سرزمینِ فلسطین پر 7 اکتوبر 2023ء سے انسانی خون کی جو ہولی کھیلی جا رہی ہے، اس کے دردناک مناظر دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ امریکہ اور دیگر مغربی طاقتیں اسرائیل کی بربریت پر مذّمت تو کر رہی ہیں لیکن اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کرنے پر تیار نہیں۔ مغربی طاقتوں کے اس دُہرے چہرے کی وجہ سے جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی طرف سے کی جانے والی کوئی کوشش کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکی۔ غیروں سے کیا گلہ ہم نسل اور ہم مذہب ہونے کے باوجود مصر نے اپنی سرحد غزہ کے مظلوم مسلمانوں کے لیےایک ماہ سے زائد عرصہ تک بند رکھی۔ دیگر پڑوسی مسلمان ممالک بھی فلسطینی مسلمانوں کو پناہ دینے کے لئے تیار نہیں۔ جدّہ میں ہونے والی OICممالک کی کانفرنس بھی مسلمان ممالک کو ایک مشترکہ فیصلہ پر تیار نہیں کر سکی۔ اسرائیل کے خلاف جب بھی اقدامات کرنےکی بات ہوئی تو قطر، بحرین اور ابوظہبی کی مخالفت کی وجہ سے کوئی کوشش بارآور نہ ہوسکی۔

1947ء میں جب عالمی طاقتیں بالخصوص امریکہ اور برطانیہ اسرائیلی ریاست کی بنیاد رکھنے کے لیے انسانی حقوق کو بالائے طاق رکھ کر ہر ناجائز حربہ استعمال کر رہی تھیں اور صاف نظر آنے لگا تھا کہ اب بڑی طاقتیں ہر قیمت پر چھوٹے ممالک پر دباؤ ڈال کر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے یہ قرارداد منظور کرا کے دم لیں گی اُس نازک وقت میں حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ نے اِن خطرات کو بھانپتے ہوئے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 28 نومبر 1947ء کو ایک عظیم معرکہ آرا تاریخی تقریر کی۔ آپ کی اس تقریر کا مکمل متن اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ اس کے بعض اقتباسات اخبار احمدیہ کے قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔ موجودہ حالات کے تناظر میں پڑھنے والے خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اس تقریر میں بیان کیے گئے خدشات درست ثابت ہوئے کہ نہیں۔ حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحبؓ نے تقریر کا آغاز ان الفاظ کے ساتھ کیا:

’’جناب صدر یہ امر قابل اطمینان ہے کہ آپ اس مقصد کے لئے کوشاں ہیں کہ کم از کم یہاں پر اس سوال کے متعلق بغیر کسی خلل یا اثر اندازی کے بحث ہو۔ کیا رائے شماری بھی اسی طرح آزادانہ اور بغیر کسی اثر اندازی کے ہو گی۔ اب اس بارے میں کوئی اطمینان نہیں پایا جاتا۔ مَیں اس پر زیادہ وقت نہیں لوں گا۔

وہ لوگ بھی جو اس بات کا علم نہیں رکھتے کہ پس پردہ کیا ہو رہا ہے، پریس کے ذریعہ بہت کچھ جان چکے ہیں۔ یہ تو صرف ایک مسئلہ ہے اب تو یہ اندیشہ جنم لے رہا ہے کہ جو عظیم ادارہ دنیا کے مستقبل کے لئے امیدوں کا مرکز بنا ہوا ہے، اس عظیم ادارے میں جب بھی کوئی اہم مسئلہ پیش ہو گا اور اس پر سوچ بچار ہوگی تو اس سوچ بچار کو آزاد نہیں چھوڑا جائے۔

