیا خدا سے نہیں ڈرتا اور اعتقاد قیامت پر نہیں رکھتاوغیرہ’’۔
8محرّم الحرام 61ھ
ابن زیاد کو کوفہ میں رپورٹیں ملیں کہ ابن سعد اور امام حسینؓ کی علیحدگی میں بھی ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ اس پر ابنِ زیاد نے جویرہ بن بدر کے ہاتھ پیغام بھیجا کہ حسین ابن علی سے مذاکرات کرنے اور رعایتیں دینے کے لیے تمہیں نہیں بھیجا گیا اپنا فرض ادا کرنے کی طرف دھیان کرو ورنہ فوج کی کمان چھوڑ دو۔ بعد میں سوچا کہ اگر عمر بن سعد کمان چھوڑ دے تو فوج کا کیا بنے گا اور ابن سعد چارج کسے سونپے گا؟ اس پر طے پایا کہ صبح شمر ذی الجوشن بھی روانہ ہوجائے۔
9محرّم الحرام 61ھ
رات کا چلا قاصد صبح پہنچا اور ابن سعد کو پیغام پہنچا دیا۔ ابن سعد سوچ بچار میں ہی تھا کہ کوفہ سے صبح چل کر شمر ذی الجوشن عصر کے قریب اس کے پاس پہنچا اور پیغام لایا کہ فوراً جنگ شروع کرو ورنہ فوج شمر کے سپرد کردو۔
ابن سعد نے تیاری شروع کردی۔ حضرت امام حسینؓ نے کہا کہ رات گزرنے دو، کل صبح فیصلہ ہو جائے گا اب تو رات ہونے والی ہے۔
شمر لشکر گاہ امام کے قریب آیا اور پکارا کہ میرے فرزندانِ خواہر کہاں ہیں؟ وہ آئے تو کہنے لگے تمہارے لئے امان لایا ہوں آجاؤ تم الگ ہوجاؤ۔ انہوں نے حقارت سے شمر اور اس کی پیشکش کو ٹھکرا دیا اور پُرجوش جواب دیا کہ ہم ہر قدم پر وفا کریں گے اور جاں فدا کردیں گے۔
رات کو حضرت امام حسینؓ نے خیمے متصل کرکے ان کے پیچھے خندق کھود کر اس میں لکڑیاں جلانے کے لیے بھر دینے کا حکم دیا۔
‘‘علی اکبر کو مع تیس سوار اور بیس پیادے دے کے بھیجا کہ وہ چند مشک آب با نہایت خوف و اضطراب بھر لائے۔ حضرت نے اپنے اہلِ بیت و اصحاب سے فرمایا کہ پانی پیو کہ یہ آخری توشہ تمہارا ہے اور وضو و غسل کرو اور اپنے کپڑوں میں خوشبو لگاؤ کہ وہ تمہاے کفن ہوں گے’’۔
رات بھر تیاری و ترتیب دینے اور دعائیں کرنے میں گزری۔ نیند سے مغلوب ہوئے تو خواب میں دیکھا کہ کتّے ہم پر حملہ آور ہیں۔
مجموعی طور پر 45سوار اور 100پیادے کل قوت تھی اور دوسری طرف 22ہزار کا لشکر۔
فریقین کے لشکر میدانِ کربلا میں
حضرت امام حسینؓ نے دونوں کناروں سے مڑی ایک لمبی خندق پیچھے رکھ کر خیمے ترتیب دئیے جن کے آگے درمیان میں عَلَم حضرت عباس کو سونپا۔ میمنہ پر زہیر بن قین اور میسرہ پر حبیب بن مظاہر اور علم یعنی جھنڈے کے پیچھے مرکزی خیمہ نصب فرمایا۔
دوسری طرف مخالفانہ ترتیب میں عَلَم ایک غلام درید کو دیا گیا۔ عمرو بن حجاج میمنہ اور شمر ذی الجوشن میسرہ پر تعینات کئے گئے۔ عمرو بن قیس سواروں کا کمانڈر اور شیث بن ربعی پیادوں کا سالار مقرر ہوا۔
10محرّم الحرام 61ھ
