مکرم مولانا زین الدین حامد صاحب۔ ناظم دارالقضاء قادیان

تقریر برموقع جلسہ سالانہ قادیان 2023ء

مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللہِؕ وَالَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ تَرٰہُمۡ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللہِ وَرِضۡوَانًا۔ (الفتح:30)

اس آیت کریمہ کا ترجمہ یہ ہے: محمد رسول اللہ اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہىں کفار کے مقابل پر بہت سخت ہىں (اور) آپس مىں بےانتہا رحم کرنے والے تُو انہىں رکوع کرتے ہوئے اور سجدہ کرتے ہوئے دىکھے گا وہ اللہ ہى سے فضل اور رضا چاہتے ہىں۔

قارئین کرام! آنحضرتﷺ کی قوتِ قدسی اور حسن تربیت کے نتیجہ میں صحابہ کرام کے اندر جو عظیم الشان روحانی اور اخلاقی، معاشرتی اور تمدّنی انقلاب رونما ہوا اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

اَحْیَیْتَ اَمْوَاتَ الْقُرُونِ بِجَلْوَۃٍ

مَاذا یُمَاثِلُكَ بِہَذا الشَّانِ

یعنی تو نے صدیوں کے مردوں کو ایک ہی جلوہ سے زندہ کیا۔ کون ہے جو اس شان میں تیرا مثیل ہوسکے۔

حضرت اقدس رسول اللہﷺ نے اپنے صحابہ کی اس رنگ میں تربیت فرمائی کہ حضورﷺ نے ان کو آسمان روحانیت کے چمکتے دمکتے ستاروں سے تشبیہ دی۔ فرمایا:

أصْحَابِی كَالنُجُوْمِ بِأَیِّہِمُ اقْتَدَیْتُمْ اِہْتَدَیْتُمْ

یعنی میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی بھی تم اتباع کرو گے ہدایت پاؤگے۔

صحابہ کی شان میں حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

اِنَّ الصَّحَابَۃَ کُلَّھُمْ كَذُكَاءِ

قَدْ نَوَّرُوْا وَجْہَ الوَرىٰ بِضِیَاءِ

یعنی صحابہ سب کے سب سورج کی مانند ہیں۔ انہوں نے مخلوقات کاچہرہ اپنی روشی سے منور کردیا۔

حضرات ان درخشندہ ستاروں میں سے ایک عظیم الشان ستارہ سیّدنا حضرت عثمان کا وجود ہے جو خلافت راشدہ کا تیسرا مظہر بن کر اسلام کی سربلندی کے لئے عظیم الشان کارہائے نمایاں سرانجام دیتے ہوئےاسلام اور مسلمانوں کی خاطر جامِ شہادت نوش فرما گیا۔

حضرت عثمان قریش کے قبیلہ بنو اُمیہ میں اصحاب الفیل کے واقعہ سے پانچ سال بعد سن 575 عیسوی میں مکہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کپڑے کے تاجر تھے اور کافی امیر آدمی تھے۔ بچپن سے ہی آپ کی طبیعت نیکی کی طرف مائل تھی۔ آپ کی عمر اس وقت 34، 35 سال تھی جب نبی کریمﷺ نے خدا کے حکم سے دعویٰ نبوت فرمایا۔ آپ حضرت محمدﷺ کو ان کے بلند اخلاق کی وجہ سے بہت اچھا سمجھتے تھے۔ اور حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ حضرت عثمانؓ کے بھی دوستانہ تعلقات تھے۔حضرت ابوبکر صدیقؓ آنحضرتﷺ پر ایمان لانے میں سب پر سبقت لے گئے۔ ان دنوں حضرت عثمان تجارت کے سلسلہ میں شام گئے ہوئے تھے۔ واپس آئے تو حضرت ابوبکرؓ نےاپنے دیگر دوستوں کے ساتھ حضرت عثمان بن عفان کو بھی اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ چنانچہ باری باری سب نے بیعت کی۔ ان میں حضرت عثمان سب سے پہلے بیعت کرنے والے بنے۔