یہ ایک اہم لمحہ ہے۔ دنیا کی تاریخ کا ایک اہم لمحہ ہے۔ اور اس عظیم۔ کم از کم ہمیں یہ امید تو کرنے دیں کہ یہ ایک عظیم ادارہ ہے، اس عظیم ادارے کی تاریخ کا ایک اہم لمحہ ہے۔ آج اقوامِ متحدہ کٹہرے میں کھڑی ہے۔ اور دنیا دیکھ رہی ہے کہ کیا یہ سرخرو ہو کر نکلتی ہے کہ نہیں۔ شاید یہ پہلو اتنا اہم نہیں ہے کہ تقسیم منظور ہوتی ہے یا اس تجویز کو مسترد کیا جاتا ہے۔ زیادہ اہم یہ سوال ہے کہ آیا اہم مسائل پر اپنے ضمیر کے مطابق دیانتدارانہ اور منصفانہ فیصلے کرنے کا کوئی امکان باقی رہا بھی ہے کہ نہیں ‘‘۔

’’ہم ماضی میں زیادہ دور نہیں جاتے۔ بتیس سال قبل مغربی اتحادی یورپ کی محوری طاقتوں سے زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے تھے۔ ترکی ابھی جرمنی کا ساتھی بن کر اس جنگ میں شامل ہوا ہی تھا۔ اتحادی طاقتوں کی قسمت اس توازن میں کانپ رہی تھی۔ مشرق وسطیٰ کے اہم خطے میں صرف عرب ہی اس توازن کو درست کر سکتے تھے۔ انہیں اس بات کی دعوت دی گئی کہ وہ ترکی سے اپنا اتحاد توڑ کر اتحادیوں کے ساتھ شامل ہو جائیں۔ اس کے بدلہ میں انہیں کیا ملے گا؟ پہلے برطانیہ اور پھر فرانس نے ان سے وعدہ کیا کہ اس جد و جہد کے آخر میں وہ اپنے اپنے علاقوں میں آزاد ہوں گے۔ عرب مان گئے اور انہوں نے اپنا کردار ادا کر دیا۔

ان سے جو عہد کیے گئے تھے انہیں کس طرح پورا کیا گیا؟ ہمیں اکثر یہ یاد دلایا جاتا ہے کہ دس میں سے نو وعدے تو پورے کر دیے گئے۔ اور اب اسے ہی کافی سمجھو۔ کیا یہ وہ معیار ہے جو ہمیں قومی اور بین الاقوامی سطح پر بلکہ ذاتی سطح پر بھی قائم کرنا چاہیے؟ کہ ہم نے دس میں سے نو وعدے تو پورے کر دیے۔ اب اسے ہی کافی سمجھو۔ اگر ایسا ہی ہے تو ذرا رک جائیں اور سوچیں کہ کیا کسی عہد و پیمان کا کوئی بھروسا قائم رہے گا۔ خاص طور پر مغربی طاقتوں کے عہد و پیمان کا کوئی بھروسا قائم رہے گا؟ مغربی طاقتو! یاد رکھو شاید کل تمہیں دوستوں کی ضرورت پڑے۔ شاید تمہیں مشرق وسطیٰ میں اتحادیوں کی ضرورت پڑے۔ میں تم سے التجا کرتا ہوں کہ ان ممالک میں اپنی ساکھ کو تباہ و برباد نہ کرو ‘‘۔

’’تاریخ میں ایسے بہت کم دَور نظر آتے ہیں جب یورپ کے کسی نہ کسی حصہ میں یہودیوں پر مظالم نہ کیے گئے ہوں۔ انگریز بادشاہ اور نواب اگر کبھی ان سے نرم سلوک کرتے تھے تو یہودی تاجروں اور ساہو کاروں کے دانت نکلوایا کرتے تھے تا کہ ان کو اقتصادی مدد دینے کے لئے آمادہ کیا جا سکے۔ اور اس وقت یہ یہودی عرب سپین میں آ کر پناہ لیا کرتے تھے۔ اور عربوں کی یہ سلطنت ان کے لئے پناہ گاہ تھی۔ اور آج یہ کہا جا رہا ہے کہ بیچارے یہودیوں پر یورپ میں بڑے مظالم ہوئے ہیں، اس لئے فلسطین کے عربوں کو چاہیے کہ سپین کے عربوں کی طرح نہ صرف انہیں ٹھکانا مہیا کریں، انہیں پناہ دیں بلکہ ایک ریاست بھی دیں تاکہ وہ عربوں پر حکومت کرسکیں۔ کیا ہی سخاوت ہے۔ کیا ہی انسانیت ہے ‘‘۔

