مکرم آصف محمود باسط صاحب

جلسہ سالانہ يوکے کي آمد آمد ہے۔ مساجد اور جماعتي عمارتوں ميں جلسے کي رونقيں دن بدن بڑھتي جارہي ہيں اور دور ديسوں سے آنے والے چہرے جماعتي منظر نامے پر محبّتوں اور عقيدتوں کے رنگ بکھير رہے ہيں۔ ميرا سالہا سال کا تجربہ ہے کہ جلسہ سالانہ کے قريب آنے کے ہفتوں اور دنوں ميں حضرت صاحب کے چہرۂ مبارک پر آپ کي دلي مسرت کھلتي نظر آتي ہے۔ اس مرتبہ تو يہ خوشي مَيں نے مہينوں پہلے سے بارہا مشاہدہ کي۔ اس سال کتنے ہزار لوگوں کے شامل ہونے کي توقع ہے۔ کہاں کہاں سے آرہے ہيں۔ انتظامات ميں کيا کچھ ردّ و بدل اور بہتري کي صورت ہے۔ يہ اور ايسي بہت سي باتيں کرتے ہوئےمحبّت کے کئي رنگ چہرۂ مبارک پر لہراتے ہوئے ديکھے۔ آخر اتنے سالوں کے بعد جلسہ، جلسے کي طرح جو ہو رہا ہے۔ لاکھوں محبّتوں کا امين، دور دراز سے آنے والے اپنے پياروں کا منتظر محسوس ہوا۔ ايسي ہي ايک انمول گھڑي ميں فرمايا: ’’تمہارے شعبے کا خيمہ لگ گيا ہے؟‘‘ عرض کي کہ آج کل ميں لگنا تھا۔ کل جا کر ديکھوں گا۔ فرمايا ’’آج تو سارا دن بارش ہوتي رہي۔ کل بھي کچھ بارش ہے۔ ليکن کام مسلسل چل رہا ہے۔ اگلے چند دن موسم ٹھيک ہے۔ ديکھتے ہيں جلسے کے دنوں ميں موسم کيسا رہتا ہے‘‘۔ عرض کي کہ شکر ہےگرمي کا زور بھي کچھ ٹوٹ گيا ہے۔ فرمايا: ’’ہاں گرمي کا زور ٹوٹا ہے۔ ربوہ ميں تو چاليس بياليس چل رہا ہے۔ يہاں پر رہنے والے اَوروں کا تو پتہ نہيں ديکھتے ہيں يا نہيں۔ مَيں تو ہميشہ ربوہ کا موسم بھي ديکھتا ہوں‘‘۔ اس سے پہلے کہ آگے کچھ بھي عرض کروں۔ ربوہ اور پاکستان ميں رہنے والے احمديوں کو مبارکباد پيش کرنا ضروري سمجھتاہوں۔ جلسےميں شموليت انگلستان حاضري کي تو محتاج نہيں۔ جس کي محبت ميں ہزاروں کھنچے چلے آتے ہيں، اس کے دل ميں آباد رہنے والوں سے زيادہ خوش قسمت کون ہوگا؟ سو آگے چلنے سے پہلے پاکستان کے احمديوں کو اپني طرف سے اور دنيا بھر کے احمديوں کي طرف سے مبارکباد کہ ان کا تو جلسہ ہوگيا۔ عيد ہوگئي۔ تمہارا محبوب تمہيں کس محبّت سے ياد رکھتا ہے۔ تمہارے شہر کے موسموں کو بھي۔ تمہارے ہر موسم کو، جو شديد سے شديد تر ہوتا جاتا ہے۔ کون کہتا ہے تمہاري قربانياں رائيگاں گئيں؟ اللہ اکبر! ايک روزشام کو حضور نے بذريعہ فون ياد فرمايا۔ ايک کام سپرد فرمايا تھا اس سے متعلق دريافت فرمايا۔ ميرے خيال ميں کام ہو چکا تھا اور مَيں اپني طرف سے تسلّي کرچکا تھا۔ مگر حضور نے ايک مقام کي نشاندہي فرمائي کہ وہاں پر وہ کام مکمل نہ ہوا تھا۔ اس پر جو نصيحت فرمائي وہ افادۂ عام کے ليے ضبطِ تحرير ميں لانا ضروري سمجھتا ہوں۔