نبوت کے چوتھے سال کےآغاز میں آنحضرتﷺ کو اللہ تعالیٰ نے کھلم کھلا تبلیغ کرنے کا حکم دیا اور جلد ہی مکہ کے گلی کوچوں میں اسلام کا چرچا ہونے لگا جس کے نتیجہ میں قریش مکہ نے مخالفت شروع کی اور جولوگ مسلمان ہوچکے تھے ان کو منحرف کرنے کے لئے ظلم شروع کردیا۔ آپ کے چچا حکم بن ابی العاص نے آپ کو خوب مارا پیٹا اور آنحضرتﷺ کے پاس جانے سے روکنے کے لیے آپ کے پاؤں میں بیٹریاں ڈال دیں۔ آپ نے صبر وتحمّل سے کام لیا اور ان مصائب کی کچھ پرواہ نہ کی۔ چند دن بعد آپ کے چچانے غصہ میں آکر آپ کو گھر سے نکال دیا۔

حضرت عثمانؓ بہت نیک، با عزت، خوبصورت اور شریف نوجوان تھے اور اپنے خاندان سے الگ کر دیئے گئے تھے۔ اس لیے آنحضرتﷺ نے اپنی صاحبزادی رُقیّہ کا نکاح حضرت عثمان سے کر دیا۔

مکہ میں دن بدن قریش کے سرداروں کے منصوبوں کی وجہ سے مسلمانوں کے لئے تکالیف کا سلسلہ بڑھ رہا تھا اور حضرت عثمان کو بھی سخت خطرہ تھا۔ ان حالات میں بعض مسلمان مردوں اور عورتوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کی اجازت مل گئی ان میں حضرت عثمان اور ان کی بیوی حضرت رقیہ بھی شامل تھیں۔ جب آپؓ حبشہ ہجرت کرکے تشریف لے گئے تو آپ ہی امیر قافلہ تھے۔ حبشہ میں اپنے مختصر قیام کے دوران آپ کو تبلیغ کی بھی توفیق ملتی رہی۔ اس طرح آپ بھی ان چند خوش نصیبوں میں سے تھے جنہیں اسلام کے آغاز میں ہی بیرونِ ملک تبلیغ کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

جب آنحضرتﷺ نے ایک ایک دو دو کرکے مکہ کے مسلمانوں کو یثرب(مدینہ)ہجرت کرنے کی اجازت دیدی تب حضرت عثمانؓ بھی اپنی اہلیہ حضرت رقیہ کو ساتھ لے کر مکہ سے مدینہ ہجرت کرگئے۔ مکہ سے مدینہ ہجرت کے بعد حضرت عثمانؓ کی بیوی حضرت رقیہ انتقال کرگئیں۔ حضرت رقیہ کی وفات کے بعدآنحضرتﷺ نےاپنی دوسری صاحبزادی حضرت اُمّ کلثوم کا نکاح آپ سےکردیا۔ اس طرح آنحضرتﷺ کی دو صاحبزادیوں کے ساتھ نکاح کے نتیجہ میں آپ ذوالنورین کے لقب سے مشہور ہوگئے۔

عرب میں قدیم سے غلامی کا رواج تھا۔ اسلام نے اس کی ممانعت فرمائی اور غلام آزاد کرنے کو ایک بہت بڑی نیکی قرار دیا۔ روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت عثمانؓ نے ہزاروں غلاموں کو آزاد کیا اور مدینہ کی کوئی گلی ایسی نہ تھی جہاں آپ کا خرید کردہ آزاد غلام نظر نہ آئے۔ بعد میں اس نیک کام کو جاری رکھنے کے لیے آپ نے یہ معمول بنا لیا کہ ہر جمعہ کے روز ایک غلام آزاد کیا کرتے تھے۔

حضرت عثمان کو بعض غیر معمولی مالی خدمات کی سعادت ملی۔ ہجرت مدینہ کے بعد مسلمانوں پر نہایت تنگی کا زمانہ تھا چنانچہ بنیادی ضرورتوں میں سے ایک پینے کا پانی تھا آنحضرتﷺ نے ایک دن مسلمانوں میں تحریک فرمائی کہ میٹھے پانی کا کنواں جو ایک یہودی کی ملکیت تھا اسے خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا جائے چنانچہ آپ نے یہ کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا۔