صبح سویرے بریر بن خضیر اجازت لے کر ابن سعد سے بات کرنے گئے۔ ابن سعد نے بات سنی جس میں ان کو غیرت دلائی گئی تھی کہ وہ خدا سے ڈریں اور خاندانِ نبوت کی پاسداری کریں۔ جواب ملا کہ ہم فقط ابن زیاد کے پاس لے جانا چاہتے ہیں آگے وہ جو چاہے۔
بریر نے کہا کہ اس پر بھی راضی نہیں ہوتے کہ امام حسینؓ اپنے وطن واپس چلے جائیں۔ صد افسوس اہلِ کوفہ تم پر کہ عہدوپیمان سے پھر گئے اور مؤکد بعذاب قسموں کو بھول گئے۔
بریر کی ناکام واپسی پر حضرت امام حسینؓ نے عمامۂ رسولؐ سر پہ رکھا اور اونٹ پر سوار ہو کے لشکر ابنِ سعد کے سامنے گئے اور فصیح و بلیغ خطاب فرمایا۔ یہ غالباً سفرِکربلا کے آغاز سے لے کر اب تک کا طویل ترین اور آخری خطاب تھا۔ جس کا خلاصہ پوری صورتِ حال کی عکاسی کررہا تھا کہ حضرت امام حسینؓ نے اپنے اور اپنے آباء کے تعارف سے آغاز کے بعد مدینہ سے مکّہ آمد اور وہاں اہلِ کوفہ کی انتہائی پُر زور و پُر جوش جذباتی تحریروں پر مشتمل خطوط ملے جو حضرت امام نے سب کو دکھا بھی دئیے۔ حضرت مسلم بن عقیل کا بھیجنا، کوفہ میں ان کا ورود اور ولولہ انگیز استقبال پھر ان کی مثبت رپورٹ پر ایک ماہ کا دشوار سفر کرکے کربلا تک پہنچنا۔ نیکی اور بدی، معروف و منکر اور اچھے بُرے کا فرق واضح کرکے بھرپور انداز میں اَتمامِ حجّت کردی۔ نام لے کر ان کے بڑوں کو پکارا کہ اے شیث بن ربعی! اے حجاز بن الجر! اے قیس بن اشعث! اے یزید بن حارث! ‘‘کیا تم نے مجھے خطوط نہیں لکھے کہ میوہ جات تیار ہوگئے اور صحرا سرسبز ہوگیا اور لشکر ہائے دوستان و یاور مہیا ہوگئے۔ بہت جلد آپ تشریف لائیے کہ ہم سب آپ کی نصرت و یاوری کریں۔ قیس بن اشعث نے جواب دیا کہ اب یہ باتیں مفید نہیں ہیں۔ لڑائی سے دست بردار ہوکے اپنے پسرانِ عم زاد کے حکم پر رضامند ہوجاؤ کہ وہ آپ سے ارادۂ بدی نہیں رکھتے ہیں’’۔
آخر پہ حضرت امام حسینؓ نے تمام سپاہ کے مجموعی کمانڈر عمربن سعد کو آواز دی۔ وہ سامنے آئے تو پُرجوش خطاب کیا:
‘‘اے عمر! تو مجھے بامیدِحکومتِ رے و جرجان قتل کرتا ہے کہ پسرِ زیاد تجھے دے گا۔ قسم بخدا ہرگز تجھے میسر نہ ہوگا۔ اور بعد میرے زندگی تجھ پر گوارا نہ ہوگی اس لئے کہ یہ جو مَیں نے تجھ سے بیان کیا اس کی خبر بزرگوں نے مجھ کو دی۔ جو تیرا دل چاہے وہ کر مگر بعد میرے دنیا و عقبیٰ میں خوشی تجھے نہ ہوگی۔ گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ بہت جلد تیرا سرنجس نیزہ پر کوفہ میں نصب کیا ہے اور لڑکے اس پر پتھر مار کے نشانہ بنا رہے ہیں’’۔
‘‘یہ سن کر عمر خشمناک ہو کے اپنے اصحابِ شقاوت مآب کی جانب متوجہ ہوا اور کہا کہ کیا انتظار ہے اور کیوں ان کو مہلت دے رکھی ہے’’۔
