بنامِ شاہد نازک خیالاں

عزیزِ خاطرِ آشفتہ حالاں

اردو کو بہت پرانی زبان ہونے کا دعویٰ نہیں، مگر اس تھوڑی سی عمر میں اس نے اتنا عروج حاصل کیا اور اس قدر مقبول ہوئی کہ اس کی مثال السنۂ عالم میں نہیں ملتی۔ اس کا اقبال و رواج فی الحقیقت قابلِ رَشک ہے۔ ہمارے ملک کی اور زبانوں کو اگر اس پر رشک آئے تو بجا مگر وہ اس سے ہمسری کا دعویٰ نہیں کر سکتیں۔ جو حلاوت اور عذوبیت اور شیرینی اردو زبان میں ہے کسی زبان میں موجود نہیں۔ یہ وہ پودا ہے جس کو بادشاہوں نے اپنے خونِ جگر سے سینچا۔ امرا نےاس کی نشوونما کی اور ہندوستان کے مایہ ناز اہلِ قلم نے اپنے رشحاتِ قلم سے اس کی آبیاری کی اور اب ہم یہ دیکھ کر خوش ہیں کہ وہ پودا جس نے کہ بادہائے مخالف کے سینکڑوں تھپیڑے سہے اور زمانے کے گرم وسرد کی لاکھوں خزائیں جھیلیں، آج ایک خوشنما درخت بن گیا ہے جس کے سایہ میں ہم بیٹھتے ہیں۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ اس کی بالیدگی کا حتی الامکان خیال رکھیں اور جہاں تک ہم سے ہو سکے اس کو زمانے کے مضر اثرات سے بچائیں۔ اردو ہماری زبان ہے اس لیے اس کی حفاظت ہمارے سب کاموں پر مقدّم ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ اس کے ظلِ بابرکت کو اور وسعت دیں، یہاں تک کہ اگر ایک عالَم پر نہیں تو کم از کم ہندوستان ہی پر چھا جائے۔

زبان اردو کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے واضح ہو جائےگا کہ ہماری زبان اب تک ترقی کرتی رہی اور اب بھی شاہراہِ ترقی پر گامزن ہے۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اب نہ تو دہلی کی خاک سے غالبؔ و ذوقؔ پیدا ہوتے ہیں اور نہ لکھنؤ کی ارض مینو سواد سے آتشؔ و ناسخؔ۔ مگر صرف ایک صدی پیشتر کی اردو کا مطالعہ کیجئے اور اس کا مقابلہ آج کی زبان سے کیجئے۔ ملک میں نہ یہ زبان تھی اور نہ یہ کتابیں جو کہ آج ہمیں میسر آ رہی ہیں۔ تاریخ، جغرافیہ، ہیئت، نجوم، فلسفہ، مذہب غرض تمام معقول ومنقول علوم کی کتب ہمیں بافراط و بہ آسانی ملتی ہیں اور ان کی تعداد میں روز بروز نمایاں اضافہ ہو رہا ہے اور وہ زمانہ دور نہیں جبکہ ہم اپنی زبان کو ایک علمی زبان بھی کہہ سکیں گے۔

زمانہ حال ترقی کا زمانہ ہے۔ ہمارے خیالات بہ نسبت گزشتہ نسلوں کے زیادہ وسیع اور زیادہ کشادہ ہیں۔ خیالات کے اظہار کے لیے ضروری ہے کہ زبان ہو اور زبان بھی وہی جس میں ہمارے خیالات بہ آسانی منتقل ہو سکیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری زبان میں اور زبانوں کے خیالات کس قدر منتقل کئے جا رہے ہیں۔ زبان اردو کی مثال ایک بچہ کی سی ہے کہ پہلے رینگتا ہے، پھر گھٹنوں چلتا ہے، پھر اپنے پیروں پر کھڑا ہوکر چلتا ہے اور پھر دوڑنے لگتا ہے، اسی طرح ہماری زبان نے بھی بتدریج ترقی کی ہے اور اپنے ابتدائی مراحل طے کرنے کے بعد اب تیزی کے ساتھ قدم اُٹھا رہی ہے۔

ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ان لوگوں کا دعویٰ قطعی باطل ہے جو کہتے ہیں کہ، ’’ہمارا زمانہ اردو زبان کا دورِانحطاط ہے‘‘۔ اردو ترقی کر رہی ہے اور جوں جوں اردو بولنے والی نسلیں ترقی کرتی جائیں گی اور جیسے جیسے یہ نسلیں متمدن نسلوں میں شمار ہونے لگیں گی، ان کی زبان بھی ایک علمی زبان شمار کی جائےگی۔ اردو زبان ایک علمی زبان بن چلی ہے اور ایک نہ ایک دن کامل علمی زبان بن کر رہےگی۔…

کسی زبان کو ترقی دینے کے لیے رسالوں کا جاری کرنا بھی ایک عمدہ طریقہ ہے۔ اس میں جہاں جد و جہد ضروری ہے، وہاں قدر دانی بھی لازمی ہے۔ ملک کے گوشہ گوشہ سے جرائد و رسائل جاری ہیں۔ نیویارک کی آبادی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہر منٹ ایک بچہ پیدا ہوتا ہے اور ہر منٹ ایک موت ہوتی ہے۔ کم وبیش یہی ہمارے ملک کے رسالوں اور اخباروں کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر روز ایک اخبار یا رسالہ جاری ہوتا ہے اور ہر روز ایک بند ہو جاتا ہے۔

کسی اخبار یا رسالہ کا جاری رہنا یا بند ہو جانا اس کے حسن و قبح پر موقوف ہے۔ یہاں ’’حسن و قبح‘‘کی تصریح و تشریح کر دینی مناسب ہے۔ حسن وہ جو کہ اردو بولنے والے افراد کے بڑے حصے کی نظروں میں حسن ہے۔ قبح بھی علیٰ ہذا القیاس۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں کے ادبی مذاق کا معیار اس قدر گرا ہوا ہے کہ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے العصر، ادیب، نقاد جیسے پایہ کے پرچے صفحۂ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹ گئے اور جو بقید حیات ہیں ان کی قلیل اشاعت کا رونا سنتے سنتے ہمارے کان پک گئے۔

(کتاب: دِلّی جو ایک شہر تھا صفحہ233-237، مرتب فیاض رفعت)

https://www.rekhta.org/ebooks/dilli-jo-ek-shahar-tha-shahid-ahmad-dehlvi-ki-muntakhab-tahreeren-shahid-ahmed-dehlvi-ebooks?lang=ur

(مرتبّہ: مدبّر احمد خان)

متعلقہ مضمون

  • قصہ داڑھ کے درد کا

  • ایک شہر پانچ ہنگامے

  • دِلّی جو ایک شہر تھا

  • دِلّی جو ایک شہر تھا