’’فلسطین کس صورت میں آزاد ہوگا؟ کیسی آزادی ہوگی؟ ہمیں کیا کہا جا رہا ہے کہ ہم کس قسم کے حل کی حمایت اور تائید کریں۔ دراصل اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سامنے یہ تجویز پیش کی جا رہی ہے کہ یہ فیصلہ ہم کریں گے۔ فلسطین کے لوگ نہیں کریں گے۔ خود اپنا فیصلہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ جن پر حکومت کرنی ہے ان کی مرضی دریافت کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں کہ فلسطین کو کیسی آزادی دی جائے۔ ہم فلسطین کو آزاد اور خود مختار کہیں گے لیکن عملاً یہ ہماری ملکیت ہوگا ‘‘۔

’’ پہلے ہم فلسطین کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کریں گے۔ تین ٹکڑے یہودی ٹکڑے ہوں گے اور تین ٹکڑے عرب ٹکڑے ہوں گے۔ پھر ہم جافا کے حصے کو کاٹ کر علیحدہ کریں گے۔ اور فلسطین کا دل، یروشلم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایک بین الاقوامی شہر رہے گا۔ یہ آغاز ہے اس صورت کا جو فلسطین کو دی جائے گی۔ جب فلسطین کے جسم کو اس طرز پر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے گا تو پھر ہم اس جسم کو جس سے خون رس رہا ہو گا ہمیشہ کے لئے صلیب پر کھینچ دیں گے۔ اور یہ عارضی نہیں ہو گا۔ یہ صورت حال مستقل رہے گی۔ فلسطین کبھی بھی اپنے باشندوں کی ملکیت نہیں بن سکے گا۔ یہ ہمیشہ کے لئے مصلوب رہے گا۔ اقوام متحدہ کو یہ قدم اٹھانے کا کیا حق حاصل ہے۔ کون سا جائز حق؟ کون سا قانونی حق حاصل ہے کہ ایک آزاد ملک کو ہمیشہ کے لئے اقوامِ متحدہ کا غلام بنا دیا جائے؟‘‘

’’فلسطین میں تیرہ لاکھ عرب اور ساڑھے چھ لاکھ یہودی موجود ہیں۔ اور مزید یہودیوں کے لئے جگہ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اس مسئلہ کا حل نظر نہیں آ رہا تو کہا جا رہا ہے کہ ہمیں فلسطین کی تقسیم کرنے دو کیونکہ یہ انصاف سے بعید ہو گا اگر تینتیس فیصد یہودیوں کو، جو آج فلسطین میں یہود کی آبادی ہے، ایک متحدہ ریاست میں ایک اقلیت کی حیثیت سے رہنا پڑے۔ تو اب ہم ایک منصفانہ حل بتاتے ہیں۔ عربوں کو ان کی ریاست ملے گی اور یہودیوں کو ان کی ریاست ملے گی۔ اور اس کے مطابق سرحد کھینچی جائے گی۔ عرب ریاست تو ان معنوں میں عرب ریاست ہوگی کہ اس میں صرف دس ہزار یہودی اور تقریباً دس لاکھ عرب ہوں گے۔ بہت خوب! اب دیکھتے ہیں کہ یہودی ریاست کیسی ہوگی؟ اس میں چار لاکھ اٹھانوے ہزار یہودی اور چار لاکھ پینتیس ہزار عرب ہوں گے۔ یہودیوں کو عرب ریاست میں اقلیت بن کر نہیں رہنا ہوگا مگر عربوں کو یہودی ریاست میں اقلیت بن کر رہنا ہو گا۔ اگر ان میں سے ایک حل انصاف کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہے تو دوسرا حل بھی انصاف کے مطابق نہیں ہے۔ اگر ان میں سے ایک مسئلے کا حل نہیں کہلا سکتا تو پھر دوسرا بھی مسئلے کا حل نہیں کہلا سکتا۔