حضرت محمدﷺحضرت عثمانؓ اور باقی صحابہ کو مدینہ آئے ہوئے چھ سال گذر چکے تھے۔ مشرکین مکہ کی طرف سےحج ان کا بند کر دیا گیا تھا۔ ان حالات میں آپﷺ نے ایک مبارک خواب دیکھا کہ آپؐ چودہ پندرہ سو صحابہ کے ساتھ خانہ کعبہ کا طواف کررہے ہیں اس خواب کے مطابق چودہ پندرہ سوصحابہ کو ساتھ لے کر آپؐ طواف کے لیے کعبہ کی طرف روانہ ہوئے۔ مکہ کے قریب حدیبیہ کے مقام پر پہنچ کر آنحضرتﷺنے قریش کے ساتھ بات چیت کرنے کا فیصلہ کیایہ معاہدہ صلح حدیبیہ کے نام سے تاریخ اسلام میں جانا جاتا ہے اور اس موقعہ پر آنحضرتﷺ نے حضرت عثمانؓ کو اسلام کا سفیر بنا کر قریش مکہ کے پاس بھیجا۔ اسلام کے سفیر کے طور پر حضرت عثمانؓ کا حدیبیہ میں خدمت سر انجام دینا آپ کی زندگی کا ایک نہایت اہم واقعہ ہے اور اپنے دُور رس نتائج کے پیش نظر ایک بہت بڑی خدمت ہے۔

صلح حدیبیہ کے دو سال بعد اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے یہ رنگ دکھایا کہ 8 ہجری میں آنحضرتﷺ دس ہزار صحابہ کے ساتھ فاتحانہ شان سے مکہ میں داخل ہوئے۔ حضرت عثمانؓ بھی ان میں شامل تھے۔

جوں جوں اسلام پھیل رہا تھا مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی تھی اور مسجد نبوی نا کافی ہوگئی تھی۔ چنانچہ حضورﷺ نے اس کی توسیع کا منصو بہ بنایا اور صحابہ کو تحر یک فرمائی کہ مسجد کے اردگرد کے مکانات خرید کر مسجد میں شامل کر لیے جائیں۔ حضرت عثمانؓ کو مالی وسعت حاصل تھی اور آپ کے اندر مالی قربانی کا جذ بہ بہت بڑھا ہوا تھا۔ آپ نے فوراً 25-30 ہزار درہم کا انتظام کیا اور مسجد نبوی کے اردگرد کے مکانات اور زمین وغیرہ خرید کر مسجد نبوی میں شامل کر دئیے۔ آپ کی اس قربانی اور دینی خدمت کو قیامت تک آنے والی نسلیں یاد رکھیں گی۔

آنحضرتﷺ نے غزوہ تبوک کے لئے مالی قربانی کی تحریک فرمائی حضرت عثمانؓ نے اس موقع پر ایک ہزار اونٹ جن میں سے سواناج سے لدے ہوئے تھے، سو یا پچاس گھوڑے اور دس ہزار دینار نقد آنحضرتﷺ کی خدمت میں پیش کئے اور فوج کے ایک تہائی کے لیے ہر قسم کی ضروریات پیش فرما ئیں۔ آنحضرتﷺ حضرت عثمان کی اس غیر معمولی قربانی سے بہت خوش ہوئے۔ حضرت عثمانؓ خود بھی اس غزوہ میں شامل ہوئے۔

حضرت عثمانؓ کو جو خدمات اسلام کے لیے سرانجام دینے کی سعادت نصیب ہوئی ان میں سے ایک نمایاں خدمت قرآن کریم کی کتابت ہے۔ آپ آنحضرتﷺکے زمانے میں کاتب وحی کا کام کیا کرتے تھے۔حضرت عثمان کو کتابت وحی اور آنحضرتﷺ کی ہدایت کے مطابق آیات اور سورتوں کی ترتیب کا کام کرنے کی خدمت بھی نصیب ہوئی اور یہ سلسلہ سارے قرآن کریم کے نزول اور آخری ترتیب تک جاری رہا۔

حضرت عثمانؓ کوحضرت ابو بکرؓ کے دور خلافت میں آپ کا دست و بازو بن کر خدمات کی توفیق ملتی رہی۔ حضرت ابوبکر کے امور خلافت میں آپ نہایت قیمتی مشورے دیا کرتے تھے۔ حضرت ابو بکرؓ کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ خلیفہ ثانی بنے اورآپؓ نے جب استحکام سلطنت کے لیے مختلف محکمے بنائے تو حضرت عثمانؓ کو صدقات کے حساب کتاب پر مامور فرمایا۔ آپؓ امین خلافت کہلاتے تھے۔

