(ڈاکٹر شکیل احمد شاہد۔ پی ایچ ڈی بائیو کیمسٹری)

 

 

For privacy reasons YouTube needs your permission to be loaded.
I Accept

 

رمضان کے روزے جہاں انسان کی روحانی صحت اور نشونماکے لئےاہمیت کےحامل ہیں وہاں درجنوں جسمانی فوائد ایسےہیں جن کاروزہ رکھنے سے براہ راست تعلق ہے۔ روزوں کے فوائد سے متعلق جتنی آگہی آج سائنس کی بدولت دنیا پر آشکار ہورہی ہے ویسی پہلے شاید کبھی نہ تھی۔ بہت سے مذاہب اور تہذیبوں میں روزہ کسی نہ کسی شکل میں رائج رہا ہے. سینکڑوں سال قبل کے سکالرز اور ماہر اطبا اس کے فوائد کو قبول کرچکے ہیں۔ روزہ نہ صرف یہ کہ امراضِ قلب، کینسر، موٹاپے اور ذیابیطس سے بچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے بلکہ ذہنی و جسمانی تندرستی کا بھی ضامن ہے۔ ان فوائد کو جاننے کے لئےدرج ذیل امور کو سمجھنا ہوگا۔

Insulin
ہر غذا کھانے کے بعد ہمارے خون میں گلوکوز لیول جسے شوگر لیول بھی کہتے ہیں بڑھ جاتا ہے، قطع نظر اس سے کہ کھانا نمکین تھا یا میٹھا۔ گلوکوز ہمارے جسم کے لئے ویسی ہی حیثیت رکھتا ہے جیسے گاڑیوں کے لئے پیٹرول یا ڈیزل وغیرہ۔ جسم کے ہر خلیہ اور عضو کو اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے لئے اسی گلوکوز کی فراہمی درکار ہوتی ہے۔تاہم ضرورت سے زائد شوگر لیول رفتہ رفتہ بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔ اسے ایک حد میں رکھنے کے لئے Pancreas یعنی لبلبہ ایک ایسا ہارمون بناتا ہے جو خون میں شامل ہوکر خلیوں کو حکم دیتا ہے کہ خون میں موجود شوگر کو جذب کریں اور توانائی کے لئے استعمال کریں۔اس ہارمون کو انسولین (Insulin) کہتے ہیں۔ یہ انسولین ہی ہے جو بلڈ شوگر لیول کو کنٹرول کرتی ہے۔
انسولین ریسسٹنس اور ذیابیطس
تاہم ایسا بھی ہوتا ہے کہ خلیے انسولین کی بات ماننے سے انکار کردیں۔ خلیوں کےدائرہ اطاعت سے باہر نکلنے کے اس عمل کو سائنسی اصطلاح میں انسولین ریسسٹنس کہتے ہیں۔ پینکریاس یہ دیکھ کر مزید انسولین خون میں بھیجتا ہے تاکہ جلد از جلد خون میں زائد شوگر کو کنٹرول کیا جاسکے۔ اگر انسان میٹھی چیزوں کا استعمال زیادہ کرتا رہے اور بلڈ شوگر لیول بڑھا ہی رہے تو پینکریاس زیادہ کام کرنے کے باعث مسائل سے دوچار ہوجاتا ہے اور بالآخر یا تو انسولین بنانا بالکل چھوڑ دیتا ہے (type 1 diabetes) یا اس قدر قلیل مقدار میں بنا سکتا ہے جو ضروریات کو پورا نہ کرسکے (type 2 diabetes)۔ اس صورتحال کو طبّی اصطلاح میں ذیابیطس یاعرف عام میں شوگر ہوجانا کہتے ہیں۔پہلی قسم کے ذیابیطس میں مریض کو انجیکشن کے ذریعہ انسولین لینا پڑتی ہے جبکہ دوسری قسم کے مریض خوراک اور مناسب ورزش کے ذریعہ بلڈشوگر کو کنٹرول کرسکتے ہیں۔
روزہ اور ذیابیطس
انسولین ریسسٹنس پیدا کرنے والے چند ایک محرکات یہ ہیں۔ ضرورت سے زیادہ کھانا، جسم میں چربی کی زیادہ مقدار خصوصاً پیٹ کے گرد، میٹھے کا زیادہ استعمال، کاہلی یعنی ورزش نہ کرنا۔ اس سے نپٹنے میں جہاں اچھاصحت مند طرزِ زندگی، ورزش، متوازن غذا شامل ہے وہاں روزہ رکھنا بےحد مفید ہے۔ روزے کی حالت میں بلڈ شوگر اچھی طرح سے استعمال ہوجاتی ہے۔ پینکریاز کو زیادہ کام نہیں کرنا پڑتا اور خون میں انسولین کی مقدار بھی کم ہوجاتی ہے۔ جسم یہ سمجھ کر کہ قحط کی حالت ہے اور جس سے نپٹنے کے لئے وہ سال ہا سال سے خوراک کو fats یعنی چربی کی شکل میں جسم کے مختلف حصوں میں جمع کرتا رہتا ہے، اسی زائد چربی کو توانائی میں تبدیل کر کے استعمال کرنا شروع کردیتا ہے۔جس سے جسم کے وزن میں خاطر خواہ کمی آتی ہے۔
یوں روزہ کی بدولت انسان ہزار بیماریوں کی جڑ ذیابیطس اور اس سے پیدا ہونے والے دیگر امراض بشمول امراض قلب، گردہ، دانت، آنکھ، پاؤں اور کینسرسے بچا رہتا ہے۔