اب ہمیں ایک لمحے کے لئے متعین سرحدوں کا جائزہ لینے دیں۔ یہودیوں کی آبادی 33 فیصد اور عربوں کی آبادی 67 فیصد ہے مگر فلسطین کا 60 فیصد رقبہ یہودیوں کی ریاست میں شامل کیا جائے گا۔ اس علاقے کی کیفیت کیا ہے۔ ایک لمحے کے لئے ہم صحرا کو جس کا ذکر میں بعد میں کروں گا، نظر انداز کرتے ہیں۔ قابلِ کاشت اراضی میں سے عمومی انداز میں میدانی علاقہ یہودیوں کو اور پہاڑی علاقہ عربوں کو دیا گیا ہے۔ برطانیہ کے نمائندے کی طرف سے نمائندگان کمیٹی کوایک دستاویز بھجوائی گئی تھی۔ اس کے مطابق جس زمین کو پانی مہیا ہے اور جو قابل کاشت ہے اس کا 84 فیصد یہودیوں کی ریاست کو جائے گا اور 16 فیصد عربوں کی ریاست کو جائے گا۔ کیا ہی منصفانہ تقسیم ہے۔ ایک تہائی آبادی کو 84 فیصد رقبہ ملے گا اور دو تہائی آبادی کو 16 فیصد رقبہ ملے گا ‘‘۔

حضرت چودھری صاحب نے اپنی اس تاریخی تقریر کے آخر میں نہایت دلیرانہ طور پر فرمایا:

’’آج اگر ہم اپنے ووٹوں سے تقسیم کی تائید نہ کریں تو اس مسئلے کو حل کرنے کے باقی راستے بند نہیں ہو جاتے۔ لیکن اگر آج ہم اپنے ووٹوں سے تقسیم کو منظور کرلیں تو پُر اَمن حل کی تمام امیدیں ختم ہو جاتی ہیں۔ جو اس کی ذمہ داری لینا چاہتا ہے، اسے ایسا کرنے دیں۔ میری آپ سے یہ اپیل ہے کہ اس امید کو ختم نہ کریں۔ اقوامِ متحدہ کو تو چاہیے کہ لوگوں کو متحد کرنے اور یکجا کرنے کے راستے ڈھونڈے، نہ کہ ان کو تقسیم کرکے علیحدہ کرے ‘‘۔

تقریباً ایک گھنٹہ تک جاری رہنے والی چودھری صاحب کی اس پُر درد تقریر کو عرب اور مسلمان ممالک نے بہت سراہا۔ سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ شاہ فیصل بن سعود جو بعد میں ملک کے حکمران بنے نے تحریری طور پر چودھری صاحب کی ان خدمات کو سراہا ہے۔ مئی 1948ء میں انہوں نے چودھری صاحبؓ کے نام ایک خط میں لکھا کہ جب سے اقوام متحدہ میں فلسطین کا مسئلہ پیش ہوا ہے آپ نے جس بھرپور تعاون اور خلوصِ نیت سے ہمارے مؤقف کی تائید کی ہے اس کے لیے ہمارے دل ممنونیت کے جذبات سے بھرے پڑے ہیں۔ حسن اصفہانی امریکہ میں پاکستان کے سفیر تھے۔ 14 اکتوبر 1947ء کو انہوں نے قائد اعظم کو ایک خط لکھا۔ اس وقت چودھری صاحب اقوامِ متحدہ میں فلسطین کے مسئلہ پر پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے۔ حسن اصفہانی قائد اعظم کو لکھتے ہیں:

I can briefly tell you that pakistan delegation to the United Nations has acquitted itself more than well. Sir Zafarullah Khan delivered one of the finest speeches heard, in the United Nations on the Palestien Question.We are working as a perfect team and without boosting, have created an excellent impression. Pakistan is right on the map.