حضرت عمر فاروقؓ پر 23 ذی الحجہ 23 ہجری کو قاتلانہ حملہ ہوا۔ حضرت عمرؓ نے خلافت کے انتخاب کے لیے ایک کمیٹی مقرر کر دی تھی۔ اس میں سرفہرست حضرت عثمان بن عفانؓ کا نام بھی تھا۔

حملہ کے چار دن بعد حضرت عمرؓ کی وفات 27 ذی الحجہ 23 ہجری کو ہوئی اور اس کے تین دن بعد حضرت عثمانؓ کو کثرت رائے سے خلیفہ ثالث منتخب کیا گیا۔

حضرت عمرؓ جو نظام حکومت چھوڑ گئے تھے اسی کو آپؓ نے جاری رکھا اور کوئی خاص تبدیلی نہ فرمائی۔

البتہ بعد میں ضرورت کے مطابق آپؓ نے بعض گورنر تبدیل فرمائے۔ آپؓ نے سارے عالم اسلام میں جمعہ کی نماز کی ادائیگی کی طرف خاص توجہ دلائی اور نماز جمعہ سے پہلے دوسری اذان کی ابتداء آپؓ ہی نے فرمائی۔

حضرت عثمانؓ کے دور خلافت میں کئی نئی تعمیرات ہوئیں۔ وسیع تعمیرات کے منصوبے بنے اور رفاہ عامہ کے کام ہوئے، کئی پبلک عمارات، سڑکیں، پل، مسافر خانے اور سرائیں تعمیر ہوئیں۔ آپؓ کے عہد میں جو علاقے فتح ہوئے تھے ان میں فوجی چھاؤنیاں تعمیر کی گئیں۔ اسی طرح قومی چراگاہوں میں بھی اضافہ کیا گیا اور لوگوں کو پہلے کی نسبت زیادہ سہولتیں میسر آنے لگیں۔

حضرت عثمانؓ کے دورخلافت میں جہاں ملک پر ملک فتح ہوتے گئے اور فوج دَر فوج لوگ اسلام میں داخل ہوتے رہےوہیں مملکت اسلامیہ میں خلافت اور مرکزیت دونوں ختم کرنے کےمذموم منصوبہ کے تحت یمن کےرہنے والےایک نہایت بد باطن یہودی عبداللہ بن سبا کی سرکردگی میں خطرناک فتنوں نے سر اٹھانا شروع کردیا اور انہی فتنوں کا نتیجہ تھا جو آپؓ کی شہادت کے رنگ میں ظاہرہوا۔

شہادت کے وقت حضرت عثمانؓ کی عمر 82 سال تھی۔ آپؓ نہایت متقی، پرہیز گار اور متوکل انسان تھے۔ آپؓ کی ساری عمر خدمت اسلام اور عبادات بجالانے میں گزری۔ آپؓ ان خاص صحابہ میں سے تھے جن کو آنحضرتﷺ کے ساتھ بطور خاص محبت تھی۔ آنحضرتﷺ نے کئی مرتبہ اپنی زندگی میں آپ سے راضی ہونے کا اظہار فرمایا۔ آنحضرتﷺ کی دو بیٹیاں یکے بعد دیگرے آپ کے نکاح میں آئیں جس کی وجہ سے آپ کو ذوالنورین کا خطاب ملا۔

جس طرح آپ نے اسلام کی سربلندی، اشاعت قرآن اور خلافت کے قیام کے لیے اپنا مال، جان، وقت اور عزت سب کچھ قربان کر دیا۔ بڑی وفا کے ساتھ اللہ کے کاموں میں لگے رہے اور فتنوں کے وقت باوجود طاقت اور قدرت کے امن کا شہزادہ بن کر صبر کا ایسا نمونہ دکھایا کہ آنے والی نسلیں قیامت تک آپ کے پاک نمونہ سے سبق حاصل کرتی رہیں گی، ان شاءاللہ تعالیٰ۔

(اخبار احمدیہ جرمنی اپریل 2024ء صفحہ15)

متعلقہ مضمون

  • سیرت حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ

  • حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی عید

  • ِلیا ظلم کا عَفو سے انتقام

  • جلسہ ہائے سیرت النبیﷺ