حضرت امام حسینؓ اپنے خیموں کی طرف واپس ہوئے اور اب آغازِ جنگ کے نازک ترین لمحات آئے تو حُرّ، عمر بن سعد سے مل کر اپنے ساتھی قرہ بن قیس کے پاس گئے اور پوچھا کہ گھوڑے کو پانی پلا لیا ہے؟ قریب ہی مہاجر بن اوس نے دیکھا کہ حُرّ کانپ رہا ہے پھر ڈھال آگے کئے۔ حُرّ امام حسینؓ کی طرف بڑھے اور ڈھال آگے پھینک کر دست بستہ معافی کے خواستگار ہوئے کہ یہ مَیں تھا جس نے آپ کو واپس نہ جانے دیا اور گھیر کر یہاں لایا۔ اللہ مجھے معاف کرے آپ بھی معاف کر دیں۔ میرے لئے دعا کریں اور مجھے قبول فرمائیں کہ آپ کی طرف سے لڑکے اپنی جان کا نذرانہ پیش کروں۔
ادھر عمر بن سعد نے ایک علامتی تیر چلا کر آغاز جنگ کا اعلان کردیا۔ حُرّ کو اجازت مل چکی تھی۔ ایک شدید معرکہ ہوا اور چالیس مخالفین کو موت کے گھاٹ اتار کر حُرّ، ایوب بن مسروح کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ نعشِ حُرّ کو مومنین اٹھا لائے اورحضرت امام حسینؓ نے دعا کی۔ پھر مبارزت شروع ہوئی۔ ایک ایک فدائی جاتے اور جانے سے پہلے حضرت امام حسینؓ کے سامنے آکر سلام کرتے اور اجازت و دعا کے ساتھ میدان میں اُتر کر سرخرو ہوتے۔ حضرت امام حسینؓ ہر اجازت کے ساتھ آیتِ قرآنی پڑھتے: مِنْہُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ… (الاحزاب:24)
شہیدانِ با وفا
‘‘جلاءالعیون’’ سے مأخوذ معلومات کے مطابق ترتیبِ شہادت حُرّ کے بعد کچھ اس طرح ہے:
1۔ بریر بن خُضیر 30 کو موت کی وادی میں اتار کر بحیر بن اوس کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ 2۔ وھب بن عبداللہ کلبی ان کے ہاتھوں 19 سوار اور 24پیادے ہلاک ہوئے۔ آخر شدید زخمی ہو کر گرفتار ہوئے اور شہید کردئیے گئے۔ 3۔ وہب کی زوجہ زخمی میاں پر آگری تو شمر کے حکم سے اس کو گرز مار کے شہید کیا گیا۔ 4۔ وہب کی والدہ بےاختیار میدان میں آگئی حملہ آور کو روکتے ہوئے شہید ہوئیں۔ تاہم جو لٹھ پکڑے آگے بڑھی تھیں اس سے 3 ہلاک کئے۔ 5۔ عمر بن خالد ازدیاور پھر ان کا بیٹا۔ 6۔ خالدآگے بڑھ کر شہید ہوئے۔ 7۔ سعید بن حنظلہ تمیمی شدید معرکہ میں بہت سے منافقین کو مار کر شہید ہوئے۔ 8۔ عمر بن عبداللہ مذجحی بہت سے مخالف ہلاک کئے آخر دو کے حملہ سے شہید ہوئے۔ 9۔ مسلم بن عوسجہ بہت بے جگری سے لڑے۔ لمبے قتال کے بعد گھوڑے سے گر کر شہید ہوئے۔ خودامام حسینؓ اور حبیب بن مظاہر اٹھا لائے۔ 10۔ زہیر بن قین بجلی19ہلاک کئے ایک روایت ہے کہ 120مارے پھر شہید ہوئے۔ 11۔ حبیب بن مظاہر اسدی31ہلاک کئے 62 کی بھی روایت ہے۔ اور شہید ہوئے۔ 12۔ مالک بن انس کاہلی 18کو واصل جہنم کرکے شہید ہوئے۔ 13۔ زیاد بن مہاجر کندی 9کو ہلاک کرکے وارث جنت ہوئے۔ 14۔ ہلال بن حجاج13روسیاہ مارے اور زخمی گرفتار ہوکر شہید ہوئے۔ 15۔ نافع بن ہلال ایک بڑے گروہ کو ختم کرکے سرخرو ہوئے۔