فرمايا: ’’جب اپنے ماتحتوں کو کام دو تو بعد ميں اچھي طرح تسلّي کيا کرو۔ کبھي اس خيال سے بيٹھ نہيں جانا چاہيے کہ مَيں نے کہہ ديا ہے اور ماتحت اسے کرنے کے پابند ہيں، اس ليے وہ کر ہي ليں گے۔ جب وہ کر ليں اور تمہيں بتاديں کہ کام ہوگيا ہے تو پھر تفصيل سے ديکھا کرو کہ ان کي رپورٹ درست ہے يا نہيں۔ ہوسکتا ہے انہيں مکمل لگ رہا ہو اور اپني طرف سے وہ درست ہي کہہ رہے ہوں۔ مگر چونکہ ہدايت براہِ راست تمہيں ملي ہے، اس ليے تم ہي ديکھ سکتے ہو کہ ہدايت کے مطابق کام ہو گيا يا نہيں‘‘۔ يہ ہدايت ارشاد فرمانے کے بعد فرمايا: ’’کيا کر رہے تھے؟‘‘ عرض کي کہ حضور دفتر ميں تھا۔ فرمايا: ’’اچھا؟ مَيں تو سمجھا کہ موسم اچھا ہے، تم کہوگے کہ گھر ميں پکوڑے کھا رہا تھا اور چائے پي رہا تھا!‘‘ عرض کي کہ حضور، ان دنوں تو جلسے کا زور چل رہا ہے۔ مزدور بنے ہوئے ہيں۔ فرمايا: يہاں رہنے والوں کو کيا پتہ مزدوري کيا ہوتي ہے۔ يہاں تو سہولتيں اور آسائشيں ہي بہت ہيں۔ مزدورياں تو ربوہ کےجلسوں ميں ہوتي تھيں۔ مجھے ياد ہے ميري ڈيوٹي لنگر خانے ميں روٹي پکوائي پر ہوتي تھي۔ ہر طرف تنور بھڑک رہے ہوتے تھے۔ ہمارے ايک نگران تھے،وہ اکثر ہميں کام پر لگا کر خود يہاں وہاں چلے جايا کرتے۔ ہم پيچھے رہ کر کام کرتےرہتے۔ مگر اس زمانے ميں افسر بھي کارکنوں پر گہري نظر رکھا کرتے۔ جو محنت کرتا اس کے کام کو سراہتےتھے۔  ہر جلسے کے بعد حضرت خليفةالمسيح الثالثؒ جلسے کے اہلکاروں اور کارکنوں کے ساتھ ايک عشائيہ ميں شرکت فرمايا کرتے۔ سب نيچے زمين پر بيٹھ کر کھانا کھاتے۔ حضوررحمہ اللہ بھي۔ ايک مرتبہ جلسے کے بعد مجھے سَر درد کي شکايت ہوگئي۔ درد بہت شديد تھا اور مَيں گھر ميں آرام کرنے کو ليٹا ہي تھا کہ گھر کا فون بجا۔ ميرداؤد احمد صاحب تھے۔ وہ تب افسر جلسہ سالانہ تھے۔ مجھے پوچھا کہ کہاں ہو اور حضور کے ساتھ عشائيے کےليے کيوں نہيں پہنچے؟ مَيں نے بتايا کہ مجھے شديد سر درد کي شکايت ہے۔ آرام کر رہا تھا۔ اور ميرے نگران نے مجھے وہاں حاضر ہونے کو کہا بھي نہيں تھا۔ کہنے لگے کہ جو بھي ہے ابھي پہنچو۔ جلسے ميں دن رات ڈيوٹي کرتے رہے ہو۔ اس تقريب ميں تمہيں ضرور شامل ہونا چاہيے۔ مَيں فوراً تيار ہوکر وہاں پہنچ گيا اور تقريب ميں شامل ہوا۔ ’’تو ايسے افسران بھي ہوا کرتے تھے۔ مير داؤد صاحب تو جلسہ سالانہ کے اعلانات کے نيچے اپنے نام کے ساتھ’’افسر جلسہ سالانہ‘‘لکھنے کي بجائے ’’خادم جلسہ سالانہ‘‘ لکھا کرتے۔ افسر ايسا ہونا چاہيے جس کو اپنے ساتھيوں کے کام کي خبر بھي ہو اور قدر بھي۔ اور افسر کي بجائے خود کو خادم سمجھ کر کام کرتاہو‘‘۔ جلسے ہي کي بات تھي کہ ايک ايسے افسر کا ذکر فرمايا جن کي طبيعت ميں سختي کا عنصر حاوي تھا۔ مَيں نے نام بوجھنے کي کوشش کي۔ فرمايا: ’’نام تو خير نہيں بتاؤں گا۔ بزرگ آدمي تھے۔ ايک اور افسر کاواقعہ سنا ديتا ہوں۔ مَيں نے کام سے رخصت لے رکھي تھي اور by air کہيں جانا تھا۔ جانا اندرونِ ملک ہي تھا۔ رخصت بھي منظور ہوچکي تھي اور مَيں نے ٹکٹ بھي خريد لي ہوئي تھي۔ آخري وقت پر وہ افسر کہنے لگے کہ کام بہت ہے، کہيں نہيں جانا۔ مَيں نے بتايا کہ مَيں نے بکنگ بھي کروا لي ہوئي ہے۔ کہنے لگے کہ بس نہيں جانا۔ مَيں يہ سُن کر واپس آگيا اور اپني رخصت کو منسوخ سمجھ کر اپنا کام کرنے لگا۔ خود ہي تھوڑي دير بعد کچھ خيال آيا تو مير ے پاس آئے اور کہنے لگےکہ چلو بکنگ کروا لي ہوئي ہے تو چلے جاؤ‘‘۔ اسي طرح ايک اور واقعہ بيان فرمايا کہ: ’’ايک مرتبہ ميں اپنا الاؤنس لينے گيا۔ اکاؤنٹنٹ کہنے لگا کہ آپ کو اس مہينے الاؤنس نہ دينے کا آرڈر ہے۔ مَيں نے پوچھا کہ يہ آرڈر کہاں سے آگيا؟ کہنے لگا کہ يہي حکم ہے! مَيں وہاں سے خاموشي سے واپس آگيا اور اُن افسر کے پاس گيا اور پوچھا تو کہنے لگے کہ ہاں مَيں نے ہي منع کيا ہے۔ مَيں نے اُن سےکہا کہ سب خير ہي ہے؟ کيا وجہ بن گئي؟ کہنے لگے کہ تم نے فلاں کام مکمل نہيں کيا۔ مَيں نے کہا کہ کام تو تقريباً مکمل ہے۔ يہ بھي بتا ديا کہ اِن اِن وجوہات کي وجہ سے مکمل نہيں ہوسکا۔ ليکن ساتھ مَيں نے يہ بھي بتا ديا کہ مَيں واقفِ زندگي ہوں، مطالبہ نہيں کروں گا۔ بہرحال، افسر بھي ہر طرح کے ہوتے ہيں۔ ماتحت بھي ہر قسم کے ہوتے ہيں۔ مَيں اپنے تجربات کي بنياد پر توجہ دلاتا رہتا ہوں کہ افسر کو چاہيے کہ مطالبوں کي نوبت نہ آنے دے اور ماتحت کو چاہيے کہ وقف کي روح کو کبھي نہ بھولے۔اللہ تعاليٰ آپ ہي سب کام کر ديتا ہے۔ ماتحتوں اور کارکنوں کو بھي توجہ دلاتا رہتا ہوں کہ وہ بھي اپنے وقف کے تقاضوں کو سمجھيں۔ اطاعت کا اعليٰ نمونہ دکھائيں۔ کبھي کسي واقفِ زندگي کي طرف سے مطالبہ آتا ہے کہ يہ سہولت نہيں ہے، وہ سہولت نہيں ہے۔ تو مجھے حيرت ہوتي ہے۔ ہم تو جہاں بھي رہے، کبھي اس طرف خيال بھي نہ گيا۔ بلکہ بعض اوقات تو بہت دِقّت کا سامنا ہوتا۔ مگر ذہن کبھي مطالبہ کرنے کي طرف نہ گيا‘‘۔ مَيں اس بات پر نادم ہوا کہ اتني آسائشوں اور سہولتوں ميں جو تھوڑا بہت کام کرليتا ہوں، اس پر اپنے ليے مزدور کا  لقب استعمال کيا۔ مگر اس چُوک سے جو موتي مجھے اپنے دامن ميں بھرنے اور قارئين تک پہنچانے کا موقع ميسر آ گيا، يہ نہ آتا۔ مجھے اميد ہے کہ ميرے سب واقفِ زندگي بھائي مجھے اس بات کي اجازت ديں گے کہ مَيں اپني طرف سے اور ان سب کي طرف سے حضور کي خدمت ميں ان سطور کے ذريعے وہي عرض کروں جو مجھے بالمشافہ کہنے کا موقع ملا، کہ: ’’حضور! ہم آپ پر قربان۔ ہمارے ماں باپ آپ پر قربان۔ آپ نے تو ہميں بڑے لاڈ ميں رکھا ہوا ہے۔ اللہ تعاليٰ ہميں توفيق دے کہ ہم احسان فراموش نہ ہوں اور اپني صلاحيتوں اور طاقتوں اور توانائيوں کا ہر ذرّہ خدمتِ دين کے ليے وقف کر ديں‘‘۔ آغاز ميں ربوہ کا ذکر ہوا۔ آخر پر بھي پاکستان ميں رہنے والے احمدي بھائيوں بہنوں اور بزرگوں کو ايک اور امانت پيش کرتا چلوں۔ جہاں موسمي پکوان کي بات ہوئي، وہاں فرمايا: ’’کوڑوں کے ساتھ پُوڑے بھي بنا کرتے تھے۔ پتہ ہے نا پُوڑا کيسے بنتا ہے؟‘‘ ميري لاعلمي کے اظہار پر پُوڑا بنانے کا طريقہ بتايا، اور فرمايا: ’’تو ربوہ ميں موسم اچھا ہوتا تو پکوڑے بنتے۔ ميٹھے ميں پوڑے ہوتے۔ چائے ہوتي۔ اور ربوہ کے سادہ سے ماحول ميں اچھے موسم کي يہي ہماري تفريح ہوتي‘‘۔ تو پاکستان کے احمدي بھائيو اور بہنو! تمہاري قربانيوں کو سلام۔ تم ہمارے ليے قابلِ رشک ہو کہ تمہارا محبوب آقا تمہارے شب و روز اور تمہارے موسموں کو ياد رکھتا ہے۔ مبارک صد مبارک! مجھے ايک غريب الوطن محبوب کايہ شعر، اِس غريب الوطن محبوب کے ليے بےاختيار ياد آکر رہ گيا کہ ديس بديس ليے پھرتا ہوں، اپنے من ميں اُس کي کتھائيں ميرے من ميں آن بسي ہے، تن من دھن جس کے اندر تھا (بشکريہ الفضل انٹرنيشنل، سالانہ نمبر 24 تا 29 جولائي 2023ء)

متعلقہ مضمون

  • جلسہ سالانہ کی اہمیت

  • فیصلہ جات مجلس شوریٰ جماعت احمدیہ جرمنی 2024

  • تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے

  • خلافت اور جماعت کے باہمی پیار کا تعلّق