بلند فشار خون (high blood pressure)
چند دن روزے رکھنے کے بعد جسم کو یقین ہوجاتا ہے کہ کچھ مختلف ہے۔کیونکہ جہاں پہلے اسے وقفہ وقفہ سے مستقل خوراک مل رہی تھی اب کئی گھنٹوں کے وقفہ کے بعد ملتی ہے۔ جسم ہنگامی کیفیت سمجھ کر چاہتا ہے کہ کم سے کم توانائی خرچ کی جائے۔نتیجۃً دل کی دھڑکن اور بلڈپریشر میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ جو صحت پر نہایت مفید نتائج کا باعث بنتے ہیں۔بلند فشار خون نہ صرف دل کے امراض بلکہ برین اسٹروک کے علاوہ دیگر جسمانی اعضا کو نقصان پہنچاتا ہے۔
جیسا کہ ذکر ہوچکا ہے کہ عام حالات میں جسم توانائی کے لئے گلوکوز کو ایندھن کے طور پر استعمال کرتا ہے اور ضرورت سے زائد کو بینک میں رکھوائی جانے والی رقوم کی طرح fats کی شکل میں جمع کرتارہتا ہے۔ دراصل انسانی جسم نے ایسا کرنا ہزاروں سالوں پر محیط ارتقائی سفر سے سیکھا ہے۔ ہزاروں سال پہلے کا انسان خوراک کے لئےجنگلی شکار پر انحصار کرتا تھا جو کبھی ملا تو پیٹ بھر کر کھا لیا اور جب نہ ملا تو کئی کئی دن کے فاقے۔ ان کٹھن حالات سے نپٹنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے دئے ہوئے اس خودکار جسمانی نظام نے سیکھ لیا کہ کچھ خوراک کو ہنگامی حالات کے لئے fats کی شکل میں محفوظ کرلیا جائے۔ تاکہ شکار نہ ملنے پر اگر کئی دن بھی گزر جائیں تو جسم ان فیٹس کو توانائی میں تبدیل کرکے اپنی ضرورت پوری کرتا رہے۔
تاہم آج کے دور میں جب امیر ممالک میں رہنے والے افراد کو وافر غذا ہروقت میسر ہے، ایسے حالات آتے ہی نہیں کہ چربی کے اس محفوظ کردہ ذخیرہ کو استعمال کیا جاسکے۔ اس کے لئے یا تو لوگ سخت ورزش کرتے ہیں یا مختلف طرح کےdiet program استعمال میں لاتے ہیں۔ تاہم روزہ رکھنا جسم کو مجبور کردیتا ہے کہ اس زائد چربی کو استعمال کرنا شروع کردے۔ یوں انسان نہ صرف موٹاپے سے بچا رہتا ہے بلکہ موٹاپے سے منسلک دیگر امراض بھی اس کے قریب نہیں آتے۔
عام حالات میں خلیوں کو مستقل خوراک مہیا ہورہی ہوتی ہے مگر روزے کی حالت میں اس سلسہ کا ٹوٹنا خلیوں کو توانائی حاصل کرنے کے متبادل ذرائع کی طرف مجبور کرتا ہے جو بہت سے جسمانی فوائد کا حامل ہے۔
زہریلے مواد (toxins) سے نجات
گھر میں چند دنوں تک کوڑا جمع رہنے دیا جائے تو اس سے پیدا ہونے والے تعفن کے باعث جینا محال ہوجاتا ہے اور ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ اس تعفن سے جتنی جلدی ممکن ہو نجات حاصل کی جائے۔ بعینہٖ اسی طرح ہمارا جسم بھی کھانوں میں موجود synthetic chemicals اور دیگر زہریلے مادوں، جنہیں toxins کہتے ہیں، سے پریشانی اٹھاتا ہے۔ روزہ انسانی جسم کو اچھی طرح سے ان زہریلے مادوں سے نجات دلاتا ہے۔ آج کے دور میں وہ لوگ جو اپنی صحت سے متعلق بہت حساس ہیں وہ کچھ دنوں تک بہت پرہیز کرکے detox کے نام سے ڈائیٹ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بھاری احسان ہے کہ سال بھر میں جسم میں جو توڑ پھوڑ ہوئی ہو اسے اور کینسر کا باعث بننے والے اور toxins جیسے زہروں کے جسم سے اخراج کے لئے رمضان المبارک کےروزے فرض کر دئے۔ ان روزوں کی بدولت جسم احسن رنگ میں مرمتی کام اور زہریلے مادوں سے نجات حاصل کرلیتا ہے۔
ذہنی کارکردگی
(cognitive performance)
کھانا کھانے کے بعد غنودگی طاری ہوجاتی ہے۔ انسان چاہتا ہے کہ آرام کرے۔ اس کا موجب یہ ہے کہ بھاری مقدار میں کھانا کھایا جائے تو خون کی فراہمی کا رخ معدے کی طرف زیادہ ہوجاتا ہے تاکہ معدہ جلد خوراک کو ہضم کرسکے۔ نتیجتاً دماغ کو پہنچنے والے خون کی رسائی میں کمی آجاتی ہے، اسے food comma کہتے ہیں۔ ظاہر ہے دماغ کو بہتر کارکردگی کے لئے خون کی وافر فراہمی درکار ہے۔ روزہ کی حالت میں مذکورہ بالا صورتِ حال پیدا نہیں ہوتی اور عام مفروضوں کے برعکس دماغی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