کھلی جنگ کا آغاز
اس مرحلہ پر کہ 15 وفا شعار سرخرو ہوچکے تھے اور سینکڑوں معاندین موت کے گھاٹ اتر گئے تو عمرو بن حجاج نے عمر بن سعد کو مشورہ دیا کہ مبارزت کی بجائے یکبارگی حملہ کیا جائے۔ چنانچہ فیصلہ ہوا اور شمر اپنے جتھہ کے ساتھ میسرہ پر حملہ آور ہوا۔ مقابلے میں 32سواروں کی قوت تھی۔ جبکہ شمر کے پیچھے حصین بن نمیر کی قیادت میں 500تیر اندازوں کی مدد بھی تھی۔
بعض خیموں سے تیر چلائے گئے جن سے شمر کے گھوڑے زخمی ہو کر پیچھے کو بھاگے اور معاندین کو ہی کچلنے لگے۔ اس پر عمر بن سعد نے خیمے گرانے کا حکم دے دیا۔ اس طرح خیموں والے تیرانداز مومنین باہر آکر نبرد آزما ہوئے۔
ابن سعد نے خیمے جلا دینے کا حکم جاری کیا۔ حضرت امام حسینؓ نے مزاحمت نہ کی کہ اس طرح آگ ایک طرف کو محفوظ کر دے گی۔
نماز ظہر کا وقت
شدّت کا معرکہ ظہر تک جاری تھا کہ ابوتمامہ ہائدیؓ حضرت امام حسینؓ کے پاس آئے کہ ہماری جانیں آپ پر فدا۔ وقت ہوچکا ہے وداع کی نماز آپ کے ساتھ ادا کرسکیں تو اچھا ہوگا۔ فرمایا ان سے بات کرو۔ مقابل پر حصین بن نمیر تھا سن کر کہنے لگا کہ تمہاری نمازیں مقبول نہیں ہیں۔ یہ سنتے ہی ایک جان نثار نے تلوار چلا دی۔ گھوڑا زخمی ہوا تو حصین نیچے اترا اور اس کے ساتھی ہجوم کرکے اسے لے گئے۔
16۔ عبداللہ حنفی حضرت امام کے سامنے تھے تحفظ کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ یہ آنے والا ہر وار اپنے پر لے رہے تھے۔ اسی دوران نماز خوف ادا کردی گئی۔ 17۔ عبدالرحمٰن بن عبداللہ یزکی۔ 18۔ عمرو بن قرطۂ انصاری۔ 19۔ جون آزاد کردہ غلام۔ 20۔ عمرو بن خالد صیداوی۔ 21۔ حنظلہ بن اسعد شامی (لڑتے ہوئے سب کو کہتے کہ امام کو شہید نہ کرو تم پر عذاب الیم ہوگا۔ امام حسینؓ نے فرمایا یہ اشقیاء ہیں ان پر کوئی اثر نہیں)۔ 22۔ سوید بن عمر زخمی ہو کر لاشوں میں پڑے تھے کہ سنا امام حسینؓ شہید ہوگئے تو موزے میں رکھی چھری نکال کر ایک شقی پر حملہ کرنا چاہا تو اس نے شہید کر دیا۔ 23۔ یحییٰ بن سلیم مازنی۔ 24۔ قرہ بن ابی قرّہ 25۔ عمرو بن مطاق۔ 26۔ حجاج بن مسروق۔ 27۔ جنادہ بن حارث۔ 28۔ عمرو بن جنادہ۔ 29۔ عبدالرحمٰن بن عروہ۔ 30۔ شوذب ایک وفا شعار غلام۔ 31۔ عابس بن شبیب شاکری (بڑی بےجگری سے لڑتے ہوئے مسلسل تہ تیغ کرتے جارہے تھے۔ آخر ابنِ سعد نے بڑے حملہ سے شہید کرادیا۔ 32۔ عبداللہ غفاری۔ 33۔ عبدالرحمٰن غفاری۔ 34۔ غلام ترکی۔ 35۔ زیاد بن شعشا۔ 36۔ ابوعمر نہشلی۔ 37۔سیف بن ابی الحارث۔ 38۔ مالک بن عبداللہ