ترجمہ: مَیں اس بات کا مختصر ذکر کروں گا کہ اقوامِ متحدہ میں پاکستانی وفد نے توقع سے بڑھ کر کارکردگی دکھائی ہے۔ فلسطین کے مسئلہ پر سر ظفراللہ خان نے جو تقریر کی وہ اقوامِ متحدہ میں اس مسئلہ پرہونے والی بہترین تقریروں میں سے ایک ہے۔ ہم باتیں بنانے کی بجائے یہاں ایک مکمل ٹیم کی طرح کام کر رہے ہیں جس نے عمدہ تاثر پیدا کیا ہے۔ پاکستان نے اپنا آپ منوا لیا ہے۔

حسن اصفہانی نے ایک دوسرا خط 15 اکتوبر 1947ء کو قائد اعظم کو لکھا۔ اس وقت قائداعظم کو ملکی ضرورت کے تحت اقوامِ متحدہ کا سیشن چھوڑ کر پاکستان آنا تھا۔ حسن اصفہانی لکھتے ہیں:

Sir Zafarullah has made a big hit over the Palestine case and has put Pakistan in the front row. He is wanted back to represent Pakistan before the assets and liabilities tribunal.He shall have to leave long before the UN session ends. His work has just begun. We shall miss his company and his guidance.

ترجمہ: سر ظفراللہ نے فلسطین کے مسئلہ پر اقوامِ متحدہ میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس طرح وہ پاکستان کو صفِ اوّل میں لے آئے ہیں۔ اثاثوں اور کفالتوں کے ٹریبونل میں پاکستان کی نمائندگی کے لیے انہیں واپس بلایا جا رہا ہے۔ اس طرح انہیں اقوامِ متحدہ کا سیشن ختم ہونے سے بہت پہلے واپس جانا پڑے گا۔ جبکہ ان کا کام تو ابھی شروع ہوا ہے۔ وہ چلے گئے تو یہاں ہم ان کی رفاقت اور رہنمائی سے محروم رہ جائیں گے۔

ان دونوں خطوط کے جواب میں 22 اکتوبر 1947ء کو قائد اعظم محمد علی جناح نے حسن اصفہانی کو جواب میں لکھا:

As regards Zafrullah we do not mean that he should leave his work so long as it is necessary for him to stay there, and I think he has already been informed to that affect, but naturally we are very short here of capable men, and especially of his calibre, and every know and then our eyes naturally turn to him for various problemes that we have to solve.

ترجمہ: جہاں تک ظفراللہ کا تعلق ہے ہم نہیں چاہتے کہ وہ اس وقت اقوامِ متحدہ میں اپنا کام چھوڑ کر واپس آجائیں جبکہ ان کا وہاں قیام ضروری ہو۔ میرا خیال ہے کہ انہیں اس امر کی اطلاع دے دی گئی ہے لیکن یہ ایک قدرتی بات ہے کہ یہاں ہمارے پاس اہل خاص طور پر ان جیسی صلاحیتوں کے حامل افراد کی کمی ہے۔یہی وجہ ہے کہ مختلف مسائل کے حل کے لیے ہماری نگاہیں بار بار ان کی طرف اُٹھتی ہیں۔ (بحوالہ کتاب ‘سیاسی اتار چڑھاؤ’، منیر احمد منیر کو انٹرویو)

حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحبؓ اپنی خود نوشت تحدیث نعمت میں ان حالات و واقعات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’ (اس اجلاس میں) میری تقریر کا پہلا حصہ تاریخی اور واقعاتی تھا جس کے بعض حصوں سے عرب مندوبین بھی ناواقف تھے۔ جب میں نے تقسیم کے منصوبہ کا تجزیہ شروع کیا اور اس کے ہر حصے کے نا انصافی کی وضاحت کرنی شروع کی تو عرب نمائندگان نے توجہ سے سننا شروع کیا۔ تقریر کے اختتام پر ان کے چہرے خوشی اور طمانیت سے چمک رہے تھے۔ اس کے بعد اس معاملہ میں عرب مؤقف کا دفاع زیادہ تر پاکستان کا فرض قرار دیا گیا۔ لیکن بحث کے دوران ہی میں ظاہر ہونا شروع ہوگیا تھا کہ کمیٹی کا فیصلہ دلائل یا انصاف کی بنا پر نہیں ہوگا۔ اس وقت ڈنمارک کے مندوب میرے پاس آئے اور کہا معلوم ہوتا ہے کہ تقسیم کی تجویز منظور ہوجائے گی کیونکہ امریکہ کی طرف سے ہم پر بہت زور ڈالا جا رہا ہے۔ میں تمہیں یہ بتلانے آیا ہوں کہ کمیٹی میں عام طور پر یہ احساس ہے کہ ہم امریکہ کے دباؤ کے ماتحت ایک بےانصافی کا فیصلہ کرنے والے ہیں۔ (تحدیث نعمت صفحہ521)