دیر تک جوان رہنے کا راز
کرہ ارض پر شاید ہی کوئی انسان ہو جو زیادہ دیر تک جوان نہ رہنا چاہے۔ طرح طرح کی ریسرچ اور ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے تاکہaging یعنی بڑھاپے کی رفتار کو آہستہ کیا جاسکے۔ growth hormone جسم میں چربی کو توانائی میں تبدیل کرکےخلیوں کی نشونما، مرمت اور نئے خلیے بنانےپر صرف کرتے ہیں۔ عمر کے ساتھ ساتھ اس ہارمون کے بننے میں کمی آجاتی ہے۔ نتیجۃً جسم میں چربی زیادہ تیزی سے اکٹھی ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ انسان کا وزن بڑھ جاتا ہےاور بڑھاپے کےآثار ضربیں کھاتے جاتے ہیں۔ جدید سائنس کے مطابق روزے کی حالت اس ہارمون کی پیداوار میں بہت زیادہ اضافہ کردیتی ہے۔ پانچ دن روزہ رکھنے کے بعد اس کی مقدار تقریبا دو گنا ہوجاتی ہے۔ مطلب یہ کہ روزہ رکھنے سے جسمانی چکنائی توانائی میں تبدیل ہوکر بڑھاپے کی رفتار کم کر دیتی ہے۔ بظاہر آرام کی حالت میں بھی جسم کا میٹابولزم بڑھا رہتا ہے، یعنی جسم اپنی ہی چربی کو پگھلا کر ایندھن میں تبدیل کر رہا ہوتا ہے۔ایک اور ہارمون ایڈرینالین (adrenaline) کا بننا بھی بڑھ جاتا ہے جو fats کو ایندھن میں زیادہ تیزی سے تبدیل کرتا ہے تاکہ جسم اس اضافی توانائی کو حاصل کرکے باہر جاکر خوراک کی تلاش کرسکے۔ جو نوجوان روزہ رکھنے میں سستی دکھاتے ہیں ان کے لئے یہ جاننا مفید ہوگا کہ جوانی میں روزے رکھنا بڑھاپے میں ادویات کے استعمال سے کہیں بہتر ہے۔
ہمارا کلچر
بدقسمتی سے رمضان المبارک میں ہم افطاری کرتے وقت اسلام کے اس سنہری اصول کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ بھوک رکھ کر کھانا کھایا جائے۔ایک تو بھوک کی وجہ سے دوسرا افطاری پر جو خاص اہتمام کیا جاتا ہے اس کی وجہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی انسان ضرورت سے زیادہ کھانا کھا لیتا ہے۔ دوسرا یہ کہ زیادہ چکنائی میں پکے کھانے، پکوڑے وغیرہ بھی صحت پر منفی طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یوں روزہ رکھ کر ہمیں جو فوائد مل سکتے ہیں انہیں پورے طور پر حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ پکوڑے، سموسے وغیرہ کھانا چھوڑنا اگر مشکل ہے تو اتنا ضرور کرنا چاہئے کہ کھانے پکانے کے لئےایسی چکنائی استعمال کی جائے جس میں bad fats کم ہوں۔ مثال کے طور زیتون کا تیل بلکہ اس سے بھی بہت بہتر سویا بین کا تیل ہے۔ سویابین کے تیل میں بہت سی good fats کے علاوہ ایسے وٹامنز ہیں جو ذہنی نشونما کے لئے بہتر ہیں۔
آخر میں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ روزوں سے بےشمار جسمانی فوائد وابستہ ہیں جو ہر گزرتے دن کے ساتھ ثابت ہوتے جاتے ہیں۔ مگر روزہ رکھتے وقت ہماری نیت جسمانی فوائد کی بجائے خدا تعالیٰ کی رضا اور تقویٰ کے حصول پر ہونی چاہئے۔ اسی کے کہنے پر، اس کے پیارے رسولﷺ کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہمیں رمضان المبارک کے روزوں کا اہتمام کرنا چاہئے۔ دیگر فوائد تو مل ہی جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو روحانی اور جسمانی طور پر رمضان المبارک کے روزوں سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

(اخبار احمدیہ جرمنی شمارہ اپریل 2021ءصفحہ 26)

متعلقہ مضمون

  • محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی

  • قرآنِ کریم اور کائنات

  • بھاگتے ذرّے اور سرن

  • عظیم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب اور سرن