اہلِ بیت حسینؓ اور خویشان و اقارب
سب نے ایک دوسرے سے بات کی اور گویا الوداعی سلام دعا ہوا پھر ایک ایک کرکے آگے بڑھے اور دادِ شجاعت دیتے ہوئے اللہ کو پیارے ہوتے گئے۔
39۔ عبداللہ بن مسلم بن عقیل۔ ایک روایت ہے کہ 98 ہلاک کرکے شہید ہوئے۔ 40۔ جعفر بن عقیل۔ 15ہلاک کرکے شہید۔ 41۔ عبدالرحمٰن بن عقیل۔ 17قتل کئے اور شہید ہوئے۔ 42۔ عبداللہ بن عقیل نے ایک بڑے گروہ کو واصلِ جہنم کیا۔ 43۔ محمد بن ابوسعید بن عقیل۔ 44۔ علی بن عقیل۔ 45۔ محمد بن عبداللہ بن جعفر طیار۔ 46۔ عون بن عبداللہ بن جعفر۔ 47۔ عبداللہ بن عبداللہ۔ 48۔ قاسم پسرِحسینؓ۔ صغر سنی کے باوجود کمال مہارت سے 35سنگ دل مار کے شہید ہوئے۔ 49۔ عبداللہ پسرِ امام حسنؓ۔ 50۔ ابوبکر ابن امام حسنؓ۔ 51۔ عبداللہ المعروف ابوبکر بن حضرت علیؓ۔ 52۔ عمر بن حضرت علیؓ۔ 53۔عثمان بن حضرت علیؓ۔ 54۔ محمد بن حضرت علیؓ۔ 55۔ابراھیم بن حضرت علیؓ۔ 56۔ عباس بن حضرت علیؓ آئے اور 80 شقی واصل جہنم کئے۔ 57۔ علی اکبر پسرِامام حسینؓ آئے۔ آپ 18سال عمر کے تھے جس طرف رُخ کرتے کشتوں کے پشتے لگا دیتے۔ 120ہلاک کئے اور آخر پیاس سے نڈھال ہوگئے۔ حضرت امام سے آملے تسلی پاکر دوبارہ میدان کارزار میں اُترے اور 60 مزید ہلاک کردئیے اور شہید ہوگئے۔ 58۔ طفل خوردسال کو ہانی بن بعث نے شہید کردیا ان کی ماں مادرِ علی اکبر لیلیٰ دخترِ ابی قرہ ثقفی سکتہ میں آگئیں۔ 59۔ علی اصغر امام حسینؓ کے ہاتھ میں تھے کہ حُرّ ملہ بن کاہلی نے تیر مارا جو گلے میں لگا۔ 60۔ حضرت امام حسین۔ معروف رفقاء کی لاشیں سنبھال سنبھال کر سارے دن کی مشقت سے چور آخر خواتینِ مبارکہ اور بیمار و علیل بیٹے زین العابدین کو مل کر حضرت امام حسینؓ میدان میں اترے۔ پہلے میمنہ کی طرف پھر میسرہ کی طرف حملہ آور ہوئے اور گروہِ کثیر کو واصل جہنم کیا۔ کچھ معاندین خیموں کی طرف بڑھنے لگے تو شمر ذی الجوشن نے ان کو خیمہ ہائے خواتین کی طرف جانے سے روک کر کہا کہ حسینؓ کا جلد کام تمام کرو! امام حسینؓ حملہ کرتے کرتے فرات کی طرف گئے۔ لکھا ہے:
‘‘حضرت پر پیاس کا بہت غلبہ ہوا۔ امام تشنہ لب جانبِ نہرِ فرات روانہ ہوئے جب قریبِ فرات پہنچے سواروں پیادوں نے راستہ روک لیا اور یہ اشقیاء چار ہزار سے زیادہ تھے۔ امام مظلوم نے باوجود شدّت تشنگی بہت کفار کو جانب نار روانہ کیا اور صفوف لشکر کو شگافتہ کرکے گھوڑا پانی میں ڈال دیا۔ اور اپنے اسپِ باوفا سے فرمایا پہلے تو پانی پی لے اس کے بعد میں پیوں گا۔ گھوڑا اپنی تھوتھنی پانی سے اٹھائے رہا اور منتظر تھا کہ پہلے امام تشنہ لب پانی پی لیں۔ جب امام حسینؓ نے چلو میں پانی اٹھایا اور چاہا نوش کریں ایک ملعون نابکار نے آواز دی کہ آپ یہاں پانی پیتے ہیں اور ادھر لشکر مخالف خیمہ ہائے حَرَم میں پہنچ گیا۔ یہ سنتے ہی حضرتؓ نے وہ پانی ہاتھ سے پھینک دیا اور بجانب خیمہ روانہ ہوئے’’۔