اس بے انصافی کا زور کم کرنے کے لیے چودھری ظفراللہ خان صاحب نے جو کوشش کرنی چاہی اس سے عرب مندوبین متفق نہ ہوئے۔ اس طرح مغربی طاقتوں کی بےانصافی کو بے اثر بنانے کا موقع عربوں نے خود کھو دیا اور مغربی طاقتیں اپنی سازش میں پوری طرح کامیاب ہوگئیں۔

اس بارہ میں محترم چودھری صاحب‘‘تحدیثِ نعمت’’ میں مزید فرماتے ہیں:

سب سے اہم مسئلہ جو اس اجلاس میں زیر بحث آیا وہ قضیۂ فلسطین تھا۔ پہلے یہ ذکر ہو چکا ہے کہ اقوام متحدہ کے فلسطین کمیشن نے فلسطین کی تقسیم کی سفارش کی تھی۔ یہ رپورٹ 1947ء کے اجلاس میں زیر بحث آئی اور اس پر اسمبلی کی اوّل کمیٹی میں بحث ہوئی۔ کمیٹی کے صدر آسٹریلیا کے وزیر خارجہ ڈاکٹر ایوٹ تھے۔ بحث کے دوران میں اول کمیٹی نے دو سب کمیٹیاں مقرر کیں۔ ایک کے سپرد یہ کام ہوا کہ تقسیم کی تفاصیل پر غور کرے اور دوسری کے ذمہ یہ فرض عائد کیا گیا کہ فلسطین کی وحدت برقرار رکھتے ہوئے عربوں اور صیہونیوں کے حقوق کی حفاظت کا منصوبہ تیار کرے۔ کولمبیا کے مندوب دوسری کمیٹی کے صدر منتخب کئے گئے۔ کچھ دن بعد وہ اس ذمہ داری سے دستکش ہو گئے اور ان کی جگہ اس سب کمیٹی نے مجھے صدر منتخب کیا۔ دونوں سب کمیٹیوں کی رپورٹ پر طویل بحث و تمحیص کے بعد اوّل کمیٹی نے تقسیم کے حق میں تجویز منظور کرلی۔ اس عرصے میں بہت کشمکش جاری رہی۔ جب پاکستان کی طرف سے میں نے پہلی بار تقریر شروع کی تو عرب نمائندگان کو کچھ اندازہ نہیں تھا کہ میری تقریر کا رخ کس طرف ہو گا۔ پاکستان ایک دو دن قبل ہی اقوامِ متحدہ کا رکن منتخب ہوا تھا۔ عرب ممالک کے مندوبین ہمیں خاطر ہی میں نہیں لاتے تھے اور ہماری طرف سے بالکل بے نیاز تھے۔ میری تقریر کا پہلا حصہ تو تاریخی اور واقعاتی تھا جس کے بعض حصوں سے بعض عرب مندوبین بھی ناواقف تھے۔ جب میں نے تقسیم کے منصوبے کا تجزیہ شروع کیا اور اس کے ہر حصہ کی ناانصافی کی وضاحت کرنی شروع کی تو عرب نمائندگان نے توجہ سے سننا شروع کیا۔ تقریر کے اختتام پر ان کے چہرے خوشی اور طمانیت سے چمک رہے تھے۔ اس کے بعد اس معاملہ میں عرب موقف کا دفاع زیادہ تر پاکستان کا فرض قرار دے دیا گیا۔ تقریریں تو عرب مندوبین کی طرف سے بہت ہوئیں اور بعض ان میں سے ٹھوس اور موثر دلائل سے آراستہ بھی تھیں لیکن عرب فصاحت کا اکثر حصہ جذباتی رنگ لئے ہوئے تھا اور وقت کا بہت سا حصہ انہوں نے یہ ثابت کرنے کی بےسود کوشش میں صرف کیا کہ فلسطین میں جو یہودی آ کر آباد ہو رہے ہیں ان میں سے اکثر نسل ابراہیم کی نہیں بلکہ روسی قبیلے بنام خازار سے ہیں جن کے آبائو اجداد نے ایک وقت میں یہودی مذہب اختیار کر لیا تھا۔ عرب موقف ہر پہلو سے اس قدر مضبوط اور قرین انصاف تھا کہ اسے تقویت دینے کے لئے ایسے غیر متعلق دلائل کی طرف رجوع کرنا دراصل اسے کمزور کرنا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ عرب مندوبین نے مرکزی ہدایت کے ماتحت اپنے دلائل اور تقریروں کو ترتیب نہیں دیا تھا۔ جو کچھ کسی کے ذہن میں آ جاتا وہ اسے بیان کرنے سے رک نہ سکتا۔ بحث کے دوران ہی میں ظاہر ہونا شروع ہوگیا تھاکہ کمیٹی کا فیصلہ دلائل یا انصاف کی بناء پر نہیں ہوگا۔ کمیٹی میں نیوزی لینڈ کے نمائندے سر کارل بیرنڈسن تھے۔ میری ایک تقریر کے بعد کمیٹی سے نکلتے ہوئے مجھ سے فرمایا۔ کیسی اچھی تقریر تھی۔ صاف، واضح، پُر دلائل اور نہایت موثر۔ سر کارل چونکہ خود نہایت اچھے مقرر تھے مجھے ان کے اظہارِ تحسین سے خوشی ہوئی۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے دریافت کیا ‘‘سر کارل! پھر آپ کی رائے کس طرف ہو گی؟’’ وہ خوب ہنسے اور کہا ‘‘ظفراللہ رائے بالکل اور معاملہ ہے “۔

