وَمَا ذَرَاَ لَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ مُخۡتَلِفًا اَلۡوَانُہٗؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوۡمٍ یَّذَّکَّرُوۡنَ۔ (النحل:14) کی تفسیر میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
اس آیت سے ایک نئے مضمون کو شروع کیا اور رنگوں کے اختلاف کو پیش کیا کہ وہ بھی تاثیرات رکھتے ہیں اور انسان ان سے بھی فائدہ اٹھاتا ہے۔ قرآنِ کریم کیسا عظیم الشان کلام ہے جو ان حکیمانہ امور کو اس زمانہ میں بیان فرماتا ہے جبکہ دنیا ان سے کلی طور پر نا واقف تھی۔ رنگوں کی تاثیرات کی دریافت علمی طور پر موجودہ زمانہ میں ہوئی ہے۔ حتٰی کہ بنفشی شعاعوں اور ماوراء بنفشی شعاعوں اور کئی قسم کی دوسری شعاعوں کی دریافت سے بیماریوں کے علاج میں غیرمعمولی مدد ملی ہے۔ اور طب میں بھی ایک نیا باب علاج باللَّون کا کھل گیا ہے۔ یعنی مختلف رنگوں کی بوتلوں میں پانی رکھ کر اور سورج کی شعاعوں کے مقابل پر رکھ کر خالی پانی کو دوا کی صورت میں بد ل دیا جاتا ہے۔ گو یہ طریق علاج اب تک علمی حد تک نہیں پہنچا۔ مگر اس کے بعض فوائد ناقابلِ انکار ہیں۔ ان کے علاوہ یہ امر تجربہ شدہ ہے کہ ایک ہی قسم کی اشیاء رنگ کے اختلاف کی وجہ سے مختلف تاثیرات ظاہر کرتی ہیں۔ مثلاً توت ہے۔ اس میں سے سفید گلے میں خراش کرتا ہے اور سیاہ توت خناق جیسی مرض میں مفید ہوتا ہے۔ صندل سفید اور سرخ تاثیرات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بعض امور میں قوی یا ضعیف ہوتے ہیں۔ یہی حال اَور سینکڑوں اشیاء کا ہے کہ چیز ایک ہی ہوتی ہے۔ لیکن رنگ کے تغیر سے اس کے فوائد میں تغیر پیدا ہوجاتا ہے۔ بہت سی چیزوں کے فوائد معلوم ہوگئے ہیں اور بہت سی کے ابھی مخفی ہیں۔ مگر اس حد تک اس علم کا انکشاف ہوچکا ہے کہ رنگوں کی تاثیرات کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ موجودہ طب میں تو مختلف رنگوں سے بعض شدید بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ اگر زرد رنگ کی اکری فیلیوین بیرونی زخموں کے لئے مفید ہے تو مرکیوروکروم اندرونی زخموں کے لئے مفید ہے۔ اسی طرح اور کئی رنگ ہیں۔ مَیں نے ایک دفعہ اکری فلیوین کو دیکھ کر خیال کیا کہ معلوم ہوتا ہے زرد رنگ کی تاثیر زخموں کے لئے اچھی ہوتی ہے۔ اور اسی وجہ سے پرانے زمانہ میں زخموں کے علاج کے لئے ہلدی کو بکثرت استعمال کیا جاتا تھا۔ اس خیال سے میں نے ہلدی کا رنگ الگ نکال کر زخموں کے لئے ایک ڈاکٹر کو دیا۔ انہوں نے تجربہ کرکے بتایا کہ گواکری فلیوین جیسی تاثیر تو نہیں۔ مگر اس کے ساتھ ملتی ہوئی تاثیر آپ کی دوا میں ضرور تھی۔ اس فرق کی وجہ میں نے یہ سمجھی کہ اس حد تک میں اس کا جوہر نہیں نکال سکا جس حد تک کہ جرمنوں نے نکال لیا ہے۔ ورنہ بات وہی ہے۔ غرض رنگوں کی تاثیرات ایک ثابت شدہ حقیقت ہیں۔ گو اب تک یہ علم مکمل نہیں ہوا۔قرآن کریم اس کی طرف اشارہ فرماتا ہے اور توجہ دلاتا ہے کہ اجرام تو الگ رہے ان کے رنگ تک تمہارے فائدہ میں لگے ہوئے ہیں۔ اور کیسی کیسی باریک راہوں سے اللہ تعالیٰ نے تمہاری جسمانی ترقی کے سامان پیدا کئے ہیں۔ مگر تم اب بھی نہیں سمجھتے کہ روحانی ترقی کے لئے بھی ویسے ہی وسیع بلکہ ان سے بھی زیادہ وسیع سامان پیداکرنے کی ضرورت ہے۔
علاوہ ازیں اس رنگوں کے تغیر سے اس طرف بھی اشارہ کیا کہ ایک ہی چیزکے کئی رنگ ہوتے ہیں۔ اور اگر ایک طرح اسے اپنی قسم کی دوسری چیزوں سے اتحاد ہوتا ہے تو دوسری طرح ان سے وہ مختلف بھی ہوتی ہے سب انسان انسان ہیں مگر کوئی دو آدمی ظاہری شکل یا باطنی قوتوں میں یکساں نہیں ملتے۔ سب اونٹ اونٹ ہیں مگر پھر ہر اونٹ کی شکل اور عقل دوسرے اونٹ سے مختلف ہوتی ہے۔ گویا ایک طرف شدید اتحاد ہے تو دوسری طرف شدید اختلاف یہی حال نباتات کا ہے۔ سب آموں کے درخت آموں کے ہی درخت ہیں۔ مگر ہر درخت دوسرے سے الگ پہچانا جاتا ہے۔ اور ایسا ہی حال ان کے پھلوں کا ہے غرض دنیا میں ہر جنس کے افراد دوسرے افراد سے مشابہت رکھتے ہیں مگر پھر ان سے مختلف بھی ہوتے ہیں۔ اگر رنگوں کا یہ فرق نہ ہوتا تو ایک دوسر ے سے پہچاننا ناممکن ہوجاتا۔ اب تو ہر ماں باپ اپنے بچے کو ہربیٹا اپنے ماں باپ کو ہر خاوند بیوی کو بیوی خاوند کو بھائی بھائی کو پہچانتا ہے۔ اگر امتیازی نشان نہ ہوتے تو پہچاننا کس قدر مشکل ہوتا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے کس قدر وسیع فرق ہر شے میں رکھا ہے۔ سفید رنگ ہے تو اس کے اس قدر مدارج ہیں کہ انسان ان کے نام نہیں رکھ سکتا۔ سیاہ رنگ ہے تو اس کے اس قدر مدارج ہیں کہ ان کی گنتی نہیں کی جاسکتی۔ صرف آنکھ اس فرق کو پہچانتی ہے۔ اورا س فرق کی وجہ سے فوراً دوچیزوں میں امتیاز کرلیتی ہے۔ مگر زبان اس فرق کو اکثر نہیں بتاسکتی۔
اللہ تعالیٰ اسی امتیاز کے روحانی پہلو کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ دیکھو جس طرح اشیاء کے مادی رنگ مختلف ہیں اسی طرح ان کے باطنی رنگ بھی مختلف ہیں۔ پھر جس طرح انسان کے جسم کی ضروریات مختلف ہیں اس کے مقابل پر مختلف رنگ کی اشیا ء بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں۔ نہ انسان کے جسم کی ضرورتوں کو کلی طور پر کوئی سمجھ سکتا ہے۔ نہ ان کے پورا کرنے کے سامان کوئی پیدا کرسکتا ہے۔ کیونکہ ہر انسان کا ذوق الگ ہوتا ہے اور اس کے جسم کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں کسی کو میٹھا مفید ہے کسی کو کھٹا۔ کسی کو کدو پسند ہے کسی کو بینگن۔ ایک کیلے پر جان دیتا ہے دوسرا اس کے چکھنے کی برداشت نہیں رکھتا۔ غرض انسانی طبائع ایسے مختلف انواع کی ہیں کہ ان کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔ کیا بلحاظ قوت ذائقہ کے اور کیا بلحاظ مختلف تاثیرات سے مناسبت رکھنے کے ان میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ اور ہر اک کی ضرورت اللہ تعالیٰ نے بیرونی اشیاء میں پوری کر چھوڑی ہے۔ انسان تو ان اختلافات کی اقسام گن تک نہیں سکتا۔ وہ ان کے مطالبات کو پوراکرنے کی طاقت کہا ں رکھ سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے مختلف رنگوں اور مختلف ذوقوں اور مختلف مزاجوں کے لوگوں کو پیدا کیا۔ اور پھر ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ویسی ہی مختلف الانواع چیزیں بھی پیدا کر دیں۔ ان معنوں کے رُو سے لَوْن کے معنے نہ صرف رنگ کے لئے جائیں گے بلکہ نوع کے بھی۔ اور جیسا کہ حل لغات میں بتایا گیا ہے۔ لَون کے معنے نوع کے بھی ہوتے ہیں۔
اس مضمون سے اللہ تعالیٰ نے اس طر ف اشارہ فرمایا ہے کہ دیکھو دنیا میں مختلف رنگوں اور مختلف انواع کی چیزیں اس نے پیدا کی ہیں۔ تاکہ تمہاری مختلف ضرورتوں اور تمہارے مختلف میلانوں کو پورا کرے۔ تم خود یہ کام نہیں کرسکتے۔ پھر تم کس طرح سمجھ سکتے ہو کہ تمہاری اخلاقی قوتوں کے فرق اور اختلاف کے باوجود کوئی انسانی تعلیم سب انسانوں کے لئے یکساں مفید ہوسکتی ہے۔ یہ ضرورت بھی اللہ تعالیٰ ہی پوری کر سکتا تھا۔ جو انسان کی طبیعت اور اس کے اختلاف کا پیدا کرنے والا ہے۔ اور اسے جانتا ہے ورنہ جو انسان قانو ن بنا ئے گا اپنے ذوق اور اپنے میلان کے مطابق قانون بنالے گا۔ اور اگر جماعت بنائے گی تو اس جماعت کے میلانوں تک وہ تعلیم محدود رہے گی۔ صرف اللہ ہی کی دی ہوئی تعلیم ہوگی جس میں ہر طبیعت کے میلان اور ہر فطرت کے تقاضے کا خیا ل رکھاگیا ہوگا۔ اور ہر مخفی ضرورت کو پورا کیا گیا ہوگا۔ پس الہام کا آنا انسان کی روحانی ترقی کے لئے ضروری ہے۔ ورنہ اوّل تو انسان اپنی عقل سے روحانی ضرورتوں کو پورا کر ہی نہ سکے گا۔ اور اگر ایک حد تک ضرورت پورا کرنے کا سامان کرے گا بھی تو وہ محدود ہوگا۔ اور وہ نہ تو کسی انسان کی سب ضرورتوں کو پورا کرسکے گا اور نہ تما م انسانوں کی بعض ضرورتوں کو پورا کرسکے گا۔
اس آیت کے آخر میں فرمایا کہ اس میں ان لوگوں کے لئے نشان ہیں جو نصیحت حاصل کرتے ہیں یہ لفظ اس جگہ اس لئے استعمال فرمایا کہ مختلف الوان کی ضرورت پورا کرنے کا سوال خالص اخلاقی سوال ہوجاتا ہے اور اس کا براہِ راست نصیحت سے تعلق ہے۔
(تفسیرکبیر جلدچہارم صفحہ 138 تا 142 سورۃ نحل آیت14)

متعلقہ مضمون

  • روئداد جلسہ دعا

  • کتاب البریہ

  • ہر مخالف کو مقابل پہ بلایا ہم نے

  • الموعود