جلاءالعیون کے مطابق اس میدان کارزار میں ‘‘امام حسینؓ نے ایک ہزار نو سو پچاس کافرانِ شقاوت اساس کو ہلاک کیا’’۔ امام حسینؓ پکارے کہ ‘‘قسم بخدا مَیں دوست خدا کے پاس جاتا ہوں۔ خدا دونوں جہان میں تم سے میرا انتقام لے گا۔ حصین بن مالک نے کہا کس طرح؟ فرمایا خداوند عالم ایسا حکم کرے گا کہ تم اپنی تلواریں ایک دوسرے پر کھینچو گے اور اپنا خون بہاؤ گے۔ دنیا سے منقطع نہ ہوگے اور تمہاری امید ہائے دلی بھی حاصل نہ ہوں گی۔ جب سرائے آخرت میں جاؤ گے وہاں عذاب ابدی تمہارے لئے مہیا ہے’’۔
روایات مختلف ہیں ایک روایت کے مطابق حضرت امام حسینؓ کا جسدِمبارک مجموعی طور پر ایک ہزار نو سو زخموں سے چور تھا۔
آخری لمحات
اس کوہِ وقار تاریخ عالم کے نادر وجود عبقری انسان کا وجود سوچئے کہ گزرے دن کے تمام رنج اٹھا ئے بہتا خون دیکھ دیکھ کر اور ایک کے بعد دوسرے عزیز کی لاش گنتے گنتے وہ کس حال میں ہوں گے کہ اچانک ایک بدبخت ابوالحنوق نے تیر مارا جو آپ کی پیشانی پر لگا۔ کھینچا تو خون چہرۂ مبارک کو تَر کر گیا۔ ساتھ ایک سہ پہلو زہر آلود تیر سینۂ مبارک پر آن لگا۔ اسے کھینچا تو خون کا دھارا جسد مبارک کو تَر کر گیا۔ پیادہ تھے۔ مالک بن یسر نے سر مبارک میں ایک ضرب لگائی تو عمامہ خون سے بھر گیا۔ الجر بن کعب نے تلوار کا وار کیا۔ شمر لعین کے اُکسانے پر حصین بن نمیرنے تیر دہنِ مبارک پر مارا۔ ابو ایوب غنویٰ نے دوسرا تیر چلایا۔ ضرعہ بن شریک نے بائیں بازو پر وار کیا پھر کندھے پر۔ سنان بن انس نخعی نے نیزہ مار کے منہ کے بل گرا دیا۔ خولیٰ بن یزید اصبحی نے کہا کہ سرکاٹ لو پھر ہاتھ کانپ گیا۔ سنان آیا اور تیزی سے سر جسدِمبارک سے الگ کردیا!! اِنَّا لِلہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
(نوٹ: اصل تعداد شہداء کی زیادہ ہے۔ یہ صرف وہ اصحاب ہیں جن کا ذکر کتاب جلاءالعیون میں کیا گیا ہے۔ اس مضمون میں درج کوائف مشہور شیعہ عالم مُلّا باقر مجلسی کی تصنیف جلاءالعیون مترجمہ عبدالحسین مطبوعہ لکھنؤ۔ 1919ء سے لئے گئے ہیں)۔
(بشکریہ: روزنامہ الفضل ربوہ)

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • فیصلہ جات مجلس شوریٰ جماعت احمدیہ جرمنی 2024

  • تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے

  • خلافت اور جماعت کے باہمی پیار کا تعلّق