مغربی طاقتوں کو پُر زور انتباہ

سہ پہر کے اجلاس میں میں نے اپنی تقریر میں مغربی طاقتوں کو پُر زور انتباہ کرتے ہوئے کہا۔ آپ نے اوّل عالمی جنگ کے دوران میں جو وعدے عربوں سے کئے تھے ان کی خلاف ورزی نہ کریں۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو بد عہدی کے مرتکب ہوں گے اور آئندہ عربوں کا اعتماد کلی طور پر آپ سے اٹھ جائے گا۔ تقریر ختم کرتے ہوئے میں نے کہا:

I beg you. I implore you. Entreat you not to destroy your credit in Arab countries. Tomorrow you may need their friendship but you will never get it.

لیکن طاقت کا گھمنڈ اندھا اور بہرہ کر دیتا ہے۔ ہمارے احتجاج اور ہمارے انتباہ صدابہ صحرا ثابت ہوئے۔

(تحدیث نعمت: صفحہ 520-522)

اس واقعہ کو پون صدی سے زائد عرصہ گزر گیا ہے۔ہر گزرتے وقت میں اسرائیل پہلے سے زیادہ مضبوط اور فلسطینیوں کی بےبسی میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اگر اسرائیل کے قیام کے وقت چودھری ظفراللہ خان صاحب کی طرف سے پیش کی جانےوالی ترامیم عرب حکومتیں قبول کر لیتیں توغالب امکان ہے کہ فلسطینی بھائی بہتر پوزیشن میں ہوتے اور سرزمینِ فلسطین پر مسلمانوں کے بہائے جانے والے خون کی نوبت نہ آتی۔

مرتّبہ: مکرم عرفان احمد خان صاحب

متعلقہ مضمون

  • ایک احمدی خاتون صحافی کی عدالتی کامیابی

  • جرمنی میں رہتے ہوئے سوئٹزرلینڈ میں کام کے مواقع

  • ملکی و عالمی خبریں

  • سالانہ تقریب تقسیم انعامات جامعہ احمدیہ جرمنی